آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

عدنان عمر

محفلین
اسی بات پر ہوجائے ایک وڈیو۔۔۔
جب ڈاکٹرز بے روزگاری کے باعث سوپ بیچنے لگے۔۔۔
یعنی پڑھے فارسی بیچے تیل۔۔۔
باقی سب باتیں لینے گئیں تیل!!!
اس سبق آموز ویڈیو سے ایک ضمنی لیکن کام کی بات یہ پتہ چلی کہ یہ بالٹی سوپ شاپ گلشنِ اقبال میں ڈھاکا سوئٹس کے سامنے واقع ہے۔:)
 

سید عمران

محفلین
یہودیوں نے خواتین کو جو حقوق دئیے ہیں وہ اسرائیل میں نافذ ہیں۔۔۔
اس مذہب میں مرد کے مظالم کے باوجود عورت کا طلاق لینا کس قدر محال ہے۔۔۔
ملاحظہ کیجیے!!!
 

الف نظامی

لائبریرین

سید عمران

محفلین
یہودی مذہب میں شادی کرکے عورت کا اس سے چھٹکارہ پانا ناممکنات میں سے سمجھا جاتا ہے
ایک اندازے کے مطابق یہودی معاشرے میں ہزاروں ایسی عورتیں ہیں جن کی شادی مشکلات کا شکار ہے لیکن شوہر کی طرف سےطلاق دینے کے انکار کی وجہ سے وہ اپنی زندگی تنہائی میں گزارنے پر مجبور ہیں۔
بعض اوقات ان کو اس تکلیف دہ صورتحال سے نکلنے میں برسوں بیت جاتے ہیں۔
شوشانہ بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ شوشانہ کے تین بچے ہیں اور وہ پندرہ سال سے اپنے شوہر سے علیحدہ ہو چکی ہیں، لیکن ان کا شوہر وہ مذہبی دستاویز دینے سےانکاری ہے جس سے دونوں کی شادی کا معاہدہ ختم ہو سکے۔
سوشانہ نہ تو بیوہ ہے اور نہ ہی طلاق یافتہ۔ یہودی معاشرے میں ایسی عورتوں کو’اگونا‘ یا ’رنجیروں میں جکڑی عورتیں‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی عورتوں چاہتے ہوئے بھی شوہر کی مرضی کے بغیر شادی کے معاہدے سے باہر نہیں آ پاتیں۔
یہودی مذہب میں عورت کو شادی کے معاہدے سے نکلنے کے لیے خاوند سے ایسی دستاویز چاہیے ہوتی ہے جس کے بغیر شادی کا معاہدہ ختم نہیں ہو سکتا۔
شوشانہ اسرائیل میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ان کا شوہر امریکہ میں رہتا ہے۔ اسرائیل کی یہودی عدالت کی طرف سے شوشانہ کے شوہر کو حکم دیا جا چکا ہے کہ وہ اس شادی کو ختم کرنے کے لیے ضروری دستاویز جاری کرے لیکن وہ یہودی عدالت کا حکم ماننے سے گریز کر رہا ہے۔
شوشانہ پندرہ برس سے طلاق لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک راسخ القیدہ یہودی ہونے کے ناطے شوشانہ نہ تو کسی مرد سے میل جول رکھ سکتی ہے اور نہ شادی کر سکتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ کسی یہودی عورت کو اگر اس کا شوہر طلاق دینے سے انکار کر دے تو وہ یرغمال بن جاتی ہے۔’یہ ایک بدترین قسم کا جذباتی جبر ہے اور آپ قید تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔‘
شوشانہ اب 43 برس کی ہو چکی ہیں۔ طلاق کے اس جھگڑے میں پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں جوان تھی تو میں نے دوسری شادی کا سوچا تھا لیکن اب تو شاید وہ وقت ہی گزر چکا ہے۔‘
’اگونا‘ عورتیں
پرانے زمانے میں ’اگونا‘ ان خواتین کو کہا جاتا تھا جن کے شوہر جنگ میں جانے کے بعد واپس نہ آئے اور یہ بھی پتہ نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ایسی عورتیں دوسری شادی نہیں کر سکتی تھیں۔ سوشانہ نہ تو بیوہ ہے اور نہ ہی طلاق یافتہ۔
شوشانہ کا شوہرایرن امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ ایرن نے ای میل کے ذریعے اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے مابین بچوں کی حفاظت اور ان سے ملاقات کے معاملے پر تنازعہ جاری ہے جس کی وجہ سے وہ طلاق کے لیے ضروری دستاویز جاری کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ایرن نے کہا کہ شوشانہ کسی ایسے طلاق کے معاہدے پر راضی نہیں ہے جس کے تحت باپ بچوں سے ملاقات کا حق رکھتا ہو۔ ایرن کا کہنا ہے کہ اگر شوشانہ نے میرے اور میرے بچوں کے بیچ دیوار نہ کھڑی کر رکھی ہوتی تو اب تک طلاق کا معاملہ حل ہو چکا ہوتا۔
یہودی مذہب میں مرد اور عورت دونوں کو حق حاصل ہے کہ وہ شادی کو ختم کرنے سے انکار کر سکتے لیکن پورے اسرائیل میں صرف ایک یا دو ایسے مرد ہیں جو طلاق کے لیے بیوی کی رضامندی کے منتظر ہیں جبکہ ایسی عورتوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔
رابی میمان کہتے ہیں کہ یہودی قانون کے تحت شادی دونوں افراد کی مرضی سے ہوتی ہے لہذا اس کا خاتمہ بھی دونوں کی مرضی سے ہی ہونا چاہیے۔ ’یہ ایک مقدس رشتہ ہے۔ جب آپ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ بھی اچھے انداز میں ہونا چاہے۔‘
پرانے زمانے میں اگونا ایسی خاتوں کو کہا جاتا تھا جس کا شوہر کسی جنگ میں جاتا تھا اور پھر واپس نہیں آتا تھا اور اس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ زندہ ہے یا مرچکا ہے۔ ایسی عورتیں دوسری شادی نہیں کر سکتی تھیں۔
شوشانہ کو یقین نہیں ہے کہ وہ دوبارہ شادی کر سکے گی لیکن اسے امید ہے کہ ایک وقت آئے گا جب وہ کم از کم آزاد تو ہوجائے گی اور اپنے فیصلے خود کر سکے گی۔
ربط
 

