مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مجھے معلوم ہے آپ کو مسرت اور سکون کی تلاش ہے لیکن سکون تلاش سے کس طرح مل سکتا ہے - سکون اور آسانی تو صرف ان کو ملتی ہے جو آسانیاں تقسیم کرتے ہیں ، جو مسرتیں بکھیرتے پھرتے ہیں - اگر آپ کو سکون کی تلاش ہے تو لوگوں میں سکون تقسیم کرو تمہارے بورے بھرنے لگیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طلب بند کردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دولت صرف دینے سے​
-بڑہتی ہے- احمقوں کی طرح بکھیرنے پھرنے سے اس میں اضافہ ہوتاہے​
اللہ سائیں کے طریق نرالے ہیں - سکون کے دروازے پر بھکاری کی طرح کبھی نہ جانا ، بادشاہ کی طرح جانا ، جھومتے جھامتے ، دیتے بکھیرتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ بھکاریوں پر ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے اور بھکاری کون ہوتا ہے وہ جو مانگے ، جو صدا دے ، جو تقاضا کر ے ، اور شہنشاہ کون ہوتا ہے جو دے عطا کرے ، لٹاتا جائے - پس جس راہ سے بھی گذرو بادشاہوں کی طرح گذرو ، شہنشاہوں کی طرح گذرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیتے جاؤ دیتے جاؤ - غرض و غایت کے بغیر - شرط شرائط کے بغیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
اشفاق احمد زاویہ 3 محبت کی حقیقت صفحہ 242​
 
لفظ منافق کی تشریح
علامہ ابن منظور "لسان العرب" میں لفظ "منافق" کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "منافق" نفق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی سرنگ ہے اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے کا نام قاصعاء ہے۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ اس کے بل کے ایک طرف کا نام نافقاء ہے، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک کفر، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراََ اپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتاہے۔

اسلامی آداب و اخلاق از مفتی حافظ محمد حسام اللہ شریفی​
صفحہ 48​
 
261872_4344832671628_372348512_n.jpg
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمارے دین کی تین مضبوط بنیادیں ہیں - ایک اعتقاد - دوسرا ایمان - اور تیسرا معاملات
اللہ کے فضل سے اعتقاد کے تو ہم بڑے پکے ہیں -عبادات بھی خوب کرتے ہیں - مساجد بھری ہوئی ہوتی ہیں - لیکن معاملات کے میدان میں ہم صفر ہیں - ہم معاملے کو جان ہی نہیں سکے - ہمیں علم ہی نہیں ہے کہ ہمارا ہمارے پڑوسی کے ساتھ کیا رشتہ ہے - ابا ، اماں ، بیوی کے ساتھ کیا رشتہ ہے - یہ رشتے ٹوٹے پڑے ہیں​
جب تک ہم معاملات کو ویسی مضبوطی سے نہیں پکڑیں گے ، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ و آلہ وسلم نے حکم دیا ہے اس وقت تک ہماری بیل منڈھے نہیں چڑھے گی ، جب تک منبر پر جمعے کے خطبوں میں اس بات پر توجہ نہیں دلائی جائی گی ، ہم تھوڑے سے پھنسے رہیں گے - خواتین کو تو بطور خاص اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے​
اشفاق احمد زاویہ 3 ٹین کا خالی ڈبہ اور ہمارے معاملات
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرے ایک استاد اونگارتی تھے - مین نے ان سے پوچھا کہ سر " ایمان کیا ہوتا ہے " ؟​
انہوں نے جواب دیا کہ ایمان خدا کے کہے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے - یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی​
-اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا​
شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پر کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا - اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا چھلانگ مار بیٹا​
-"اس لڑکے نے کہا کہ " بابا کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے​
(اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی )​
اس کے باپ نے کہا کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار ، تیرا باپ تیرے نیچے ہے ، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں ناں​
-"اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے - میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں نا​
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے​
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین​
اشفاق احمد زاویہ 3 شہ رگ کا ڈرائنگ روم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
طریقت کی شروعات مادی غرض و غایت سے پاک ہونا ہے - پہلا درجہ شریعت ہے ، دوسرا طریقت ہے ، تیسرا حقیقت ہے- چوتھا معرفت ہے​
شریعت دودھ ہے - طریقت دہی ہے - حقیقت مکھن ہے - اور معرفت گھی ہے - اگر دودھ نہ ہو تو نہ کچھ بن سکتا ہے نا بنا سکتا ہے
اشفاق احمد
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جس کا ہاتھ پاک ہو جائے گا ، اس کی نیت درست ہو جائیگی - جس کی نیت درست ہو جائیگی ، اس کا عقیدہ درست ہو جائےگا- جس کا عقیدہ درست ہو جائےگا ، اس کے اعمال درست ہو جائیں گے​
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 628​
 

