مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اب کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں بلکہ تقلید کی ہے، صرف تقلید یعنی پریکٹس۔۔۔۔۔۔اس ایک،آخری اور مکمل دین کی جسے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پہ ختم کر دیا گیا۔اب ہر وہ شخص خسارے میں رہے گا، جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے تفرقے کی راہ اختیار کرے گا۔اگرہماری اعلیٰ تعلیم اور ہمارا شعور ہمیں دین کے بارے میں صحیح اور غلط کی تمیز نہیں دے سکتے تو پھر ہم میں اور اس جانور میں کوئی فرق نہیں، جو سبز تازہ گھاس کے ایک گھٹے کے پیچھے کہیں بھی جا سکتا ہے اس بات کی پروا کئے بغیر کہ اسکا ریوڑ کہاں ہے

" عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل ﷺ سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اس نے آنکھوں میں بے حد حیرت اور بے یقینی لئے اپنے سامنے کھڑے آدمی کی بھوری رنگت میں موجود سرد مہری کو دیکھا،اس کے چہرے، گردن، بازو، ہاتھ، پاؤں، غرض جسم کے ہر حصے کو اوپر سے نیچے تک بے یقینی سے دیکھا۔ وہ شاید یقین کرنا چاہ رہی تھی کہ "وہ" اس کے سامنے موجود کھڑا ہے۔
اسے بھلا کیسے یقین آ سکتا تھا? یہ وہ شخص تھا جس کی "فاتحہ" اس نے کئی برس پہلے پڑھ لی تھی،پھر بھلا وہ کیسے واپس آ سکتا تھا?
عیسیٰ علیہ السلام واپس آ سکتے ہیں، اس پر یقین آ سکتا تھا، مگر یہ شخص واپس آسکتا ہے، یقین نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تو کئی برس پہلے صلیب پر چڑھ چکا تھا۔

(سانس ساکن تھی)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
‎"کسی زمانے میں غلط کے سامنے ڈٹ جانے والوں کے نام تاریخ میں درج هوتے تھے-اب غلط اور درست کے پورٹ فولیو آپس میں بدل گئے هیں-
اب غلط په هاتھ ڈالنے والے عبرت کا نشان بن جاتے هیں...!!!"

*از چراغ_آخر_شب*
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
‎"بابا ! یہ میری بٹر فلائی مر گئی۔" فاطمہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے بھاگتے ہوئے آئی ۔ وہ اپنا ہاتھ کھول کر مری ہوئی تتلی باپ کو دکھا رہی تھی۔ اس کے پیچے سنی بھی بھاگتا ہوا آیا تھا۔ اس کا سانس بے ربط تھا۔
" انکل میں نے اسے منع کیا تھا کہ اسے زور سے مت پکڑو، لیکن یہ کہتی تھی کہ میں اسے پیار کر رہی ہوں۔ اس نے زور سے پکڑا اور بٹر فلائی مر گئی۔" سنی نے جلدی جلدی وضاحت کی۔
"بابا پیار کرنے سے بھی کوئی مرتا ہے کیا؟" فاطمہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ارفع نے بےساختہ ہی اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔ ارفع کے ساتھ لگانے پر وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔

(صائمہ اکرم چوہدری کے ناول ’’ابن آدم‘‘سے اقتباس)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ڈاکٹر سرور لیکچر شروع کر چکے تھے۔ پوری ہال کھچاکھچ بھرا تھا۔۔ دور دور تک پنک اسکارف میں ڈھکے سر دکھائی دے رہے تھے۔ وہ چونک کر ڈاکٹر سرور کی طرف متوجہ ہوئی جو روسٹروم پہ کھڑے تھے۔ سر پر جناح کیپ ، سفید داڑھی، شلوار قمیص اور واسکٹ میں ملبوس وہ خاصے منجھے ہوئےاسکالر تھے۔ اپنی سوچوں کو جھٹک کر کر وہ بغور لیکچر سننے لگی۔

""" بعض لوگ قرآن پڑھ کر بھٹکتے ہیں، واقعی ایسا ہوتا ہے "" وہ اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہے تھے۔ "" اس لیے بہتر ہے کہ قرآن کسی اچھے غیر معتصب عالم سے زندگی میں ایک دفعہ ضرور پڑھ لینا چاہئیے مگر اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کا "" دامن "" پکڑنا ضروری ہے۔ نہیں بلکہ کسی غیر معتصب تفسیر کو پڑھ کر بھی کسی حد تک قرآن مجید کی سمجھ بوجھ پیدا کی جاسکتی ہے۔ قرآن پڑھ کر ہم ہر آیت کے اپنے حالات کے مطابق کئی مطالب نکال لیں، وہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے ، مگر ظاہر کو باطن سے تشبیہ دینا قطعا غلط ہے۔

