لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

جان

محفلین
جدید سرمایہ دارانہ نظام معروف ماہر اقتصادیات ایڈم سمتھ کی شہرہ آفاق کتاب “قوموں کی دولت” سے ۳۰۰ سال قبل ۱۷۷۶ میں شروع ہوا تھا۔
متفق، اس سے آگے کی کیا کہانی ہے وہ تو آپ نے بتائی نہیں!
اس نظام کی مخالفت میں جو نظام لائے گئے وہ اپنے آپ ہی کچھ عرصہ بعد پاش پاش ہو گئے۔
واقعی؟ اسے کہتے ہیں ہوائی ماہرِ اقتصادیات بننا جو کہ پاکستانیوں کا خاصہ ہے!
ان تینوں ماڈلز میں سے دیکھ لیں کونسا پاکستان کے رسم و رواج میں سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ ان میں سے کوئی کوئی بھی ماڈل من و عن سوشلسٹ کمیونسٹ نہیں ہے۔ سب میں کہیں نہ نہیں مارکیٹ ریفارمز یا سرمایہ دارانہ نظام کی آمیزش شامل ہے :)
اس بات کو یوں بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظام کی آمیزش ہے۔ موجودہ دنیا ایک ملک کا نام لے لیں جہاں حقیقی معنوں میں لبرل اکنامکس ہو؟ دعوے آپ بہت بڑے بڑے کر جاتے ہیں شاید یہ سمجھ کر شاید آپ کے علاوہ یہاں باقی دنیا اکنامکس سے نابلد ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں خالصتاً لبرل اکنامکس ہو سب میں ہی کچھ نہ کچھ تڑکا لگا ہوا ہے اور زیادہ تر ملکوں میں بلینزم کا تڑکا ہے، پروٹیکشنزم کس ملک میں نہیں ہے؟ بائی دا وے 'دا ویلتھ آف نیشنز' آپ نے پڑھی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں خالصتاً لبرل اکنامکس ہو سب میں ہی کچھ نہ کچھ تڑکا لگا ہوا ہے اور زیادہ تر ملکوں میں بلینزم کا تڑکا ہے، پروٹیکشنزم کس ملک میں نہیں ہے؟ ب
اس وقت نہیں ہے۔ البتہ ماضی میں کئی ممالک لبرل اکانامکس پر چلتے رہے ہیں۔ جس کے خلاف بغاوت پر سوشل ازم وجود میں آئی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس بات کو یوں بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظام کی آمیزش ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں کہیں کہیں سوشل ازم کی آمیزش ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سُرخے اپنے نظریات میں سچے تھے۔ دنیا کے کسی ملک میں سُرخے کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کو بہرحال سرمایہ دارانہ نظام کے مارکیٹ ریفارمز لانے پڑے۔ اسی طرح کلاسکل لبرل اکناماکس بھی سو فیصد کامیاب نہیں رہی۔ ان کو بھی بعض سوشلسٹ نظریات اپنانے پڑے۔
Why Marx was wrong about capitalism — Adam Smith Institute
 

جاسم محمد

محفلین
خبر یہ ہے کہ پی ٹی ایم کا ایک دھڑا سرخ ہے سرخ ہے کا راگ الاپتے سرخوں کی اس احیائی جدوجہد کو طلبا کی بیساکھیاں استعمال کر کے ہائی جیک کرنے کی کوشش میں ہے۔
فوج مخالف نظریات پھیلانے کیلئے پہلے پی ٹی ایم کا استعمال کیا۔ وہ سلسلہ ختم ہوا تو مولانا کا دھرنا لے آئے۔ وہ فلاپ ہوا تو اب سُرخوں کے احتجاج اسی کام کیلئے اس استعمال ہو رہے ہیں۔ مسئلہ کوئی بھی ہو۔ اصل ہدف فوج ہی ہے۔
عوام اندھی نہیں۔ سب دیکھ رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ لہو رنگ تحریک کم از کم لاہور کی حد تک اپنا وجود رکھتی ہے اور پاکستان کے کئی شہروں، اور حتیٰ کہ آزاد کشمیر میں بھی، اس تحریک سے والہانہ لاؤ رکھنے والے افراد موجود ہیں اور یہ ایک متبادل نظام پیش کرنے کے علم بردار ہیں اور سوویت یونین کے زوال کے بعد بھی انہوں نے اپنا قبلہ نہیں بدلا اور دل و جان سے سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کی معیشت کو وہ سدھار سکتے ہیں۔ لاہور میں غالباََ ہر سال ہی یہ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تاہم اس مرتبہ انہیں زیادہ ہائی لائیٹ کیا گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ وہ لڑکی ہے جو بڑے والہانہ انداز میں فیض کا کلام پڑھ رہی تھی۔ اس تحریک میں جان تو کم ہے، مگر اس لڑکی نے کئی طاقتور عناصر کو ، کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک، کہیں نہ کہیں، اندر سے ہلا ضرور دیا ہے۔ یہ عناصر اسے نظرانداز بھی کر سکتے تھے تاہم یہاں جو بھی انہیں للکارے، یہ اپنے ہرکاروں سمیت میدان میں آن موجود ہوتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
خبر یہ ہے کہ پی ٹی ایم کا ایک دھڑا سرخ ہے سرخ ہے کا راگ الاپتے سرخوں کی اس احیائی جدوجہد کو طلبا کی بیساکھیاں استعمال کر کے ہائی جیک کرنے کی کوشش میں ہے۔
یہ سرخوں کے مارچ میں ریاست سے بغاوت پر مبنی تقاریر کیوں ہو رہی ہیں؟ کیا یہ آزادی اظہار ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
نوجوانوں کی بے چینی ایک ٹویٹ سے دور نہیں ہوگی
02/12/2019 سید مجاہد علی


