مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ابلیس کو دیکھنے کا شوق تھا ایک روز مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا۔ دور سے ایک بوڑھا مرد آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر وہ میری طرف متوجہ ہوا اسے دیکھتے ہی میرے دل پر خوف طاری ہوگیا۔ میں نے پوچھا تو کون ہے ؟ تیری ہیبت سے میرا دل لرز گیا ہے۔ بوڑھے نے کہا، میں وہی ہوں جس کو دیکھنے کی تجھے آرزو تھی۔ میں نے پوچھا ’ملعون تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہ کیا؟‘ بولا جنید تجھے کیا ہوگیا؟ کیا میں غیر اللہ کو سجدہ کرتا؟ میں ابلیس کا جواب سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔ ہاتف غیب نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ’اس سے کہو تو جھوٹ بکتا ہے اگر تیرے دل میں فرمانبرداری کا جذبہ ہوتا تو رب العزت کے فرمان سے سرتابی نہ کرتا اور اس طرح خدا کا قرب کیوں نہ حاصل کیا؟‘ ابلیس نے بھی میرے دل میں آنے والی ندائے ہاتف سن لی اور چلایا: ’جنید تو نے مجھے پھونک دیا‘۔ اور غائب ہوگیا۔ یہ حکایت جنیدؒ کی پاکدامنی اور ان کے محفوظ ہونے کی دلیل ہے۔ باری تعالٰی ہر حال میں اپنے دوستوں کو ابلیس کے مکرو فریب سے محفوظ رکھتا ہے۔
(از کشف المحجوب صفحہ نمبر194 )
بہت خوب اقتباسات
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اپنی زندگی میں ہم جتنی دل راضی کریں اتنی ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔ہماری نیکیاں ہمارے مزار روشن کرتی ہیں۔سخی کی سخاوت اس کی اپنی قبر کا دیا ہے۔
ہماری اپنی صفات ہی ہمارے مرٖقد کو خوشبو دار بناتی ہیں۔زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ زندگی میں بھی جلائے جاتے ہیں۔
کوئی نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
واصف علی واصف
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
محبت بھاگ دوڑ نہیں ہوتی،طوفان نہیں ہوتی،سکون ہوتی ہے ،دریا نہیں ہوتی،جھیل ہوتی ہے
دوپہر نہیں ہوتی بھور سمے ہوتی ہے ،آگ نہیں ہوتی اجالا ہوتی ہے،
اب میں تمہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہوتی ہے کہ یہ بتانے کی نہیں پنپنے کی چیز ہے ۔سمجھے کی نہیں جاننے کی چیز ہے۔
ممتاز مفتی
سمے کا بندھن
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل میں اترتی ہے پھر اس سے زیادہ مکمل،خوبصورت ،بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کر سکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے
اور اس گفتگو کے بعد دوبارہ ایک دوسرے سے کچھ کہنا نہیں پڑتا بلکہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
عمیرہ احمد ،لاحاصل
 

نیلم

محفلین
ایک خوبصورت ناول کی یاد دلا دی آپ نے
بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل میں اترتی ہے پھر اس سے زیادہ مکمل،خوبصورت ،بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کر سکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے
اور اس گفتگو کے بعد دوبارہ ایک دوسرے سے کچھ کہنا نہیں پڑتا بلکہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
عمیرہ احمد ،لاحاصل
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے
اصل میں دونوں ایک ہیں۔۔۔
عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اس کی شاخ ہے ۔۔۔۔
جب انسان کا عشق لا حاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے۔چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے اس کی طلب بدل جاتی ہے ۔
اشفاق احمد
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بعض اوقات یہ پتا نہیں چلتا کہ اللہ کی رحمت کے کیا کیا روپ ہوتے ہیں۔
آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ یہ زیادتی ہورہی ہے میں دیموٹ ہوگیا ہوں لیکن اس دیموٹ ہونے میں کیا راز ہے ؟یہ ہم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔
اس راز کو سمجھنے کے لیئے ایک دائریکٹ کنیکشن اللہ کے ساتھ ہونا چاہیئے اور اس سے پوچھنا چاہیئے کہ جناب! اللہ تعالی میرے ساتھ یہ جو مشکل ہے میرے ساتھ یہ تنزلی کیوں ہے ؟
لیکن ہمیں اتنا وقت نہیں ملتا اور پریشانی میں اتنا گم ہوجاتے ہیں کہ ہمیں وقت نہیں ملتا ۔
ہمارے ساتھ یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ ہمیں بازاروں میں جانے کا وقت مل جاتا ہے ،تفریح کے لیئے وقت مل جاتا ہے، دوستوں سے بات کرنے کا وقت مل جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ بیٹھنے کا،اپنے اندر جھانکنے کا کوئی وقت میسر نہیں آتا۔
زاویہ ،اشفاق احمد
 
