سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

زیرک

محفلین
جوک آف دی سینچری حاضرِ خدمت ہے
شہریار آفریدی: "آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے"۔
وسیم بادامی: "کوئی اور مثال دیں کیونکہ باپ ہر تین سال بعد تبدیل نہیں ہوتا"۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈانٹنا نہیں جاسم بھائی۔۔۔۔ ویسے یہ چھ مہنے کا وقت کونسے قانون کے تحت دیا ہے باجوے کو ؟؟؟

حکومت آرمی چیف کی تقرری پرفوری قانون سازی کی خواہاں
ویب ڈیسک جمع۔ء 29 نومبر 2019
1898947-kabinaexp-1575003682-457-640x480.jpg

حکومت اپوزیشن اوراتحادی جماعتوں کے پارلیمانی سربراہان سے مشاورت کرے گی، ذرائع


اسلام آباد: حکومت آرمی چیف کی تقرری پرفوری قانون سازی کی خواہاں ہے اورآنے والے قومی اسمبلی اجلاس سے پہلے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کے بعد حکومت آرمی چیف کی تقرری پر فوری قانون سازی کی خواہاں ہے اور آنے والے قومی اسمبلی اجلاس سے پہلے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا شیڈول اجلاس ملتوی کیا گیا، اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت آئندہ چند روز میں اہم اجلاس بھی متوقع ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ میں آئین اورآرمی ایکٹ میں ترامیم پیش کی جائیں گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن سے رابطوں کے لیے اسپیکرقومی اسمبلی ایک مرتبہ پھراپنا کردار ادا کریں گے جب کہ اپوزیشن اوراتحادی جماعتوں کے پارلیمانی سربراہان سے مشاورت بھی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روزسپریم کورٹ نے حکومت کوآرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں6 ماہ مشروط توسیع کی اجازت دے دی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
استعفے کے تین روز بعد فروغ نسیم پھر وفاقی وزیر بن گئے
209185_5348572_updates.jpg

ایوان بالا کے رکن سینیٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر بطور وزیر قانون حلف اٹھالیا— فوٹو: ہی آئی ڈی

اسلام آباد: وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور سابق وزیر قانون سینیٹر فروغ نسیم نے اپنے استعفے کے تین روز بعد ایک بار پھر بطور وفاقی وزیر حلف اٹھالیا۔

فروغ نسیم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں پیروی کے لیے 26 نومبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔

کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد حکومت نے سینیٹر فروغ نسیم کو دوبارہ وزیر قانون بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

فروغ نسیم نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے ایک بار پھر حلف اٹھایا جہاں ایوانِ صدر میں صدر مملکت عارف علوی نے ان سے حلف لیا جس کے بعد فروغ نسیم نے پھر کابینہ کا حصہ بن گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
’جنرل باجوہ سے بات کی تھی، وہ توسیع نہیں چاہتے تھے مگر وزیراعظم مصر ہیں‘
209177_1140216_updates.jpg

فائل فوٹو: امجد شعیب

اسلام آباد: جنرل( ریٹائرڈ )امجد شعیب کا کہنا ہے کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بات کی تھی اور وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے تھے مگر وزیر اعظم عمران خان ان کو مذید عہدے پر برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔

امجد شعیب نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 مہینوں کی مشروط توسیع ’’آرمی کمانڈ ‘‘ میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرےگی تاہم دو دیگر ریٹائرڈ جنرنلزبشمول سابق ڈیفنس سیکریٹری ان کی بات سے متفق نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے پاس قانون سازی کے لئے مقررہ اکثریت نہیں کہ وہ قانون قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پاس کرا سکیں، یہ بہت نقصا ن دہ صورتحال ہے کیونکہ آرمی کے نچلے افسران یہ صورتحال دیکھتے رہیں گے اور غیر یقینی قائم رہے گی۔

جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ صورتحال افراتفری کی سی ہے، اب یہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر منحصر ہے کہ وہ پاک فوج کے وقار کا خیال رکھتے ہیں یا پھر سسٹم میں اصلاحات لاکر عہدہ چھوڑتے ہیں۔

جمعرات کےفیصلے میں اس بات کو دیکھا گیا ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں قانونی خلاء ہے کیونکہ نہ آئین میں اور نہ ہی آرمی ایکٹ میں توسیع کا ذکر ہے۔

سپریم کورٹ نے اس کی تشریح کرکے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اس معاملےکو ہمیشہ کےلئے طے کر لے، تاہم اس کا وقت ٹھیک نہیں ہے اگر یہ ایک ہفتے پہلے ہوجاتا تو بات کچھ اور ہوتی۔

امجد شعیب نے مزید کہا کہ انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے بات کی تھی اور وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے تھے مگر وزیر اعظم عمران خان ان کو مذید عہدے پر برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔

سابق سیکریٹری ڈیفنس جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج منظم ادارہ ہے، مشروط توسیع سے کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔

میجر جنرل (ریٹائرڈ) اعجاز اعوان نے کہا کہ فو ج کا اپنا ایک مکینزم ہے آرمی چیف کی مدت میں مشروط توسیع سے چین آف کمانڈ پر کوئی فر ق نہیں پڑے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایڈوانس معذرت کے ساتھ خصیہ بوسی کی انتہا کو چھوتا ہوا جوک آف دی سینچری حاضرِ خدمت ہے
شہریار آفریدی: "آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے"۔
وسیم بادامی: "کوئی اور مثال دیں کیونکہ باپ ہر تین سال بعد تبدیل نہیں ہوتا"۔
EKi0gAlW4AAA8VZ.jpg
 

زیرک

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ الحمدللہ کسی سیاسی کھاؤ گروپ سے تعلق نہیں رکھتا، نہ ہی کسی ہڈی مافیا سے تعلق ہے۔
صرف فورم کے ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے سمجھا رہا ہوں۔
ایک مشورہ ہے کہ آئندہ سوچ سمجھ کر ٹانٹ نما کمنٹ کرنا، انور مسعود کا شاگرد ہوں، نظم ہو یا نثر مجھے ہر زبان میں کھڑکا کے جواب دینا آتا ہے۔
 
سر باجوہ، ویلکم بیک!

