رابی پیرزادہ شوبز چھوڑنے کے بعد دین کی تبلیغ کی راہ پر

جاسم محمد

محفلین
رابی پیرزادہ شوبز چھوڑنے کے بعد دین کی تبلیغ کی راہ پر
ویب ڈیسک اتوار 15 دسمبر 2019
1917936-rabi-1576421372-776-640x480.jpg

میرا دین اتنا وسیع ہے کہ جو انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے اسے سنبھال لیتا ہے۔،رابی پیرزادہ


کراچی: سابق اداکارہ و گلوکارہ رابی پیرزادہ نے شوبز چھوڑنے کے بعد دین کی تبلیغ کی راہ اختیار کرلی ہے۔

رابی پیرزادہ نے یوٹیوب پر جاری کردہ ویڈیو میں بتایا کہ میری آج کی اور آج کے بعد کی چھوٹی سی بات اللہ پاک ، دین اور اللہ کے نبی رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے متعلق ہوگی، شوبزچھوڑنے کے بعد اسلام کی طرف رخ کیا تو میں نے سوچا کہ اللہ پاک کا دین لوگوں تک پہنچاؤں جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں نے مجھ پر تنقید کی اور کہا کہ پریشانی میں لوگ مذہب کا سہارا ہی ڈھونڈتے ہیں، لوگوں کی یہ بات بالکل درست ہے کیوں کہ میرا دین اتنا وسیع ہے کہ جو انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے اسے سنبھال لیتا ہے۔

رابی نے کہا کہ میں اپنی زندگی کی بات کروں تو میں سافٹ ویئرانجینئر ہوں اور دوران پڑھائی میں نے نوکری بھی کی تاہم کم عمری میں بے تحاشہ شہرت اور پیسے ملنے کی وجہ سے شعبہ ہی بدل گیا۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ میں سات سال کی عمر سے نماز پڑھ رہی ہوں۔ حتیٰ کہ ایسا بھی ہوا کہ مہینے بھر نماز نہیں پڑھ پاتی تھی لیکن سات سال کی عمر سے آج تک نماز سے میرا سلسلہ اور ضابطہ پوری طرح کبھی نہیں ٹوٹا۔

رابئ پیرزادہ نے اپنا مسلک بتاتے ہوئے کہا کہ میں سنی ہوں کیوں کہ میں سنت پر عمل کرتی ہوں، میں وہابی بھی ہوں، کیوں کہ الوہاب اللہ پاک کا نام ہے۔میں حنفی بھی ہوں کیوں کہ میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کو بھی مانتی ہوں اصل میں میرا مسلک اور میرا فرقہ مسلمان ہے کیوں کہ اللہ پاک نے ہم مسلمانوں کو قرآن پاک میں مسلم کہا ہے۔اُمید کرتی ہوں کہ میری یہ باتیں آپ لوگوں کو اثر کریں۔
 
اسلام کی حقانیت مسلم ہے۔یہ غیروں کو ہی نہیں ان اپنوں کا بھی زندگی کے ہر لمحے میں خیر مقدم کرتا ہے جو اس سے دور نکل جاتے ہیں۔
 
واقعی انسان مادیت پرستی میں ٹھوکر کھا کرہی واپس دین کی طرف لوٹتا ہے۔
تھپڑ کی تکلیف کا اندازہ اس کو کیسے ہو سکتاہے جس نے کبھی کھایا ہی نہ ہو۔مادیت پرستی بھی ایک تھپڑ ہی ہے تکلیف کے بعد ہی انسان نے ہمیشہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سیکھا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تھپڑ کی تکلیف کا اندازہ اس کو کیسے ہو سکتاہے جس نے کبھی کھایا ہی نہ ہو۔مادیت پرستی بھی ایک تھپڑ ہی ہے تکلیف کے بعد ہی انسان نے ہمیشہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سیکھا ہے۔
مومن کی فراست یہی ہے کہ وہ یہ تھپڑ کھانے سے قبل ہی سیدھا راستہ اپنا لیتا ہے۔
 

زیک

مسافر
سابق اداکارہ و گلوکارہ رابی پیرزادہ نے شوبز چھوڑنے کے بعد دین کی تبلیغ کی راہ اختیار کرلی ہے۔