اللہ تعالی انسان سے فرماتا ہے
میری طرف آکر تو دیکھ ............. متوجہ نہ ہوں تو کہنا
میری راہ پر چل کر تو دیکھ...............راہیں نہ کھول دوں تو کہنا
میرے لیے بے قرار ہو کر کے تو دیکھ ...................قدر کی حد نہ کردوں تو کہنا
میرے کوچے میں بک کر تو دیکھ ..............انمول نہ کردوں تو کہنا
میرے لئےدھونی مار کر تو دیکھ..............علم کی حکمت کے موتی نہ بکھیردوں تو کہنا
مجھے اپنا رب مان کر تو دیکھ............سب سے بے نیاز نہ کر دوں تو کہنا
میرے خوف سے آنسو بہا کر کے تو دیکھ.............مغفرت کے دریا بہا نہ دوں تو کہنا
وفا کی لاج نبھا کرتو دیکھ................عطا کی حد نہ کر دوں تو کہنا
میرے نام کی تعظیم کرکے تو دیکھ ........................تکر یم کی حد نہ کر دوں تو کہنا
مجھے حیئ القیوم مان کر تو دیکھ ...........ابدی حیات کا امین نہ کردوں تو کہنا
اپنی ہستی فناہکر کے تودیکھ...........جام بقا سے سر فراز نہ کر دوں تو کہنا
بالآ خرمیرا ہو کر تو دیکھ.................ہرکسی کو تیرا نہ کر دوں تو کہنا
(مقالاتِ حکمت از صوفی برکت علی لودھیانوی)

 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرے ساتھ ایک اور بھی عجیب حادثہ متصادم ہے کہ میں علمی طور پر انسانیت کی محبّت میں شدت سے مبتلا ہوں اور انسانیت کے شرف کے لئے بہت کچھ لکھتا ہوں -

اس کے دکھ درد کا برملا اظہار کرتا ہوں ، اور اس پر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتا ہوں ، لیکن آدمی مجھے اچھے نہیں لگتے -

میرے ارد گرد رہنے بسنے والے لوگ ، میرے دوست ، میرے ہمسائے ، میرے عزیز ، میرے ہمعصر، میں ان کو پسند نہیں کرتا ان پر کڑی نکتہ چینی کرتا رہتا ہوں -

جو انسان میرا ہم خیال نہیں وہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا -

جو میرا ہم حال نہیں اس سے میں گفتگو کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا -

میں کیا کروں اور کس سے کہوں ، اور کون میری دستگیری کرے کہ مجھے " انسانیت " سے یعنی اس لفظ سے میرا مطلب ہے انسانیت کی ( ABSTRACTION ) سے تو والہانہ عشق ہے لیکن اس کی زندہ اکائیوں کی آڑے وقت میں ، میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

نایاب

لائبریرین
میرے ساتھ ایک اور بھی عجیب حادثہ متصادم ہے کہ میں علمی طور پر انسانیت کی محبّت میں شدت سے مبتلا ہوں اور انسانیت کے شرف کے لئے بہت کچھ لکھتا ہوں -

اس کے دکھ درد کا برملا اظہار کرتا ہوں ، اور اس پر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتا ہوں ، لیکن آدمی مجھے اچھے نہیں لگتے -

میرے ارد گرد رہنے بسنے والے لوگ ، میرے دوست ، میرے ہمسائے ، میرے عزیز ، میرے ہمعصر، میں ان کو پسند نہیں کرتا ان پر کڑی نکتہ چینی کرتا رہتا ہوں -

جو انسان میرا ہم خیال نہیں وہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا -

جو میرا ہم حال نہیں اس سے میں گفتگو کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا -

میں کیا کروں اور کس سے کہوں ، اور کون میری دستگیری کرے کہ مجھے " انسانیت " سے یعنی اس لفظ سے میرا مطلب ہے انسانیت کی ( ABSTRACTION ) سے تو والہانہ عشق ہے لیکن اس کی زندہ اکائیوں کی آڑے وقت میں ، میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا -

از اشفاق احمد بابا صاحبا

بہت خوب سچ کو مہکاتی اک شراکت
اففففففففففففففف
کیا حقیقت بیان کی اشفاق صاحب نے
انسانیت سے پیار ہے مگر آدمی اچھے نہیں لگتے ۔
سچ یہ ہے کہ یہاں
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے "
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
میرے ساتھ ایک اور بھی عجیب حادثہ متصادم ہے کہ میں علمی طور پر انسانیت کی محبّت میں شدت سے مبتلا ہوں اور انسانیت کے شرف کے لئے بہت کچھ لکھتا ہوں -

اس کے دکھ درد کا برملا اظہار کرتا ہوں ، اور اس پر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتا ہوں ، لیکن آدمی مجھے اچھے نہیں لگتے -

میرے ارد گرد رہنے بسنے والے لوگ ، میرے دوست ، میرے ہمسائے ، میرے عزیز ، میرے ہمعصر، میں ان کو پسند نہیں کرتا ان پر کڑی نکتہ چینی کرتا رہتا ہوں -

جو انسان میرا ہم خیال نہیں وہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا -

جو میرا ہم حال نہیں اس سے میں گفتگو کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا -

میں کیا کروں اور کس سے کہوں ، اور کون میری دستگیری کرے کہ مجھے " انسانیت " سے یعنی اس لفظ سے میرا مطلب ہے انسانیت کی ( ABSTRACTION ) سے تو والہانہ عشق ہے لیکن اس کی زندہ اکائیوں کی آڑے وقت میں ، میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
ایسا ہی تو ہے
 

نیلم

محفلین
یہ بارشیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی باہر کچھ زیادہ بھگو نہ بھی پائیں پھر بھی ہمارے اندر جل تھل مچا دیتی ہیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے اندر برستی وہ پھوار باہر کسی کو نظر نہیں آتی۔ لیکن کچھ بد نصیب ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن کے اندر باہر پرستے ساون کا ایک چھینٹا بھی نہیں پڑتا۔ ان کا اندر سدا صحرا ہی رہتا ہے ۔

اقتباس : ہاشم ندیم کی کتاب صلیبِ عشق کے افسانے رین کوٹ سے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صاحب حال کوئی مٹی کا مادھو نہیں ہوتا - جزبات سے عاری ، بے ضرر یا بے آزار،یا اینویں سا انسان ! وہ ایک بیدار شخص ہوتا ہے ! چوکس خبردار ، ہر وقت موجود ہر آن حاضر - اس کی راہ میں نام و نمود ، عزت و شہرت ، حیثیت ہو منصب کچھ بھی حائل نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب چیزیں تو اس کے راستے کی دھول ہوتی ہیں جن پر چل کر وہ حال تک پہنچا ہوتا ہے - وہ تو بڑا گرم مزاج ، تند خو اور کٹیلا ہوتا ہے - پنجہ مار کر دھکیلنے یا لپٹنے والے نیروبی کا شیر - تیسری آنکھ سے دیکھنے والا انٹینا صفت زرافہ - یہی تو وجہ ہے صاحب حال پہنچے ہوئے لوگوں اور صاحب کرامت بزرگوں کو ہمیشہ ناگوار گزرتا ہے

از اشفاق احمد ۔ سفر در سفر -
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ممتاز مفتی سے انٹرویو کے دوران پوچھا گیا ایک سوال

سوال: "یہ الله کیا ہے ؟"

جواب: " الله الله ہے- لیکن ہے بلکل بچہ-

آپ کفر کریں شرک کریں، زنا کریں جو جی چاہے کریں ، جب تھک جائیں تو سر پر ٹوپی رکھ کر آنکھوں میں دو آنسو سجا کر اس کے پاس چلے جائیں وہ فورا خوش ہو جائے گا، وہ فورا مان جائے گا-

میرا اور الله کا تعلق بڑا پرانا ہے-

پہلے میں اسے مولوی کی آنکھ سے دیکھتا تھا، لہٰذا اس سے ڈرتا تھا ، مجھے لگتا تھا الله ایک بھٹیارن ہے جس نے دوزخ کے نام پر بہت بڑی بھٹی جلا رکھی ہے، بھٹی پر دانے بھن رہے ہیں-

