خلیل الرحمان قمرنے ٹی وی پر براہ راست ماروی سرمد کو گالی دیدی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
قانون کس نے بنایا ہے؟
مغربی سیکولر ریاستوں میں تو قانون عوام کے منتخب نمائندے ہی بناتے ہیں۔ ان پر صرف آئین اور صرف سپریم کورٹ کا چیک ہوتا ہے۔
جبکہ اسلامی جمہوری ریاستوں میں قوانین کو ممبران پارلیمنٹ، سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ مذہبی علما کونسل سے بھی اپروو کروانا پڑتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عورت مارچ پر مولویوں کا پتھراؤ

اسلام آباد:عورت مارچ کے شرکا پر پتھراؤ
SAMAA | Farah Rabbani
Posted: Mar 8, 2020 | Last Updated: 2 hours ago

اسلام آباد میں عورت مارچ کے شرکا پر نامعلوم افراد نے پتھراؤ کرکے ایونٹ متاثر کرنے کی کوشش کی۔


اتوار کو اسلام آباد پریس کلب کےقریب عورت مارچ پرنامعلوم افراد کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا۔ اس دوران ایک دوسرےکےخلاف شدیدنعرےبازی بھی کی گئی۔

بعض افراد نےرکاوٹيں عبورکرکےمارچ تک جانےکی کوشش کی۔ سیکورٹی پر مامور پوليس اہلکاروں نے آگےبڑھنےوالوں کوپيچھےدھکيل ديا۔ پولیس نے برقع پہن کرمارچ ميں گھسنےوالےنوجوان کو حراست میں لے لیا۔

صورتحال کشیدہ ہونے پر ایف 6 کی روڈ بند کردی گئی۔ شرکا کو ڈی چوک جانے سے روک دیا گیا۔ سماء ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے عورت مارچ کی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انھیں یقین نہیں ہورہا کہ مارچ پر حملہ کیا گیا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ مارچ کے لیے ڈپٹی کمشنر سے این او سی لیا گیا تھا۔

مارچ کے ایک اور منتظم نے دعویٰ کیا کہ پتھراؤ کرنے والے جے یوآئی ایف اور لال مسجد سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی۔
 

عدنان عمر

محفلین
مغربی سیکولر ریاستوں میں تو قانون عوام کے منتخب نمائندے ہی بناتے ہیں۔ ان پر صرف آئین اور صرف سپریم کورٹ کا چیک ہوتا ہے۔
جبکہ اسلامی جمہوری ریاستوں میں قوانین کو ممبران پارلیمنٹ، سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ مذہبی علما کونسل سے بھی اپروو کروانا پڑتا ہے۔
کیا عوامی نمائندوں کو قانون سازی کا کامل اختیار ہے؟ ان سے یہ حق واپس نہیں لیا جا سکتا؟
 

جاسم محمد

محفلین
کیا مولویوں کے پاس دلیل ختم ہو گئی تھی جو عورتوں پر پتھراؤ شروع کر دیا؟

اسلام آباد میں عورت مارچ پر پتھراؤ، کشیدہ صورتحال پولیس نے کنٹرول کرلی
Last Updated On 08 March,2020 06:12 pm
535802_90640260.jpg

اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد میں عورت مارچ کے شرکا پر بعض افراد نے پتھراؤ کیا جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی۔ پریس کلب کے باہر پولیس کی بھاری نفری موجود ہے۔

ذرائع کے مطابق عورت مارچ شرکا اپنی تقاریر مکمل کرنے کے بعد واپس جا رہے تھے کہ ان پر بعض افراد کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا۔ اس صورتحال میں وقتی طور پر بھگدڑ مچ گئی تاہم پولیس معاملے پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے’عورت مارچ‘ کا سلسلہ 2018 میں شروع ہوا تھا۔ گزشتہ سال عورت مارچ میں کچھ بینرز، پوسٹر اور نعرے تنازع کا باعث بنے تھے۔ ان کو بنانے والی خواتین کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ نے رواں سال عورت مارچ کی باقاعدہ اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی اظہار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

کراچی سے خیبر تک ملک کے مختلف شہروں میں خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ عورت کی حرمت اور تقدس کو کسی صورت پامال نہیں ہونے دیں گے۔