جمعہ کو ملک بھر کے متعدد شہروں میں طلبہ یک جہتی مارچ کے بعد پولیس نے نامعلوم تعداد میں طالب علموں اور مظاہرین کو گرفتار کیا ہے یا ان کے خلاف متعدد الزامات میں مقدمات درجکیے گئے ہیں۔ البتہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ پیغام میں ملک کی یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹ یونینز کو مشروط طور سے بحال کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالب علموں اور سول سوسائیٹی کے ارکان کی گرفتاریوں یا ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گرفتار نوجوانوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جن لوگوں کے خلاف مقدمات قائمکیے گئے ہیں ان میں مشال خان کے والد اقبال لالہ بھی شامل ہیں جو لاہور کے مظاہرے میں شامل ہوئے تھے۔ مشال خان کو اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علموں کے ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ہلاک کردیا تھا۔

اس سال کے شروع میں ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان کو تشدد کرتے ہوئے بربریت کے ساتھ ہلاک کرنے والے بیشتر ملزموں کو بری کردیا تھا جبکہ صرف ایک شخص کو موت کی سزا دی گئی تھی۔ اس فیصلہ کے خلاف اپیلیں پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ اس سانحہ کے بعد سے مشال خان کے والد کو آزادی رائے اور طالب علموں کے حقوق کے حوالے سے علامت کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ لاہور کے مظاہرے میں ان کی آمد پر نوجوانوں نے پرجوش نعرے لگائے تھے۔

جمعہ کو ملک بھر کے درجنوں شہروں میں طالب علموں اور سول سوسائیٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مظاہرےکیے تھے جن میں سٹوڈنٹ یونینز بحال کرنے کا مطالبہ سر فہرست تھا۔ اس احتجاج کے دوران ’ہمیں کیا چاہیے؟ آزادی آزادی‘ کے نعرے استعمالکیے گئے تھے اور کئی مقامات پر نوجوانوں نے اپنے حقوق کے لئے پرجوش تقریریں بھی کی تھیں۔ اگرچہ مبصرین اور سیاسی حلقوں نے عام طور سے ان مظاہروں کی تائید کی اور نوجوانوں کے مطالبات تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن سرکاری طور پر ان مظاہروں کو سرکاری کنٹرول اور حکومتی حکمت عملی کے خلاف سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مظاہروں کی الیکٹرانک میڈیا میں کوریج کی حوصلہ شکنی کی گئی اور پولیس نے احتجاجی تقریریں کرنے والے متعدد نوجوانوں کے خلاف سنگین الزامات میں مقدمات قائمکیے ۔ ان الزامات میں بغاوت کی شقات بھی شامل کی گئی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹ پیغامات کے ذریعے اس احتجاج کی تشہیر رکوانے کی سرکاری حکمت عملی اور بعد میں مقدمات قائم کرنے اور گرفتاریوں سے ہونے والے سیاسی نقصان سے بچنے کے لئے آج یہ عندیہ دیا ہے کہ کہ حکومت سٹوڈنٹ یونینز بحال کرنے کا جائزہ لے گی۔ وزیر اعظم نے طالب علم یونینز کو مستقبل کے لیڈر پیدا کرنے کے لئے ضروری قرار دیا لیکن سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں طالب علم یونینز پر لگنے والی پابندی کو درست قرار دینے کی بھی کوشش کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ طالب علم یونینز نے ماضی میں تشدد کا راستہ اختیار کیا اور یونیورسٹیوں کے علمی ماحول کو خراب کیا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اب حکومت یونینز کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ تیارکرے گی اور مشروط طور سے طالب علموں کو یونینز بنانے کی اجازت دی جائے گی۔

