ڈیل کا تاثر درست نہیں ہے احتساب کا عمل جاری رہے گا، وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے درخواست پر سماعت کل تک ملتوی
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
حکومت نے سابق وزیراعظم کو 4 ہفتوں کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی۔ فوٹو: فائل

لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کے لیے درخواست پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے غیر مشروط طور پر فوری نکلوانے کے لیے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر حکومت کے وکیل نے نواز شریف کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اب رہا ہیں درخواست انہیں دائر کرنی چاہیے تھی۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرط عائد کرے، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کس نیب نے نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا۔ عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف واقعی ملک سے باہر علاج کے لیے جانا چاہتے جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جی اگر انہیں اجازت ملے گی تو جائیں گے۔

عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو جواب داخل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

شہباز شریف کی ہائی کورٹ میں درخواست؛

اس سے قبل صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے غیر مشروط طور پر نکلوانے کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے جس میں وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سے نواز شریف کی ضمانت بیماری کی بنیاد پر منظور ہوچکی ہے، ضمانت منظور ہونے کے باوجود وفاقی وزارت داخلہ نے نام ای سی ایل سے نہیں نکالا، نواز شریف سزا یافتہ ہونے کے باوجود بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر بیٹی کیساتھ پاکستان واپس آئے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے ضمانت منظور کرتے ہوئے ای سی ایل سے نام نکالنے کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں لگائی تاہم وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر شرائط عائد کر دی ہیں لہذا نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جائے۔

کیس کا پس منظر؛

گزشتہ روز حکومت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو 4 ہفتوں کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی جب کہ وزرات داخلہ کی جانب سے اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری میمورنڈم میں 80 لاکھ پاؤنڈ، 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر، 1.5 ارب روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔

حکومت کی جانب سے باہر جانے کے لیے 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانے کی شرط پر سابق وزیراعظم نواز شریف نے بیرون ملک جانے سے انکار کرتے ہوئے عدالت جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
عجیب بات ہے ویسے۔۔۔ بات بھی کچھ عجیب ہے۔۔۔۔
نواز تو بیمار ہے۔۔۔۔۔۔
اچھا وہ مشرف سے کتنے رکوائے تو ۔۔۔ زلفی بخاری کا نام کیسے ایک گھنٹے میں نکل گیا۔۔۔
خیر مجھے پتا ہے اپ کو سب پتا ہے لیکن پھر حرکات ایسے کہ کچھ بھی نہیں پتا۔۔۔۔
عمران خان کو نواز شریف کی شیروانی کا بٹن تک نہیں دیں گے سے نواز شریف کو مفت میں ملک سے بھاگنے دو کا سفر۔ کوئی شرم و حیا؟ بندہ غریب و لاچار کیلئے تو اہل اقتدار سے رحم کی بھیک مانگے۔ نواز شریف جیسے طاقتور کیلئے جو بات بات پر "ڈٹ" جاتا ہے کیلئے رعایت کیسی؟

 

جاسم محمد

محفلین
عجیب بات ہے ویسے۔۔۔ بات بھی کچھ عجیب ہے۔۔۔۔
نواز تو بیمار ہے۔۔۔۔۔۔
اچھا وہ مشرف سے کتنے رکوائے تو ۔۔۔ زلفی بخاری کا نام کیسے ایک گھنٹے میں نکل گیا۔۔۔
خیر مجھے پتا ہے اپ کو سب پتا ہے لیکن پھر حرکات ایسے کہ کچھ بھی نہیں پتا۔۔۔۔

نوازشریف کا سمدھی اسحاق ڈار نیب کو مطلوب ہے، وہ آج سے دو سال قبل تین دن کیلئے ایک ضروری کام سے لندن گیا اور پھر واپس نہ آیا۔

نوازشریف کے دونوں بیٹے نیب کو مطلوب ہیں۔ پانامہ کیس میں جب تک انہیں امید رہی کہ رشوت دے کر خلاصی ہوجائے گی، وہ پاکستان میں رہے۔ جونہی نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ آیا، دونوں بیٹے راتوں رات قطر ائیرویز پر سوار ہوکر لندن چلے گئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، واپس پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ماں دفنا دی گئی، باپ جیل چلا گیا، بیٹی جیل چلی گئی لیکن وہ پلٹ کر نہ آئے۔

نوازشریف کے بھائی کا داماد نیب کو مطلوب ہے۔ اربوں کی کرپشن کی جب تحقیقات شروع ہوئیں تو وہ بھی آدھی رات کو دبئی چلا گیا اور وہاں سے لندن۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، واپس پلٹ کر نہیں آیا۔

نوازشریف کی دوسری بیٹی اسما شریف کا نام بھی ٹی ٹی سکینڈل میں آیا۔ وہ بھی لندن ہے اور واپس پلٹ کر نہیں دے رہی۔

نوازشریف کا بھتیجا اور خاندان کا سب سے ہونہار پتر، سلمان شہباز بھی نیب کو مطلوب ہے۔ چینی کمپنیوں کے ساتھ ٹھیکوں سے لے کر پرائیویٹ کمپنیوں میں کرپشن اور ٹی ٹی سکینڈل تک، ہر جگہ اس کا نام ہے۔ وہ بھی ایک دن لندن میں مقیم اپنی والدہ کی عیادت کیلئے لندن گیا اور تب سے اب تک واپس نہ آیا۔

جس فیملی کا ایسا ٹریک ریکارڈ ہو، اسے آپ بغیر زرضمانت کے کیسے لندن جانے دے سکتے ہیں؟

ویسے تو سات ارب روپے بھی کم ہیں لیکن انڈیمنٹی بانڈ بھرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہوگا کہ اگر نوازشریف سات ارب گنوا کر لندن رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو اسے انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جاسکے۔

اب آپ ہی بتائیں، اگر لاہور یا اسلام آباد ہائیکورٹ ایسے میں نوازشریف کو بغیر بانڈ کے باہر جانے کی اجازت دیتے ہیں تو کیا اسی عدالتوں کو آگ نہیں لگا دینی چاہیئے؟؟؟؟ بقلم خود باباکوڈا
Whats-App-Image-2019-11-14-at-21-19-15.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
تبدیلی کا اکلوتا نمونہ
208287_1024250_updates.JPG

