نئی غزل

دلِ برباد تو برباد تری یاد سے ہے
یہ مرا غم مرے ہمزاد تری یاد سے ہے

یوں تو ہر درد زمانے کا بسا ہے اس میں
پھر بھی یہ خانماں آباد تری یاد سے ہے

یہ سفر عمر کا کٹنا تو ہے دھیرے دھیرے
گرچہ اس راہ کا سب زاد تری یاد سے ہے

مرے سب حرف سبھی شعر تمہارے ہی تو ہیں
مرے اندوہ کی روداد تری یاد سے ہے

ضبط کے رنگ ہزاروں ہیں مگر جانِ شکیل
گریہ و نالہ و فریاد تری یاد سے ہے

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی توجہ کا طالب
 
ماشاءاللہ، بہت خوب! عمدہ غزل ہے
ذیل کے شعر میں مصرعوں کا ربط سمجھ نہیں آسکا
یہ سفر عمر کا کٹنا تو ہے دھیرے دھیرے
گرچہ اس راہ کا سب زاد تری یاد سے ہے
یعنی اس کی یاد کے زاد راہ فراہم کرنے کا سفر کے دھیرے دھیرے کٹنے کا تعلق واضح نہیں ہورہا، ممکن ہے میرے فہم کا نقص ہو۔
ایک بار پھر داد و مبارک باد قبول کیجئے۔

دعا گو،
راحلؔ۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ زاد والا شعر بھی مجھے درست لگ رہا ہے
البتہ چوتھے شعر میں شتر گربہ پیدا ہو گیا ہے، اسے دیکھ لیں
 
اچھی غزل ہے۔ زاد والا شعر بھی مجھے درست لگ رہا ہے
البتہ چوتھے شعر میں شتر گربہ پیدا ہو گیا ہے، اسے دیکھ لیں
حوصلہ افزائی کا شکریہ، مجھے اندازا نہیں تھا کہ تیرا اور تمہارا کا فرق بھی شتر گربہ میں شمار ہوتا ہے، درستگی کی کوشش کرتا ہوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ1 بہت خوب ! اچھی غزل ہے شکیل بھائی۔
شکیل بھائی ، زاد کا مفرد استعمال اردو میں رائج نہیں ۔ یہ ہمیشہ ترکیبِ اضافی کی صورت میں استعمال ہوتا ہے ۔ زادِ سفر ، زادِ راہ وغیرہ۔
 
اچھی غزل ہے۔ زاد والا شعر بھی مجھے درست لگ رہا ہے
البتہ چوتھے شعر میں شتر گربہ پیدا ہو گیا ہے، اسے دیکھ لیں
مرے سب حرف سبھی شعر ترے دم ہی سے ہیں
مرے اندوہ کی روداد تری یاد سے ہے

کیا یوں مناسب رہے گا؟
 
Top