سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

جاسم محمد

محفلین
وفاقی حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے سیاسی رابطے شروع کر دیے

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی قیادت سے ملاقات کی۔

ملاقات میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، حلیم عادل شیخ، ایم کیو ایم رہنما و وفاقی وزیر خالد مقبول، فروغ نسیم اور عامر خان سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے مشکل حالات میں ساتھ دیا اور اب بھی ساتھ ہے، آج ایم کیو ایم کی قیادت سے گفتگو ہوئی اور اسلام آباد میں اگلی ملاقات سود مند ہوگی۔

اس موقع پر ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہماری پالیسی واضح ہے، وفاقی حکومت کی غیر مشروط حمایت جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے مطالبات پر وفاقی حکومت کے کام کی رفتار بہت سست ہے، جمہوری حکومتیں کراچی کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہوئے کردار ادا کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے حصے کی تمام ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، معیشت سنبھلنا شروع ہوگئی ہے، ملک مسائل سے نکل چکا ہے لہٰذا سندھ کے شہری علاقوں پر فوری توجہ دی جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو 6 ماہ میں قانون سازی کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دی تھی۔

حکومتی وزراء کی جانب سے متعدد بار کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع 6 ماہ کی مہلت سے قبل ہوجائے گی تاہم پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کا کہنا ہے کہ جن سے ایک نوٹی فکیشن نہیں بن سکا، وہ ایوان میں 6 ماہ میں کیسے اتفاق رائے پیدا کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
الحمد للہ ایکسٹینشن کی ٹینشن ختم ہوئی
یقیناً جسٹس کھوسہ تاریخ میں اس کیس کی وجہ سے جسٹس ثاقب نثار سے بھی بلند مقام پائیں گے۔ قوم اب اپنے عسکری محسنوں سے کبھی دور نہیں ہو گی۔ چاہے وہ کتنی مرتبہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔

سید طلعت حسین
تجزیہ کار @TalatHussain12
سوموار 2 دسمبر 2019 8:00

55826-1100887428.jpg

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس سال لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان کے میچ کے دوران (اے ایف پی)

شکر الحمد اللہ اسلام آباد سے ایکسٹینشن کی ٹینشن ختم ہو گئی۔ اس قوم کے ہیرو جنرل قمر باجوہ ایکس نہیں ہوئے بلکہ ایکسٹینڈ ہو گئے۔ یہ کیسی بدقسمتی ہوتی اگر وہ 28 تاریخ کو فوجی سربراہ کے عہدے پر محض تین سال گزارنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے۔

ہم سب یہ کیسے برداشت کرتے؟ اس دکھ کو چھلنی سینے پر کیسے سہتے؟ ابھی تو ماضی کے صدمات کا اثر ہی نہیں گیا۔ قوم ایوب خان کی رخصتی پر ابھی بھی چپکے چپکے سسکیاں لیتی ہے۔ کبھی کبھار مانسہرہ کی سڑک پر ٹرک کے پیچھے ان کی دھندلائی ہوئی تصویر قوم کے جذبات کی اس تحریر کے ساتھ عکاسی کرتی ہے کہ ’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔‘ ہم یحییٰ خان کو بھی یاد کرتے ہیں۔ ہم ان کے 1971 کی جنگ جیتنے کے دبنگ بیانات پڑھ کر اب بھی جی کو گرماتے ہیں۔

جنرل گل حسن کی یادداشتیں اور جنرل ٹکا کے کارنامے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ان کی جدائی کتنی تکلیف دہ ہے۔ سانحات کا یہ تاریخی سلسلہ ضیاء الحق کے سنہری دور اور جنرل مشرف کی عظیم قیادت سے بھی رقم کیا ہوا ہے۔ کاش یہ دونوں ادوار ختم نہ ہوتے۔ کاش یہ دونوں عسکری قائد ہم میں موجود ہوتے اور ہم اپنی آنکھوں سے ان کی عظمت کی دلیلوں کو ہمیشہ سے دلوں پر نقش کرتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ افسوس صد افسوس۔