رابی پیرزادہ نے یوٹیوب پر جاری کردہ ویڈیو میں بتایا
آپ بھی ٹرولنگ چھوڑ کر یوٹیوب پر دین کی تبلیغ پر کیوں نہیں نکل جاتے؟
 

زیرک

محفلین
سوال یہ ہے کہ رابی سمیت دیگر فنکاراؤں کو ننگا پن دکھانے کے بعد ہی اسلام کی چادر نظر کیوں نظر آتی ہے؟
اللہ اس کی توبہ قبول کرے لیکن مجھے تو یہ توبہ سے زیادہ منافقت ہی نظر نہیں آتی۔
میں مذہب کو ذاتی ایجنڈےکے استعمال کا سخت مخالف ہوں، یہ بندے اور رب کے درمیان کا رابطہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال یہ ہے کہ رابی سمیت دیگر فنکاراؤں کو ننگا پن دکھانے کے بعد ہی اسلام کی چادر نظر کیوں نظر آتی ہے؟
اللہ اس کی توبہ قبول کرے لیکن مجھے تو یہ توبہ سے زیادہ منافقت ہی نظر نہیں آتی۔
میں مذہب کو ذاتی ایجنڈےکے استعمال کا سخت مخالف ہوں، یہ بندے اور رب کے درمیان کا رابطہ ہے۔
بہرحال ہمیں بدزنی نہیں کرنی چاہئے۔ ہم لوگوں کے دلوں کا حال نہیں جان سکتے۔
 

جان

محفلین
سوال یہ ہے کہ رابی سمیت دیگر فنکاراؤں کو ننگا پن دکھانے کے بعد ہی اسلام کی چادر نظر کیوں نظر آتی ہے؟
چلیں جب بھی آتی ہے، جیسے بھی آتی ہے، آ تو جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ایک انسان اگر غلط راہ پہ چل پڑے تو دوبارہ کبھی رجوع ہی نہ کرے۔ مجھے تو خوشی ہوتی ہے جب کوئی پٹڑی پہ آنے کی ہلکی سی کوشش بھی کرے، یہی کوشش ہی انسان کے بس میں ہے اور یہی سرمایہ حیات ہے!
اللہ اس کی توبہ قبول کرے لیکن مجھے تو یہ توبہ سے زیادہ منافقت ہی نظر نہیں آتی۔
چونکہ ہم دل کا حال پڑھ نہیں سکتے لہذا ہمیں اچھا ہی گمان کرنا چاہیے اور تنقید کرنے کی بجائے خوش آمدید کہنا چاہیے، ممکن ہے وہ اسی میں عزت محسوس کرے اور ہمیشہ کے لیے تائب ہو جائے!
میں مذہب کو ذاتی ایجنڈے کے استعمال کا سخت مخالف ہوں، یہ بندے اور رب کے درمیان کا رابطہ ہے۔
متفق۔
 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
سوال یہ ہے کہ رابی سمیت دیگر فنکاراؤں کو ننگا پن دکھانے کے بعد ہی اسلام کی چادر نظر کیوں نظر آتی ہے؟
اللہ اس کی توبہ قبول کرے لیکن مجھے تو یہ توبہ سے زیادہ منافقت ہی نظر نہیں آتی۔
میں مذہب کو ذاتی ایجنڈےکے استعمال کا سخت مخالف ہوں، یہ بندے اور رب کے درمیان کا رابطہ ہے۔
زیرک بھائی اس میں مخالفت کی کیا بات فنکار کی توبہ میں فنکاری تو ہو گی نا ! :)
 