سر باجوہ کہیں گے یو بلڈی فول، میں گیا ہی کہاں تھا۔ میں تو سرحدوں پر پہرہ دے رہا تھا۔ بس کچھ وقت نکال کر اپنے عمران خان اور اس کی بچہ پارٹی کو ٹیوشن پڑھانے گیا تھا کیونکہ وہ املا کی غلطیاں زیادہ کرنے لگے تھے۔

استادوں سے ڈانٹ پڑ رہی تھی، میں نے کہا سر گھر پر بیٹھ کر ہوم ورک کرواتا ہوں۔

سر باجوہ کو کون بتائے کہ ہم انھیں دوبارہ خوش آمدید کیوں کہہ رہے ہیں۔ نہ وہ کہیں گئے، نہ جانا تھا اور انشااللہ نہ کہیں جائیں گے۔

خوشی کا پہلا شادیانہ تو قصر صدارت سے بجا، پھر مبارک سلامت کا ایسا شور اٹھا جیسے مغل بادشاہوں کے ہاں ولی عہد کی ولادت پر ہوتا تھا۔

ہم بھلے لوگ ہیں، اپنے ہاتھوں سے ووٹ ڈالتے ہیں لیکن امید کرتے ہیں کہ کوئی رحم دل بادشاہ آ جائے جو رات کو ٹوپیاں سی کر روزی کمائے اور دن کو شہر کے چوک پر چوروں، لٹیروں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دے۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ بادشاہوں اور ولی عہدوں کا زمانہ گیا۔ اب عدالتیں آزاد ہیں، میڈیا حب وطنی کے جذبوں میں غوطے کھا رہا ہے۔ ان بلڈی فولز کو کون سمجھائے کہ سر باجوہ کے ولی عہد بھی سر باجوہ ہی ہیں۔

آپ کی واپسی پر (سر ہمیں پتا ہے کہ آپ کہیں نہیں گئے تھے لیکن چونکہ بی بی سی نے لکھا ہے کہ ’آپ ایک کھلے ڈلے جرنیل ہیں‘ تو جان کی امان دیں بات جاری رکھنے دیں) سب سے بڑا بھونپو عمران خان نے بجایا کہ دشمنوں کو شکست ہوئی، ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔ ان کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ انھیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک دفعہ پھر ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔

کچھ ستم ظریفوں کو یہ بھی لگا کہ وہ پرانی اردو فلموں کے 55 سالہ محمد علی ہیں جو ہاتھ میں کتاب پکڑے تیزی سے دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوتا ہے اور چیخ کر کہتا ہے امی میں بی اے میں پاس ہو گیا۔ اب امی کو شکرانے کے آنسو نہیں آئیں گے تو کیا آئے گا۔

لیکن سر باجوہ کو اس مبارک سلامت کے شور سے پرے ہی رہنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ تین دن تھرتھلی میں کون کیا کر رہا تھا اور کیا کہہ رہا تھا۔ آپ کے تربیت یافتہ دفاعی تجزیہ نگار، ریٹائرڈ جنرل، ریٹائرڈ بریگیڈیئر سب ایک دم خاموش کیوں ہو گئے تھے، کیا عدالت سے ڈر گئے تھے؟ دل نہیں مانتا۔

کیا ان کے دلوں میں یہ شک تو نہیں پیدا ہو گیا تھا کہ کوئی نیا ولی عہد آیا چاہتا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ وفاداری کے امتحان میں کس کے کتنے نمبر بنتے ہیں کیونکہ لگ تو یہ رہا تھا:

وہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا

حالانکہ کئی حاسدین نے سر غفور کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے لیکن وہ اپنا فلسفہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ خاموشی بھی ایک بیان ہوتی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی خاموشی ان کے بیان سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے۔ وہ ان تین دنوں میں اس شعر کی تصویر بنے رہے:

سی کے لب ایک قیامت سی اٹھا دی جائے
رہ کے خاموش ذرا دھوم مچا دی جائے

سر باجوہ سے عدالت نے، حکومت نے اور جیلوں کے اندر اور باہر سے اپوزیشن کے سیاستدانوں نے عہد کیا ہے کہ ہم چھ مہینے کے اندر اندر ایک ایسا قانون بنا کر آپ کے قدموں میں پیش کریں گے جیسے تُھڑے ہوئے عاشق اپنا دل محبوب کے قدموں میں رکھ کر کہتے ہیں اب تو اس پر پیر رکھ کر جا۔

اب سر باجوہ کو بھی قوم سے ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ اب چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ آپ کی خدمات کا اعتراف پوری قوم کے ساتھ ساتھ عمران خان نے بھی کیا ہے کہ جس طرح آپ نے سفارت کاری، دفاع اور اقتصادیات کے شعبوں میں قوم کی خدمت کی ہے، کاش سویلین حکومت اس کا عشر عشیر بھی کر سکتی۔

عمران خان نے جس بات کا اعتراف نہیں کیا وہ یہ ہے کہ آپ باقی سارے کاموں کے ساتھ عمران خان کی تربیت کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان عثمان بزدار کی تربیت کر رہے ہیں۔

باقی قوم سیانی ہے، اس نے خود ہی کمر پر پٹھو باندھ کر رنگروٹوں کی طرح بھاگنا شروع کر دیا۔ بس اب کھلے دل کے ساتھ وعدہ کریں کہ اب آپ نے نہیں جانا جب تک ملک سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، جب تک آخری چور، لٹیرا سیاستدان سلاخوں کے پیچھے نہیں کر دیا جاتا، جب تک افغانستان میں اور ہانگ کانگ میں مکمل امن قائم نہیں ہو جاتا، جب تک کشمیر، فلسطین آزاد نہیں ہو جاتے، ڈی ایچ اے کوئٹہ کا آخری پلاٹ نہیں بک جاتا۔

آپ نے اس وقت تک نہیں جانا جب تک عثمان بزدار ٹریننگ کر کے وسیم اکرم پلس پلس نہیں بن جاتا اور ایک دن تخت لاہور پر کھڑا ہو کر یہ نہیں کہتا کہ آج ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک بار پھر ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔

محمد حنیف
 

فرقان احمد

محفلین
کچھ ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ قادیانی بھی ہیں :)
بعض ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ قادیانی نہیں ہیں۔ :) کچھ بمقابلہ بعض :) فیصلہ آپ خود کر لیں۔ ویسے اس معاملے پر کافی بحث ہو چکی اس لیے اس متنازع ایشو کو ایک طرف ہی رکھ دیجیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ الحمدللہ کسی سیاسی کھاؤ گروپ سے تعلق نہیں رکھتا، نہ ہی کسی ہڈی مافیا سے تعلق ہے۔
صرف فورم کے ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے سمجھا رہا ہوں۔
ایک مشورہ ہے کہ آئندہ سوچ سمجھ کر ٹانٹ نما کمنٹ کرنا، انور مسعود کا شاگرد ہوں، نظم ہو یا نثر مجھے ہر زبان میں کھڑکا کے جواب دینا آتا ہے۔
بھائی آپ اسے سنجیدہ کیوں لے رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں کوئی سنجیدگی نہیں ہوتی :)
 