اور تو اور جنرل اسلم بیگ، آصف نواز، جہانگیر کرامت، راحیل شریف اور جنرل کیانی یہ سب بھی ہمیں چھوڑ گئے۔ ایک قوم کتنے صدمے برداشت کر سکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں آ کر تو اس کا حوصلہ جواب دے ہی جائے گا۔ عسکری قائدین کا ہم کو چھوڑ کے جانا کھال کا جسم سے جدا ہونا ہے۔ کچھ ایسا ہی تکلیف دہ عمل ہے جیسا جنرل پرویز مشرف وردی کو اپنے تن سے جدا کرنے کے امکان پر بات کرتے ہوئے بیان کیا کرتے تھے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے درد پر ایک حتمی مرہم رکھ دیں۔ خدا نے اگر جنرل باجوہ ہمیں مہیا کر دیے ہیں تو ہمیں ان کو جانے نہیں دینا۔ صحیح کہا وزیر اعظم عمران خان نے کہ جنرل باجوہ کی قیادت کا تسلسل دشمنوں کی سازشوں کا منہ توڑ جواب ہے۔ بالکل درست تھیں وہ تمام خصوصی رپورٹیں جو ہر چینل نے جنرل باجوہ کے کارناموں کے حوالے سے ترتیب دیں جس میں ان کو اپنی ڈاکٹرائن کا بانی قرار دیتے ہوئے وہ تمام کارنامے گنوائے جو انہوں نے ہر قومی محاذ پر سر انجام دیے۔

بالکل صحیح ہیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب وہ فرماتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے عہدے کی مدت کا معاملہ ایک قومی بحران تھا جو احسن طریقے سے حل ہو گیا۔ بطور وزیر خارجہ ان کو علم ہے کہ کشمیر میں بدترین مظالم، بھارت کی پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازشیں، ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بلیک لسٹ کر دینے کا خطرہ، یہ خبریں کہ امریکی ہمارے ایٹمی راز چرانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں، یہ سب اتنے سنگین قومی بحران نہیں ہیں، جتنا بڑا آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے بنا۔

جبھی تو جنرل قمر باجوہ خود سے چل کے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے جہاں انہوں نے میڈیا رپورٹوں کے مطابق اپنے عہدے سے متعلق تیسرے نوٹیفیکیشن کی ترتیب و تحریر میں اپنی رائے شامل کروائی۔ محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ شاید اس معاملے کی نزاکت اپنے تمام تر تجربے اور قانونی مہارت کے باوجود صحیح طور پر بھانپ نہیں پائے اور یہ بیان جاری ہوا کہ دفاعی معاملات پر نظر رکھنے کی بجائے قانونی سمریوں پر توجہ مبذول کرنا کوئی احسن قدم نہیں۔

عین ممکن ہے کہ چیف جسٹس کھوسہ کا یہ بیان میڈیا نے صحیح رپورٹ نہ کیا ہو۔ تمام تر تبلیغ اور ففتھ جنریشن وار فیئر کے جھٹ پٹ تربیتی کورس کروانے کے باوجود ذرائع ابلاغ میں شیطانیت سے بھرپور عناصر موجود ہیں۔ ان کی طرف سے چیف جسٹس کو سیاق و سباق کے بغیر رپورٹ کرنے کا امکان بھی بہرحال موجود ہے۔

مگر ہمیں یہ بات ماننی ہو گی کہ جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے ہیجان نے اس غلط فہمی کی کوکھ سے جنم لیا کہ شاید تین رکنی بینچ کا قانونی اور آئینی جائزہ کسی غیر معمولی صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔

پہلے دو دن جج صاحبان کے ریمارکس نے اس تصور کو فروغ دیا کہ جیسے وہ خدا نخواستہ ایسے رستے پر چل نکلے ہیں کہ جس کے اختتام پر قوم کو جنرل قمر باجوہ سے بچھڑنا پڑے۔ تینوں جج صاحبان نے قانونی و آئینی و روایتی و اخلاقی و منطقی جزیات پر اتنی توجہ دی کہ اس سانحے کا امکان ہر طرف پھیل گیا۔

مثلاً جب بینچ سے یہ مشاہدہ آیا کہ ایک ریٹائرڈ جنرل دوبارہ اپنے پرانے عہدے پر کیسے فائز ہو سکتا ہے تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ جب یہ کہا گیا کہ قانون میں نہ دوبارہ تعیناتی کی گنجائش ہے اور نہ ایکسٹینشن کی، تو ٹینشن حد سے بڑھ گئی۔