زیرک

محفلین
زیرک بھائی اس میں مخالفت کی کیا بات فنکار کی توبہ میں فنکاری تو ہو گی نا ! :)
پہلے بندے ہو جو بات کی گہرائی کو سمجھے ہو کہ اس دجالی طبقے کی پر بات ایک چال ہوتی ہے، کبھی یہ لباس اتار کر ننگ دھڑنگ تماشا دکھا کر عوام کو خراب کرتے ہیں اور کبھی توبہ کا ڈھونگ رچا کر مذہب کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تاکہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔ ان کے اس طرح کے ڈرامے میں یہ پیغام بھیانک پیغام چھپا ہوتا ہے کہ آپ بھی ایسا کر دیکھئے، اس کا مزہ بھی چکھ دیکھئے۔ توبہ بے شک انسان اور اللہ کے مابین رابطے کا ذریعہ ہے اللہ کی ذات جسے چاہے معاف کرے لیکن یہ دجالی طبقہ سب سے زیادہ خطرناک ہے جو معاشرے میں گناہ کی عجیب و غریب طریقے سے نہ صرف ترغیب دیتا بلکہ ساتھ ساتھ ہی توبہ کے نام پر اسے بتاتا ہے کہ کر لے معاف کرنے والا تو وہ بیٹھا ہے۔بے شک توبہ کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوا ہے لیکن میری نظر میں ایسا عام افراد کے لیے ہے جو گناہ کی ترغیب دیں اور توبہ کا ڈھونگ رچائیں میری نظر میں ان کے لیے یہ در بند ہو چکا ہے۔
 
اللہ جی قبول و مقبول فرمائیں۔ آمین

میں مذہب کو ذاتی ایجنڈےکے استعمال کا سخت مخالف ہوں، یہ بندے اور رب کے درمیان کا رابطہ ہے۔
کرتوت وغیرہ شو بز سے مشہور ہوئے تھے تو توبہ کا اعلان بھی وہیں سے بنتا تھا۔ :)
 