سید عمران

محفلین
یہودیت میں آزادیِ نسواں کے دلفریب نعرے کا کچومر

عورت پست ذات اور مرد کی محکوم ہے:
یہودیت کے ازدواجی نظام پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کا مقام نہایت پست ہے اور اس کی وجہ یہ نظریہ ہے کہ حوا نے آدم کو ممنوعہ پھل کھانے پر اکسایا اور اسی وجہ سے وہ جنت سے نکالے گئے۔ اور اسی بنا پر عورت کو مرد کی غلامی، حیض جیسی ناپاکی اور حمل کے درد کی سزا ملی۔ بائبل میں ہے:
’’مَیں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا۔ تُو درد کے ساتھ بچّے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شَوہر کی طرف ہوگی اور وہ تُجھ پر حُکومت کرے گا۔‘‘

”تمدن عرب“ میں یہودی معاشرہ میں عورت کی حیثیت ان سخت الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
”گھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مہمیز کی ضرورت ہے اور عورت اچھی ہو یا بری اسے مار کی ضرورت ہے۔“

عورت اپنی مرضی کے مطابق ہر کسی سے نکاح نہیں کرسکتی:
اگر کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو اسے دوسری شادی کا حق تو تھا مگر صرف اپنے شوہر کے بھائی سے۔ اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی تھی اور اسے اس شادی پر مجبور کیا جاتا تھا۔

یہودی مردوں کی ایک سے زاید شادیاں:
یہودیت میں تعدد ازدواج کی اجازت بھی تھی، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ ایک مرد جتنی چاہتا شادیاں کر سکتا تھا۔