نیلم

محفلین
ایک نامی گرامی بادشاہ کی چہیتی بیٹی بیمار پڑی. اس عہد کےبڑے اطبا سےاور صادق حکیموں سے اسکا علاج کروایا لیکن مرض بگڑتا گیا.آخرمیں وہاں کے سیانےکو بلا کر مریضہ کو دکھایا گیا.اس نے مریضہ کے سرہانے بیٹھ کر لا الله کا ورد شروع کر دیا.طبیب اور حکیم اس کے اس فعل کو دیکھ کر ہنسے اور کہا کہ محض الفاظ جسم پر کس طرح اثر انداز ہوں گے!تعجب !! اس صوفی نے چلا کر کہا"خاموش!تم سب لوگ گدھے ہو اور احمقوں کی سی بات کرتے ہو.اسکا علاج ذکر ہی سے ہوگا " اپنے لئے گدھے اور احمق کے الفاظ سن کر انکا چہرہ سرخ ہوگیا اور ان کے جسموں کے اندر خون کا فشار بڑھ گیا اور انہوں نےصوفی کے خلاف مکےتان لئے.صوفی نے کہا "اگر گدھےکے لفظ نےتم کو چراغ پا کر دیا ہے اور تم سب کا بلڈ پریشرایک دم ہائی ہوگیا ہے.اور تم نے میرے خلاف مکے تان لئے ہیں اور تم ایک عمل میں داخل ہو گئے تو ذکر الله اس بیمار بچی کے وجود پر کوئی اثر نہیں کرے گا " ان سب حکیموں نے اپنا سر تسلیم خم کر دیا

از اشفاق احمد، بابا صاحبا،صفحہ نمبر
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک روز ہم ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے - میں نے اپنے بابا جی سے پوچھا کہ "جناب دنیا اتنی خراب کیوں ہو گئی ہے - اس قدر مادہ پرست کیوں کر ہو گئی ہے " ؟​
بابا جی نے جواب دیا " دنیا بہت اچھی ہے - جب ہم اس پر تنگ نظری سے نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہمیں تنگ نطر دکھائی دیتی ہے - جب ہم اس پر کمینگی سے نظر دوڑاتے ہیں تو یہ ہمیں کمینی نظر آتی ہے - جب اسے خود غرضی سے دیکھتے ہیں تو خود غرض ہو جاتی ہے - لیکن جب اس پر کھلے دل روشن آنکھ اور محبت بھری نگاہ سے نظر دوڑاتے ہیں تو پھر اسی دنیا میں کیسے پیارے پیارے لوگ نظر آنے لگتے ہیں "۔​
اشفاق احمد زاویہ 3 خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف صفحہ 227​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جب تک انسا ن کو پانی نہیں ملتا، اسے یونہی لگتا ہے کہ وہ پیاس سے مر جائے گا مگر پانی کے گھونٹ بھرتے ہی وہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے، پھر اسے خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر بھی سکتا تھا۔۔کوئی پیاس سے نہیں مرتا۔۔۔۔۔ مرتے تو سب اپنے وقت پہ ہی ہیں اور اسی طرح، جس طرح اللہ چاہتا ہے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہیں کہ پھر ہمیں زندہ رہتے ہوئے بھی بار بار موت کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔۔

عمیرہ احمد کے ناول ایمان،امید اور محبت سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
آپ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ الله نے آپ کو ہمیشہ ہی صراط مستقیم پر رکھا مگر کسی آزمائش میں نہیں ڈالا اس لیے آپ نے یہ سوچ لیا کہ مذہب کی ضرورت ہی نہیں ہے- صرف مذاہب کا احترام کرنے اور الله کے وجود کو مان لینے سے کام چل جائے گا- آپ کو آزمائش میں نہیں ڈالا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو آزمائش میں کبھی بھی نہیں ڈالا جائے گا- مذہب کی اہمیت کا اصل اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب آپ آزمائش میں ہوں- آزمائش بلکل دلدل کی طرح ہوتی ہے اس میں سے انسان صرف اپنے بل بوتے پر نہیں نکل سکتا- کوئی رسی چاہیے ہوتی ہے، کسی کا ہاتھ درکار ہوتا ہے اور اس وقت وہ رسی اور ہاتھ مذہب ہوتا ہے- رسی اور ہاتھ نہیں ہو گا تو آپ دلدل کے اندر جتنے ہاتھ پاؤں ماریں گے اتنا ہی جلدی اس کے اندر ڈوب جائیں گے- پانی میں ڈوبنے والا شخص زندہ نہیں تو مرنے کے بعد باہرآ جاتا ہے مگر دلدل جس شخص کو نگلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اسے دوبارہ ظاہر نہیں کرتی- لیکن یہ شخص کسی دلدل سے نہیں ڈرتا-اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ شور مچا ئے گا چلائے گا تو ہاتھ اور رسی بلآخر آ جائیں گے- اب سوچیے اپنی خوش قسمتی پر کہ آپ ان لوگوں کی قطار میں شامل ہو گئے ہیں جو دلدل میں گرنے پر ہاتھ اور رسی کو پکار سکتے ہیں اور ان کے آنے کی توقع بھی کریں گے-

عمیرہ احمد کے ناول "ایمان، امید اور محبّت" سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
ہر شخص کی یہی مجبوری ہے کہ وہ ساری عمر ایک ہی سزا نہیں بھگت سکتا، یا ایک ہی خوشی کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتا۔ پھانسی کے تختے سے اتر کر بجلی کی کرسی پر بیٹھنا، بجلی کی کرسی سے اٹھ کر صلیب پر چڑھنا، تہہ آب ہونا اور نہ مرنا۔ پانی کی گہرائیوں سے نکل کر سرِ کوہسارے سے چھلانگ لگانا۔ ۔ ۔ ہم سب ایک کرب سے نکل کر دوسری تکلیف کے حوالے ہونا چاہتے ہیں، ایک خوشی سے منہ موڑ کر دوسری خوشی میں ڈوبنا چاہتے ہیں۔ یہ انسان کےلیے اتنا ہی نیچرل ہے جیسے وہ ایک ٹانگ پر ہمیشہ کے لیے کھڑا نہ رہ سکے۔ ۔ ۔
از: راجہ گدھ--- بانو قدسیہ
 

نیلم

محفلین
نوجوان پود کو یہ معلوم نہیں کہ اگر واقعی روح کی آزادی مطلوب ہو تو مذھب کی کشتی درکار ہوتی ہے -

یہ کشتی سفید ہو نیلی ہو پیلی ہو اس میں شک و گمان کے سوراخ نہیں ہونے چاہییں -

اگر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر کھلے آسمان سے رابطہ قائم کرنا ہے تو کسی ایک راستے کا انتخاب ضروری ہوگا -

جو لوگ بار بار پگڈنڈی ، کشتی یا مسلک بدلتے رہتے ہیں ان کی روح کی آزادی ممکن نہیں رہتی -

اگر آپ کو روح کی آزادی چاہئے اور آپ دنیاوی منفعت کے لئے جان کھپا دیں تو بھی مذہب آپ کو مایوس کرتا رہیگا -

آزادی انعام ہے ............ حق نہیں .................
آزادی منزل ہے ........... راستہ نہیں ..............