فائل فوٹو: میاں نوازشریف
چین کے سوشلسٹ رہنما ماؤزے تنگ نے کہا تھا

’’میرے بھائی! میں دیکھ رہا ہوں۔ تم بڑے عرصے سے یہاں اِس انتظار میں بیٹھے ہو کہ تمہارے سامنے کھڑی ہوئی دیوار گرے اور تم اُس کے اُس پار بسی ہوئی جنت میں داخل ہو جاؤ۔ تمہارا انتظار درست ہے۔ وقت اُس کی جڑوں کو بوسیدہ کررہا ہے۔ تاریخ اُسے اپنے عبرت خانہ میں سجانے کے درپے ہے مگر ہم انتظار کی صبر آزما ساعتوں کے محشر سے کیوں دوچار رہیں۔ میں دو کدالیں لایا ہوں۔ ایک تم لے لو ایک میں۔ آؤ وقت کے ساتھ ہم بھی اِس کی تباہی کا سبب بننے والوں میں اپنا نام لکھوا دیں‘‘۔

میں نے عمران خان کی اِسی سوچ پر لبیک کہا اور وقت کی امداد کے لئے دوسروں کی طرح کدال ہاتھ میں لے لی پھر دنیا نے دیکھا کہ وقت کے ساتھ مل کر کدالوں نے دیوار گرا دی۔ اب سامنے وزیراعظم ہاؤس تھا، گورنر ہاؤسز تھے۔ عمران خان نےہم سے کہا یہ سب تمہارے ہیں، عوام کے ہیں، اب مَیں وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہوں گا۔

تمہارے بچے پڑھا کریں گے۔ اب گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا دی جائیں گی۔ اس کے پارکوں میں کھلے پھولوں کی خوشبو آپ کے لئے ہوگی۔ اب دو نہیں ایک پاکستان ہوگا۔ اب نواز شریف اور مولو مصلی کے لئے ہی ایک قانون ہوگا مگر ایسا نہ ہو سکا۔

بیمار مولو مصلی (ڈاکٹر امجد ثاقب کا کردار) جیل کے اسپتال میں دم توڑ گیا۔ جیل حکام نے کہا ہے ’’اللہ کی مرضی، بیچارے کی عمر اتنی ہی تھی‘‘۔ دوسری طرف نواز شریف کو صرف اس لئے ضمانت دی گئی کہ وہ بیمار ہیں۔ انہیں صرف ایک اسٹامپ پیپر پر یہ لکھ کر دینے کے بعد لندن جانے کی اجازت بھی دے دی گئی کہ اگر وہ صحت مند ہونے کے بعد واپس ملک میں نہ آئے تو وہ سات ارب روپے ادا کریں گے یعنی کوئی بھی قیدی اپنے اثاثوں کے مطابق رقم ادا کرے اور سزا یافتہ ہونے کے باوجود ہمیشہ کے لئے جیل سے باہر رہے۔

بڑی دیر بعد یہ بات میری اور عمران خان کی سمجھ میں آئی کہ تبدیلی اتنی آسانی سے نہیں آتی۔ بلیک بیوروکریسی نے وقت کے پہیے کو پکڑ رکھا ہے اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ’’یہ چوکور پہیہ ہے بھئی یہ گھوم نہیں سکتا‘‘۔ بے شک تبدیلی کا آسمان بڑی سست رفتار ی سے گھومتا ہے۔

وقت جب کرب کے دوزخ میں کئی سال تڑپ لیتا ہے تو پھر کوئی ایسی پُرنور اور ضیا بخش ساعت نمودار ہوتی ہے جو کسی نئے دور کی خالق ثابت ہوتی ہے۔ کسی تبدیلی کی تمہید بنتی ہے۔ افسوس ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تعلیمی نظام بہتر ہونے کی جگہ خراب ہوتا جارہا ہے۔ پروفیسرز کی تنخواہیں کم کردی گئی ہیں اور بیورو کریٹس کی بڑھا دی گئی ہیں۔ یونیورسٹیوں کا بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کردیا گیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اتنا برا پہلے کبھی نہیں تھا جتنا اب ہے۔ وہاں نون لیگ کے دور کا لگایا ہوا چیئرمین ابھی تک بدلا نہیں جا سکا۔ بیچاری ’’تبدیلی‘‘ یہاں کیا کرے مگر ابھی تک تبدیلی پر میرا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ابھی تک میں یہی کہہ رہا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در ابنوہِ جانبازاں

بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

(اِدھر آ جاناں، تماشا دیکھ کہ میں جانبازوں کے انبوہ میں تمام تر سامانِ رسوائی کے ساتھ رقص کر رہا ہوں)

وقت کا رقص بڑی ظالم شے ہے۔ اس کی کلائی کی ایک ایک کوس زمانے کو تہہ و بالا کر دیتی ہے۔ تاریخ میں بڑے بڑے محلات کا صرف ذکر رہ گیا ہے۔ کھنڈرات بھی باقی نہیں رہے۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ وقت کے ساتھ بڑے بڑوں کی لاشیں بھی خاک میں مل کر خاک ہوجاتی ہیں۔ وقت کی خاک، شاہ و گدا میں کوئی تمیز نہیں کرتی ۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا۔

کل پاؤں میرا کاسۂ سر پر جو جا پڑا

یکسر وہ استخوانِ شکستوں سے چُو ر تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بےخبر

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

کئی ماہ پہلے میں نے نیب کے چیئرمین سے پوچھا تھا کہ نیب نواز شریف سے پلی بارگین کیوں نہیں کرتا تو چیئر مین نیب نے اپنے ’’سرِ پُر غرور‘‘ کو اٹھا کر کہا تھا کہ ہم نے اُس کے لئے نواز شریف سے پچیس بلین ڈالر کا مطالبہ کیا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا کیا اس کے پاس اتنی دولت ہو سکتی ہے ؟تو وہ کہنے لگے اس کے اثاثے ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اُسی نواز شریف کے ’’سرِ پُرغرور‘‘ کی سلامتی کےلئے اس وقت شریف فیملی سات ارب کے شورٹی بانڈ بھر کرنے کو تیار نہیں۔ عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں ’’ہم کہیں خدانخواستہ میاں صاحب کو کھو نہ بیٹھیں‘‘۔ اس کے باوجود شہباز شریف ابھی تک ایک اسٹامپ پیپر لکھنے پر راضی نہیں حالانکہ نون لیگ کے ایم پی اے بیچارے مرزا محمد جاوید نے اپنی تمام جائیداد نواز شریف کے نام کرا دی۔

نون لیگ کے کئی اور کارکن بھی اس کام کےلئے تیار کھڑے ہیں مگر شریف فیملی کا موقف ہے کہ یہ بات اخلاقی طور پر درست نہیں۔ ارے بھئی نواز شریف جب ایک سزایافتہ قیدی ہیں تو اخلاقیات کیسی۔ قانون کی بات کریں اگرچہ اپنے لئے تو یہ قانون بھی ناقابلِ قبول ہے کہ ہم دو نہیں ایک پاکستان کے نام لیوا ہیں۔ بہرحال اس تبدیلی سے تو کوئی انکار نہیں کہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے ملک کے امیر ترین شخص کو آخر کار عمران خان نے نمونہِ تبدیلی بنا دیا ہے۔

عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج

طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے ساتھ
 

آورکزئی

محفلین
سوچ رہا ہوں اس حکومت کے کارندوں کا کیا بنے گا جب کسی اور کی حکومت ائیگی۔۔۔
بی آرٹی اور بیلیئن ٹریز نے ان کا بھیڑا غرق کرنا ہے۔۔ اور ساتھ ساتھ فارن فنڈنگ نے ان کی تابوت میں اخری کیل ٹونکنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوچ رہا ہوں اس حکومت کے کارندوں کا کیا بنے گا جب کسی اور کی حکومت ائیگی۔۔۔
بی آرٹی اور بیلیئن ٹریز نے ان کا بھیڑا غرق کرنا ہے۔۔ اور ساتھ ساتھ فارن فنڈنگ نے ان کی تابوت میں اخری کیل ٹونکنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیلے عمران خان نے پوری ن لیگ کو ننگا کر دیا
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کا معاملہ: وفاق اور نیب کا مؤقف مسترد، لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنادیا


لاہور: سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی جانب سے دائر درخواست پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔

درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر لاہور ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست قابل سماعت ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت یہیں ہوگی۔ فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

وفاقی حکومت اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپنے تحریری جواب میں عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا، جواب میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں۔

وفاقی حکومت نے تحریری جواب میں انڈیمنٹی بانڈ کے بغیر نوازشریف کانام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کی اور شہباز شریف کی درخواست مسترد کرنے اور انڈیمنٹی بانڈ کی شر ط لاگو رکھنے کی استدعاکی تھی۔

خیال رہے کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط اجازت کے خلاف مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں گزشتہ روز جمعرات کو درخواست دائر کی گئی تھی جس پر سماعت جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔

گزشتہ روز ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک روز کی مہلت طلب کرنے پر عدالت نے سماعت اگلے روز تک ملتوی کردی تھی۔

نیب اور حکومت نے تحریری جواب جمع کرایا
جمعہ کے روز لاہور ہائیکورٹ نے ایک بار پھر درخواست پر سماعت کا آغاز کیا جس دوران قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی حکومت کی جانب سے تحریری جواب عدالت میں جمع کرایا گیا۔

عدالت نے شہبازشریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو جواب کے معائنے کے لیے وقت کی ضرورت ہے؟ اس پر وکلا نے جواب پڑھنے کا وقت مانگا جس پر عدالت نے کیس کی سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کردی۔

عدالت نے حکومت اور نیب کے جواب کی کاپی درخواست گزار کے وکلاء کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔

حکومت نے شہبازشریف کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی
حکومت کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب 45 اور نیب کا جواب 4 صفحات پر مشتمل ہے۔

حکومت نے اپنے جواب میں شہبازشریف کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہےکہ نواز شریف کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسز زیر سماعت ہیں، ان کا نام نیب کے کہنے پر ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔

حکومت نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کو اس درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں ہے اور شہبازشریف کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔

شہباز شریف کے وکیل نے مشرف اور ایان علی کی مثالیں دے دیں
لاہور ہائیکورٹ میں شہبازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مثال موجود ہے، ماڈل ایان علی کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں مشرف کیس کی مثال دی جاسکتی ہے ،آپ کا درخواست گزار تو سزا یافتہ ہے۔

عدالت نے وفاقی حکومت کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ درخواست کیسے قابل سماعت نہیں ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر کیس کو اس کے حالات کے مطابق دیکھا جائے گا، احتساب عدالت کے جج نے سزا دی اور اس کیخلاف اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔

سیکیورٹی بانڈ کی شرط لاگو رکھی جائے: حکومتی مؤقف
حکومت نے اپنے جواب میں استدعا کی ہےکہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں اس لیے انہیں بغیر سیکیورٹی بانڈز کے اجازت نہیں دی جا سکتی لہٰذا سیکیورٹی بانڈ کی شرط کو لاگو رکھا جائے اور عدالت اس درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنایا کہ درخواست قابل سماعت ہے اور اس کی مزید سماعت ہفتے کو پھر ہوگی۔ صبح 11 بجے درخواست پر سماعت شروع ہوگی۔

گزشتہ سماعت کی کارروائی
گزشتہ روز دوران سماعت درخواست گزار شہبازشریف کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کے میڈیکل ٹیسٹ کروانے ہیں جن کی سہولت پاکستان میں میسر نہیں،سرکاری میڈیکل بورڈ نے بھی علاج کے لیے بیرون ملک جانے کا مشورہ دیا۔ وفاقی کابینہ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے مشروط اجازت دی۔

عدالت عالیہ کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا سفارشات قومی احتساب بیورو (نیب) اسلام آباد یا نیب لاہور نے دی ہیں؟ کیا شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل پر ہے؟

جس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا نام عدالتی حکم پر ای سی ایل سے نکالا جاچکا ہے،نواز شریف کےخلاف نیب لاہور میں کیسز ہیں،ایون فیلڈ ریفرنس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے میرٹ پر سزا معطل کرکے ضمانت منظور کی اور عدالت نے ضمانت منظور کرتے وقت کوئی شرط عائد نہیں کی تھی۔

کیا ای سی ایل آرڈیننس وفاق کو اختیار دیتا ہے کہ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے؟ عدالت
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں ہوتاتو عدالت اپنا دائرہ اختیار استعمال کرے، ریاست کا اس معاملے میں کوئی تعلق نہیں ہے، ریاست کہاں سے آ گئی؟

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل آرڈیننس وفاق کو اختیار دیتا ہے کہ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے؟

وکیل امجد پرویز کا کہناتھا کہ احتساب عدالت کے حکم کی سزا معطل ہو چکی ہےجس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں سزا معطل ہوئی ہے جرمانہ معطل نہیں ہوا۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ حکومت نے جو ضمانت مانگی ہے کیا یہ وہ رقم ہے جو احتساب عدالت نے جرمانہ کیاتھا؟کیا ای سی ایل آرڈیننس وفاق کو اختیار دیتا ہے کہ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے؟ کیا قانون میں وہ شرائط ہیں جو نواز شریف پرعائد کی گئی ہیں، نواز شریف کا نام کس نیب آفس کے کہنے پر ای سی ایل میں ڈالا گیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دینے کے لیے کل تک کی مہلت مانگ لی جس کے بعد کیس کی سماعت اگلے روز کے لیے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے گزشتہ روز نواز شریف کو علاج کے غرض سے 4 ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔

وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق ’نواز شریف کی بیرون ملک روانگی اس بات سے مشروط ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف 7 یا ساڑھے 7 ارب روپے کے پیشگی ازالہ بانڈ جمع کرادیتے ہیں تو وہ باہر جاسکتے ہیں اور اس کا دورانیہ 4 ہفتے ہوگا جو قابل توسیع ہے‘۔
 

جاسم محمد

محفلین
پھر نہ کہنا تبدیلی نہیں آئی!
ارشاد بھٹی
14 نومبر ، 2019

پُرانی تے اصلی تحریک انصاف کا جاگنا تھا یا دو نہیں ایک پاکستان والوں کے ضمیروں کا جاگنا، کسی کو این آر او نہیں دوں گا، نو ڈیل، ڈھیل، مک مکا کے بیانیے کو زندہ رکھنے کی آرزو تھی یا سیاسی طور پر لَت (ٹانگ) اوپر رکھنے کی خواہش، سلمان شہباز کے اپنے والدکی تصویر اور ’گیم چینجر‘ والے ٹویٹ نے صورتحال خراب کی یا قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کی اُس تقریر نے ماحول بگاڑا جس میں وہ حکومت پر کچھ یوں گرجے، برسے ’’جو کچھ ہمیں پتا وہ تمہیں پتا نہیں، تم پر عنقریب چھت گرنے والی، ہم جب چاہیں گے انتخابات ہوجائیں گے‘‘۔

ٹونٹی ٹونٹی کھیلتے اس میڈیا کا خوف تھا جو ہلکی ڈھولکی پر یوں باریک بے عزتی فرما رہا تھا کہ ’’عمران خان آپ نے تو جیل سے اے سی اتروانا تھا، آپ کہاں ای سی ایل سے نام نکلوانے چل پڑے‘‘ یا پھراپنے ووٹرز، سپورٹرز کی ناراضی کا ڈر تھا، وہ ووٹرز، سپورٹرز جو یہ یقین کئے بیٹھے کہ کپتان چوروں، ڈاکوؤں، گاڈ فادروں کیخلاف ڈٹا ہوا، کسی کو این آر او نہیں دے رہا، کوئی ایک وجہ تھی یا یہ سب وجوہات، دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال بدلی اور ایسی بدلی کہ نواز شریف جارہے، جہاز تیار کھڑا، ٹکٹیں بک ہو گئیں، نواز شریف کو سفر کرنے کیلئے اسٹرائیڈ دیدیئے گئے اور پھر ای سی ایل معاملہ نیب، وزارت داخلہ میں لٹکنا، پھر ای سی ایل ذیلی کمیٹی میں پھنسنا اور پھر سیکورٹی بانڈ، گارنٹی، جو کچھ ہوا، ہو رہا، وہ آپ کے سامنے، میرا یہ ماننا یہ وقتی delay، بالآخر نواز شریف نے لندن چلے ہی جانا کیونکہ یہ بااختیار، طاقتور کا ملک۔

ویسے حالات کتنی جلدی بدل جاتے ہیں، کل پرویز مشرف پر غداری کیس، وہ راولپنڈی اسپتال میں لیٹے ہوئے، ان کا نام ای سی ایل پر، باتیں ہورہی تھیں کہ پرویز مشرف کی طبیعت خراب، انہیں علاج کیلئے باہر جانا، تب لیگی شعلہ بیانیاں عروج پر، مریم نواز نے یوں طعنہ مارا ’’ہم وہ نہیں کہ کمر درد کا بہانہ بنا کر عدالت آتے ہوئے گاڑی اسپتال کی طرف موڑ لیں‘‘۔

سعد رفیق بولے ’’پرویز مشرف بھگوڑا، ڈرامے کر رہا، اگر اس کی بات مان لی جائے کہ انجیو گرافی کیلئے باہر جانا تو بتائیں پاکستان کی جیلوں میں جتنے لوگ دل کے مریض، کیا ان سب کو باہر بھجوا دیا جائے، یہ پرویز مشرف انوکھا لاڈلا نہیں‘‘،

پرویز رشید نے کہا ’’پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ملزم علاج کیلئے باہر چلا جائے، کیا یہاں اسپتال اور ڈاکٹر نہیں ہیں‘‘، احسن اقبال نے فرمایا ’’جنرل مشرف کی ٹیم اور ان کے وکلا ملک میں بحران پیدا کرنا چاہ رہے، یہ سازشی، پاکستان اس طرح کی سازشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، اگر پرویز مشرف عدالتوں کا سامنا کئے بنا ملک سے چلے گئے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘،

خواجہ آصف کہنے لگے ’’پرویز مشرف چھپا بیٹھا، ترلے، منتیں کررہا مینوں باہر جان دیو‘‘ پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ان سب جانبازوں کے ہوتے ہوئے انہی کی حکومت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا اور وہ علاج کے بہانے دبئی جا پہنچے، جہاں چند دن بعد وہ ایک تقریب میں ’میں شکر ونڈاں رے‘ پر ڈانس کرتے پائے گئے، ہاں آج کل وہ واقعی بیمار، چلنا پھرنا مشکل، اللہ انہیں بھی صحت دے۔

یہ تو وہ لیگی تھے جو کل ملزم پرویز مشرف کے باہر جاکر علاج کرانے کی مخالفتیں اور آج مجرم نواز شریف کے باہر جا کر علاج کرانے کی حمایتیں فرمارہے، اب ملاحظہ ہو، حکومتی ظاہرو باطن کا ایک ٹریلر، چند دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں وہ وزیر صاحب جو انسانی وطبی بنیادوں پر میاں صاحب کو باہر بھجوانے کے حق میں، پروگرام کے وقفے میں کہنے لگے ’’یہ کیسا مریض ہے جو ہر بار تشویش ناک حالت میں اسپتال سے گھر منتقل ہو جاتا ہے‘‘۔

میں نے بات سنی اَن سنی کردی تو میرے کان کے قریب منہ لاکر زیر لب مسکراتے ہوئے وزیر بولے ’’ویسے اس پر بات ہونی چاہئے کہ ’میں مرجاؤں گا لیکن باہر نہیں جاؤں گا ‘سے لیکر ’میں باہر نہیں جاؤں گا تو مرجاؤں گا‘ کا سفر طے کرنے والے نواز شریف کے حمایتی لندن جا کر یہ کہیں گے کہ اگر میاں صاحب کو لندن میں کچھ ہوا تو کیا اس کا ذمہ دار برطانیہ کا وزیراعظم بورس جانسن ہوگا‘‘، میں نے کہا بھائی جان آپ یہ سب آن ایئر کہہ دیں، کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا ’’توبہ کرو، سب میرے پیچھے پڑ جائیں گے‘‘، یہ کہہ کر اس نے سامنے میز پر پڑا اپنا موبائل فون اٹھایا اور نقلی نقلی مصروف ہوگیا۔