شادی کی کم سے کم عمر:
تلمود کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے لیے کم از کم عمر 12 سال ہونی چاہیے۔ مولانا ظفیر الدین یہودیت کے قانون ازدواج کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’یہودی قانون میں ہے جس کی لڑکی بارہ سال کی ہو جائے اور وہ اس کی شادی نہ کرے اور اس لڑکی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ گناہ اس شخص پر ہو گا۔
لڑکی کی عمر کا تو پتا چل گیا کہ کم از کم بارہ سال کی لڑکی کا نکاح کیا جا سکتا ہے جبکہ مرد کی عمر کے بارے میں یہ ہے کہ اس کی شادی کی نارمل عمر 18 سال ہے:

’’عدالت ہر مرد کو جس کی عمر 20 سال سے زیادہ ہو جائے شادی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ”تلمود کے احکامات“ میں مرد کی شادی کی نارمل عمر 18 سال اور عورتوں کی 13 سال مقرر کی گئی ہے لیکن یہودیوں کے ہاں عملاً شادیاں اس سے کم عمر میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ تیرہویں صدی میں یہودی لڑکیوں کی شادیاں بلوغت سے پہلے کر دی جاتی تھیں اور سترہویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں دُلہا دس سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچتا تھا کہ اس کی شادی ہو جاتی تھی اور دُلہن کی عمر اس سے بھی کم ہوتی تھی۔‘‘

بیوہ و مطلقہ کا نکاح ثانی:
یہودی شریعت میں جب ایک عورت کی شادی ہو گئی تو پھر وہ دوبارہ شادی نہیں کر سکتی۔ اگر کسی یہودی عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی تو اب وہ دوبارہ شادی نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی مرد کو اس سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔ بائبل میں ہے:
”وہ کسی فاحشہ یا ناپاک عورت سے بیاہ نہ کریں اور نہ اس عورت سے بیاہ کریں جسے اس کے شوہر نے طلاق دی ہو۔“

اسی طرح کئی اور مقامات پر یہودی مرد کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کسی مطلقہ عورت سے بیاہ نہ کرے بلکہ کسی کنواری لڑکی سے بیاہ کرے:
”اور وہ کنواری لڑکی سے بیاہ کریں۔ جو بیوہ یا مطلقہ یا نا پاک عورت یا فاحشہ ہو ان سے وہ بیاہ نہ کرے بلکہ اپنی ہی قوم کی کنواری کو بیاہ لے۔‘‘

سید جلال الدین بھی اپنی کتاب میں یہی لکھتے ہیں کہ یہودی قوانین میں عورت کو دوسری شادی کرنے کی کوئی اجازت نہیں تھی:
”یہودی قانون کی رو سے مرد وارث کی موجودگی میں عورت وارث سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس طرح عورت کو دوسری شادی کا بھی حق نہیں تھا۔“

حافظ ضیاء الدین نے یہودی قانون میں عورت کی دوسری شادی کی پابندی کو عورتوں پر بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے:
”اسی طرح اگر ایک مرتبہ عورت کی شادی مرد سے ہو گئی تو یہودی شریعت میں اس عورت کو دوسری شادی کی کسی صورت اجازت تھی۔ اس سے واضح ہوا کہ عورت پر ظلم و ستم کی یہودیوں نے انتہا کر دی تھی۔“