جاسم محمد

محفلین
بعض ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ قادیانی نہیں ہیں۔ :) کچھ بمقابلہ بعض :) فیصلہ آپ خود کر لیں۔ ویسے اس معاملے پر کافی بحث ہو چکی اس لیے اس متنازع ایشو کو ایک طرف ہی رکھ دیجیے۔
اگر جنرل باجوہ قادیانی ہیں یا تھے مجھے پھر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ جنرل جنرل ہوتا ہے سرکاری مسلمان ہو یا قادیانی :)
 

جاسم محمد

محفلین
آرمی چیف کو توسیع دینے کا فیصلہ وفاق، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی فتح ہے، وزیر اعظم
ویب ڈیسک جمع۔ء 29 نومبر 2019
1899415-imrankhan-1575039069-990-640x480.jpg

اپنا پیسہ بچانے والے اس مافیا کو آئندہ بھی مایوسی ہو گی، وزیراعظم ۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ وفاق، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی فتح ہے فیصلے سے ملکی اداروں میں تصادم چاہنے والوں کو شکست ہوئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ترجمانوں کا اجلاس ہوا، اجلاس میں قانونی ٹیم نے ترجمانوں کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق عدالتی فیصلے، کارروائی اور فارن فنڈنگ کیس پر بریفنگ دی۔

اجلاس میں عدلیہ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ وفاق، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی فتح ہے، عدالت عالیہ نے فیصلے کے ساتھ ہماری آئندہ کے لیے بھی رہنمائی کردی، پہلے اس طرح کے سوالات کبھی سامنے نہیں آئے، عدالت اور قانون کی رہنمائی میں آئندہ کے لیے قانون سازی ہوگی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملکی اداروں میں تصادم چاہنے والوں کو شکست اور مافیا کو مایوسی ہوئی اور اپنا پیسہ بچانے والے اس مافیا کو آئندہ بھی مایوسی ہوگی، پی ٹی آئی جمہوری اقدار پر یقین رکھتی ہے، قانونی ٹیم نے عدالت عظمی کو مطمئن کرنے میں اہم کرار ادا کیا عدالتی فیصلہ قانونی ٹیم کی کامیابی ہے۔

اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہوابازی ڈویژن سے متعلق معاملات پر اجلاس ہوا، جس میں وزیر ہوابازی غلام سرور، وزیرِ بحری امورعلی زیدی، وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر، مشیر خزانہ حفیظ شیخ، معاون خصوصی ندیم بابر، معاون خصوصی ذوالفقار بخاری، چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ سید زبیر گیلانی، سیکریٹری ہوا بازی شاہ رخ نصرت اور چیئرمین پی آئی اے ائیر مارشل ارشد محمود ملک و دیگر شریک ہوئے۔

اجلاس میں ہوا بازی ڈویژن سے متعلق معاملات، پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز میں حالیہ اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر چیئرمین پی آئی اے ائیر مارشل ارشد محمود نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ قومی ائیرلائن میں اصلاحات کے خاطر خواہ ثمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، قومی ائیر لائنز کی پروازوں میں 47 پروازوں کا اضافہ کیا گیا ہے، دو نئے جہاز پی آئی اے فلیٹ میں شامل کیے گئے ہیں اور پی آئی اے کے ماہانہ خسارے میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔

پی آئی اے میں جاری اصلاحات کے عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ قومی ایئر لائن کی بحالی اور اسے منافع بخش ادارہ بنانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ماسکو ٹرائل اور حب الوطنی کا مقابلہ
30/11/2019 وجاہت مسعود

بارے خیریت رہی۔ 27 نومبر کی رات گزر گئی۔ کس قیامت کی رات تھی، بیم و رجا کا کھیل تھا، ناموسِ جان و دل کی بازی لگی تھی۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت۔ ہماری تاریخ میں ایسی بہت سی راتیں گزریں جب آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں۔ یہ روزن کی سہولت بھی مرزا غالب کو دلی میں میسر تھی۔ ہمارا احوال بیان کرتے ہوئے تو شاعر نے لکھا، ’فیض نہ ہم یوسف، نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے‘۔ ہمارا انجام تو ڈاکٹر احسن اختر کی زین غزل میں بیان ہوا، ’آنکھ نے جب بھی رستہ چاہا، پہنچی چھت کے جالے تک‘۔ ایسی ہی ایک رات 24 اکتوبر 1954 کو بھی گزری جب وزیر اعظم محمد علی بوگرہ، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی معیت میں امریکہ سے ملک واپس پہنچ رہے تھے۔ ایئرپورٹ پر وزیر اعظم کو تحویل میں لے کر گورنر جنرل غلام محمد کے حضور پیش کیا گیا۔ چند گھنٹے بعد بوگرہ صاحب اس دیو محل سے برآمد ہوئے تو وہ دستور ساز اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی جس کا افتتاح قائد اعظم نے 11 اگست 1947ءکو کیا تھا۔

ایسی ہی ایک رات 25 مارچ 1971 کو گزری جب صدر یحییٰ خان اور جناب بھٹو دو الگ الگ جہازوں میں ڈھاکہ سے سری لنکا کے راستے کراچی کی جانب مائل بہ پرواز تھے۔ 26 مارچ کا لہو لہو اجالا نمودار ہوا تو جناب ٹکا خان نے ڈھاکہ چھاؤنی میں اپنے دفتر کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر کہا، ’آخاہ، کوئی بھی تو نہیں ہے‘۔ واقعی کوئی نہیں تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی ملبے کا ڈھیر تھی اور قائد اعظم کا پاکستان نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ ایسی ہی ایک رات چار جولائی 1977 کی تھی جب وزیر اعظم ہاؤس کے بڑے دروازے سے نکلتے ہوئے ایک موزوں طبع وزیر نے کہا تھا، آج کی رات جیئں گے تو سحر دیکھیں گے۔ ایسی ہی ایک رات 12 اکتوبر 1999 کو بھی اتری تھی جب محترم پرویز مشرف کا طیارہ سری لنکا سے محو پرواز ہوا۔ نصف شب کے قریب یہ دھاتی پرندہ بالآخر کراچی ایئرپورٹ پر اترا تو منتخب وزیر اعظم زیر حراست تھے اور ساڑھے چودہ کروڑ مفتوح ہو چکے تھے۔ کیا خاک جئے کوئی، شب ایسی، سحر ایسی….