ایک طرف نواز شریف بیماری، دوسری طرف مولانا کا شو جاری، آزادی مارچ، دھرنے، پلان اے کے بعد بات پلان بی تک پہنچی ہوئی، کشمیر بیچ دیا گیا، اسرائیل کو تسلیم کیا جارہا، یہودی، قادیانی ایجنٹ، اسلام، ناموسِ رسالت خطرے میں، مولانا یہ سب جھوٹ بول چکے، میں 14اگست نہیں مناؤں گا، ہم وزیراعظم کو گرفتار کر سکتے ہیں، دنیا عمران خان سے معاہدے نہ کرے، عمران خان کے آرڈر نہ مانے جائیں، پاکستان کو فارغ کرو، مولانا یہ سب فرما چکے،

مولانا فرسٹریشن، ڈپریشن کا شکار، خود مان چکے میں بند گلی میں، دیوار سے لگ چکا، پلان بی، لاک ڈاؤن، یہ تو کسی صورت قبول نہیں، صورتحال کیا بنتی ہے، وہ بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن اسی رولے رپّے میں کرتارپور راہداری کا افتتاح ہوگیا، ویسے 9نومبر کیا تاریخ ساز دن تھا، اقبال ڈے، کرتارپور راہداری افتتاح اور بھارتی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ، 9نومبر کو بھارت ہارا، پاکستان جیت گیا، ویسے کرتارپور معاملے پر مولانا نے کیا کمال سیاست فرمائی، بولے، قائد کے پاکستان پر یہ وقت، اقبال ڈے پر کرتارپور راہداری کا افتتاح ہورہا، مولانا جی کے منہ سے علامہ اقبال، قائداعظم کا نام، شکرالحمدللہ مولانا جی کو بھی بالآخر قائداعظم، علامہ اقبال کی اہمیت کا احساس ہوا۔

یہ دکھ اپنی جگہ کہ مولانا شو، نواز شریف بیماری کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر سمیت سب جینوئن ایشوز نظروں سے اوجھل ہوئے، باقی چھوڑیں، مہنگائی، بیروزگاری، معیشت گورننس مطلب حکومتی کارکردگی سے فوکس ہٹا، عام حالات ہوتے تو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا یہ تاریخی فرمان گھر گھر کی کہانی ہوتی کہ ’’ٹماٹر 250روپے فی کلو نہیں 17روپے کلو‘‘،

اندازہ کریں یہ وزیرخزانہ فرما رہے بلکہ زخموں پر نمک چھڑک رہے، ہمارے بھی کیا نصیب، ایک طرف مولانا شو، نواز بیماری، دوسری طرف یہ فن کار اور یہ فنکاری، ایسے ہی جیسے آگے کنواں، پیچھے کھائی، پھر نہ کہنا تبدیلی نہیں آئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
’شہباز شریف کی جگہ ہوتا تو کسی بھی قسم کی گارنٹی دے کر بھائی کا علاج کرواتا‘
208360_2198092_updates.jpg

ضمانتی بانڈ نہ دینے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے، حکومت نے کون سے پیسے مانگ لیے ہیں؟ شریف خاندان سیاست چمکا رہا ہے، وزیراعظم عمران خان— فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افسوس ہے شریف خاندان نواز شریف کے علاج کے بجائے اس پر سیاست کر رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ن لیگ کی جانب سے ضمانتی بانڈ نہ دینے کی کوئی منطق سمجھ سے بالا ہے، حکومت نے ان سے کون سے پیسے مانگ لیے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے شریف خاندان نواز شریف کی صحت پر اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ شہباز شریف کی جگہ ہوتے تو کسی بھی قسم کی گارنٹی دے کر اپنے بھائی کا علاج کرواتے۔

انہوں نے کہا کہ شریف خاندان عدالت سے ریلیف لینا چاہتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، وہ عدالت کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف بیمار ہیں اور ان کو بہتر علاج کے لیے باہر جانا چاہیے، میری نظر میں نواز شریف کی جان زیادہ عزیز ہے، سیاست ہوتی رہتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے قانون میں لچک ڈھونڈی۔

وزیر اعظم نے حکومتی ترجمانوں کو نواز شریف کی صحت پر بیان بازی سے اجتناب کی ہدایت بھی کی ہے۔

خیال رہے کہ 13 نومبر کو وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے 4 ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔

وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق ’نواز شریف کی بیرون ملک روانگی اس بات سے مشروط ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف 7 یا ساڑھے 7 ارب روپے کے پیشگی ازالہ بانڈ جمع کرادیتے ہیں تو وہ باہر جاسکتے ہیں اور اس کا دورانیہ 4 ہفتے ہوگا جو قابل توسیع ہے‘۔

تاہم ن لیگ نے مشروط اجازت کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف سے فروغ نسیم شورٹی بانڈ کس وجہ سے مانگ رہے ہیں؟
15/11/2019 عدنان خان کاکڑ

بہت سے لوگ حیران ہیں کہ وزیراعظم اور پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی تصدیق کے باوجود کہ نواز شریف کی صحت خراب ہے اور یہ سیاست کا نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے، کیا وجہ ہے کہ وزیر قانون جناب فروغ نسیم اس بات کی مخالفت کر رہے ہیں کہ نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے غیر مشروط طور پر نکالا جائے بلکہ وہ نواز شریف سے سات ارب روپے کا شورٹی بانڈ بھروانا چاہتے ہیں۔ کیا ان کا یہ مطالبہ بلاجواز ہے یا پھر اس کے پیچھے ٹھوس وجوہات موجود ہیں؟

فروغ نسیم کا تعلق ایم کیو ایم سے رہا ہے۔ الطاف حسین کی انہوں نے طویل عرصے وکالت کی ہے۔ ایم کیو ایم کے ہر کارکن کی طرح وہ الطاف بھائی کی محبت میں سرتاپا اندھا دھند غرق ہوا کرتے تھے۔ الطاف بھائی دن کو رات کہتے تو فروغ نسیم تصدیق کرتے کہ بلاشبہ اماوس کی رات ہے۔ اہلِ دل جانتے ہیں کہ پہلا عشق ساری زندگی کی کسک دیتا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ الطاف بھائی ایک دن پوری شان و شوکت سے واپس وطن آئیں گے۔ وہ نہ آئے۔ فروغ نسیم کا دل کیسا ٹوٹا ہو گا سب عشق پیشہ لوگ جانتے ہی ہیں۔ محبوب جب نہ آئے تو عاشق کے دل پر قیامت گزر جاتی ہے۔