پھر جب یہ راز افشا ہوا کہ پچھلے 72 سال میں ہم نے اپنے عظیم عسکری قائدین کو تعینات کرتے وقت ان سے جدائی کی مدت قانونی طور پر طے ہی نہیں کی تو یہ کوفت حد سے بڑھ گئی کہ ایسے سوال اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب بینچ نے درخواست گزار کی ایسی درخواست کو جھٹ سے قابلِ سماعت قرار دیا جس کا نہ کوئی قانونی سر تھا نہ پیر تو تمام قوم شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گئی کہ یہ سب کچھ حکومت کی طرف سے آرمی چیف کو مزید تین سال دینے کے فیصلے کے باوجود کیوں کیا جا رہا ہے؟

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سمری وزیر اعظم نے صدر کو بھیجی یا صدر نے وزیر اعظم کو۔ وزارتِ دفاع نے تعیناتی کا لفظ استعمال کیا یا وزیر اعظم نے توسیع کی بات کی۔ ایک سمری بنی یا تین۔ سمری کا متن پنڈی سے آیا یا آبپارہ سے۔ بنی گالہ میں بنا یا فون پر ڈکٹیشن دی گئی۔ بڑے مقاصد سے نظر ہٹا کر ان چھوٹے چھوٹے سوالوں پر وقت کا ضیاع ناقابلِ بیان اندرونی درد اور تکلیف کا باعث بنا۔

کچھ مزاج کے تیز اور بے لگام مگر محب وطن حلقوں نے محترم جج صاحبان کے خلاف خواہ مخواہ الزامات کی بوچھاڑ بھی کر دی۔ کسی نے ان کو بھارت کا ایجنٹ بنا دیا، ایک نے سی آئی اے کی خطرناک سازش سے جوڑ دیا۔ کچھ نے سی آئی اے، را اور افغانستان انٹیلی جنس ایجنسی کے اکٹھ کو تین رکنی بینچ سے عددی اور نظریاتی طور پر منسلک کیا۔

یہ قوم کا غصہ تھا جو صرف اس غلط فہمی کی وجہ سے ابل کے سامنے آ رہا تھا کہ شاید تین رکنی بینچ ہمارے صدمات میں اضافہ کر دے گا اور (ہمارے منہ میں خاک اور سر میں راکھ) جنرل باجوہ کی جگہ کسی اور کو فوج کی کمان سنبھالنے کی بنیاد بنا دے گا۔ مگر تیسرے دن جج صاحبان نے ان تمام غلط فہمیوں کو دور کر دیا۔ اندھیری گھٹائیں چھٹ گئیں۔

قوم نے ایسے سکھ کا سانس لیا کہ جیسے ایک ماں اپنے بچے کو آناً فاناً ٹرک کے سامنے سے ہٹا کر لیتی ہے۔ جج صاحبان نے خود سے جنرل قمر باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع دے دی اور حکومت کو یہ سہولت مہیا کی کہ وہ اس سے متعلق قانون بعد میں بنا دے۔

توسیع دینے سے متعلق معزز بینچ نے اپنے پہلے آرڈر میں بیان کیے ہوئے تقریباً تمام اعتراضات اور سوالات کا خود ہی موثر جواب دے دیا۔ پہلے لکھا کہ فوج بطور ادارہ قوم کا دفاع کرتی ہے۔ بعد میں قوم کو خود ہی بتایا کہ فوجی سربراہ کی مرکزیت کیا ہے۔ پہلے آرڈر میں تحریر ہوا کہ قوم کے دفاع میں افراد کی اہمیت بہت کم ہے۔ دوسرے آرڈر میں یہ واضح کر دیا کہ ایک فرد سے ہی ملت میں استحکام ہے۔

پہلے میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ خطرناک علاقائی صورت حال کو بنیاد بنا کر ہمارے ناقابلِ تسخیر دفاع پر مامور ہر شخص اپنے عہدے میں توسیع چاہے گا۔ دوسرے آرڈر میں جنرل باجوہ کے لیے توسیع کا عدالتی بندوبست کیا۔