تاریخ ایسی تاریک ہو تو لکھنے والا حال کی خوش نصیبی پر کیوں نہ شاداں و فرحاں ہو۔ 28 نومبر 2019 کی صبح طلوع ہوئی تو مطلع صاف تھا۔ ادارے ایک صفحے پر تھے، ملک میں استحکام تھا۔ ملکی سرحدیں محفوظ تھیں۔ معیشت کے اشاریے اطمینان بخش رفتار سے بہتری کی طرف مائل بہ سفر تھے۔ محب وطن قوتیں کامران ہوئیں، بدخواہوں کو منہ کی کھانا پڑی۔

دلائل و براہین کی اس تین روزہ مشق سے تین بامعنی نتائج برآمد ہوئے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک سرگرم ان مافیاز کو شکست ہوئی جنہوں نے نامعلوم سازش کی مدد سے قانونی اور آئینی بحران برپا کیا تھا تا کہ اپنی لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ دیا جا سکے۔ میڈیا کے ان غیر ذمہ دار عناصر کی نشاندہی ہو گئی جو ملک و قوم پر نازک وقت آتے ہی افترا پردازی پر مبنی چیختی چنگھاڑتی سرخیاں سجاتے ہیں اور قوم میں انتشار پھیلاتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ بالآخر ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس ملک میں پارلیمنٹ نام کا ایک ادارہ بھی موجود ہے جو مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔ پارلیمنٹ کو ہوم ورک دیا گیا ہے کہ چھ ماہ کے اندر واضح قانون سازی کرے کہ آئندہ جب ایسا مرحلہ پیش آئے تو دستور کا منشا واضح ہو۔ عزائم میں کوئی ابہام نہ پہلے تھا اور نہ آئندہ ایسا ہونے کا امکان ہے۔

عدالت عظمیٰ نے ملک و قوم کے لئے بنیادی اہمیت کے حامل دستوری معاملے پر جس قانونی فراست اور آئینی ذکاوت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کا اعتراف محترم شیخ رشید احمد نے بجا طور پر عزت مآب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو ’نظریاتی جج‘ قرار دے کر کیا ہے۔ اگرچہ شیخ رشید جیسے سرد گرم چشیدہ سیاست دان نے اشارہ دیا ہے کہ کسی ناگہانی صورت حال کے لئے متبادل بندوبست بھی موجود تھا تاہم انہوں نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ پیش گوئی بھی کر دی ہے کہ حزب اختلاف مجوزہ قانون سازی کے حق میں بخوشی ووٹ دے گی۔ شیخ صاحب ایسے دیدہ ور سیاست دان ہیں کہ ان کی کوئی پیش گوئی کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ اور اب تو ہماری دستوری اور سیاسی تاریخ کے جملہ مغالطے وقت کی ایک ہی بامعنی جنبش میں دور ہو گئے ہیں۔

جنرل ضیاالحق نے آئین کو بارہ صفحات کا ایک کتابچہ قرار دیا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ دستور بڑے کام کی چیز ہے۔ صرف آرٹیکل 243 میں مناسب تصحیح کی ضرورت ہے۔ بے نظیر بھٹو نے ہماری عدالتوں کو کینگرو کورٹس قرار دیا تھا۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔ ہماری عدلیہ زندہ اور توانا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے توسیع کے نوٹی فیکیشن میں ’قومی سلامتی کی صورت حال‘ کے بارے میں ایک سوال اٹھایا تھا، بظاہر یہ سوال تشنہ جواب رہ گیا۔ ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے / ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد۔ تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ قوم کا قبلہ درست ہو چکا ہے، ایک دن ایسی دقیق اصطلاحات کا مفہوم بھی واضح ہو جائے گا۔