یہ تو اس عورت کے نکاح کا بیان تھا جس کو اس کا شوہر طلاق دے دے اور اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے تو اس کے لیے یہودی قانون میں ہی حکم و رواج تھا کہ وہ اپنے شوہر کے بھائی سے شادی کرے اور اس شادی سے ہونے والا پہلا بچہ بھی اس کا نہیں بلکہ اس کے مرحوم بھائی کا شمار ہوتا تھا۔ اگر اس کے شوہر کا بھائی شادی کرنے سے انکار کر دیتا تو پھر اسے اس بات پر مجبور کیا جاتا اور اگر وہ پھر بھی نہ مانتا تو اس کو عمر بھر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔ بائبل میں ہے:
”اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے تو اس مرحوم کی بیوی کسی اجنبی سے بیاہ نہ کرے، بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس کے پاس جا کر اسے اپنی بیوی بنانے اور شوہر کے بھائی کا جو حق ہے وہ اس کے ساتھ ادا کرے۔ اور اس عورت کے جو پہلا بچہ ہو وہ اس آدمی کے مرحوم بھائی کے نام کا کہلائے تا کہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے۔ اور اگر وہ آدمی اپنی بھاوج سے بیاہ نہ کرنا چاہے تو اس کی بھاوج پھاٹک پر بزرگوں کے پاس جائے اور کہے میرا دیور اسرائیل میں اپنے بھائی کا نام بحال رکھنے سے انکار کرتا ہے اور میرے ساتھ دیور کا حق ادا کرنا نہیں چاہتا۔ تب اس کے شہر کے بزرگ اس آدمی کو بلوا کر سمجھائیں اور اگر وہ اپنی بات پر قائم رہے اور کہے کہ مجھ کو اس سے بیاہ کر نا منظور نہیں ہے تو اس کی بھاوج بزرگوں کے سامنے اس کے پاس جا کر اس کے پاؤں سے جوتی اتارے اور اس کے منہ پرتھوک دے اور یہ کہے کہ جو آدمی اپنے بھائی کا گھر آباد نہ کرے اس سے ایسا ہی کیا جائے گا۔ تب اسرائیلیوں میں اس کا نام پڑ جائے گا کہ یہ اس شخص کا گھر ہے جس کی جوتی اتاری گئی تھی۔“

جب یہودی عورت کا شوہر مر جاتا تو اب اسے اپنے شوہر کے بھائی سے لازمی شادی کرنی پڑتی تھی اور اس شادی میں ایک طرف تو لڑکے کو مجبور کیا جاتا تھا تو دوسری طرف عورت سے بھی اس کی رضا نہیں پوچھی جاتی تھی۔ اور اس شادی سے ہونے والی پہلی اولاد بھی اس پہلے خاوند ہی کی شکار ہوتی تھی بقول شبلی نعمانی:
”یہودی مذہب میں بیوہ عورت ایک بھائی کے مرنے کے بعد اس کے دوسرے بھائی کی ملک ہو جاتی تھی اور وہ جس طرح چاہتا اس سے معاملہ کر سکتا تھا۔ اس زن و شوئی تعلق میں عورت کی مرضی کا کوئی اختیار نہ تھا، بلکہ اس کی حیثیت مجبور کی سی ہوتی تھی۔“

عورت کو گھر سے باہر نکلنے کے بجائے شرم و حیا کرنے کا حکم:
تلمودی ربیوں نے کسی بھی خاتون جو مسقبل بیوی بننے والی ہو، کے لیے سب سے اچھی تجویز یہ پیش کی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی تمام خواہشات کو پورا کرے؛ ابتدائی مدراش کا بیان ہے کہ کسی بیوی کو گھر ”بار بار“ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بیوی کو چاہیے کہ شرم و حیا کرے، چاہے اس کے ساتھ موجود اکیلا مرد اس کا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔ تلمود میں یہ بھی مذکور ہے کہ پاک صاف اور پیار والے گھر میں خدا بھی موجود ہوتا ہے۔

گھر بار سنبھالنا عورت کی ذمہ داری ہے:
بائبل کے مطابق خاندان کی افزائش کا کام بیوی کو کرنا چاہیے۔ ربیائی لٹریچر میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ جب تک عورت شادی کے بعد شوہر کو بھاری جہیز نہ دیدے تو اس وقت تک وہ گھر کے تمام کام (کھانا، پکانا، دھونا، بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ) کرے؛ بعد کی صورت حال میں بیوی سے فقط اتنی امید کی جاتی ہے کہ وہ شوہر کے مرضی کے مطابق کام کرے مثلاً بستر بنانا اور شوہر کو کھانا پیش کرنا۔یہودی روایت میں شوہر کا فرض ہے کہ وہ لینن کا بستر اور باورچی خانہ کا سامان فراہم کرے۔ اگر کسی بیوی کے دو جڑواں بچے ہیں تو تلمود کے مطابق شوہر کا فرض ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کی دیکھ بھال کرے۔