جان

محفلین
اس دجالی طبقے کی پر بات ایک چال ہوتی ہے، کبھی یہ لباس اتار کر ننگ دھڑنگ تماشا دکھا کر عوام کو خراب کرتے ہیں اور کبھی توبہ کا ڈھونگ رچا کر مذہب کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تاکہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔
انتہائی ادب سے اختلاف کی جسارت کرنا چاہوں گا، جو آپ نے بات کہی وہ صرف ایک پہلو ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ ایسا نہیں ہوتا یا ہو سکتا لیکن ضروری نہیں کہ ہر بار ہی یہی ہو۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے سچے دل سے توبہ کی ہو۔ کوئی بھی شخص جس نے واپسی کا راستہ اختیار کیا ہو یہ گمان بہرحال موجود رہتا ہے کہ آیا اس کی توبہ سچی ہے یا نہیں لیکن میری ذاتی رائے اس معاملے میں یہ ہے کہ یہ جانچنا خدا کا کام ہے۔ مجھے نجانے کیوں لگتا ہے ہم انفیریریٹی کمپلیکس کا شکار ہیں کہ جو ہمیں پسند نہیں ہوتا یا ہم میں اور اس میں مالی، تمدنی، لسانی یا جغرافیائی تفریق ہو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے اچھے عمل کو بھی ناقدانہ اور شک کی نگاہ سے دیکھا جائے حالانکہ توبہ کا حق ایک عام آدمی کو بھی اتنا ہی حاصل ہے جتنا کسی شوبز کے آدمی کو، کسی بزنز مین کو، کسی 'ممی ڈیڈی' طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو، کسی وکیل کو، ڈاکٹر کو، عربی کو، عجمی کو، گورے کو، کالے کو، انگریز کو، بنگالی کو۔ دین ہماری میراث نہیں ہے کہ ہم خود کو دوسروں سے بہتر سمجھیں۔ عین ممکن ہے ایک طبقہ ہمیں دین سے دور معلوم ہوتا ہو لیکن اس میں بھی کئی شخص ایسے ہوں جن کا معیارِ دین ہم سے بہتر ہو۔ آپ کی یہ تنقید اس بات کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ جیسے دین کسی خاص طبقے کی میراث ہو جو ہم عمومی طور پر مڈل کلاس یا غریب سے منسوب کرتے ہیں۔
ان کے اس طرح کے ڈرامے میں یہ پیغام بھیانک پیغام چھپا ہوتا ہے کہ آپ بھی ایسا کر دیکھئے، اس کا مزہ بھی چکھ دیکھئے۔ توبہ بے شک انسان اور اللہ کے مابین رابطے کا ذریعہ ہے اللہ کی ذات جسے چاہے معاف کرے لیکن یہ دجالی طبقہ سب سے زیادہ خطرناک ہے جو معاشرے میں گناہ کی عجیب و غریب طریقے سے نہ صرف ترغیب دیتا بلکہ ساتھ ساتھ ہی توبہ کے نام پر اسے بتاتا ہے کہ کر لے معاف کرنے والا تو وہ بیٹھا ہے۔
میرے نزدیک یہ ایک گمان ہے، اگر ایک شخص نے غلط کام کیا ہو تو ہم اس بات پر اس کی پوری برادری کو ایک ہی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے یا ایک ہی پلڑے میں نہیں تول سکتے! کون دجالی طبقہ ہے کون نہیں کیا آپ کے پاس اس کی سند ہے؟ گنہگار یقیناً ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں، کیا گارنٹی ہے کہ ہم خود کو دوسروں کی نسبت ایک اچھا مسلمان تصور کریں؟ کیا گناہ کی ترغیب دینے والے صرف شوبز میں ہی ہیں، عام معاشرے میں نہیں ہیں؟ اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ ایک ممبر پہ بیٹھا شخص گناہ کی ترغیب نہیں دے سکتا؟
ے شک توبہ کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوا ہے لیکن میری نظر میں ایسا عام افراد کے لیے ہے جو گناہ کی ترغیب دیں اور توبہ کا ڈھونگ رچائیں میری نظر میں ان کے لیے یہ در بند ہو چکا ہے۔
توبہ کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا ہے کیونکہ یہ رب اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہے۔ یہ دروازہ کھولنا بھی رب نے ہے اور بند بھی رب نے کرنا ہے، ہمارے 'ڈھونگ' کا گمان کرنے سے نہ تو ہماری اس دروازے کے کھولنے تک رسائی ہے اور نہ ہی بند کرنے کی! اس لیے ہمیں ہمیشہ ہر شخص کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے بجائے اس کے ہم کسی کے اچھے عمل کو بھی تنقید کے پلڑے میں تولیں۔ ہمیں یہ دعا مانگنی چاہیے یا اللہ اگر یہ شخص 'ڈھونگ' بھی رچا رہا ہے تو بھی اس کو ہدایت دے اور اس کو اس کے حق میں بہتر فرما دے! کفر کے فتوے بانٹنا آسان کام ہے اور کسی کے لیے ہدایت کی دعا کرنا اور نیکی کی طرف راغب کرنا یا اس کی کوشش کرنا مشکل کام ہے سو چاہے کوئی ہلکا سا بھی اسلام کی طرف راغب ہو ہمیں بخوشی قبول کرنا چاہیے اور اس کی تمام حوالوں سے معاونت کرنی چاہیے چاہے اگلے کا مقصد کچھ بھی ہو! اگر سامنے والی کی بھی نیت ٹھیک ہو اور رب کی رضا کی طلب گار ہو تو گنہگار شخص کا رستہ بدلنے میں وقت نہیں لگتا! ہدایت اسی کے پاس ہے اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں!
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
توبہ کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا ہے کیونکہ یہ رب اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہے۔
یہی بات میں سمجھانا چاہ رہا تھا کہ توبہ بندے اور اللہ کے مابین کا معاملہ ہے، اسے پرائیویٹ ہی رہنا چاہیے۔ لیکن اسے ڈرامہ بنا کر پیش کرنا غلط ہے، اس سے نوجوان نسل میں گناہ کر کے توبہ ترغیب پیدا ہوتی ہے، جبکہ اچھائی یہ ہے کہ اس سے کئے بغیر ہی نجات پائی جائے۔
میرے خیالات سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، میں نے آپ کی باتوں کو بھی آپ کے خیالات کی نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے، ضروری نہیں کہ اختلاف نظر کو ذاتی اختلاف بنایا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انتہائی ادب سے اختلاف کی جسارت کرنا چاہوں گا، جو آپ نے بات کہی وہ صرف ایک پہلو ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ ایسا نہیں ہوتا یا ہو سکتا لیکن ضروری نہیں کہ ہر بار ہی یہی ہو۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے سچے دل سے توبہ کی ہو۔ کوئی بھی شخص جس نے واپسی کا راستہ اختیار کیا ہو یہ گمان بہرحال موجود رہتا ہے کہ آیا اس کی توبہ سچی ہے یا نہیں لیکن میری ذاتی رائے اس معاملے میں یہ ہے کہ یہ جانچنا خدا کا کام ہے۔ مجھے نجانے کیوں لگتا ہے ہم انفیریریٹی کمپلیکس کا شکار ہیں کہ جو ہمیں پسند نہیں ہوتا یا ہم میں اور اس میں مالی، تمدنی، لسانی یا جغرافیائی تفریق ہو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے اچھے عمل کو بھی ناقدانہ اور شک کی نگاہ سے دیکھا جائے حالانکہ توبہ کا حق ایک عام آدمی کو بھی اتنا ہی حاصل ہے جتنا کسی شوبز کے آدمی کو، کسی بزنز مین کو، کسی 'ممی ڈیڈی' طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو، کسی وکیل کو، ڈاکٹر کو، عربی کو، عجمی کو، گورے کو، کالے کو، انگریز کو، بنگالی کو۔ دین ہماری میراث نہیں ہے کہ ہم خود کو دوسروں سے بہتر سمجھیں۔ عین ممکن ہے ایک طبقہ ہمیں دین سے دور معلوم ہوتا ہو لیکن اس میں بھی کئی شخص ایسے ہوں جن کا معیارِ دین ہم سے بہتر ہو۔ آپ کی یہ تنقید اس بات کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ جیسے دین کسی خاص طبقے کی میراث ہو جو ہم عمومی طور پر مڈل کلاس یا غریب سے منسوب کرتے ہیں۔