سوویت یونین کی تاریخ میں ماسکو ٹرائل کا ایک باب ملتا ہے۔ 1936 سے 1938 تک اسٹالن نے مقدمات کے ایک پیچیدہ سلسلے کی مدد سے کمیونسٹ پارٹی، سوویت فوج اور عوام میں ایسے تمام عناصر کا صفایا کر دیا تھا جو مغربی طاقتوں کے ایما پر اسٹالن کو راستے سے ہٹا کر سوویت یونین کو غیر مستحکم کرنا اور سرمایہ داری نظام کو واپس لانا چاہتے تھے۔ ان مقدمات میں ملزمان کے اعترافی بیانات کو شفاف سماعت کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔ 1917 کے انقلاب کے بڑے بڑے رہنماﺅں میں اپنی سازشوں کے رضاکارانہ اعتراف سے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی تھی۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے مبارک اور سعید مواقع روز روز نہیں آتے۔ آئندہ چھ ماہ میں ہم اپنی سیاسی قوتوں میں ایسی ہی ہنگامی مشق کا مظاہرہ دیکھیں گے۔ یہ مدت 28 مئی کو ختم ہو گی اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ محمد خان جونیجو 29 مئی 1988ء کو دورہ چین سے وطن واپس آئے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس آف پاکستان کا وزڈم
صابر شاکر
قومی پرواز کی صورتحال گزشتہ دس دن سے انتہائی گمبھیر رہی ہے ۔موسم ناقابلِ بیان حد تک خوفناک رہا ہے اورپرواز بھی ڈگمگاتی رہی ہے۔ یہ تو اللہ بھلا کرے سینئر پائلٹ کا‘ جس نے حالات پر نظر رکھی ہوئی تھی اور جہاز کو کریش ہونے سے بچا لیا۔ موسم بہتر ہونے کی ادھوری اطلاع ملنے پر جہاز کا کنٹرول کْچھ دیر کے لیے معاون کو پائلٹ کو دے دیا گیاتھا کہ وہ اسی دوران پرواز کواچانک ایسی خطرناک ایئر پاکٹ میں لے گئے کہ وہاں سے نکلنا محال ہی نہیں‘ ناممکن ہوگیا تھا اور کسی بھی لمحے ایسی افسوسناک خبر آسکتی تھی کہ معاون پائلٹ اور اس کی ٹیم کی ساری غلطیوں کا خمیازہ سینئر پائلٹ کو بھگتنا پڑتا ‘ان کا کیریئر ختم ہونے کے کنارے پر تھا کہ سینئر پائلٹ نے دوبارہ مداخلت کی اور جہاز کا کنٹرول سنبھالا اور پرواز کو ایئر پاکٹس سے بمشکل نکالا‘ جس سے قومی پرواز کریش ہوتے ہوتے بچ گئی اور اللہ اللہ کرکے گزشتہ روز(28نومبرکو) پرواز نے اسلام آباد لینڈنگ کی۔
اگر زمینی حکام کی طرف سے لینڈنگ کی اجازت اور محفوظ راستہ نہ دیا جاتا تو قریب تھا کہ سب کو ہی ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا جاتا اور نہ رہا بانس ‘ نہ بجے گی بانسری کے مصداق باقی سب دیکھتے رہ جاتے۔ پھر قومی پرواز کو کیسے اڑانا ہے‘ کہاں لے کر جانا ہے ‘کہاں لینڈنگ کرنی ہے ‘ کس کس کو سوار کرنا ہے ‘ کس کس کو آف لوڈ کرنا ہے ‘ قانون اورضابطے کیا ہوں گے؟ ان سب کے فیصلے تنِ تنہا‘فرد ِواحد سینئر پائلٹ نے کرنا تھے۔ لیکن زمینی عملے نے بھی حالات کی سنگینی کو بھانپ لیا تھا‘اس لیے فی الوقت پرواز کو سپیس دی گئی‘ تاکہ کولیٹرل ڈیمیج سے بچا جاسکے۔جو حالات اس وقت ہیں‘ان کی پیشین گوئی کرتے ہوئے ہم نے حالات کی سنگینی کے بارے میں 19 نومبر کوعرض کیاتھا کہ ''صورت حال انتہائی گمبھیر ہے‘ سینئر پائلٹ کو بار بار کہا جارہا ہے کہ آپ فضا میں چکر لگاتے رہیں۔نیچے بھی صورتحال غیر معمولی ہے۔محکمہ سیاسی موسمیات کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافات میں مطلع بدستور ابر آلود ہے‘ گرج چمک اور طوفان کا یہ سلسلہ مزید نو دن تک جاری رہے گا‘اس لیے سینئر پائلٹ معاون پائلٹ کو پیار محبت سے ہینڈل کررہا ہے‘ تاکہ موسم بہتر ہوتے ہی وہ اکیلے فیصلہ کریں اور جہاز کو بحفاظت اتار لیں‘تاکہ مسافر بھی بچ جائیں اور پائلٹ اور معاون پائلٹ بھی۔ مے ڈے کال آن ہے‘‘۔پھر ہم نے 22نومبر کو دوران ِپرواز سامنے آنے والے مسائل بیان کرتے ہوئے عرض کیاتھا کہ ''تمام تر صورتحال سے آگاہی کے بعد سینئر پائلٹ خاموش ہے اور دورانِ پرواز ایسا کوئی قدم نہ خود اٹھا رہا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے منع کررہا ہے‘ کیونکہ وہ ابھی بھی اس حق میں ہے کہ معاون پائلٹ کو مزید وقت دیاجائے ۔اگر اس وقت کوئی منفی اقدام اٹھایا گیا تو معاون پائلٹ ردعمل میں کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا دے۔ ایسا کوئی بھی اقدام خود سینئر پائلٹ کے کیریئر کو متاثر کرسکتا ہے اور خراب موسمی حالات میں ایمرجنسی لینڈنگ سے کولیٹرل ڈیمیج کا خدشہ ہے‘ جس سے سینئر پائلٹ سب کو بچانا چاہتا ہے‘ البتہ سینئر پائلٹ کواب بھی امید ہے کہ بہتری آجائے گی۔ معاون پائلٹ سے ہونے والی آخری دو ملاقاتیں اہم نوعیت کی تھیں‘ جن میں ورکنگ کے معاملے میں اہم امور زیر بحث آئے۔سینئر پائلٹ محفوظ لینڈنگ کا منتظر ہے اور وہ اب بھی اپنے معاون پائلٹ کو بچانا چاہتا ہے‘ جس کاانتخاب جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ سینئر پائلٹ نے خودکیاہے۔ ناکامی کی صورت میں سینئر پائلٹ کوخود بھی بہت سے طعنوں اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں۔سب پرواز کی محفوظ لینڈنگ اور سینئر پائلٹ کے حتمی فیصلے کے منتظر ہیں ‘لیکن موسم کے سازگار ہونے میں ابھی بھی پانچ گھنٹے باقی ہیں‘‘۔
اللہ اللہ کرکے پرواز لینڈ کرچکی ہے اور سب کی جان میں جان آئی ہے‘تاہم جہاز میں سوار تمام 342 مسافروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر رولز اینڈ ریگولیشنز کو واضح کریں اور اورقومی پرواز کو اڑانے کے لیے پائلٹس کے کیریئر‘ ان کی مراعات اور عہدے کی میعاد کے بارے میں قانون سازی کریں اور تمام ابہام دور کریں ۔ چھ ماہ بعد اس بارے میں فٹنس سرٹیفکیٹ پیش کریں۔
وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ تین دن ہنگامہ خیز رہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ پاور کوریڈورز کو سمجھنا اور ان کے مکینوں کی سوچ‘ سمجھ اور ان کی چالوں کوسمجھنا ایک غیر معمولی مہارت کا کام ہے۔ سیاسیات کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ سیاسی شطرنج کی بچھی بساط پر کب کون کس کو کیسے شہ دے دے اور کب کس کے ہاتھوں کون مات کھا جائے ۔کوئی پتا نہیں چلتا اور اکثر اوقات تو بساط بچھانے والے اور چاروں طرف مخالفین کی طرح کھیلنے والے باہم اس طرح کھیلتے ہیں کہ ان کے ٹیم منیجرز کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے کھلاڑی اس کے لیے نہیںبلکہ کسی اور کے لیے کھیل رہے ہیں۔پاور کوریڈورز کے تمام پلیئرز کے بارے میں جانکاری مدتوں نہیں ہوتی ‘کیونکہ پاور پالیٹکس‘ پاور پلیئرز اور پاور کوریڈورز اندر ہی اندر گْم راستوں میں اس قدر اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ حقیقت تک پہنچنا بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے‘بلکہ بعض اوقات تو سیاست کا سارا کھیل ہی آف شور کمپنیوں کی طرح لگتا ہے‘ جن کے اصل مالک اور اس میں چھپے خزانے تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی آڈٹ کمپنیوں کی مدد لی جاتی ہے‘پوری معلومات پھر بھی نہیں ملتی۔
ایسی ہی ناگہانی صورتحال کا سامنا حکومت اور سپہ سالار کو عین اس وقت کرنا پڑا جب ان کے خیال میں سب کْچھ معمول پر آچکا تھا اور دور دور تک ان کو کسی نئے چیلنج کا سامنا نہیں تھا ‘لیکن اچانک 25 نومبر کو ایک وکیل صاحب نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کو چیلنج کردیا اور اگلے ہی دن یہ مقدمہ سماعت کے لئے مقرر ہوگیا ۔درخواست گزار کی پراسراریت اور انکار یت کو ایک طرف رکھتے ہوئے فاضل عدالت نے درخواست میں اٹھائے گئے نکات کو اہم جانا اور سماعت شروع کردی۔ اٹارنی جنرل کے سامنے معزز ججوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے نکات اور استفسارات سے معلوم ہوا کہ ہمارے قانون سازوں نے افواجِ پاکستان کے سپہ سالار کی سروس اور خدمات کے بارے میں کبھی کوئی قانون سازی ہی نہیں کی اور جتنے بھی سوالات فاضل عدالت نے پوچھے ان کا جواب نفی میں دیا گیا۔حکومت اور سپہ سالار کی خوش قسمتی کہئے کہ سپریم کورٹ کی قیادت اس وقت افتخار چوہدری یا ان کی باقیات کے ہاتھوں میں نہیں تھی‘ ورنہ آج ملک میں جمہوری نظام کی جگہ کوئی اور ماورائے آئیں اقدام ہو چکا ہوتا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی قیادت میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے وزڈم نے ہمارے جمہوری نظام کو ڈی ریل ہونے سے بچا لیا اورآپ نے خودپر ''Judicial restraint ‘‘ کی پابندی لگاتے ہوئے ایک لینڈ مارک فیصلہ سنایا اور تمام فریقین کو سوچنے سمجھنے کا موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ دیے گئے وقت میں خود کریں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے آپ کو جوڈیشل ایکٹوازم کی طرف نہیں دھکیلا‘ میڈیا گیلری سے نہیں کھیلا اور نہ ہی پاپولر ازم کا شکار ہوئے۔انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز کو آئینہ دکھایا اور پارلیمنٹ کی کوتاہیوں‘ آئینی و قانونی سقم کی نشاندہی کی اور یہ بھی ثابت کیا کہ قانون کی حکمرانی کا تصور سب کے لئے یکساں ہوگا۔ عام آدمی کی طرح طاقتوروں کو بھی قانون کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔حکومت اور سپہ سالار کو سپریم کورٹ اور خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کا شکر گزار ہونا چاہیے‘ جن کی بدولت ملک ایک بحران سے بچ گیا اور ان لوگوں کی بھی نشاندہی کرنا چاہئے جن کی دانستہ اور نادانستہ جہالت‘ کوتاہی‘ نااہلی اور سازشی تھیوری سے وہ محفوظ رہے‘ ورنہ آج صورتحال یہ نہ ہوتی۔لیکن یہ ابتدائے عشق ہے‘ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے آرمی چیف کی توسیع ہوجائے گی، شیخ رشید
ویب ڈیسک ہفتہ 30 نومبر 2019
1900165-shaikhrasheed-1575101616-946-640x480.jpg