لوگ بھٹی کے قریب آتے ہیں اور الله انھیں پکڑ پکڑ کر بھٹی میں جھونک دیتا ہے-

پھر میں نے الله کو شہاب کی آنکھ سے دیکھا تو وہ فورا صوفے پر میرے قریب آ کے بیٹھ گیا، اب تک بیٹھا ہے-

میں روز اس سے باتیں کرتا ہوں، وہ مجھے جواب دیتا ہے-

ہم گھنٹوں گپیں لگاتے ہیں-

جوک شیر کرتے ہیں-

ہنستے ہنساتے ہیں-

میں تھک جاتا ہوں تو اٹھ کر سونے چلا جاتا ہوں، لیکن الله اسی طرح صوفے پر بیٹھا رہتا ہے-

الله میرے ساتھ اس حد تک رہا ہے کہ میں اب اس سے تنگ آگیا ہوں، رج گیا ہوں-

میں نے بھٹیارن الله اور دوست الله دونوں کو بڑے قریب سے دیکھا لیکن مجھے سمجھ دونوں کی نہیں آئی-

اس کے غصے اور اس کی رحمت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی-

معمولی معمولی سی بات پر شاتم کو قتل کر دے تو جنتی، دانشور گستاخی کو اختلاف رائے سمجھ کر فراخ دلی کا مظاہرہ کرے تو وہ بھی جنتی-

لو یہ کیا بات ہوئی، پوچھوں گا میں اس سے-

وہ بہت عجیب ہے-

بلکل عورت کی طرح ، میں جب اسے نہیں مانتا تھا تو سارا سارا دن اس کے خلاف تقریریں کرتا تھا- لوگوں کو اس کے خلاف اکساتا تھا-

وہ مجھ پر بڑا مہربان تھا-

سارا سارا دن میرے پیچھے پھرتا رہتا تھا-

مجھے اپنی اداؤں سے لبھاتا ، اپنے حسن ، خوبصورتی اور اخلاق سے قائل کرنے کی کوشش کرتا تھا-

لیکن جب میں نے اسے مان لیا، میں اس کا پبلک ریلیشن آفیسر بن گیا- پبلسٹی منیجر بن گیا تو وہ آگے آگے چل پڑا-اب وہ میری طرف دیکھتا تک نہیں-

میں نے کئی مرتبہ اس کا پلو پکڑ کر جھٹکا اس کو متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھ پر ایک ترچھی نظر تک نہ ڈالی-

کبھی ملاقات ہوئی تو اس سے ضرور کہوں گا -

" جناب الله صاحب الله اس قسم کے نہیں ہواکرتے ،آپ فورا اپنی پالیسی بدلیں-"
لوگوں میں آپ کی ریپوٹیشن متاثر ہو رہی ہے "

چلو تمہیں ایک اور کام کی بات بتاتا ہوں-

کبھی زندگی میں زیادہ الله الله نہ کرنا اگر اس نے چھبا ڈال لیا تو پھر کہانی ختم ، دنیا رہنے کے قبل نہیں رہے گی-

درمیانی درجے کی مسلمانی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خوش قسمتی نہیں ہوتی-

از جاوید چودھری ،کتاب: گئے دنوں کے سورج
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
نیک عمل کرنے والے کے اندر ہولے ہولے تکبّر کی غلاظت جمع ہوتی ہے قدسیہ ! ،،، نماز روزے کا پابند ،، طہارت کا شیدائی ،،،، اپنے آپ کو بچا کر چلنے والا ،،،، دوسروں کے ساتھ اپنا مقابلہ کر کے احساس برتری میں جانے والے کا نفس ہولے ہولے غلاظت جمع کرنے لگتا ہے ،،، اس کی انا میں خود پرستی کے کیڑے چلنے لگتے ہیں ،،، اگر نیک بندے پر اللہ کی رحمت نا ہو تو پھر یہ نفس ہی شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے اور تکبّر جو شرک کے بعد سب سے برا گناہ ہے اور غالباً شرک بھی تکبّر سے ہی جنم لیتا ہے وہ اس کے خمیر میں داخل ہو جاتا ہے ،، جیسے سارا کھایا پیا لہو میں داخل ہو جاہتا ہے ،،، ایسے ہی یہ تکبّر ،، خود ستائ ،، من مانی قلب کو سیاہ کرنے لگتا ہے ،،، احساس جرم اس کے قریب سے نہیں گزرتا ،،،، پھر یہ روحانی قبص کیسے کھلے قدسیہ ! ؟ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