مثلا بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا جو حکم اللہ تعالی نے موسیؑ کے ذریعے دیا ، وہ ہم سب جانتے ہیں ۔ اس واقعہ سے یہ سبق تو نکال سکتے ہیں کثرت سوال سے حکم مشتبہ ہو جاتے ہیں۔ مگر اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا وہاں گائے سے مراد ایک "" صحابیہ ہیں ، نعوذ باللہ بعض لوگوں نے واقعتا یہاں "" گائے "" سے مراد ایک صحابیہ کو لیا ہے۔

ایک اور مثال سورہ حجر کی آخری آیات میں ہے کہ "" اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کہ تمہارے پاس یقین آجائے ""

اب یہاں "" یقین "" سے مراد "" موت "" ہے یعنی موت آنے تک عبادت کرت رہو مگر بعض لوگ یہاں "" یقین "" سے مراد "" beLiFe "" لے کر، اپنی عبادت کو کاٖی سمجھ کر بس کر دیتے ہیں کہ جی، ہمیں اپنی عبادت پہ یقین آگیا ہے تو سب عبادتیں بس ختم ۔۔!!

سورہ حجر کہاں تھی بھلا؟؟ اس نے آہستہ سے اپنا چھوٹا قرآن کھولا اور صفحے پلٹنے لگی۔ سورہ حجر ملی تو اس نے آخری آیات کھولیں۔ آیت وہی تھی جو وہ کہہ رہے تھے۔ مگر آخری تن الفاظ عربی میں "" حتی یاتی الیقیں "" تھے ( حتی کی یقین آجائے )

"" یقین "" ؟؟ اس نے "" الیقین "" پہ انگلی پھیری پھر الجھ کر ڈاکٹر سرور کو دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔ یہاں پہ یقین سے مراد یقین نہین بلکہ موت ہے۔ سو اس طرح کے الفاظ کا من چاہا مطلب نکالنا انسان کو بھٹکا سکتا ہے۔ کوئی سوال ؟؟ انہوں نے رک کر ایک گہری نظر ہال پر ڈالی۔

محمل نے ہاتھ فضا میں بلند کیا۔

یس۔۔؟؟

"" سر ! مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی۔ میرے پاس بغیر ترجمے والا مصحف ہے۔ اس میں مذکورہ آیت میں ""یقین " کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سو اسکا مطلب "" موت "" کیسے ہوا ؟؟ دونوں الفاظ میں خاصا فرق ہے ""'
"" اس کا مطلب موت ایسے ہے کہ ۔ "" وہ ذرا دیر کو رکے، اور بغور اسے دیکھا "" میں نے س کا مطلب موت نکالا ہے ""

جی سر، میرا سوال یہی ہے کہ کیسے ؟؟ اس کی دلیل کیا ہے؟؟؟

"" دلیل یہ ہے کہ میں نے "" یعنی ڈاکٹر سرور مرزا نے اس کا مطلب موت لیا ہے۔ میں اس ملک کا سب سے بڑا اسلامک اسکالر ہوں۔ آپ میرے کریڈنشلز اٹھا کر دیکھیں، میری ڈگریز دیکھیں، کیا میری بات بطور ایک ٹھوس دلیل کے کافی نہیں؟؟؟

"" سر ! آپ کی بات یقینا اہم ہے ، مگر قرآن کا بعض اس کے بعض کی تفسیر کرتا ہے، حدیث بھی یہ کرتی ہے۔ کیا قرآن یا حدیث میں کہیں یہ ذکر ہے کہ یہاں " یقین " سے مراد موت ہے؟؟ وہ بہت شائستگی ولحاظ سے موؤدب سی پوچھ رہی تھی۔ ڈاکٹر سرور کے چہرے پر واضح ناگواری ابھری۔

"" یعنی کہ اگر میں آپ کو اس مطلب کی دلیل نہ دوں تو اسے محض میری بات سمجھ کر جھٹلا دیں گی؟؟

یعنی آپ کو میری بات کے اوپر مزید کوئی دلیل چاہیئے۔۔ ؟؟

جی ۔۔!! اس نے ہولے سے سر ہلا دیا۔

پورے ہال میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گیئ۔ لڑکیاں قدرے پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔

یعنی آپ ایک دینی اسکالر کو چیلنج کر رہی ہیں ؟؟

"" سر۔۔!! میں بہت ادب سے صرف ایک دلیل مانگ رہی ہوں۔ ""

""" اگر اس کی دلیل قرآن وحدیث میں نہ ہو تو کیا آپ تسلیم کریں گی۔۔۔۔؟؟؟

"" نہیں "" ، سر کبھی نہیں۔۔۔۔

" ہوں۔ ڈاکٹر سرور نے گہری سانس لیکر ہال پہ ایک نظر دوڑائی "" کیا کوئی اور بھی ہے جو اپنی عمر سے زیادہ طویل تجربے کے حامل ایک اسکالر کو چیلنج کرئے ؟؟؟
کسی اور کو بھی دلیل چاہیئے؟؟

بہت سے سر نفی میں ہل گئے۔ وہ اکیلی کھڑی تھی۔

"" یعنی تین سو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کو دلیل چاہیئے ؟؟؟ یہی پڑھا رہے ہیں آپ لوگ اس مسجد میں؟؟

کون ہیں آپ کی کلاس انچارج ؟؟ ""

میڈم مصباح کھڑی ہوئیں۔

"" کیا آپ اس ناکام کلاس رپورٹ کی زمہ داری لیتی ہیں ؟؟ ون آ ف تھری آؤٹ آف تھری ہنڈرڈ کی ؟؟ ) 0ne out of three hundred )

"" جی سر ! "" میڈم مصباح کا سر قدرے جھک گیا۔

داکٹر سرور نے محمل کو دیکھا۔

"" کیا آپ کو ابھی بھی دلیل چاہیئے ؟؟؟ ""

" جی سر۔۔!! """

وہ کچھ دیر خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھتے رہے، پھر ہلکے سے مسکرائے۔

"" سورہ المدثر ؛ آیت 43-47 میں یقین کا لفط موت کے لیے استعمال ہوا ہے۔

وہاں سے ہم دلیل لیتے ہیں کہ یہاں بھی یقین سے مراد موت ہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مرعوب ہوئے بغیر ادب کے دائرے میں رہ کر مجھ سے دلیل مانگی، اور افسوس ہے کہ صرف ایک بچی نے یہ جرات کی۔ باقی سب خاموش رہین۔ دو سو ننانوے لرکیون میں یقینا ابھی یہ کمی موجود ہے ۔

کیا کوئی شخص ڈگریوں کا پلندہ لیکر آپ کے سامنے آئے ، خود کو سب سے بڑا مذہبی اسکالر بتائے۔ تو آپ اسکی بات کو بطور دلیل مان لیں گے ،کیا آپ کو پہلے دن ہی نہیں بتایا گیا تھا کہ دلیل صرف قرآن مجید یا حدیث ہوتی ہے ؟؟؟

کسی عالم کی بات دلیل نہیں ہوتی ، پھر ۔۔۔ ؟؟؟
بہت سے گلابی اسکارف میں لپٹے سر جھک گئے۔ محمل سرخرو اپنی نشست پر بیٹھی۔۔۔۔

اقتباس ؛ مصحف
تحریر ؛ نمرہ احمد
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں نے ندی کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اور میں دیر تک کھڑا ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور رکوع میں جائے بغیر پانی نہیں بھرا جا سکتا ۔ ہر شخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح سے آنا چاہیے تا کہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے ، اور سَیر ہو سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان جھکنے اور خم کھانے کا آرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اور اس کی زبردست طاقتور انا اس کو یہ کام نہیں کرنے دیتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادت اکارت جا رہی ہے اور انسان اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا ہے ۔​
اصل میں زندگی ایک کشمکش اور جدوجہد بن کر رہ گئی ہے ۔ اور اس میں وہ مٹھاس ، وہ ٹھنڈک اور شیرینی باقی نہیں رہی جو حسن اور توازن اور ہارمنی کی جان تھی ۔ اس وقت زندگی سے جھکنے اور رکوع کرنے کا پر اسرار راز رخصت ہو چکا ہے ۔ اور اس کی جگہ محض جدوجہد باقی رہ گئی ہے ۔ ایک کشمکش اور مسلسل تگ و تاز ۔​
لیکن ایک بات یاد رہے کہ یہ جھکنے اور رکوع میں جانے کا آرٹ بلا ارادہ ہو ورنہ یہ بھی تصنع اور ریاکاری بن جائے گا ۔ اور یہ جھکنا بھی انا کی ایک شان کہلائے گا ۔​
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 558​
 