آزادی سکون ، طمانیت اور شکر کا مقام ہے ................متلاطم کیفیت کا نہیں ---------

از بانو قدسیہ راہ رواں ١٨٢
 

نیلم

محفلین
ہر شخص کو ایک زندگی اپنے لئے اور ایک دوسروں کے لئے بسر کرنا ہوتی ہے۔ آنسو بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ قہقہے بھی دو قسم کے، ایک وہ آنسو جو زبردستی آنکھوں سے نکالنے پڑتے ہیں، اور ایک وہ جو خود بخود نکلتے ہیں۔ ایک قہقہہ وہ ہے، جو تنہائی ہی میں بلند کیا جا سکتا ہے، دوسرا وہ ہے، جو خاص آداب اور خاص اصولوں کے ماتحت حلق سے بلند کرتا پڑتا ہے۔!

اقتباس: سعادت حسن منٹو کے ناول "بغیر عُنوان کے" سے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک نرس نے مجھے بتایا کہ میری ساری زندگی میں ایک ہی مریضہ ایسی آئی جو کہ موت سے بےحد خوفزدہ تھی ۔​
اس نے اپنی بہن کے ساتھ کچھ ایسی زیادتی کی تھی کہ اب اس کا مداوا کچھ مشکل تھا ۔​
جو لوگ عمرہ کے سفر پر جانے سے پہلے معافیاں مانگ لیتے ہیں ، تو وہ خوش خوش روانہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آخرت کے سفر پر جانے سے پہلے جنہوں نے روانگی کے کاغذات پر معافی کا ویزا لگوا لیا ہوتا ہے ان کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کی لچک ہوتی ہے اور وہ عجیب خوشگوار اور خوبصورتی سے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔​
ہمارے بابے کہتے ہیں کہ بندے کا گناہ اللہ کے گناہ کے مقابلے میں بہت بڑا اور بہت سخت ہوتا ہے ۔ اگر آپ کسی انسان کو تکلیف پہنچاتے ہیں ، اور اس کی نا خوشی کا موجب بنتے ہیں پھر جب کبھی آپ کو ہوش آتا ہے اور آپ معافی مانگنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو اس آدمی کا کوئی سراغ ہی نہیں ملتا کہ کدہر سے آیا تھا اور کدہر گیا ۔​
لیکن اگر آپ خدا کا کوئی قصور کرتے ہیں ، کوئی اللہ کا گناہ آپ سے سرزد ہو تا ہے تو اللہ سے بڑی آسانی سے معافی مانگ لیتے ہیں کہ وہ ہر وقت موجو د ہے اور ہر جگہ موجود ہے ۔​
اشفاق احمد بابا صاحبا
 
لیکن اگر آپ خدا کا کوئی قصور کرتے ہیں ، کوئی اللہ کا گناہ آپ سے سرزد ہو تا ہے تو اللہ سے بڑی آسانی سے معافی مانگ لیتے ہیں کہ وہ ہر وقت موجو د ہے اور ہر جگہ موجود ہے ۔​
اشفاق احمد بابا صاحبا
آزادی سکون ، طمانیت اور شکر کا مقام ہے ................متلاطم کیفیت کا نہیں ---------
از بانو قدسیہ راہ رواں ١٨٢