نارووال میں نکالی گئی ریلی میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی جبکہ قصور میں تکریم نسواں واک ہوئی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ عورت کی حرمت کسی صورت پامال نہیں ہونے دیں گے۔ بہاولپور، سیالکوٹ، گوجرہ اور دیگر شہروں میں بھی خواتین کے عالمی دن پر ریلیاں نکالی گئیں۔

میرپور خاص، حیدر آباد اور سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی خواتین اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آئیں۔ ریلیوں میں شامل خواتین نے مردوں کے مساوی نوکریاں دینے کا مطالبہ کیا۔

میرپور آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کی مظلوم خواتین سے اظہار یکجہتی کے لئے واک کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی۔ خواتین نے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد میں عورت مارچ پر پتھراؤ
پتھراؤ کے باعث مارچ کے شرکا اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
مونا خان نامہ نگار @mona_qau
اتوار 8 مارچ 2020 17:30

73846-514742274.png

یہ پتھراؤ مارچ کے اختتامی وقت پر کیا گیا جس سے چند خواتین کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ (ٹوئٹر)

اسلام آباد میں جاری عورت مارچ پر پتھراؤ شروع کر دیا گیا جس کے بعد شرکا وہاں سے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔

یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر اس سے پہلے بھی مارچ کے حامیوں اور مخالفین میں تند و تیز جملوں کا تبادلہ جاری تھا اور ایک دوسرے کی مخالفت میں شدید بیانات دیے جا رہے تھے۔

یہ پتھراؤ مارچ کے اختتامی وقت پر کیا گیا جس سے چند خواتین کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ مارچ میں شرکت کرنے والوں پر جوتے بھی پھینکے گئے۔

200 کے قریب پولیس اہلکار، چالیس خواتین اہلکار اور واٹر کینن بھی جائے وقوع پر موجود ہیں۔

خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر اسلام آباد میں چار ریلیوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے تمام ریلیوں کے راستے بھی الگ رکھے اور مقام بھی الگ الگ مختص کیے گئے تاکہ کسی قسم کی لڑائی نہ ہو لیکن شامیانے کے اُس جانب سے جامعہ حفضہ کے مجمعے کی جانب سے عورت آزادی مارچ پر پتھراؤ کیا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق پتھراؤ کافی زیادہ کیا گیا جس سے کچھ شرکا زخمی بھی ہوئے ہیں۔ عورت مارچ کا شرکا نے شیم شیم کے نعرے لگائے اور شدید احتجاج کیا۔

قبل ازیں تینوں مذہبی جماعتوں کے مارچ میں نقاب پوش خواتین و بچیاں تھیں جنہوں نے اسلام میں خواتین کے حقوق و فرائض سے متعلق بینرز اٹھا رکھے تھے۔ جماعت اسلامی کی ریلی سے منسلک ایک خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم حیادار ہیں اس لیے ہم حیا مارچ کر رہے ہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کیوں؟ کیا وہ باقی گروہوں کو قائل نہیں کر سکتیں تھیں کہ ایک ساتھ خواتین کا عالمی دن منایا جاتا؟ انہوں نے جواب دیا کہ عورت آزادی مارچ خواتین کی بے جا آزادی کی نمائندگی ہے جو ہمارے شعائر میں نہیں ہے۔‘

جامعہ حفضہ کی طالبہ نے کہا کہ میرا جسم میری مرضی سے انہیں اختلاف ہے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس نعرے سے غلط مطلب نکلتا ہے۔

ان تمام معاملات پر جڑے سوالات جب خواتین مارچ میں شامل مرد و خواتین سے کیے گئے تو انہوں نے اُس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جو اُن کے بارے میں مشہور کر دیا گیا تھا۔ بہت سے ایسے بینرز تھے جو دیکھنے میں بولڈ تھے لیکن جب اُن سے پوچھا گیا کہ میرا جسم میری مرضی کیا ہے؟ تو عورت مارچ کی روح رواں عصمت شاہ جہاں نے کہا کہ ’میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہے کہ میرا حق ہے میں اپنے جسم کو اپنی مرضی کے خلاف استعمال نہ ہونے دوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرا جسم تیری مرضی کہا جائے تو اس کا مطلب ریپ ہے اس لیے میرا جسم میری مرضی ہے رہے گا۔‘

کچھ شرکا نے عورت مارچ میں پشتون و بلوچ لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔ جب کہ ایک خاتون نے بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھاری خلیل الرحمن قمر کے حوالے سے لکھا تھا کہ دوٹکے کی عورت نہیں بلکہ تمہاری سوچ ہے۔