ربط
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
انتہائی پردہ دار یہودی خواتین میں تیزی سے اضافہ
5bdad8d2886e9.jpg

اس فرقے سے تعلق رکھنے والی خواتین تین تہوں پر مبنی پردہ کرتی ہیں—فائل فوٹو: ماریانا ڈاٹ کام
یہودیوں کے متعدد فرقے اگرچہ اپنے مذہبی عقائد اور نسل کی حفاظت کے لیے فکر مند نظر آتے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں یہودیوں کے ایک سخت گیر فرقے کی جانب سے خواتین کے پردہ کرنے کا بھر پور اہتمام خبروں میں ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ انتہائی پردہ دار اور سخت مذہبی عقائد رکھنے والے اس مذہبی فرقے کی آبادی میں گزشتہ ایک دہائی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

خبر رساں ادارے یورپین پریس فوٹو ایجنسی (ای پی اے) نے رپورٹ کیا کہ بیت المقدس میں موجود یہودیوں کے اکثریتی علاقے بیت الشمس میں روشن خیالی، جدیدیت، سائنسی ترقی، مذہبی رواداری اور ثقافتی تبدیلیوں کی مخالفت کرنے والا ایک سخت گیر یہودی گروہ ’حریدی‘ یا ’خریدی‘ بھی آباد ہے۔

اس گروہ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی خواتین اتنا پردہ کرتی ہیں کہ وہ خود کو کئی کپڑوں سے ڈھانپتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حریدی گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی جانب سے کیے جانے والے پردے کے لیے استعمال ہونے والے عبایا کو ’برقع حریدی‘ کہا جاتا ہے، جس کے تحت ہر خاتون کم سے کم خود کو برقع اور شال جیسے تین کپڑوں سے ڈھانپتی ہے۔

5bdad9cbac8ed.jpg

سخت پردہ کرنے والی خواتین کو سب سے پہلے 2006 میں بیت المقدس کی گلیوں میں دیکھا گیا—فوٹو: بشکریہ ہارتز

اس گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ماننا ہے کہ یہودی عورتوں کو عفت و عصمت کے تحت اپنا جسم مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیے، تاکہ یہودی نسل کی حفاظت ہوسکے۔

اس گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کا عقیدہ کہ آج سے 3ہزار 5سو (3500) سال قبل بھی یہودی خواتین اسی طرح کا انتہائی سخت پردہ کرتی تھیں۔

برقع حریدی کے تحت پردہ کرنے والی خواتین نہ صرف گھر سے باہر نکلتے وقت خود کو اچھی طرح ڈھانپتی ہیں، بلکہ وہ گھر میں رہتے ہوئے بھی انتہائی سخت پردے کی حالت میں رہتی ہیں۔

اسپین کے خبر رساں ادارے (ای ایف ای) کے مطابق یہودیوں کے حریدی فرقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اگرچہ سیکولر پس منظر سے ہوتی ہیں، تاہم وہ اتنی تنگ نظر ہوتی ہیں کہ وہ بیمار پڑنے کے بعد علاج تک نہیں کرواتیں۔

رپورٹ کے مطابق اس گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے کم سن بچوں کی ویکسینیشن کروانے سمیت ان کا علاج تک نہیں کرواتیں اور انہیں پردے میں رکھتی ہیں۔

حریدی گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنی نابالغ اور کم عمر بچیوں کو بھی برقع حریدی کے تحت ہر وقت پردے میں رکھتی ہیں۔

5bdada8105804.jpg

اس فرقے سے تعلق رکھنے والے مرد بھی خصوصی لباس میں نظر آتے ہیں—فوٹو: موجادو سٹیزن

برقع حریدی کے تحت جہاں ایک شال سے جسم ڈھانپا جاتا ہے، وہیں چہرے پر نقاب جیسا الگ کپڑا پہنا جاتا ہے، جب کہ شال کے اوپر بھی ایک شال ڈھانپنے کے لیے پہنی جاتی ہے۔