تمام سیاسی پارٹیاں جنرل باجوہ کو توسیع دینے پر متفق ہیں، وزیر ریلوے فوٹو:فائل

لاہور: وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 6مہینے کا مطلب تین سال ہی سمجھیں اور پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے توسیع ہوجائے گی۔

لاہور میں وزیر ریلوے شیخ رشید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جو ہیجان برپا کیاگیا وہ دم توڑ گیاہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق 6 ماہ کا مطلب تین سال سمجھیں، پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع ہوجائے گی، تمام سیاسی پارٹیاں انہیں توسیع دینے پر متفق ہیں، آرمی چیف عمران خان اور حکومت کے شانہ بشانہ ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ کو نئے3سال مل گئے اور حکومت 5 سال پورے کرے گی۔

شیخ رشید نے کہا کہ آرمی چیف کے معاملے پر آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں بلکہ سادہ اکثریت سے کام ہو سکتا ہے، ترمیم بھی ہوئی تو بل واضح اکثریت سے پاس ہو گا، آرمی چیف نے کرتارپورراہداری کا ایسا زخم لگایا جو بھارت یاد رکھے گا، عظیم جرنیل نے عالمی سازش کو ناکام بنا دیا، عمران خان پانچ سال پورے کریں گے،اپوزیشن میڈیا میڈیا کھیلتی رہے۔

وزیر ریلوے نے کہا کہ فروغ نسیم کی غلطی کا غلط تاثر دیا جارہاہے، ہم سے غلطیاں ہوئیں لیکن ہماری نیت صاف تھی، پنجاب میں لوگوں نے اداروں کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا، صوبے میں امن و امان اور مہنگائی کا مسئلہ ہے، چھ ماہ قبل بات کی تھی نوازشریف کو جانے دو سب اچھا ہو جائے گا، دلچسپ واقعہ ہے،بیمار نوازشریف ہیں اور چھٹیاں شہبازشریف گزار رہےہیں، شہباز شریف لندن ہیٹ پہن کرگئے ہیں، اسکے ثمرات جلد سامنے آئیں گے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی پلی بارگین کا معاملہ مارچ تک حل ہو جائے گا، عمران خان این آر او نہیں کریں گے، مولانا فضل الرحمان جلد کہیں گے کہ میں بہت ہی خالی ہاتھ اسلام آباد سے واپس آیا ہوں، طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے لولے لنگڑے لوگ سیاست میں رہ گئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج نے عمران خان حکومت کو ہٹانے پرغور شروع کردیا ہے،نجم سیٹھی کا دعویٰ
3 گھنٹے پہلے
sethiii-750x430.jpg

اسلام آباد:صحافی نجم سیٹھی نے اپنے یو ٹیوب چینل کے ایک پروگرام میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو نا اہل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہایت نا اہل حکومت کے نااہل مشیر ، وزراء ، اٹارنی جنرل اوروزارت قانون میں نکمے لوگ ہیں جنہوں نے ایسی صورتحال بنائی فوج ان کو گھر بھیجنے پر غور کررہی ہے۔