پہلے دو دن ہم یہ اعتراض سن رہے تھے کہ توسیع اور دوبارہ تعیناتی کو اگر مان لیا جائے تو قابل سپہ سالار 30 سال تک بھی ریٹائرڈ نہیں ہوں گے۔ آخری آرڈر میں قانون سازی کے ذریعے اس امکان کو قانونی بنیاد فراہم کر دی کہ عظیم سپاہ سالار نہ صرف تین سال مزید حاصل کر سکیں گے بلکہ ان قواعد و ضوابط میں مدت ملازمت میں مزید توسیع کی گنجائش بھی پیدا کی جا سکتی ہے، یعنی 10 سال بھی ہو سکتے ہیں۔

کابینہ سے وقتی مستعفی ہونے والے فروغ نسیم کے لائسنس پر اعتراضات یکسر غائب ہو گئے اور معزز بینچ نے ان ہی سے قانون سازی کی ضمانت طلب کی، اگرچہ وہ عدالت میں کابینہ کے نہیں بلکہ جنرل باجوہ کے نمائندہ کے طور پر پیش ہوئے تھے۔

اب حالات قابو میں ہیں۔ ہر کوئی اپنی پرانی جگہ پر خوش ہے۔ اسلام آباد کا موسم صاف ہے۔ کشمیر کی آزادی، پاکستان کی کامیابی، معیشت کی ترقی، عوام کا تحفظ، دشمن کی ناکامی ان سب کے دن آن پہنچے ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک بڑے منصف ہیں۔ ان میں تحمل بھی ہے اور اپنے حکم کی تعمیل کروانے کی جرات بھی۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ جج صاحبان کو غیرملکی ایجنٹ قرار دینے والی مہم پر صرف چند جملوں میں اعتراض کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ اس کو عدالت کی کمزوری نہ سمجھا جائے کیوں کہ جس دن اس تحمل کا مظاہرہ ہوا اسی دن طلال چوہدری کی توہین عدالت کی ریویو پٹیشن کو ایک اور بینچ نے ایسے خارج کیا جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے اور یہ ثابت کیا کہ عدالت اپنے تقدس کا دفاع جانتی ہے۔

جسٹس کھوسہ نے ایک غیر موجود قانون کے باوجود جنرل قمر باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع اور اس کے بعد قانون سازی کے ذریعے تین سال یا اس سے زائد مدت ملازمت کی بنیاد فراہم کر کے قوم کے دل جیتے۔ تو دوسری طرف سب کو اس امر کی یاد دہانی بھی کروائی کہ انہوں نے دو وزیر اعظم کو فارغ کر کے ایک بے رحم انصاف کا سنہرا اصول بھی مرتب کیا۔

یقیناً جسٹس کھوسہ تاریخ میں اپنے ان اقدامات کی وجہ سے جسٹس ثاقب نثار سے بھی بڑا اور بلند مقام پائیں گے۔ انہوں نے اسلام آباد میں سے ایکسٹینشن کی ٹینشن ہمیشہ کے لیے نکال دی ہے۔ قوم اب اپنے عسکری محسنوں سے کبھی دور نہیں ہو گی۔ وہ ہمیشہ ہم میں موجود رہیں گے۔ چاہے وہ کتنی مرتبہ ریٹائر ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔
 

فرقان احمد

محفلین
انڈین میڈیا میں چلنے والے یہ خبر بھی دیکھیے، جس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ سات جرنیلوں نے مل کر جنرل باجوہ کی تین سال کی توسیع روکنے کی کوشش کی۔
7 Pak Generals teamed up with SC chief justice to block Qamar Javed Bajwa's extension
اس خبر میں کافی حد تک صداقت معلوم ہوتی ہے گو کہ یہ انڈین میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔ البتہ، یہاں بھی سینہ بہ سینہ یہی خبر سرکولیشن میں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انڈین میڈیا میں چلنے والے یہ خبر بھی دیکھیے، جس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ سات جرنیلوں نے مل کر جنرل باجوہ کی تین سال کی توسیع روکنے کی کوشش کی۔
The list of disgruntled generals includes Corps Commander Multan Lt Gen Sarfraz Sattar who was on top of the seniority list for appointment as the Chief of Army Staff; Lt Gen Nadeem Raza, Lt Gen Humayun Aziz, Lt Gen Naeem Ashraf, Lt Gen Sher Afghan and Lt Gen Qazi Ikraam​
 