میرے نزدیک یہ ایک گمان ہے، اگر ایک شخص نے غلط کام کیا ہو تو ہم اس بات پر اس کی پوری برادری کو ایک ہی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے یا ایک ہی پلڑے میں نہیں تول سکتے! کون دجالی طبقہ ہے کون نہیں کیا آپ کے پاس اس کی سند ہے؟ گنہگار یقیناً ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں، کیا گارنٹی ہے کہ ہم خود کو دوسروں کی نسبت ایک اچھا مسلمان تصور کریں؟ کیا گناہ کی ترغیب دینے والے صرف شوبز میں ہی ہیں، عام معاشرے میں نہیں ہیں؟ اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ ایک ممبر پہ بیٹھا شخص گناہ کی ترغیب نہیں دے سکتا؟
توبہ کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا ہے کیونکہ یہ رب اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہے۔ یہ دروازہ کھولنا بھی رب نے ہے اور بند بھی رب نے کرنا ہے، ہمارے 'ڈھونگ' کا گمان کرنے سے نہ تو ہماری اس دروازے کے کھولنے تک رسائی ہے اور نہ ہی بند کرنے کی! اس لیے ہمیں ہمیشہ ہر شخص کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے بجائے اس کے ہم کسی کے اچھے عمل کو بھی تنقید کے پلڑے میں تولیں۔ ہمیں یہ دعا مانگنی چاہیے یا اللہ اگر یہ شخص 'ڈھونگ' بھی رچا رہا ہے تو بھی اس کو ہدایت دے اور اس کو اس کے حق میں بہتر فرما دے! کفر کے فتوے بانٹنا آسان کام ہے اور کسی کے لیے ہدایت کی دعا کرنا اور نیکی کی طرف راغب کرنا یا اس کی کوشش کرنا مشکل کام ہے سو چاہے کوئی ہلکا سا بھی اسلام کی طرف راغب ہو ہمیں بخوشی قبول کرنا چاہیے اور اس کی تمام حوالوں سے معاونت کرنی چاہیے چاہے اگلے کا مقصد کچھ بھی ہو! اگر سامنے والی کی بھی نیت ٹھیک ہو اور رب کی رضا کی طلب گار ہو تو گنہگار شخص کا رستہ بدلنے میں وقت نہیں لگتا! ہدایت اسی کے پاس ہے اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں!
تمام اعتراضات کا ایک جواب: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے :)
 
Top