چودہ سالہ کرن نے بینر اٹھا رکھا تھا ’میری ذات میرا حق‘ اُن سے پوچھا گیا کہ اس کی وضاحت کریں تو انہوں نے کہا کہ ’میری ماما نے کہا ہے کہ میرا جسم میری مرضی متنازع ہے اس پر تُم میری ذات میرا حق لکھو جس سے واضح ہو کہ تمہاری ذات پر صرف تمہارا حق ہے۔‘

اس کے علاوہ کچھ بینرز خواتین کی ماہواری سے متعلق تھے اور کچھ بچہ دانی کے حوالے سے، جن میں لکھا تھا کہ مرد بھی یہی سے آئے ہیں۔ ’شرکا کا کہنا تھا یہ بینرز متنازع ہو سکتے ہیں لیکن یہ سچ ہے۔‘

عورت مارچ میں سرخ سلام اور انقلاب کے نعرے لگتے رہے جو اب سے کچھ عرصہ قبل انقلاب مارچ کے نعرے تھے۔

اسلام آباد مارچ میں ایک گرفتاری بھی ہوئی جب ایک شخص برقع پہن کر عورت مارچ کے مقام پر آنے کی کوشش کر رہا تھا تو پولیس نے پکڑ لیا اور حراست میں لے لیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
عورت مارچ پر مولویوں کا پتھراؤ

اسلام آباد:عورت مارچ کے شرکا پر پتھراؤ
SAMAA | Farah Rabbani
Posted: Mar 8, 2020 | Last Updated: 2 hours ago

اسلام آباد میں عورت مارچ کے شرکا پر نامعلوم افراد نے پتھراؤ کرکے ایونٹ متاثر کرنے کی کوشش کی۔


اتوار کو اسلام آباد پریس کلب کےقریب عورت مارچ پرنامعلوم افراد کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا۔ اس دوران ایک دوسرےکےخلاف شدیدنعرےبازی بھی کی گئی۔

بعض افراد نےرکاوٹيں عبورکرکےمارچ تک جانےکی کوشش کی۔ سیکورٹی پر مامور پوليس اہلکاروں نے آگےبڑھنےوالوں کوپيچھےدھکيل ديا۔ پولیس نے برقع پہن کرمارچ ميں گھسنےوالےنوجوان کو حراست میں لے لیا۔

صورتحال کشیدہ ہونے پر ایف 6 کی روڈ بند کردی گئی۔ شرکا کو ڈی چوک جانے سے روک دیا گیا۔ سماء ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے عورت مارچ کی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انھیں یقین نہیں ہورہا کہ مارچ پر حملہ کیا گیا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ مارچ کے لیے ڈپٹی کمشنر سے این او سی لیا گیا تھا۔

مارچ کے ایک اور منتظم نے دعویٰ کیا کہ پتھراؤ کرنے والے جے یوآئی ایف اور لال مسجد سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی۔

اسی کام کے لئے یہ کئی دنوں سے تقاریر کر رہے تھے۔ عورتوں پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے انہیں غیرت نہیں یاد آئی ہوگی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
اسی کام کے لئے یہ کئی دنوں سے تقاریر کر رہے تھے۔ عورتوں پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے انہیں غیرت نہیں یاد آئی ہوگی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے!
آج کی اشتعال انگیز تقاریر میں ان مولویوں نے عورت مارچ والوں کو واجب القتل قرار دے دیا۔ یہ سب تو ہونا ہی تھا
 

La Alma

لائبریرین
آج کی اشتعال انگیز تقاریر میں ان مولویوں نے عورت مارچ والوں کو واجب القتل قرار دے دیا۔ یہ سب تو ہونا ہی تھا
قصور ان حملہ آوروں کا بھی نہیں ہے۔ان کی برین واشنگ ہی ایسی کی جاتی ہے۔ جب تک یہ دوسروں کو جہنم واصل نہیں کریں گے جنت کے حقدار کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔ ان کو یہ سب خواتین یہودی ایجنٹ اور شیطان کی پیروکار لگ رہی ہونگی۔
بھٹکی ہوئی عورت کو راہ راست پر لانے کے لیے اگر جبر کیا تو کیا برا کیا۔
 