اشفاق احمد کی گفتگو سے اقتباس
کتاب ، راہ رواں ، رائیٹر: بانو قدسیہ صاحبہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اشفاق احمد صاحب سناتے تھے کے اک بار وہ اپنے بابا جی سے بحث میں الجھ گے کہتے تھے میں ان سے بہت سوال کرتا تھا . بابا جی بھی ان کو سمجھاتے تھے کے دنیا کی کوئی بھی چیز ساکت نہیں ، یہ سورج چاند ستارے سب اپنے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں اور اشفاق صاحب بضد تھے کے جدید علم کی روشنی میں سورج ساکت ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے ، بابا جی نے آخر کہا اشفاق میاں ! صرف مطلوب ساکت ہوتا ہے . سب طالب اس کے گرد گومتے ہیں ، اشفاق صاحب کہتے ہیں کے میں جدید دنیا کا رہنے والا پڑھا لکھا انسان تھا ، میں نے بابا جی کی یہ دلیل نہیں مانی جوہ انہوں نے قرآن اور تصوف کی روشنی میں دی تھی ، مگر طالب اور مطلوب کی نسبت کا یہ جملہ مجھے پسند آیا ،،

از آپا بانو قدسیہ
کتاب ; راہ رواں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ارشاد : حضور اس کی شکل بلکل آپ جیسی تھی ،،
محمّد حسین: ہاں تو پھر ؟
ارشاد : تو ،،، میں سمجھ نہیں پا رہا حضرت ! ڈاکو بھی وہی ،،، اور بچانے والا بھی وہی ،
محمّد حسین: پھر کہتے ہو سر ناوا لکھ دو ،،، مہر بھی لگا دو ،،، رجسٹری بھی کر دو ،، اوہ بھائی مارنے والا وہی ہے جو زندگی دینے والا ہے ،،، وہی رحیم کریم ہے اور وہی قہار جبار ہے ،، وہی کشتی ہے اور وہی بھنور ہے ،، تم جیسے احمق ساری عمر کانٹے چننے میں بسر کرتے ہیں اور کانٹے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں ،، گلاب تک پونچ ہی نہیں پاتے ،، کبھی گلاب بھی کانٹے سے جدا ہوا ہے ؟ کبھی رات بھی دن سے بچھڑی ہے ،،،، ؟


ارشاد : سمجھ گیا سرکار سمجھ گیا ،،
محمّد حسین: کچھ نہیں سمجھے اور نہ سمجھ سکھو گے ساری عمر ،،، تم ابھی رنگ تلاش کرتے ہو حلانکے تجلّی کا کوئی رنگ نہیں ،،، سارے رنگوں کے مجموہے کا نام ہی تجلّی ہے

من چلے کا سودا
بابا جی اشفاق احمد صاحب
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
" ہمارے رویے بھی عحیب ہیں - رجوع اللہ کی طرف نہیں ہے ، اپنے معاملات اور خواہشات کی طرف زیادہ ہے - حالانکہ اللہ نے ہمیں جو پرچہ زندگی حل کرنے کے لیے دیا ہے اس کو حل کرنے کی ترکیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زریعے ہمیں دے دی گئی ہے لیکن اسی مقام سے میری کوتاہی شروع ہو جاتی ہے کہ ہم اس ترکیب پر عمل نہیں کرتے- میں آپ سے بحی رائے لوں گا کہ میں اس کوتاہی سے باہر نکلنے کے لیے کیا کروں ؟ میں ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائی استعمال کرتے وقت پرچہ ترکیب ضرور دیکھتا ہوں - پرچہ زندگی حل کرتے وقت خدا کے دیئے گئے احکامات یا دی گئی ترکیب کو نظر انداز کر دیتا ہوں "

از اشفاق احمد، زاویہ 3 ، عنوان: "ڈبو اور کالو" ، صفحہ نمبر 141
 

نایاب

لائبریرین
تین سوال!!!!
ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں
وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔

سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟

بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں ۔لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا ،وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دئے

دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا ۔کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا ۔یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے
جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے۔

مصنف نامعلوم
بشکریہ فیس بک
 
Top