آرمی چیف کی توسیع سے متعلق کیس میں لوگوں کی توقعات بھی بڑھ گئی پھر جج حضرات کے ”پر ”کھل گئے کہ ہم ہیں نا ،جس پر پھر میڈیا پاگل ہو جاتا ہے ۔چیف جسٹس نے اس کیس کو لیکر اٹارنی جنرل کی ” پٹائی” کی او رکہا کہ اسسٹنٹ کمشنر ان سے بہتر ڈارفٹنگ کرتے ہیں اور آپ کیا کرتے ہیں ان کی ڈگریاں چیک کریں ایک تاثر تھا کہ یہ حکومت ”زیر و بٹا زیر و”ہے وہ اب کنفرم ہو گیا ہے ، حکومت اور فوج ایک پیج پر ہونے کابیانیہ چل رہا تھا ۔اگر آپ میں سے کوئی بھی فوج میں ہوتا تو کیا سوچتا اس حکومت کے بارے میں کہ اتنی ”نکمی ” حکومت ہے جس کو ہم سپورٹ کر رہے ہیں اور وہ ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں ،آرمی چیف کوبھی مشکل میں ڈال دیا گیا ہے وہ کبھی ادھر آ رہے ہیں کبھی ادھر جا رہے ہیں اور اس کے بعد صرف چھ ماہ کی توسیع ملی ہے اب کوئی سوچ رہا ہوگا کہ ”ہم کس کی کشتی میں بیٹھے ہیں”اور” کس کی کشتی کو ہم چلا رہے ہیں” کیونکہ یہ فوج کی شرمندگی ہوئی ہے اس معاملے کو مس ہینڈ ل کیا گیاہے اس کے اور بہت پہلوئوں ہیں اب تو حکومت کے حمایتی کہہ رہے ہیں کہ حکومت نالائق اور نکمی ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تاثر ملا کہ آخری دن سماعت کے دوران ہتھ ہولا رکھا گیا لیکن اس کیس کو لیکر ایسی بات نہیں ہے ۔بات یہ ہے کہ اس قسم کے جب بڑے کیسز ہوتے ہیں اور ایسا تاثر ہو کہ حکومت کا تختہ الٹ رہا ہے اور وزیر اعظم جا رہا ہے تو پھر میڈیا کی خصوصی دلچسپی ہوتی ہے اور ججز بھی گیلری کیلئے کھیلتے ہیں اور پھر وہ سرخیاں بنتی ہیں ۔عوامی سماعت ہو تو دلچسپی بڑ ھ جاتی ہے ،اور جب کیس میں حکومت ، اپوزیشن، آرمی ، وزیراعظم و غیر ہ وغیرہ ہو پھر جج حضرات بھی” پر” پھیلاتے ہی کہ” میں ہوں نا” ۔سماعت کے دوران بہت سی باتیں گیلری کیلئے ہوتی ہیں لیکن جب یہ ہو رہا تھا توسنجیدہ لوگ جانتے تھے کہ جو غصہ دکھایا جا رہا ہے معاملہ کہیں اور جاکر رکے گا اورپانی کا لیول نیچے آئیگا لیکن یہ ٹوپی ڈرامہ نہیں تھا۔عدلیہ نے جب پٹیشن ٹیک اپ کی تو یہ بغیر سوچے سمجھے نہیں کیا تھا اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ کوئی بڑی چیز ہونے والی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دراصل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں دو ، تین دن رہ گئے تھے اورمختلف افواہیں پھلائی گئی۔میرا پہلے دن سے ایک ہی موقف تھا کہ یہ سارا بحران ہونا ہی تھا کیونکہ حکومت نے بڑی غلطی کی تھی لیکن یہ اچھا فیصلہ ہے یہ نورا کشتی نہیں تھی اور نہ ہی ٹوپی ڈرامہ تھااور کسی سٹیج پر یہ مقصد نہیں تھا کہ جنرل باجوہ کو شرمندہ کیا جائے یا فوج کو عدلیہ کے ذریعے پیچھے دھکیلا جائے ۔بہت اچھا فیصلہ ہے جو جمہوریت کیلئے اچھا ثابت ہوگا ۔اس فیصلے کے چار پہلوئوں ہیں ۔دو قانونی اور دو سیاسی ۔قانونی پہلوئوں یہ ہیں کہ مسئلہ ہی نہیں ہے آرڈیننس آسکتا ہے ، ایکٹ آف پارلیمنٹ آ سکتا ہے کسی قسم کی اپوزیشن کی سپورٹ کی ضرورت نہیں ہے ایک اور یہ کہ آریٹکل 243کو کلئیر کریں قانون سازی کریں ۔لفظ ترمیم کا استعمال نہیں کیا گیااب کچھ لوگ کہہ رہے کہ ترمیم ہونی ہے ۔جبکہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایک سادہ اکثریت سے یا پھر دو تہائی سے ہونا ہے ۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ فیصلہ کے بعد عمران خان نے ٹوئیٹ کیا کہ مافیا فیل ہو گیا ہے ، رستہ کھل گیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے معاملہ حل کر دیا جائے گا۔لیکن اپوزیشن نہیں مانے گی اور کہے گی کہ ترمیم کرنی ضروری ہے یہ اتنا آسان کام نہیں ہے اگر سادہ اکثریت سے پاس کرتے ہیں تو یہ چیلنج ہو سکتی ہے پھر معاملہ عدالت میں جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر یہ جنگ عدالتوں اور پارلیمنٹ میں ہونی ہے تو پھر حکومت ناکام ہوتی ہے اور ظاہر ایسا ہوتا ہے کہ حکومت یہ کروا نہیں سکتی تو سب سے زیادہ غصہ جی ایچ کیو میں ہونا ہے ۔پہلے ہی وہ پریشان یا شاید ناراض ہوں کہ حکومت نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے ، ہم ایک پیج ایک پیج کی بات کرتے ہیں اور یہاں سنگین قسم کے معاملے چل رہے ہیں ۔وہاں ”سول سرچنگ ”ہو رہی ہوں گی ”غصہ ”بھی ہوگا ،دماغ لڑیا جا رہا ہوگا، رنجش بھی ہوگی ،اور سوچ رہے ہوں گے ان کو کیسے چلانا ہے یہ تو ڈرافٹنگ نہیں کر سکتے، ”زیر و بٹا زیرو” لوگ رکھے ہیں ۔اس پر نظرثانی کرنا پڑے گی کہیں یہ ہمیں مرواہی نا دیں۔چھ ماہ ایسے گزر جائیں گے انہیں سیکھانا پڑے گا نہیں تو اور رستہ اختیار نہ کیا تو اور مسائل ہوں گے جس سے خود بخود اپوزیشن کی اہمیت بڑھ جائیگی اور آئین میں ترمیم کرنی ہے تو اپوزیشن کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ عمران خان کے ٹوئیٹ سے مفاہمت نظر نہیں آتی ان کی لڑائی جھگڑے کی سوچ ہے وہ اور وہ اپوزیشن اور میڈیا پر دبائو ڈالیں گے۔جس سے کیا وہ کامیاب ہوں گے نہیں۔ادھر (فوج میں) ”پسوڑی ”پڑی ہوئی ہے کہ مرتے مرتے بچے ہیں یہ ہمیں کہاں لیکر جا رہا ہے جہاں (فوج ) کی بات کر رہے ہیں وہاں دو رائے پائی جا رہی ہے ۔ایک یہ کہ انہیں سمجھائیں مل کر کام کریں ۔جومسائل ہیں وہاں یہ کوشش ہو گی کہ اس معاملے کو فل پارلیمنٹ کی منظوری سے پاس کرایا جائے لیکن عمران خان کی شخصیت ایسی نہیں ہے لیکن ابھی تک یہ صورتحال واضح نہیں ہوئی اگریہ صورتحال واضح ہوتی ہے تو خان صاحب فارغ ہو جاتے ۔وہ پہلے دن سے اپوزیشن کوساتھ لیکر چلنے کو تیار نہیں ہیںخان صاحب مفاہمت کسی سے نہیں کرتے وہ لڑتے ہیں لیکن سیاست میں لین دین ہوتی ہے اور مفاہمت کا رستہ اپنانا پڑتا ہے لیکن ان کا خود کشی کرنے کا ”جی ”کرتا ہیں لیکن وہ خوش قسمت ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو ایسے لگ رہا ہے کہ ابھی ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے لیکن ہمارے ادارے ہمیشہ متبادل آپشنز پر غور کرتے رہتے ہیں ۔وہاں پلان بی اور سی تیار ہوگا ۔عمران خان کو اس کا احساس ہے بھی اور حال ہی میں انہوں نے دیکھ بھی لیا۔ نواز شریف کے معاملے پرانہوں نے عدلیہ اور کسی اور ادارے پر الزام لگا دیا تھا