گلزار خان

محفلین
تین سوال!!!!
ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں
وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔

سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟

بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں ۔لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا ،وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دئے

دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا ۔کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا ۔یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے
جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے۔

مصنف نامعلوم
بشکریہ فیس بک
سبحان اللّه
 
اس قوم کو علم و حکمت کی کیا قدر جو مہنگا جوتا خرید کرنے میں فخر اور سستا کتاب لینے میں دقت محسوس کرے -

ایسا کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس قوم کو کتابوں سے زیادہ جوتوں کی ضرورت ہے -

( امر جلیل )
سِر سلامت جتیاں بہت
 
کوئی شاباش ۔ زبردست پسندہدہ ۔متفق نہیں ۔میری اوقات ہی نہیں ہے کہ ان لازوال تحریروں پر کمنٹ دے سکوں صرف کچھ آنسوں ہیں اور اپنے چہرے پر لگنے والے زناٹے دار تھپڑوں کا احساس
 

مودود احمد

محفلین
محبت بھاگ دوڑ نہیں ہوتی،طوفان نہیں ہوتی،سکون ہوتی ہے ،دریا نہیں ہوتی،جھیل ہوتی ہے
دوپہر نہیں ہوتی بھور سمے ہوتی ہے ،آگ نہیں ہوتی اجالا ہوتی ہے،
اب میں تمہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہوتی ہے کہ یہ بتانے کی نہیں پنپنے کی چیز ہے ۔سمجھے کی نہیں جاننے کی چیز ہے۔
ممتاز مفتی
سمے کا بندھن

لاجواب
 

مودود احمد

محفلین
(ایک دلچسپ مشاہدہ)

مہنگے مشاعرے . قیمتی نعت خوانی اور اونچے لفافے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ قوم میں ترنم و تبسم کی مانگ بہت ہے. جس قوم میں تحقیق. تشریح. تنقید.اور تجدید ختم ہوجاتی ہے اس قوم کے افراد تفریح زیادہ کرتے ہیں اور تعلیم میں تفوق و برتری اپنانے کے بجائے تبسم پر فدا رہتے ہیں اور ترنم پر رقص کرتے ہیں.
جس زمانے میں یورپ اور امریکہ والے جدید ٹکنالوجی پر ریسرچ کر رہے تھے اس زمانے میں لکھنو کے نواب اس بات پر مقابلہ آرائی کر رہے تھے کہ کباب تیتر کا زیادہ لذیذ ہوتا ہے یا بٹیر کا.بعد میں ان نواب صاحبان ہی کا کبا ب بن گیا۔
نامعلوم اقتباس
 

مودود احمد

محفلین
تقدیر و تدبیر میں فرق

تقدیر و تدبیر کے فرق کو بتاتے ہوے عموماً اس شعر(1) کو ضرور دہراتے، فرماتے تھے کہ خلیفہ بنانے کا فیصلہ تو بڑے صاحب نے پہلے ہی کرلیا تھا؛ لیکن فیصلے کا ظہور اس شکل میں ہوا کہ آدم سے غلطی صادر ہوئی اور زمین پر جانے کا حکم دیا گیا، کہتے ہیں کہ خلافت کا فیصلہ یہی تقدیر کی مثال ہے، اور جس شکل میں اس فیصلے کا ظہور ہوا، اسی کو تدبیر کہتے ہیں۔

(1)_ شعر یہ ہے:
مصلحت نیست کہ از پردہ دروں افتد راز
ورنہ در مجلسِ رنداں خبرے نیست کہ نیست

مصلحت ہی نہیں ہے کہ راز پردے سے باہر آئے ، ورنہ کوئی راز کوئی خبر ایسی نہیں ہے کہ جو رندوں کی مجلس میں نہیں ہے

مناظر احسن گیلانی کی کتاب سے اقتباس
 
آخری تدوین:

مودود احمد

محفلین
انسان،کسی دوسرے...
کے لیے کچھ نہیں کر...
سکتا سوائے اسکا حوصلہ
بڑھانے کے میں نے جتنے..
لوگوں کو ٹوٹتے دیکھا ،..

فقط اس لیے کہ رشتوں...
اور دوستوں کے ہجوم..
میں کسی نے ان کو یہ نہ
کہا کہ حوصلہ کر یارا...
اللہ کرم کرے گا
! یقیں..
کریں بہت طاقت ھے...
اس اک جملے میں ۔۔۔
 
Top