طالب علم یونینز بحال کرنے کا بالواسطہ وعدہ جمعہ کو ہونے والے مظاہروں کی جزوی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے حکومت کے عملی اقدامات سامنے آنے کے بعد ہی صورت حال واضح ہوسکے گی۔ اگر حکومت اور وزیر اعظم نے طالب علموں اور سول سوسائیٹی کے احتجاج کی نیوز ویلیو کم کرنے کے لئے کسی ایجنڈے کے تحت یہ بیان جاری کیا ہے تو اس سے ملک میں ہیجان کی کیفیت کم ہونے کی بجائے، اس میں اضافہ ہوگا۔ جمعہ کے مظاہروں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ملک کے طالب علموں کے علاوہ سول سوسائیٹی کے افراد اور عوامی حقوق اور شہری آزادیوں کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اظہار پر عائد مختلف النوع پابندیوں پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس تشویش کو دور کرنے کے لئے صرف یونینز بحال کرنے کا مشروط وعدہ اور نوجوانوں کو ملک کا سرمایہ قرار دینے کے بیان کافی نہیں ہوں گے بلکہ حکومت کو عملی طور سے اپنے رویہ سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ دھونس اور زبردستی کی حکمت عملی تبدیل کرنے پر تیار ہے۔

جمعہ کے احتجاج کے بعد مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی غم و غصہ میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔ مشال خان کے معمر والد اقبال لالہ کے خلاف بغاوت جیسے سنگین الزام میں مقدمہ قائم کرنا جلتی پر تیل پھینکنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی سے پشتون کونسل کے سابق چئیرمین عالمگیر وزیر کی گرفتاری بھی انتہائی قابل مذمت کارروائی ہے۔ عالمگیر وزیر کے بارے میں صورت حال بدستور غیر واضح ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں کس ادارے یا ایجنسی نے کیوں اٹھایا ہے۔ آزادی اظہار کو دبانے کی یہ کوششیں نوجوانوں کی بے چینی میں اضافہ کریں گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس صورت حال کا نوٹس لیا ہے اور حکومت کو اس عالمی تنظیم کی تشویش کا فوری طور سے جواب دینا چاہیے۔

یونینز بحال کرنے کا غیر واضح اعلان کرنے کی بجائے وزیر اعظم کو اس احتجاج کی اہمیت و ضرورت کو سمجھنا چاہیے۔ ان کا فرض تھا کہ وہ اس حوالے سے غلطی کے تدارک کے لئے صوبائی حکام کو احتجاج کرنے والے نوجوانوں اور دیگر لوگوں کے خلاف مقدمات واپس لینے کا حکم دیتے۔ ایسے اعلان سے وہ کسی حد تک اپنے خلوص اور سیاسی شہرت بحال کرنے کی کوشش کرسکتے تھے۔ لیکن عمران خان نے 35 برس پہلے سٹوڈنٹ یونینز پر لگنے والی پابندی کا الزام طالب علموں پر ہی عائد کرتے ہوئے گویا یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ایک آمر کے اقدامات درست تھے۔

اب ان کا تقاضہ ہے کہ اگر طالب علم ’اچھے بچے‘ بننے کا وعدہ کریں تو حکومت کوڈ آف کنڈکٹ متعین کرنے کے بعد یونینز بحال کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ حالانکہ یونینز تشکیل دینے اور ان کا ضابطہ اخلاق بنانے کے لئے نوجوانوں اور طالب علموں کی رائے کو فوقیت دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوان حکومت کی طرف سے مسلط کردہ کوئی حل قبول نہیں کریں گے۔