جاسم محمد

محفلین
کنٹینر سے اتر جائیے اب۔
اول تو بھارتی میڈیا کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور اگر یہ خبر درست بھی ہے تو کیا آئی ایس آئی اس سارے معاملہ سے قبل ستو پی کر سوئی ہوئی تھی کہ 7 حاضر سروس جرنیل چیف جسٹس کے ساتھ مل کر جنرل باجوہ کی توسیع میں رکاوٹ بننے جا رہے ہیں؟
اسٹیبلشمنٹ اگر خلاف آئین و قانون سویلین حکومت کو سلیکٹ کر کے اقتدار میں لائی ہے تو اس کا جاری کردہ ایکسٹینشن کا فرمان بھی ماننا پڑے گا۔ بار بار ان کی نظام میں مداخلت نہیں چلے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
اول تو بھارتی میڈیا کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور اگر یہ خبر درست بھی ہے تو کیا آئی ایس آئی اس سارے معاملہ سے قبل ستو پی کر سوئی ہوئی تھی کہ 7 حاضر سروس جرنیل چیف جسٹس کے ساتھ مل کر جنرل باجوہ کی توسیع میں رکاوٹ بننے جا رہے ہیں؟
اسٹیبلشمنٹ اگر خلاف آئین و قانون سویلین حکومت کو سلیکٹ کر کے اقتدار میں لائی ہے تو اس کا جاری کردہ ایکسٹینشن کا فرمان بھی ماننا پڑے گا۔ بار بار ان کی نظام میں مداخلت نہیں چلے گی۔
سات جرنیلوں کا اکٹھ اور ان کا اعلیٰ عدلیہ میں رسوخ اور ملکی معاملات میں موثر انداز میں دخل کوئی چھوٹا واقعہ نہیں جسے نظرانداز کر دیا جائے۔ ملٹری اسٹیبلشیہ یقینی طور پر مسٹر باجوہ کا فرمان ہی تسلیم کرنے کی پابند ہے تاہم درونِ خانہ یہ ہنگامے، اور یہ سرد جنگ ریاستِ پاکستان کے لیے کسی بہت بڑے خطرے سے کم نہیں۔ ابھی چھ ماہ کی گیم سامنے آئی ہے تاہم یہ جرنیل ممکنہ طور پر نچلے نہیں بیٹھیں گے اور آنے والے مارچ تک مزید ہلچل کا امکان ہے۔
 
انڈین میڈیا میں چلنے والے یہ خبر بھی دیکھیے، جس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ سات جرنیلوں نے مل کر جنرل باجوہ کی تین سال کی توسیع روکنے کی کوشش کی۔
7 Pak Generals teamed up with SC chief justice to block Qamar Javed Bajwa's extension
میرے پاس مکمل خبر نہیں کھل پا رہی۔ کیا آپ مکمل کاپی کر سکتے ہیں ؟
The list of disgruntled generals includes Corps Commander Multan Lt Gen Sarfraz Sattar who was on top of the seniority list for appointment as the Chief of Army Staff; Lt Gen Nadeem Raza, Lt Gen Humayun Aziz, Lt Gen Naeem Ashraf, Lt Gen Sher Afghan and Lt Gen Qazi Ikraam​

سات جرنیلوں کا اکٹھ اور ان کا اعلیٰ عدلیہ میں رسوخ اور ملکی معاملات میں موثر انداز میں دخل کوئی چھوٹا واقعہ نہیں جسے نظرانداز کر دیا جائے۔ ملٹری اسٹیبلشیہ یقینی طور پر مسٹر باجوہ کا فرمان ہی تسلیم کرنے کی پابند ہے تاہم درونِ خانہ یہ ہنگامے، اور یہ سرد جنگ ریاستِ پاکستان کے لیے کسی بہت بڑے خطرے سے کم نہیں۔ ابھی چھ ماہ کی گیم سامنے آئی ہے تاہم یہ جرنیل ممکنہ طور پر نچلے نہیں بیٹھیں گے اور آنے والے مارچ تک مزید ہلچل کا امکان ہے۔
کچھ نکات کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔
ملٹری اسٹیبلیشمنیٹ میں بھی اہم ترین پوسٹس پر ’اپنا‘ بندہ لگانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ جن سات آٹھ جرنیلوں کے نام بھارتی میڈیا نے لکھے ہیں وہ بس ’ایویں‘ ہی لکھ دئیے ہیں۔