رولانے میں سخت مقابلہ ہو رہا ہے
:cry2:
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کالج کے زمانے میں سینیما کی کھڑکی کے سامنے قطار میں کھڑے ہو کر جب ہم تین چار دوست ٹکٹ خریدنے جاتے تھے تو اکثر ہم میں سے کسی نہ کسی کے بوٹ کے تسمے ڈھیلے ہو جاتے تھے اور وہ قطار سے نکل کر ایک طرف ہو کر تسمے باندھنے لگ جاتا تھا ۔ دوسرے دوست اس کا ٹکٹ خرید لیتے تھے اور یہ جتاتے نہیں تھے کہ تم کنجوس ہو ، بے زر ہو ، یا غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہو ۔ بس ایسے ہی عزت رہ جاتی تھی ، یا رکھ لی جاتی تھی ۔​
اسی طرح جب کوئی شخص اچانک غصے میں آ جائے تو آپ کو یہی سوچنا چاہیے کہ اس شخص کے تسمے اچانک کھل گئے ہیں ۔ اور اسکے اندر ، اس کے کھیسے میں ، جیب میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے ۔ وہ جھک کر اپنے پاؤں کی طرف دیکھنے لگا ہے ۔ اس کی ساری توجہ اپنے آپ پر مرکوز ہو گئی ہے ۔​
محبت میں تونگری حاصل کرنے کے لیے اور انکساری کے ملک التجار بننے کے لیے آپ کو دوسروں کے ساتھ برداشت کے ساتھ رہنا چاہیے ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا
 

نیلم

محفلین
یا خدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو جانتا ہے کہ میں تیری کائنات کا سب سے حقیر زرہ ہوں، لیکن میری کم ظرفی کی داستانیں آسمان سے بھی بلند ہیں۔ میری حقیقت سے اور میرے دل میں چھپے ہر چور سے بس تو ہی واقف ہے۔ میرے گناہوں کی فہرست کتنی بھی طویل سہی، تیری بےکراں رحمت سے کم ہے۔ سو، میری منافقت بھری توبہ و معافی کو یہ جانتے ہوئے بھی قبول فرما کہ توبہ کرتے وقت بھی میرے دل کا چور مجھے تیری نافرمانی پر مستقل اُکساتا رہتا ہے۔ پھر بھی تجھے تیرے پیارے صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ میری لاج رکھنا۔ میرے عیبوں پر اور میری جہالت پر پردہ ڈالے رکھنا۔ میرے مولا! تیرا ہی آسرا ہے، تو ہی عیبوں کا پردہ دار ہے۔ میری جھولی میں سو چھید ہیں، پھر بھی یہ جھولی تیرے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ اسے بھر دے میرے مالک۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عبداللہ" سے اقتباس
 

قیصرانی

لائبریرین
یا خدا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ تو جانتا ہے کہ میں تیری کائنات کا سب سے حقیر زرہ ہوں، لیکن میری کم ظرفی کی داستانیں آسمان سے بھی بلند ہیں۔ میری حقیقت سے اور میرے دل میں چھپے ہر چور سے بس تو ہی واقف ہے۔ میرے گناہوں کی فہرست کتنی بھی طویل سہی، تیری بےکراں رحمت سے کم ہے۔ سو، میری منافقت بھری توبہ و معافی کو یہ جانتے ہوئے بھی قبول فرما کہ توبہ کرتے وقت بھی میرے دل کا چور مجھے تیری نافرمانی پر مستقل اُکساتا رہتا ہے۔ پھر بھی تجھے تیرے پیارے صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ میری لاج رکھنا۔ میرے عیبوں پر اور میری جہالت پر پردہ ڈالے رکھنا۔ میرے مولا! تیرا ہی آسرا ہے، تو ہی عیبوں کا پردہ دار ہے۔ میری جھولی میں سو چھید ہیں، پھر بھی یہ جھولی تیرے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ اسے بھر دے میرے مالک۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

"عبداللہ" سے اقتباس
عبداللہ کون صاحب ہیں؟ یا یہ کسی کتاب کا نام ہے؟ مصنف یا مصنفہ :)
 
Top