اسی کی دہائی کے شروع میں جنرل (ر) ضیا الحق کی آمریت کے خلاف طالب علموں میں جوش و ولولہ بڑھ رہا تھاجس کے نتیجہ میں یہ امکان پیدا ہوگیا تھا کہ اگر یونینز کے بروقت انتخابات منعقد ہوجاتے تو ضیا مخالف طالب علموں کی تنظیمیں کامیاب ہوجاتیں جو اس وقت ملک پر نافذ فوجی آمریت کو چیلنج کرسکتی تھیں۔ اسی اندیشے کی وجہ سے جنرل ضیا کی حکومت نے سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ اس کے بعد کسی بھی سیاسی حکومت نے اس آمرانہ فیصلہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اس کی جزوی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک فضائی حادثہ میں ضیا الحق کی موت کے بعد، قائم ہونے والی کسی بھی جمہوری حکومت کو اطمینان سے کام نہیں کرنے دیا گیا۔ حتی کہ 1999 میں جنرل(ر) پرویز مشرف نے ایک بار پھر جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور نو برس تک ملک پر فوجی آمریت مسلط رکھی۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی دراصل ملک کی جمہوری قوتوں کی طاقت کو کم کرنے اور جمہوری نظام کو اسی قسم کے ’کوڈ آف کنڈکٹ‘ کا پابند کرنے کی خواہش کے نتیجہ میں برسر اقتدار آئی ہے، جس کا حوالہ اب عمران خان سٹوڈنٹ یونینز کے بارے میں دے رہے ہیں۔

طالب علموں میں پائی جانے والی بے چینی ملک میں عام طور سے پیدا ہونے والی گھٹن کا ہی ایک پہلو ہے۔ عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں عالمی تعلیمی اداروں کے تجربات کی روشنی میں طالب علموں کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کی بات کی ہے لیکن نوجوانوں کے خلاف پولیس کی دست درازی اور احتجاج کے بلیک آؤٹ کی سرکاری پالیسی پر ایک لفظ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ طرز عمل طوفان کو پر کاہ سے روکنے کی کوشش کے مترادف ہوگا۔ حکومت اور وزیر اعظم نے اگر ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو سمجھنے کی کوشش نہ کی اور ہر احتجاج کو نام نہاد مافیا کی سازش اور لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کا حربہ قرار دیا تو وہ حالات کو مزید خراب کرنے اور ملکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گے۔

عمران خان کو اب یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ منتخب لیڈر ہیں۔ ان کا لب و لہجہ جمہوری اور عوامی ہونا چاہیے۔ مخالفین پر زبان دراز کرکے اور ایک نا اہل وزیر اعلیٰ کی توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملا کر وہ اپنی حکومت کو مضبوط نہیں کرسکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوجوانوں کا اضطراب
02/12/2019 خورشید ندیم