پھر الطاف بھائی نے ایک ایسی تقریر کر ڈالی کہ راندہ درگاہ ہوئے اور ایم کیو ایم پاکستان نے انہیں بھائی کے مرتبے سے عاق کر ڈالا۔ ان کا باب ختم ہوا۔ لگتا ہے کہ بیرسٹر فروغ نسیم ہماری طرح قبلہ شفیق الرحمان کو مرشد مانتے ہیں۔ شفیق الرحمان نے اپنے ایک مضمون میں ایک کائناتی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناکام اور نامراد عاشق مقصود گھوڑے کو ولایت پلٹ خالد کی زبانی ایک نصیحت کی تھی کہ ایک ناکام عشق کا علاج ایک اور عشق ہے۔ فروغ نسیم نے اس مرتبہ جنرل پرویز مشرف کی مورت کو اپنے من مندر میں سجا ڈالا اور ان کے وکالت نامے پر دستخط کر دیے۔

جنرل پرویز مشرف نے سنہ 2014 میں درخواست دائر کی کہ انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے کیونکہ ایک تو ان کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہے جس کا پاکستان میں علاج ممکن نہیں ہے، دوجے انہوں نے بیرون ملک اپنی والدہ محترمہ کی قدم بوسی بھی کرنا ہے۔

وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ جنرل پرویز مشرف پر بینظیر بھٹو قتل کیس، نواب اکبر بگٹی کیس، لال مسجد اور آرٹیکل 6 کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں، وہ ان مقدمات میں عدالتوں کے روبرو پیشی سے استثنیٰ چاہتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی درخواست بدنیتی پر مبنی ہے، اگر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کیا گیا تو وہ پھر وطن واپس نہیں آئیں گے۔

محبوب کی ہر بات پر چاہنے والے کو اندھا اعتبار ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی بیرسٹر فروغ نسیم کو بتایا ہو گا کہ وہ واپس آئیں گے، سو انہوں نے عدالت کو جی جان سے یقین دلایا کہ طلب کرنے پر وہ لازماً واپس آئیں گے۔ عدالت نے اجازت دے دی کہ جاؤ، ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکلوا دیتے ہیں۔ پرویز مشرف چلے گئے اور واپس نہ آئے۔ فروغ نسیم کے دل پر دوسری بار کیسا چرکا لگا ہو گا؟

دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ الطاف بھائی اور جنرل پرویز مشرف تو فروغ نسیم کے اپنے تھے، جب باہر جا کر انہوں نے پلٹ کر نہ دیکھا تو فروغ نسیم اب پرائے نواز شریف پر کیسے اعتبار کر لیں کہ وہ واپس آ جائیں گے۔ الیکشن سے پہلے بستر مرگ پر پڑی بیگم کلثوم نواز کو چھوڑ کر یقینی گرفتاری اور مصائب کا سامنا کرنے کے لئے نواز شریف کی واپسی سے بھی فروغ نسیم کے دل کو تسلی نہ ہوئی ہو گی۔ نہ ہی جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں زبردستی سعودی عرب سے پاکستان آنے اور شہزادے مقرن بن سعود کے ہاتھوں گرفتار کر کے واپس بھیجے جانے سے انہیں یقین ہوا ہو گا کہ نواز شریف کا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔

بس یہ اپنوں کے دیے ہوئے دھوکے ہیں جن کے بعد فروغ نسیم کا انسانوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب الطاف حسین اور جنرل پرویز مشرف جیسے واپس نہ آئے تو نواز شریف کیوں واپس آئیں گے۔ اپنے تئیں تو فروغ نسیم شورٹی بانڈ مانگ کر درست کر رہے ہیں۔ ہمیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیرسٹر فروغ نسیم کے کیس کا جائزہ لینا چاہیے اور ان کے بارے میں بدگمانی دل میں نہیں پالنی چاہیے۔ شاید مرشدی شفیق الرحمان کے قول کے مطابق تیسرا عشق کامیاب ہو جائے اور ان کا انسانیت پر اعتبار دوبارہ بحال ہو جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تکبر اور عزیمت: آمنے سامنے
14/11/2019 خورشید ندیم

تکبر اور عزیمت ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔ دیکھیے، اس معرکے کا فاتح کون ہے؟

اقتدار بھی کیا چیز ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ وہ خدا ہے۔ وہ گمان کرتا ہے کہ زندگی اور موت اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔

خدا کے آخری الہام نے نمرود اور سیدنا ابراہیمؑ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے ”کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں حجت کرنا چاہی، اس لیے کہ اللہ نے اسے اقتدار عطا فرمایا تھا؟ اس وقت جب ابراہیم نے اس سے کہا کہ میرا پروردگار تو وہ ہے جو مارتا اور جِلاتا ہے۔ اس نے جواب دیا، میں بھی مارتا اور جِلاتا ہوں۔ ابراہیم نے فوراً کہا: اچھا تو یوں ہے کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم ذرا اسے مغرب سے نکال لاؤ۔ (یہ سن کر) وہ منکرِ خدا بالکل حیران رہ گیا۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اس طرح کے ظالموں کو اللہ کبھی ہدایت نہیں دیتا‘‘ (البقرہ:258)

نواز شریف کا معاملہ بہت سادہ ہے۔ پاکستان میں ان کی بیماری کی تشخیص ممکن ہے نہ علاج۔ حکومت خود اس کا اعتراف کر رہی ہے۔ عدالت بھی اسی بنیاد پر ضمانت دے چکی۔ حکومت یہ اختیار رکھتی ہے کہ انہیں ملک سے باہر جانے دے۔ اس قصے میں کوئی ابہام نہیں۔ اس کے باوجود معاملے کو التوا کی نذر کر دیا گیا۔ اس تاخیر کے سیاسی مضمرات سے بے خبری ایک طرف، کیا یہ اقتدار کے تکبر کے علاوہ بھی کچھ ہے جو نواز شریف کے سفر میں مزاحم ہے؟

وزرا نے جو استدلال تراشا ہے، وہ ایسا مضحکہ خیز ہے کہ عقل کی اس کم مائیگی پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔ ”نواز شریف ایک قیدی ہے۔ اگر انہیں یہ سہولت میسر ہے تو دوسروں کو کیوں نہیں؟… عمران خان ایک پاکستان بنائیں گے، دو نہیں‘‘۔ یہ اس سارے مقدمے کا خلاصہ ہے۔ پہلے نکتے پہ ذرا غور کیجیے! دوسرے قیدیوں کو سہولت دینا کس کا کام ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی تو حکومت پر ہے۔ آپ ان کو یہ سہولت دیں، کون آپ کا ہاتھ پکڑ رہا ہے؟