حریدی فرقے سے تعلق رکھنے والی یہودی خواتین کا ماننا ہے کہ ان کے اس طرح کے پردے سے یہودی مرد گناہ سے محفوظ رہتے ہیں۔

یہ خواتین یقین رکھتی ہیں کہ اگر وہ اس طرح پردہ نہیں کریں گی تو یہودی مرد ان کے جسم کے خدوخال دیکھیں گے، جس کے بعد گناہ کے مرتکب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

رپورٹس کے مطابق حریدی فرقے میں پردے کی یہ روایت سخت مذہبی رجحانات رکھنے والی خاتون بروریا کرین نے شروع کی تھی۔

ابتدائی طور پر بروریا کرین واحد یہودی خاتون مانی جاتی تھیں، جنہوں نے حالیہ دور میں اس طرح کا پردہ کیا، بعد ازاں 2008 تک اس طرح کا پردہ کرنے والے افراد کی محض 100 تک بتائی گئی۔

تاہم اب ایک دہائی بعد ان کی تعداد کئی گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔

5bdadb10b07ef.jpg

کم عمر بچیوں کو بھی خصوصی پردہ کرایا جاتا ہے—فوٹو: ٹوئٹر

ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ دنیا بھر میں حریدی یہودیوں کی آبادی 18 لاکھ سے 20 لاکھ کے درمیان ہے، تاہم ان میں سے انتہائی کم تعداد کے افراد سخت پردہ کرنے سمیت جدیدیت کی مخالفت کرتے ہیں۔

سخت پردہ کرنے اور جدیدیت کی مخالفت کرنے والے ان افراد کو اگرچہ یہودیوں کے بعض فرقے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ ان کی روایات کو تنگ نظری قرار دے کر یہودیت کا حصہ نہیں مانتے۔

ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق حریدی فرقے کی آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی ہو رہا ہے، ساتھ ہی اس میں دیگر فرقوں کے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اس فرقے کی خواتین میں سخت پردے کی روایت ڈالنے والی خاتون بروریا کرین کو 2008 میں اسرائیلی پولیس نے گرفتار کیا تھا، جبکہ ان پر بچوں پر تشدد کرنے اور انہیں قید رکھنے کے الزامات عائد کیے تھے۔

بعد ازاں اسرائیلی عدالت نے بروریا کرین کو جرم ثابت ہونے پر 4 سال جیل قید کی سزا بھی سنائی تھی۔

جیل میں قید کی سزا کے دوران بروریا کرین اپنے عقائد پر قائم رہیں اور انہوں نے مرد اہلکاروں کے سامنے بات کرنے سمیت ان کے آگے آنے سے بھی انکار کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جیل میں قید کے دوران بروریا کرین کی متعدد بار طبعیت بھی خراب ہوئی، تاہم انہوں نے علاج کروانے سے بھی انکار کیا۔

حالیہ دنوں میں بروریا کرین کے حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں کہ وہ کہاں اور کن حالات میں ہیں۔

5bdadb9480552.jpg

اس فرقے سے تعلق رکھنے والی خواتین مردوں کے سامنے آنے سے بھی کتراتی ہیں—فوٹو:ٹریلی مسکیٹ
ربط
 

سید عمران

محفلین
یہودی مذہب میں عورت کی حیثیت

تعلیم:
تورات کا حکم یہ ہے کہ اپنے بیٹوں کو تعلیم دو۔ اس وجہ سے یہودیت میں مذہبی تعلیم میں عورتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے حتی کہ بعض ربیوں کے مطابق عورت کو تورات کی تعلیم دینا ایسا ہے جیسا کہ لکڑی میں آ گ لگادینا۔

یہودیت کی تعلیم خاص طور پر بنی اسرائیل تک محدود ہے اور بنی اسرائیل میں بھی مذہب کی تعلیم تو صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے دینی تعلیم کو پسند نہیں کیا جاتا کیوں کہ تورات کا یہ حکم ہے اپنے لڑکوں کو تعلیم دو۔(کتاب تلمود۔ کتاب استثناء: باب : ۱۱، آیت:۱۹)