گھٹن ہے اور شدید گھٹن۔ ریاستی سطح پر بھی اور معاشرتی سطح پر بھی۔گھٹن کا ردِ عمل تو ہوتا ہے۔ کبھی کسی چیخ کی صورت میں اور کبھی بے معنی آوازوں کی شکل میں۔ شعوری کاوش ان آوازوں کو معنویت عطا کر دیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو گھٹن خود ہی فضا میں بکھری کسی آواز کا انتخاب کر لیتی ہے۔ کچھ ایسی ہی آوازیں ہم آج بھی سن رہے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ نوجوان جو پھریرے لہرا رہے ہیں، اکثر ان کے فکری پس منظر سے زیادہ واقف نہیں۔ یہ سرخ جھنڈے اور نظمیں، گھٹن کے ردِ عمل کے سوا کچھ نہیں۔
مسئلے کا علاج سادہ ہے۔ گھٹن کا خاتمہ۔ ایک ایسے سماج کی تشکیل جس میں آزادیٔ فکر و عمل کو بطور قدر قبول کیا جائے۔جس میں مذہب، روایت یا روشن خیالی کے نام پر جبر نہ ہو۔ ووٹ کے حق سے لے کر نظریات کے انتخاب تک، عام آدمی کسی خارجی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ نہ ریاست کی طرف سے نہ سماجی گروہوں کی طرف سے۔ پارلیمان سے تعلیمی اداروں تک اور مسجد و مندر سے چوپال و بیٹھک تک، ہر فرد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ جو راستہ چاہے، اس پر قدم رکھے۔
آج نوجوانوں میں جو تحریک منظم ہو رہی ہے، وہ سماج کے جبر کا ایک نتیجہ ہے۔ نوجوانوں کے نعروں میں مذہب بے زاری ہے اور ریاستی بیانیے سے اظہارِ لا تعلقی ہے بلکہ جھنجھلاہٹ بھی۔ چونکہ یہ کسی شعوری عمل کا حاصل نہیں، اس لیے ان کے ردِ عمل کے نظری خد و خال ابھی واضح نہیں۔ لال رنگ کبھی بغاوت کی علامت تھی۔ ان نوجوانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ لال رنگ کا جھنڈا جو انیسویںصدی میں ایک فکری تحریک کی علامت تھا، آج انسانی لہو میں رنگا ہوا وہ پھریرا ہے‘ جسے سرخ انقلاب کے نام پر بیسویں صدی میں بے دریغ بہایا گیا، تو شاید وہ کسی اور رنگ کا انتخاب کر لیتے۔
یہ گھٹن کیوں ہے؟ معاشرتی سطح پر اس کے ذمہ دار اہلِ مذہب اور نظریاتی تحریکیں ہیں۔ مذہبی طبقوں نے اس معاشرے کو اپنی اپنی مذہبی تعبیرات کا یرغمال بنانا چاہا۔ جس کو تعلیمی اداروں پر قبضے کا موقع ملا، اس نے وہاں مخالف نظریات رکھنے والوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ جس نے محراب و منبر پر قبضہ جمایا، اس نے دوسرے مسالک کو دائرۂ اسلام سے باہر نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ رہی سہی کمی جہادی تنظیموں نے پوری کر دی۔ ہر جان کو اپنے لیے مباح قراردے دیا اور یوں ان سب کی مشترکہ کوششوں نے مذہب کے نام پر بے بسی کی ایک ایسی فضا پیدا کر دی کہ لوگوں کا دم گھٹنے لگا۔
اہلِ مذہب کے ساتھ، جنہوں نے سب سے پہلے یہاں سرخ پھریرا لہرایا، انہوں نے بھی تعلیمی اداروں کو مقتل بنانے میں پوری گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ اسلحہ انہی کی وجہ سے تعلیمی نصاب میں شامل ہوا۔ مسلح جدوجہد ان کی آئیڈیالوجی کا حصہ تھا۔ 1980ء کی دہائی میں یہ تحریک تو دم توڑ گئی جب اشتراکیت کو ماسکو میں بھی کوئی پناہ گاہ میسر نہ آ سکی‘ اب تشدد پر بعض مذہب پسندوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی جو تادمِ تحریر قائم ہے۔ تشدد سب جانتے ہیں کہ بد ترین گھٹن کو جنم دیتا ہے۔
29 نومبر کو جو جلوس برآمد ہوئے، ان میں ایک نعرے کا مفہوم تھا کہ مشال خان کے مشن کو زندہ رکھا جائے گا۔ مجھے تحقیق کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مشال خان کا مشن کیا تھا؟ میرے علم کی حد تک تو اس نوجوان کا کوئی مشن نہیں تھا۔ اس کی پہچان مظلومانہ موت ہے۔ اسے مذہبی جنونیوں نے ایک ایسے جرم میں مار ڈالا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ اسے علامت بنانے کا مطلب، میرے خیال میں اس گھٹن کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ہے۔
دوسرا جبر وہ ہے جو ریاست کی طرف سے روا رکھا گیا۔ پاکستان کو ابتدا ہی سے ایک ایسے تصورِ ریاست کے تحت دیکھا گیا‘ جس میں ریاست کے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے۔ پالیسی سازوں نے جو حکمتِ عملی بنائی، وہ اسی تصور سے پھوٹی ہے۔ اس میں عوام کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہیں ریاست کے لیے قربانی دینی ہے۔ اس کے لیے خارجی دشمن کا حقیقی یا مفروضہ وجود بھی ضروری ہوتا ہے۔ ایسی سٹیٹ میں ‘قومی مفاد‘ کا وہی تصور قابلِ قبول ہوتا ہے جو ریاستی اداروں کے ٹیکسال میں ڈھلتا ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اپنے طور پر اس تصور کی تعریف کر سکتا ہے نہ اس کا پرچار کر سکتا ہے۔وہ ایسا کرے تو غدار قرار پائے گا۔
ایسی ریاست تاریخ اور مذہب کا بھی ایک تصور دیتی ہے جسے ریاستی سرپرستی میں تعلیمی اداروں میں رائج کیا جاتا ہے اور نئی نسل کی فکری و ذہنی تربیت، ان تصورات کے مطابق کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں بھی ان نظریات کے برخلاف تحقیق کی اجازت نہیں ہوتی جو قائم ہی تحقیقی سوچ کے فروغ کے لیے ہوتی ہیں۔ یہی نہیں، ریاستی مفاد کا تقاضا ہو تو انتخابات تک کے نتائج کو تبدیل کر دیا جاتا ہے کہ قومی مفاد کو ‘ناقص‘ رائے عامہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسی سٹیٹ میں میڈیا کی آزادی بھی قابلِ قبول نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ اس کو آزاد رہنے سے یہ امکان پیدا ہو جاتا کہ ریاستی بیانیے کے برخلاف تصورات فروغ پائیں جو ‘قومی یک جہتی‘ کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