محمد سعد

محفلین
آج کی اشتعال انگیز تقاریر میں ان مولویوں نے عورت مارچ والوں کو واجب القتل قرار دے دیا۔ یہ سب تو ہونا ہی تھا
کمال ہے۔ اس معاملے میں بھی قتل سے کم پر راضی نہیں ہیں۔ کوئی ایسا معاملہ دنیا میں چھوڑا بھی ہے ان وحشی درندوں نے کہ جس میں ان کے ساتھ اختلاف کرنے کی "سزا"، قتل نہ ہو؟
 

عدنان عمر

محفلین
قانون سازی کرنا پارلیمان یعنی عوامی نمائندوں کا ہی تو کام ہے۔
اگر عوامی نمائندے قانون سازی کا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کریں کہ ریاست اپنی حدود میں دینِ اسلام نافذ کرے گی تب تو پھر ٹھیک بات ہے نا؟
 

جاسم محمد

محفلین
بھٹکی ہوئی عورت کو راہ راست پر لانے کے لیے اگر جبر کیا تو کیا برا کیا۔
ابھی ایک یوتھیوں کے واٹس گروپ میں اس پر بحث ہوئی تو وہاں تقریباً سب اس نظریہ کے حامی نکلے کہ اگر کسی بدکار عورت کو سنگسار کرنے کا حکم ہے تو ان عورت مارچ والوں کو کیوں نہیں؟ :(
 

جاسم محمد

محفلین
اگر عوامی نمائندے قانون سازی کا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کریں کہ ریاست اپنی حدود میں دینِ اسلام نافذ کرے گی تب تو پھر ٹھیک بات ہے نا؟
اس کے لئے پہلے ملک میں سو فیصد ایک ہی مکتبہ الفکر، فرقہ کی آبادی لانی پڑے گی۔ اتنے سارے فرقوں، مکاتب الفکر کے ہوتے ہوئے اسلام کیسے نافذ ہوگا جس کی صحیح تشریح میں ہی آپس میں اتنے اختلافات ہیں؟
 

عدنان عمر

محفلین
اس کے لئے پہلے ملک میں سو فیصد ایک ہی مکتبہ الفکر، فرقہ کی آبادی لانی پڑے گی۔ اتنے سارے فرقوں، مکاتب الفکر کے ہوتے ہوئے اسلام کیسے نافذ ہوگا جس کی صحیح تشریح میں ہی آپس میں اتنے اختلافات ہیں؟
یہ آپ کی سوچ ہے۔ آپ عوامی نمائندوں سے قانون سازی کا حق چھین نہیں سکتے۔
 

فرقان احمد

محفلین
بڑے شہروں میں عام طور پر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین عام طور پر ہر برس عورت مارچ کا اہتمام کرتی ہیں جن میں اکا دکا خواتین مڈل کلاس یا نچلی کلاس سے بھی آ جایا کرتی تھیں یا انہیں لایا جاتا تھا۔ گزشتہ ایک دو برس سے شرکاء کی تعداد میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے تاہم چونکہ اس مرتبہ اس مارچ کے شرکاء پر پتھراؤ ہوا ہے تو امکان غالب ہے کہ اس تحریک میں مزید جان پڑے گی۔ جوں جوں تشدد کا عنصر بڑھے گا، ان کی بات زیادہ غور سے سنی جائے گی۔ ہم یہ کریڈٹ ان شرکاء پر پتھراؤ کرنے والوں کو دیتے ہیں۔ حد ہے!
 

محمد سعد

محفلین
بڑے شہروں میں عام طور پر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین عام طور پر ہر برس عورت مارچ کا اہتمام کرتی ہیں جن میں اکا دکا خواتین مڈل کلاس یا نچلی کلاس سے بھی آ جایا کرتی تھیں یا انہیں لایا جاتا تھا۔ گزشتہ ایک دو برس سے شرکاء کی تعداد میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے تاہم چونکہ اس مرتبہ اس مارچ کے شرکاء پر پتھراؤ ہوا ہے تو امکان غالب ہے کہ اس تحریک میں مزید جان پڑے گی۔ جوں جوں تشدد کا عنصر بڑھے گا، ان کی بات زیادہ غور سے سنی جائے گی۔ ہم یہ کریڈٹ ان شرکاء پر پتھراؤ کرنے والوں کو دیتے ہیں۔ حد ہے!
وہ ایک شعر تھا اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرنے والا۔ پتہ نہیں کس نے کس کے متعلق کہا تھا لیکن یہاں کافی درست بیٹھتا محسوس ہو رہا ہے۔ :whistle:
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top