مقامی کور کمانڈر ، جی او سی چنار ڈیوژن اور ڈی جی مارخور صاحبان باجوہ جی کے ’اپنے‘ بندے ہیں، مزید وضاحت پبلک فورم پر نہیں کی جا سکتی۔ یہی تین کمانڈز کسی بھی ممکنہ اتھل پتھل کے فرنٹ مین ہوتے ہیں۔ باجوہ صاحب فی الحال تک بہت ہی سیف کھیل رہے ہیں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
مقامی کور کمانڈر ، جی او سی چنار ڈیوژن اور ڈی جی مارخور صاحبان باجوہ جی کے ’اپنے‘ بندے ہیں، مزید وضاحت پبلک فورم پر نہیں کی جا سکتی۔ یہی تین کمانڈز کسی بھی ممکنہ اتھل پتھل کے فرنٹ مین ہوتے ہیں۔ باجوہ صاحب فی الحال تک بہت ہی سیف کھیل رہے ہیں۔
اور ڈی جی آئی ایس پی آر؟ جس نے پچھلے سال الیکشن سے قبل اعلان کیا تھا کہ “۲۰۱۸ تبدیلی کا سال ہے” :)
 

جاسم محمد

محفلین
مقامی کور کمانڈر ، جی او سی چنار ڈیوژن اور ڈی جی مارخور صاحبان باجوہ جی کے ’اپنے‘ بندے ہیں، مزید وضاحت پبلک فورم پر نہیں کی جا سکتی۔ یہی تین کمانڈز کسی بھی ممکنہ اتھل پتھل کے فرنٹ مین ہوتے ہیں۔ باجوہ صاحب فی الحال تک بہت ہی سیف کھیل رہے ہیں۔ :)
بس پیٹی بند بھائیوں اور آم کی پیٹیوں پر نظر رکھیے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے پاس مکمل خبر نہیں کھل پا رہی۔ کیا آپ مکمل کاپی کر سکتے ہیں ؟
NEW DELHI: Seven Generals of the Pakistan Army joined hands with Supreme Court chief justice Asif Saeed Khosa to block the Imran Khan government’s move to grant three-year extension to Pakistan Army chief General Qamar Javed Bajwa.

ET has learnt that the seven Generals, including one who had served as a defence attache in Pakistan High Commission in Delhi, were opposed to granting a three-year extension. to Bajwa as this would spoil their chances for the coveted post. The list of disgruntled generals includes Corps Commander Multan Lt Gen Sarfraz Sattar who was on top of the seniority list for appointment as the Chief of Army Staff; Lt Gen Nadeem Raza, Lt Gen Humayun Aziz, Lt Gen Naeem Ashraf, Lt Gen Sher Afghan and Lt Gen Qazi Ikraam.

Chief of General Staff Lt Gen Bilal Akbar stood at the seventh place on the seniority list to succeed Bajwa. Not all of them would have publicly opposed Bajwa, but the senior-most ones were strongly opposed to Bajwa’s attempts to manipulate the system to stay at the top, and reportedly teamed up with Pakistan Supreme Court chief justice to block the move.

Lt Gen Sattar (senior-most after Bajwa) is said to have finally resigned after being superseded. He is also said to have had a row with Bajwa a few weeks ago, having accused him of ruining the army’s image. Sattar was the most senior General on November 29, the day Bajwa was supposed to retire. Earlier, he had served as military intelligence chief, Infantry Division Sialkot Commanding Officer and as the defence attache in India. Sources claimed that General (retd) Raheel Sharif, before his retirement as Chief of Army Chief, had suggested Sattar’s name as one of the options for the top post for continuation of his policies. ..
“Two indicators of differences in the army. First, the antecedents of the petitioner show that he has been filing cases that serve the army’s interest. So, the only explanation of his filing the case against Bajwa’s extension has to be that some strong lobby in the army put him up to it. Second, a three-year extension would have retired about 24 Lt Gens. Some among them would have been contenders for the top job if Bajwa did not get an extension,” Tilak Devasher, member National Security Advisory Board and author of three books on Pakistan, told Economic Times