ماضی میں تو ایسی سٹیٹ کے تصور کو برقرار رکھنا آسان تھا کہ لوگوں کی علمی رسائی محدود تھی۔ اب یہ ممکن نہیں رہا۔ انٹرنیٹ نے معلومات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ اب تاریخ و جغرافیہ میں، ایک طالب علم کی پہنچ اس تحقیق تک ہے جو دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ ہماری جامعات میں ایسے اساتذہ موجود ہیں جو باہر سے پڑھ کر آئے ہیں اور ان کی تعلیمی و تحقیقی تربیت ایسے تصورِ ریاست کے پیراڈائم میں نہیں ہوئی۔ وہ بھی جب اپنے نتائجِ فکر ان نوجوانوں تک پہنچاتے ہیں جو مقامی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں تو ان میں سوچ کی نئی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔
وہ جب اس کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ریاستی بیانیہ رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ان کو جب اظہار سے روکا جاتا ہے تو گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ نوجوانوں کے مظاہروں میں بھگت سنگھ کی تصویر دراصل اس نصابی تصورِ تاریخ پر اظہارِ احتجاج ہے جو آزادی کی تحریک کو ایک خاص رنگ دیتا ہے اور اس خطے کی غیر مسلم روایت کو قبول نہیں کرتا جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔
یہ آج معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی اس گھٹن کا مداوا کرے۔ اسے وہ فضا مہیا کرے، جس میں وہ کھل کر سانس لے سکے۔ جہاں وہ موجود افکار میں سے اپنے لیے آزادی کے ساتھ کسی فکر کا انتخاب کر سکے۔ فضا میں بہت سے فکری رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ سبز، سرخ، نیلا، پیلا اور معلوم نہیں کتنے۔ نئی نسل کو اگر انتخاب کا موقع ملے تو وہ یقینا سوچ سمجھ کر کسی رنگ کا انتخاب کرے گی۔
آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ اس گھٹن کے خلاف بغاوت ہے۔ اس رویے کے خلاف اظہارِ ناراضی ہے جو ریاست اور سماج نے روا رکھا ہے۔ حریتِ فکر بنیادی انسانی قدر ہے۔ میں جس مذہب کو ماننے والا ہوں، وہ اس کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ اسلام کے قانونِ آزمائش کی اساس ہی حریتِ فکر و عمل ہے۔ ورنہ تو جزا و سزا کا سارا عمل بے معنی ہے۔ یہ مذہب کا سوئے فہم ہو گا اگر کوئی اس کے نام پر اس آزادی کو سلب کرے گا۔
اس وقت جو آوازیں اٹھ رہی ہیں، ان میں کوئی معنویت تلاش کرنا عبث ہے۔ ریاست اور معاشرے کوصرف اس گھٹن کو ختم کرنا ہے جس نے احتجاج کی صورت میں ظہور کیا ہے۔ اس کو ریاست کے لیے خطرہ سمجھنا ایک سنگین غلطی ہو گی۔ گھٹن کا خاتمہ وہ ماحول فراہم کرے گا‘ جو ان نوجوانوں کے اضطراب کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد ان کے خیالات میں خود بخود معنویت پیدا ہو جائے گی۔ ان کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم انقلاب کے نہیں، جمہوریت کے دور میں زندہ ہیں۔ انقلاب تشدد اور فکری جبر کو اور جمہوریت امن اور اختلافِ رائے کے احترام کو فروغ دیتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے طلبہ یونین کا وجود فی نفسہ تعلیمی نظام کی کن کمزوریوں کا عکاس ہوتا ہے ۔ اور یہ طلبہ اتحادی تنظیمیں ایک متوازن اور فعال تعلیمی نظام میں بھی اپنے وجود کا کیا جواز رکھتی ہیں ؟ مجھے ذاتی طور پر یہ پسند نہیں ، طلبہ کو تو علمی تحقیق میں توانائیاں صرف کرنے کے مواقع ملنے چاہیئں ۔
سوال کے حد سے زیادہ سادہ ہونے پر معذرت :) میں کالج کے زمانے میں تمام یونینوں سے دور بلکہ بہت دور رہا ہوں ۔ اگرچہ میں نے اپنے ہی کالج میں کلاس کے باہر تشدد، لاتیں ،گھونسے اور قتل بھی دیکھے ہیں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے طلبہ یونین کا وجود فی نفسہ تعلیمی نظام کی کن کمزوریوں کا عکاس ہوتا ہے ۔ اور یہ طلبہ اتحادی تنظیمیں ایک متوازن اور فعال تعلیمی نظام میں بھی اپنے وجود کا کیا جواز رکھتی ہیں ؟ مجھے ذاتی طور پر یہ پسند نہیں ، طلبہ کو تو علمی تحقیق میں توانائیاں صرف کرنے کے مواقع ملنے چاہیئں ۔
طلبہ یونین ادھر یورپ میں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ صرف طلبا کے حقوق کیلئے کام کرتی ہیں۔ سیاست نہیں کرتی :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
طلبہ یونین ادھر یورپ میں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ صرف طلبا کے حقوق کیلئے کام کرتی ہیں۔ سیاست نہیں کرتی :)
سوال در اصل یہی تھا کہ ایک تعلیمی نظام طلبہ کو کون سے ایسے حقوق ہیں جو نہیں دیتا اور ان یونینوں کو پیدا ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
یہاں واقعے کا اصل مقصد طلبہ یونین کو بحال کرنا ہے اور کوئی مطالبہ ہی نہیں البتہ یونین بنیں گی تو تب ان کے اصل مطالبات ظہور فرمائیں گے ۔ یہ ڈھول گانے باجے تماشے تو محض سر ورق کا ٹائٹل نظر آتے ہیں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال در اصل یہی تھا کہ ایک تعلیمی نظام طلبہ کو کون سے ایسے حقوق ہیں جو نہیں دیتا اور ان یونینوں کو پیدا ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
یہاں واقعے کا اصل مقصد طلبہ یونین کو بحال کرنا ہے اور کوئی مطالبہ ہی نہیں البتہ یونین بنیں گی تو تب ان کے اصل مطالبات ظہور فرمائیں گے ۔ یہ ڈھول گانے باجے تماشے تو محض سر ورق کا ٹائٹل نظر آتے ہیں ۔
ناروے میں طلبہ یونینز طلبہ کے مسائل جیسے رہائش، وظیفہ جات، کلچرل ایونٹس وغیرہ پر کام کرتی ہیں۔ پاکستان میں سنا ہے یہ بس غنڈہ گردی کرتی ہیں :)
 
