غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
عنوان تک پتہ نہیں طرزِ جہان کا
کم بخت وقت آن پڑا امتحان کا

منزل یقین کی، ہو میسر، بعید ہے
کٹتا نہیں ہے مرحلہ وہم و گمان کا

نفرت ضروری تو نہیں ترکِ وفا کے ساتھ
اک اور انتخاب بھی ہے درمیان کا

ہر سمت کیوں بلند ہے شورِ فساد، جب
طالب ہر ایک شخص ہے امن و امان کا

فائق! چھپا سکا نہ دلِ غم زدہ کا حال
چہرے نے کام کر ہی دیا ترجمان کا
 

الف عین

لائبریرین
عنوان تک پتہ نہیں طرزِ جہان کا
کم بخت وقت آن پڑا امتحان کا
... طرز کا عنوان؟ یہ محاورہ نہیں۔ مفہوم واضح نہیں پوا

منزل یقین کی، ہو میسر، بعید ہے
کٹتا نہیں ہے مرحلہ وہم و گمان کا
.... پہلے مصرع کا انداز بیان ذرا واضح نہیں۔ منزل ملنے کو منزل کا میسر ہونا بھی خلاف محاورہ ہے
ممکن نہیں یقین کی منزل بھی مل سکے
یا ایسا کچھ مصرع لگایا جائے تو بہتر ہے

نفرت ضروری تو نہیں ترکِ وفا کے ساتھ
اک اور انتخاب بھی ہے درمیان کا
.. ضروری کی ی کا اسقاط اور تو کی واو کا طویل کھنچنا روانی کو متاثر کر رہا ہے
نفرت ہی لازمی نہیں.... کیا جا سکتا ہے

ہر سمت کیوں بلند ہے شورِ فساد، جب
طالب ہر ایک شخص ہے امن و امان کا
... شور بلند ہونا بھی خلاف محاورہ ہے
ہر سمت کیوں مچا ہے یہ...
کیا جا سکتا ہے

فائق! چھپا سکا نہ دلِ غم زدہ کا حال
چہرے نے کام کر ہی دیا ترجمان کا
.. درست
 

الف عین

لائبریرین
عنوان تک پتہ نہیں طرزِ جہان کا
کم بخت وقت آن پڑا امتحان کا
... طرز کا عنوان؟ یہ محاورہ نہیں۔ مفہوم واضح نہیں پوا

منزل یقین کی، ہو میسر، بعید ہے
کٹتا نہیں ہے مرحلہ وہم و گمان کا
.... پہلے مصرع کا انداز بیان ذرا واضح نہیں۔ منزل ملنے کو منزل کا میسر ہونا بھی خلاف محاورہ ہے
ممکن نہیں یقین کی منزل بھی مل سکے
یا ایسا کچھ مصرع لگایا جائے تو بہتر ہے
8
نفرت ضروری تو نہیں ترکِ وفا کے ساتھ
اک اور انتخاب بھی ہے درمیان کا
.. ضروری کی ی کا اسقاط اور تو کی واو کا طویل کھنچنا روانی کو متاثر کر رہا ہے
نفرت ہی لازمی نہیں.... کیا جا سکتا ہے

ہر سمت کیوں بلند ہے شورِ فساد، جب
طالب ہر ایک شخص ہے امن و امان کا
... شور بلند ہونا بھی خلاف محاورہ ہے
ہر سمت کیوں مچا ہے یہ...
کیا جا سکتا ہے

فائق! چھپا سکا نہ دلِ غم زدہ کا حال
چہرے نے کام کر ہی دیا ترجمان کا
.. درست
 

محمد فائق

محفلین
عنوان تک پتہ نہیں طرزِ جہان کا
کم بخت وقت آن پڑا امتحان کا
... طرز کا عنوان؟ یہ محاورہ نہیں۔ مفہوم واضح نہیں پوا

منزل یقین کی، ہو میسر، بعید ہے
کٹتا نہیں ہے مرحلہ وہم و گمان کا
.... پہلے مصرع کا انداز بیان ذرا واضح نہیں۔ منزل ملنے کو منزل کا میسر ہونا بھی خلاف محاورہ ہے
ممکن نہیں یقین کی منزل بھی مل سکے
یا ایسا کچھ مصرع لگایا جائے تو بہتر ہے

نفرت ضروری تو نہیں ترکِ وفا کے ساتھ
اک اور انتخاب بھی ہے درمیان کا
.. ضروری کی ی کا اسقاط اور تو کی واو کا طویل کھنچنا روانی کو متاثر کر رہا ہے
نفرت ہی لازمی نہیں.... کیا جا سکتا ہے

ہر سمت کیوں بلند ہے شورِ فساد، جب
طالب ہر ایک شخص ہے امن و امان کا
... شور بلند ہونا بھی خلاف محاورہ ہے
ہر سمت کیوں مچا ہے یہ...
کیا جا سکتا ہے

فائق! چھپا سکا نہ دلِ غم زدہ کا حال
چہرے نے کام کر ہی دیا ترجمان کا
.. درست
بہت شکریہ سر رہنمائی کے لیے
طرزِ جہان کی جگہ درسِ جہان کیا جاسکتا ہے ؟ تا کہ شعر کا مفہوم واضح ہو جائے
منزل ملے یقین کی، دشوار ہے بہت
یہ مصرع درست رہے گا؟
 

محمد فائق

محفلین
آساں ذرا سفر نہیں راہِ جہان کا
ہر اک قدم بتاتا ہے یہ رفتگان کا

الجھے ہوئے ہیں اب بھی سوالاتِ زندگی
اور اس پہ وقت آن پڑا امتحان کا


ہنگامۂ حیات میں ہوتا نہ گم اگر
یا
ہوتا نہ گم ہجوم ِ غمِ روزگار میں
رہتا پتہ کچھ اپنے بھی نام و نشان کا
سر نئے سرے سے دو تین اشعار کیے ہیں برائے اصلاح
 

محمد فائق

محفلین
آساں ذرا سفر نہیں راہِ جہان کا
ہر اک قدم بتاتا ہے یہ رفتگان کا

الجھے ہوئے ہیں اب بھی سوالاتِ زندگی
اور اس پہ وقت آن پڑا امتحان کا


ہنگامۂ حیات میں ہوتا نہ گم اگر
یا
ہوتا نہ گم ہجوم ِ غمِ روزگار میں
رہتا پتہ کچھ اپنے بھی نام و نشان کا
سر نئے سرے سے دو تین اشعار کہے ہیں برائے اصلاح
@الف عین سر
 
Top