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال اسٹیبشملنٹ دو چیزیں کر سکتی ہیں ایک یہ کہ اپوزیشن پر دبائو ڈال کر سائن کرا لیں اورکچھ ادارے ایسے ہیں جو دبائو ڈال سکتے ہیں ۔ ایک موقف یہ بھی ہے کہ ایسے معاملات چلیں گے نہیں انہیں اکٹھا کرنا ہے ۔کشمیر پر اپوزیشن چپ کر گئی تھی وہ نہیں چاہئیں گے کہ فوج اور آرمی چیف کو ناراض کر سکیں ایسی اپروجیونٹی انہیں مل سکے گی کہ ایک طرف وہ آئین کا تحفظ کریں اور فوج کے ساتھ بھی رہیں اور فوج کے ساتھ ملکر عمران خان کی چھٹی کرا دیں ۔کیونکہ عمران مفاہمت کی طرف نہیں جاتے مفاہمت کا فارمولہ نیشنل گورنمنٹ ہے ۔عمران خان اپنے پائوں پر کلہاڑے ماریں گے اگر انہیں احساس نہ ہوا ۔چھ ماہ تھوڑا وقت ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں نروس آتی جائیگی کہ اس مسئلے کو جلدی حل کریں ۔ پھر یہ آخری دو دنوں تک معاملہ آجاتا ہے تو پھر خدا نخواستہ کچھ اور نہ ہوجائے جس سے عمران خان کی پوزیشن کمزور ہو گی ۔دوسری جگہ یہ بھی بہت سوچ ہو رہی ہوں گی ادھر سے بچتے ہیں تو ادھر مروا دیتے ہیں،قانون پہلوں ساتھ ساتھ چلیں اور سیاسی پہلوئوں ابھریں گے ۔قانون سازی کا معاملہ عمران خان حکومت نے نہ سنبھالا اورقومی مفاد میں اپوزیشن کو ساتھ لیکر نہ چلے تو ایک ڈیزاسٹر ہو جائیگا ۔

اپوزیشن پارلیمنٹ میں اس معاملے کی مخالفت نہیں کریں گی وہ کہیں گے آئینی ترمیم کریں یہ جائز پوزیشن ہے اور اگر ایسا نہ کیا تو ان کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہیں جومعاملے کو عدالتوں میں لے جائیں گے جس سے یہ التواء کا شکار ہو سکتا ہے ۔کچھ عرصے سے کچھ باتیں چل رہی تھی کہ کچھ لوگ خوش نہیں عمران خان کے ساتھ پنجاب کے بارے میں اور یہ کہ ان سے معیشت نہیں چل رہی اور ان کی بد نامی ان پر اوپر آ رہی ہے ۔یہ ہو سکتا ہے یہ سوچیں یہ اچھاموقع ہے یہ ٹھیک ہو جائیں سب کو ساتھ لیکر چلیں تاکہ ہمارے اوپر سے پریشر کم ہو جائے یا ٹھیک ہے تو ٹھیک ورنہ ان کو فارغ کیا جائے اور اپوزیشن کوسپورٹ کیا جائے اور جس دن انہوںنے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نے ٹرائی کیا ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کامیاب نہ ہوئے تو یہ چلے جائیں گے۔

لیکن اپوزیشن بھی موقع پرست ہے جمہوری راستے اپنائے بغیر اپوزیشن کے بغیر یہ ترمیم نہیں ہو سکتی آپ کی سیاست کو تبدیل ہونا پڑے گا جس کی طرف ان کا جھکائو ہو معاملات حل ہو جاتے ہیں ۔حکومت پختہ ستون پر کھڑی تھی اب کمزور ہو گئی ہے اب کس طریقے سے اپوزیشن کے ساتھ نرمی شروع ہو گئی ہے ،رویے نرم ہوتے جا رہے ہیں سارا فوکس اس کیس پر ہے اور آگے تبدیلی آنے والی ہے اورایک نیا بحران شروع ہونے والا ہے جو تمام بحرانوں کو ختم کرنے جا رہا ہے ۔
 
Top