ویسے طلبہ یونین کا وجود فی نفسہ تعلیمی نظام کی کن کمزوریوں کا عکاس ہوتا ہے ۔ اور یہ طلبہ اتحادی تنظیمیں ایک متوازن اور فعال تعلیمی نظام میں بھی اپنے وجود کا کیا جواز رکھتی ہیں ؟ مجھے ذاتی طور پر یہ پسند نہیں ، طلبہ کو تو علمی تحقیق میں توانائیاں صرف کرنے کے مواقع ملنے چاہیئں ۔
سوال کے حد سے زیادہ سادہ ہونے پر معذرت :) میں کالج کے زمانے میں تمام یونینوں سے دور بلکہ بہت دور رہا ہوں ۔ اگرچہ میں نے اپنے ہی کالج میں کلاس کے باہر تشدد، لاتیں ،گھونسے اور قتل بھی دیکھے ہیں ۔
باقی موضوع سے قطع نظر صرف ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔

ایک چیز جو دوبارہ اس موضوع کے زندہ ہونے اور زیرِ بحث آنے پر نوٹ کی ہے وہ یہ کہ لوگ طلبہ تنظیموں اور طلبہ یونین کو ایک ہی چیز سمجھ رہے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
طلبہ یونین دراصل ایک کالج کی طلبہ پارلیمنٹ ہے، جس کے انتخاب میں طلبہ تنظیمیں حصہ لیتی ہیں، اور طلبہ یونین کا عموماً کردار مثبت ہی ہوا کرتا ہے۔
پاکستان میں بھی طلبہ تنظیموں کے اندر تشدد کا عنصر یونین پر پابندی کے بعد بڑھا۔ جب تک یونین موجود تھی، طلبہ تنظیموں کا فوکس مثبت سرگرمیوں کے ذریعہ عام طلبہ کی حمایت حاصل کرنا ہوتا تھا۔ جب یونین پر پابندی لگ گئی تو طلبہ تنظیموں میں اداروں پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے جھگڑوں اور تشدد کا رجحان بڑھ گیا۔
یونین کا ہونا مثبت سمت کی طرف لے کر جائے گا، اور سیاسی شعور میں اضافہ کا باعث بنے گا۔

فوری طور پر ڈھونڈنا ذرا مشکل ہو گا، ورنہ باقاعدہ سٹیٹس موجود ہیں کہ جب طلبہ یونین تھی تو تشدد کا عنصر بہت کم تھا، اور تنظیموں کی مخاصمت خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر تھی، پابندی کے بعد طلبہ تنظیموں میں تصادم اور تشدد کا عنصر بہت بڑھ گیا۔
 