“If Bajwa would get an extension for three years, the most senior Generals will not remain eligible for the post of Army Chief. Chief justice Khosa, who retires next month, is part of the game. By extending Bajwa’s term for 6 months, he has provided the ones-in-line an opportunity to manipulate the legislation process. He has now thrown the grenade on the floor of Parliament. Bajwa is God but one of the many Gods in Pakistan,” Ali Salman Andani, a political analyst on Pakistan, told ET

Lt General Nadeem Raza belongs to Infantry and is serving as Chief of General Staff. He was promoted as a Major General in 2018 and will retire this month. As a Major General, he had served as Commandant PMA Kakul and Commanding Officer Waziristan. Lt Gen Humayun Aziz belongs to Artillery Regiment and got commissioned in 1985. Gen Humayun is serving as Corps Commander Karachi. The fourth senior-most serving General is Naeem Ashraf, who belongs to the Armoured Corps and got commissioned in the Pakistan Army in 1986. Currently, he is serving as Corps Commander Multan.

The fifth on the seniority list is General Sher Afghan who got commissioned in 1986 and belongs to “Azad Kashmir Regiment”. Gen Sher Afghan is serving as IG T&E in Pakistan Army. The sixth senior most General in Pakistan Army currently is Qazi Muhammad Ikraam. He belongs to Artillery Regiment, and also got commissioned in 1986. Gen Qazi Ikraam is Commander ASFC. The seventh senior most General in Pak Army is Bilal Akbar.
 

جاسم محمد

محفلین
سات جرنیلوں کا اکٹھ اور ان کا اعلیٰ عدلیہ میں رسوخ اور ملکی معاملات میں موثر انداز میں دخل کوئی چھوٹا واقعہ نہیں جسے نظرانداز کر دیا جائے۔ ملٹری اسٹیبلشیہ یقینی طور پر مسٹر باجوہ کا فرمان ہی تسلیم کرنے کی پابند ہے تاہم درونِ خانہ یہ ہنگامے، اور یہ سرد جنگ ریاستِ پاکستان کے لیے کسی بہت بڑے خطرے سے کم نہیں۔ ابھی چھ ماہ کی گیم سامنے آئی ہے تاہم یہ جرنیل ممکنہ طور پر نچلے نہیں بیٹھیں گے اور آنے والے مارچ تک مزید ہلچل کا امکان ہے۔

آرمی چیف کو مزید توسیع دینے کیلیے حکومت کو اپوزیشن کی ضرورت پڑے گی، احسن اقبال
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
شہبازشریف کی جائیداد منجمد کرنا انتقامی کارروائی ہے، احسن اقبال۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا ہے کہ قانون سازی کے معاملے پر ہمیں حکومت کی نیت پر شک ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جنرل سیکریٹری مسلم لیگ (ن) احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت نے شہبازشریف کے اثاثے منجمد کر دیے جس میں ان کی ڈکلیئرڈ پراپرٹی کو سیل کیا گیا اور ان کے خلاف من گھڑت الزامات پر کارروائی کی گئی، پراپرٹی سیل کرنا انتقامی کارروائی ہے، حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو سبوتاژ اور اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی بڑھانا چاہتی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر اپوزیشن کی ضرورت ہوگی لیکن حکومت قانون سازی میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، حکومت سنجیدہ ہوتی تو اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے کرتی، مجھے اس حکومت کی نیت پر شک ہے، یہ حکومت قومی اداروں کے ساتھ خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جنرل سیکریٹری مسلم لیگ (ن) احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت نے شہبازشریف کے اثاثے منجمد کر دیے جس میں ان کی ڈکلیئرڈ پراپرٹی کو سیل کیا گیا اور ان کے خلاف من گھڑت الزامات پر کارروائی کی گئی، پراپرٹی سیل کرنا انتقامی کارروائی ہے، حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو سبوتاژ اور اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی بڑھانا چاہتی ہے۔
یعنی حکومت نے اپوزیشن کے ووٹ لینے کیلئے بلیک میلنگ شروع کر دی ہے :)
 
Top