۱- پہلا قول یہ ہے کہ آدمی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی لڑکی کو تورات کی تعلیم دے۔
۲- دوسرا قول یہ ہے کہ جو بھی شخص اپنی بیٹی کو تورات کی تعلیم دیتا ہے وہ ایسا ہے جیسے اپنی بچی کو گندی چیزوں کو سکھائے۔
۳- تیسرا قول یہ ہے کہ عورت کو تورات کی تعلیم دینے کی بجائے تورات ہی کو جلادینا بہتر ہے۔
۴- چوتھا قول یہ ہے کہ جب ایک ربی سے کسی عورت نے سونے کے بچھڑے کے متعلق پوچھا تو اسے ڈانتے ہوئے کہا گیا کہ عورت کو تعلیم سے کوئی سرورکار نہیں، صرف اس کا کام اسپنڈل کا استعمال ہے۔
۵- یہودی علماء نے مشترکہ تعلیم کو اس واسطے عورتوں کو دلانے سے منع کیا کہ اس کی وجہ سے یونان اور روم میں عورتوں کے اندر اخلاقی گراوٹ یہاں تک آئی کہ ناقابل برداشت ہوگئی۔

گناہوں کی ابتداء کرنے والے عورت ذات:
عورت پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اسی نے حضرت آدم کو بہکاکر شجر ممنوعہ کا پھل کھلوایا۔ اس لیے سب سے پہلے گناہ کی مرتکب وہی ہوئی، یعنی گناہ کی شروعات کا الزام عورت کے اوپر ہے۔ جس کی سزا کے طور پر مرد کو اس کے اوپر حاکم بنایاگیا ہے۔اور اس کو حمل کے جننے وغیرہ کی سزائیں دی گئی ہیں۔ (کتاب تخلیق: باب:۲-۳) عورت عام طور سے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے اپنی مرضی کے مطابق بنایا اور مرد یہ کہتا ہے کہ خدا کاشکر ہے کہ تونے مجھے عورت نہیں بنایا ہے۔

ربط
 

سید عمران

محفلین
یہودیت میں عورتوں کی گت

یہودی روایات کے مطابق عورت ناپاک وجود ہے ‘ اور اس کائنات میں مصیبت اسی کے سبب ہے ۔ان کے نزدیک مرد نیک سرشت اور حسن کردار کا حامل ‘اورعورت بدطینت اورمکار ہے ‘کیونکہ اس نے آدم ؑ کوبہلاپھسلاکر پھل کھانے پرآمادہ کیا جس سے اللہ نے منع کیا تھا۔

یہودی شریعت میں مرد کا اختیاراورعورت کی محکومیت نمایاں ہے‘عورت باپ کی رضامندی کے بغیر خدا کو راضی کرنے کے لیے منت اور نذربھی نہیں مانگ سکتی ۔ عورت کودوسری شادی کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔

عائلی زندگی کے علاوہ عورت وصیت‘ شہادت اور وراثت جیسے حقوق سے بھی محروم تھی۔یہودی قانون کے مطابق مرد وارث کی موجودگی میں عورت وراثت سے محروم ہوجاتی تھی۔ ان کے قانون وراثت میں بیٹی کا درجہ پوتوں کے بعد آتا ہے‘ اگر کسی مرنے والے کا لڑکا نہ ہو تو وراثت پوتے کی ہوجاتی ہے، اور اگر پوتا بھی نہ ہو تو اس صورت میں وراثت لڑکی کی ہوتی ہے۔

ربط
 

جاسم محمد

محفلین
وہ لوگ حقوق میں انٹرسٹڈ نہیں بلکہ مسلمانوں کی شرح پیدائش کو کم کرنا چاہتے ہیں عورت کو غیر ضروری امور میں مصروف کر کے۔
جو مسلمان پیدا ہو چکے ہیں وہ کمزور معیشت کی وجہ سے سنبھالے نہیں جا رہے اور آنے والوں کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
 
Top