طلبہ یونین کے موضوع پر کل سلیم صافی نے طلبہ نمائندوں کے ساتھ جرگہ پروگرام کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طالب علم رہنماؤں نے ٹاک شو میں موجودہ سیاستدانوں سے زیادہ بہتر اور سلجھے ہوئے انداز سے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج
عمران گبول02 دسمبر 2019

لاہور: پولیس نے حال ہی منعقد ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمات درج کرلیے اور عالمگیر وزیر نامی ایک شخص کو گرفتار بھی کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سول لائن پولیس نے ریاست کی مدعیت میں مارچ کے منتظمین عمار علی جان، فاروق طارق، (مشال خان کے والد) اقبال لالا، (پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور ایم این اے علی وزیر کے بھتیجے) عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل کے علاوہ 250 سے 300 نامعلوم شرکا کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

واضح رہے کہ مشال خان کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا گیا تھا۔

حیران کن طور پر یہ اقدام طلبہ کی حمایت کرنے والے وزرا اور حکومتی نمائندوں کے حالیہ بیان کے برعکس ہے۔

واضح رہے کہ ملک بھر میں 50 شہروں میں طلبہ اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے اور ان مطالبات میں ایک طلبہ یونین کی بحالی بھی تھا۔

اس حوالے سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق شکایت کنندہ سب انسپکٹر محمد نواز کا کہنا تھا کہ وہ پیٹرولنگ پر تھا جب اسے اطلاع ملی کہ 250 سے 300 افراد کی ریلی عمار علی جان، فاروق طارق، اقبال لالا، عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل خان کی قیادت میں نکالی جارہی ہے اور یہ ریلی دی مال پر فیصل چوک پر پہنچ گئی ہے، جہاں مظاہرین نے زبردستی سڑک بلاک کردی ہے تاکہ وہ اسٹیج بنا کر تقاریر کرسکیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'مقررین طلبہ کو ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف اکسا رہے اور تقاریر اور نعرے موبائل فون پر ریکارڈ کیے گئے جبکہ انہیں پی پی آئی سی 3 کیمروں کے ذریعے بھی دیکھا جاسکتا ہے'۔

اس حوالے سے کیپیٹل سٹی پولیس افسر ذوالفقار حمید نے ڈان کو بتایا کہ ایک مشتبہ شخص عالمگیر وزیر کو 2 روز قبل اس کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ کیس ریاست کی جانب سے درج کروایا گیا کیونکہ طلبہ اشتعال انگیز تقاریر کررہے تھے اور ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس کیس میں ملوث دیگر لوگوں کو بھی گرفتار کرے گی۔

واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالبعلم عالمگیر وزیرجو پختون کونسل کے چیئرمین بھی بن گئے تھے وہ 2 روز قبل کیمپس سے لاپتہ ہوگئے تھے، انہوں نے گزشتہ برس اپنا بی ایس جینڈر اسٹڈیز مکمل کیا اور وہ وہاں اپنی ڈگری کے حصول کے لیے تھے، وہ اپنے کزن محمد ریاض کے ہمراہ ہاسٹل نمبر 19 میں رہ رہے تھے۔

علاوہ ازیں پختون کونسل کے طلبہ نے عالمگیر وزیر کی گرفتاری کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے گھر کے باہر احتجاج کیا۔

مظاہرین کی جانب سے ان کی گرفتاری کی مذمت کی گئی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا، یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی ان کی گمشدگی کی خبر سے بھر گیا اور ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

دریں اثنا عمار علی جان نے ایک ٹوئٹ کی جس میں انہوں نے ایف آئی آر کی نقل لگاتے ہوئے لکھا کہ 'ہمیں ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا، ہم گورنر سے ملے تھے جنہوں نے ہمیں حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی جبکہ وزرا نے بھی ہماری حمایت میں ٹوئٹ کیں'۔

انہوں نے لکھا کہ 'مظاہرین جمع ہوئے اور پرامن منتشر ہوگئے، کیا ہمارے ملک میں کوئی حکومت بھی ہے؟ کیا ہم کسی کے الفاظ پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ ہم پرامن شہری ہیں اور ہم ایسے ہی رہیں گے'۔

اس بارے میں ڈان سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ملک بھر کے ہزاروں طلبہ اپنے حقوق اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیے احتجاج کر رہے تھے لیکن ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت انہیں سزا دینے کے لیے کولونیل دور کا قانون استعمال کر رہے جیسے برٹش اپنے بادشاہ کے خلاف نعرے بازی کے لیے مقامی لوگوں پر استعمال کرتے تھے۔
 
Top