اب آئیے ‘ایک پاکستان‘ کی طرف۔ سیاست میں اس سے بڑا دھوکہ آج تک ایجاد نہیں ہوا۔ مساوات کا یہ تصور انسانی سماج میں کبھی حقیقت بنا ہے، نہ بن سکتا ہے۔ آج عمران خان صاحب کے حفاظت پر سینکڑوں لوگ مامور ہیں۔ بنی گالہ کے گھر پر سرکاری خزانے سے خصوصی باڑ لگائی گئی ہے۔ آخر کیوں؟ یہ سہولت ایک عام پاکستانی کو کیوں میسر نہیں؟ کیا عمران خان صاحب کی جان ایک عام پاکستانی کی جان سے زیادہ قیمتی ہے؟

فواد چوہدری صاحب اور فیصل واوڈا صاحب کو سرکاری گاڑی، دفتر، گھر، معلوم نہیں کیا کچھ ملا ہے۔ ایک عام پاکستانی کو یہ کیوں نہیں ملتا؟ اگر نہیں ملتا اور یقیناً نہیں ملتا تو پھر یہ ایک پاکستان ہے یا دو؟ جسٹس ثاقب نثار صاحب جیسے جج صاحبان کی پینشن لاکھوں میں ہے اور ان کو تعلیم دینے والے استاد کی پینشن چند ہزار۔ آخر یہاں دو پاکستان کیوں ہیں، ایک کیوں نہیں؟ آج ایک عام سرکاری اہل کار اور سیکرٹری صاحب کی تنخواہ یکساں کیوں نہیں ہے؟

ہم سب کے پاس ان سوالات کے جواب موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ سوال غیر حقیقی اور بے معنی ہیں۔ اگر عمران خان صاحب کی حفاظت پر سینکڑوں لوگ تعینات ہیں تو یہ کسی فردِ واحد نہیں بلکہ ایک منصب کی حفاظت کا اہتمام ہے اور یہ ریاست کی ضرورت ہے۔ کل اگر وہ اس منصب پر نہیں رہیں گے تو اس حفاظتی حصار سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ اسی پر قیاس کیجیے تو دیگر سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے۔

سماج کا معاملہ بھی یہی ہوتا کہ اس میں سب برابر نہیں ہوتے۔ اگر کسی فرد کو سیاسی یا مذہبی عصبیت حاصل ہو جائے تو پھر اس کا معاملہ ریاستی منصب پر فائز کسی آدمی کی طرح خاص ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی جان کو کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو یہ کئی جانوں کو خطرات میں مبتلا کر سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی بہت سے جانوں کو بچانے کے لیے اس ایک جان کو بچانا لازم ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ ملکوں کا جغرافیہ اور مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی حادثے کا شکار ہو جائیں یا ان کے بارے میں یہ تاثر پھیل جائے کہ کوئی ان کی جان کے درپے ہے تو دنیا کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دانش اور بصیرت رکھنے والوں کا اقتدار ہوتا ہے، وہ ملک اور قوم کو متحد رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کی جان کو خاص طور پر تحفظ دیتے ہیں۔ قانون پر عمل داری اس سے مختلف عمل ہے جس کو الگ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس بات کا تعلق عقلِ عام سے بھی ہے۔ جو آدمی ریاست کے نظام کو سرسری طور پر بھی جانتا ہے وہ اس بات کو سمجھ سکتا ہے۔ ایک اے سی کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک تحصیل میں کون لوگ ہیں جنہیں سیاسی یا مذہبی حوالے سے خاص حیثیت حاصل ہے۔ وہ علاقے میں امن کے قیام کے لیے ان کی حفاظت کا خاص خیال رکھا ہے۔ اس سوچ سے دو طرح کے لوگ عاری ہو سکتے ہیں۔ ایک ریاستی ڈھانچے اور سیاسی حرکیات سے نا واقف اور دوسرے متکبر۔

جو لوگ نواز شریف صاحب کو سخت نا پسند کرتے ہیں، ان میں گجرات کے چوہدری نمایاں تر ہیں لیکن وہ سیاسی حرکیات سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نواز شریف کو سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ اسی لیے وہ دُھائی دے رہے کہ ان کی صحت کے ساتھ حکومتی سطح پر کھلواڑ نہ کیا جائے۔ اگر خدا نہ کرے، انہیں کچھ ہوا تو اس کے نتائج پر قابو پانا خود حکومت کے بس کی بات نہیں ہو گی۔

اس وقت نواز شریف صاحب کے باہر جانے کو جس طرح مشروط کیا جا رہا ہے، یہ اقتدار کے تکبر کا اظہار ہے۔ پس پردہ یہ زعم بول رہا ہے کہ زندگی اور موت اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس تکبر کا سامنا کوئی صاحبِ عزیمت ہی کر سکتا ہے۔ نواز شریف کے پاس رخصت کا راستہ موجود ہے۔ وہ مشروط آزادی کو بھی قبول کر سکتے ہیں کہ علاج ان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس وقت لیکن انہیں عزیمت کا راستہ ہی زیبا ہے۔زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ علاج کی کوشش انسان کو کرنی چاہیے کہ اس کا تعلق تدبیر سے ہے۔ نواز شریف نے ہر ممکن تدبیر کر لی۔ اب ان کا معاملہ گوشت پوست کے عام انسانوں سے نہیں، زمین کے خداؤں سے ہے۔ اس مرحلے پر انہیں زمین و آسمان کے حقیقی خدا کی طرف دیکھنا چاہیے۔ وہی جو ابراہیمؑ کا خدا ہے۔ جو مارتا ہے اور جِلاتا ہے۔ آج نواز شریف نے مشروط اجازت قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ یہ انکار انشااللہ ان کے لیے زندگی کا پیغام بن جائے گا۔

انسانی رشتے، مجھے معلوم ہے کہ آدمی کو مجبور کر دیتے ہیں۔ ماں، بھائی اور بیٹی کا اصرار اپنی جگہ۔ ان کے کہنے پر وہ یہاں تک آ گئے۔ لیکن انہیں یہاں اب رک جانا ہو گا۔ اب انہیں رشتوں اور تاریخ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ میں انہیں اس موقع پر مولانا محمد علی جوہر کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ وہ جیل میں تھے کہ ان کی بیٹی آمنہ شدید بیمار ہو گئی۔ حکومت نے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ انگریزوں کی حکومت تھی‘ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس کی حکومت تھی۔ مولانا جوہر نے بیٹی کی محبت پر تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دی۔ منت سماجت سے انکار کیا۔ بیٹی کی محبت نے جوش مارا تو جذبات اشعار میں ڈھل گئے۔ کاش کوئی جائے اور مولانا کے پوری نظم نہ سہی، یہ اشعار نواز شریف صاحب اور مریم نواز کو سنا دے۔ ان میں حوصلہ بھی ہے اور خدا سے امید بھی۔

میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں

تجھ سے میں دور سہی، وہ تو مگر دور نہیں

تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو

نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں

تیری قدرت سے خدایا تیری رحمت نہیں کم

آمنہ بھی جو شفا پائے تو کچھ دور نہیں
 

جاسم محمد

محفلین
وزرا نے جو استدلال تراشا ہے، وہ ایسا مضحکہ خیز ہے کہ عقل کی اس کم مائیگی پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔ ”نواز شریف ایک قیدی ہے۔ اگر انہیں یہ سہولت میسر ہے تو دوسروں کو کیوں نہیں؟… عمران خان ایک پاکستان بنائیں گے، دو نہیں‘‘۔ یہ اس سارے مقدمے کا خلاصہ ہے۔ پہلے نکتے پہ ذرا غور کیجیے! دوسرے قیدیوں کو سہولت دینا کس کا کام ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی تو حکومت پر ہے۔ آپ ان کو یہ سہولت دیں، کون آپ کا ہاتھ پکڑ رہا ہے؟
نواز شریف کے حامی لفافے بھی ان کی طرح جھوٹے ہیں۔ حکومت پچھلی ہفتے ہی نواز شریف کو علاج کی غرض سے باہر جانے کا تحریری اجازت نامہ جاری کر چکی ہے۔ وہ صرف ان کی وطن واپسی کی گیرنٹی مانگ رہے ہیں ، اس خوف سے کہ اگر یہ مستقبل میں وطن واپس نہ آئے تو عوام اور عدالتوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ظاہر ہے اگر نواز شریف نے وطن واپس آنا ہوتا تو فورا سے پہلے مطلوبہ تقاضے پورے کرکے وطن سے روانہ ہو جاتے۔ لیکن یہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کی تحت اپنے مفرور بیٹوں اور سمدھی کی طرح ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔
 

آورکزئی

محفلین
بقول حفیظ اللہ نیازی ماں کی رسم قُل چھوڑ کر کسی گوری کی سالگرہ میں شرکت کرنے والا آجکل رشتوں پر بھاشن دے رہا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
گئے نہیں نواز شریف ابھی تک؟
جائیں گے لیکن مفت میں۔ :)

نوازشریف کا علاج کے بعد وطن واپس آنے کا بیان حلفی لاہورہائی کورٹ میں جمع
ویب ڈیسک ہفتہ 16 نومبر 2019
نواز شریف کے وکیل نے علاج کے بعد وطن واپس آنے اور مقدمات کا سامنا کرنے کے بیان حلفی کا مسودہ ہائی کورٹ میں جمع کرادیا۔

جسٹس علی باقرنجفی اورجسٹس سرداراحمد نعیم پر مشتمل لاہورہائی کورٹ کا 2 رکنی بنچ سابق وزیر اعظم نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران صدرمسلم لیگ (ن) شہباز شریف کے علاوہ پارٹی کے کئی رہنما بھی موجود ہیں۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں؟ کیا لگائی گئی شرائط علیحدہ کی جا سکتی ہیں؟ کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟ ضمانت کے بعد شرائط لاگو ہوں تو کیا عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی ؟ کیا درخواست گزار ادائیگی کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنے کو تیار ہے ؟ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں ؟ کیا فریقین نواز شریف کی واپسی سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟ کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟

’نواز شریف جانا چاہتے ہیں تو اعتراض نہیں‘

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف علاج کیلئے باہرجانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں لیکن نواز شریف کو باہر جانے سے پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ اینڈیمنٹی یا شورٹی بانڈ کی رقم عدالت کے اکاونٹ پاس جمع کرادیں اگر یہ تمام چیزیں پوری کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اس موقع پر انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے انڈیمنٹی بانڈ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروانے کی پیشکش کردی۔

عدالت نے شہبازشریف سے استفسارکیا کہ کیا نوازشریف واپس آئیں گے، جس پرشہبازشریف نے کہا کہ انشاءاللہ واپس لائیں، عدالت نے مزید استفسار کیا کہ آپ کا انہیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہوگا، جس پرانہوں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جارہا ہوں وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔

لاہورہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ قانون اپنی روح کے مطابق کام کرتا ہے، جو حلف یہ دینا چاہتے ہیں ان سے لکھ کرپوچھ لیتے ہیں، ہم درخواست گزارسے لکھ کرحلف لے لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈرٹیکنگ عدالت کو جمع کرائی جائے گی۔ عدالت نے وفاق سے استفسار کیا کہ اگرآپ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھرشرائط لگانے کی کیا ضرورت ہے، عدالت چاہ رہی ہے کہ یہ معاملہ حل ہو۔

نواز، شہباز شریف سے انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں

عدالت نے کہا کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے لکھ کر انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں وفاق اس انڈر ٹیکنگ کو دیکھ لے، یہ انڈر ٹیکنگ عدالت میں دی جائے گی اگرانڈرٹیکنگ پر پورا نہیں اترا جاتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جو شرائط بھی عائد کی گئی ہیں وہ عدالت کے ذریعے ہونا چاہیے تھیں،اگر عدالت کو مطمئن کرنے کی بات ہے تو جو عدالت حکم دے گی ہمیں قبول ہوگا۔

وکیل نواز شریف نے کہا کہ جب عدالت میں کیس زیرسماعت ہو تو ریاست کا اختیار نہیں کہ سزا ختم کرے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 6 ہفتے کی سزا معطل کی لیکن بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی، عدالتی اورسیاسی تاریخ میں ایسی مثال نہیں کہ سزا یافتہ شخص واپس آئے اور سزا کاٹ رہا ہو۔

’سزا یافتہ کو باہر بھیجنے کا اختیار حکومت کو بھی نہیں‘

نوازشریف کے ایک اور وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ آرٹیکل 4 کے مطابق کسی شہری پر شرط عائد نہیں کی جا سکتی جس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ قانون تو سزا یافتہ کو باہر بھیجنے کا اختیار حکومت کو بھی نہیں دیتا، ہم چاہتے ہیں یہ معاملہ اتفاق رائے سے طے ہو، لکھ کر دیں کہ نوازشریف اور شہبازشریف وطن واپس آئیں گے۔

بیان حلفی کا مسودہ جمع

عدالتی ہدایت کی روشنی میں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا مسودہ لاہور ہائی کورٹ کے معاون کے حوالے کر دیا۔ بیان حلفی کا ڈرافٹ 2 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔

ایسا بیان حلفی بیان قبول نہیں کرسکتے، حکومت

دوسری جانب ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے شہبازشریف کا بیان حلفی مسترد کردیا، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے، اس بیان حلفی میں کسی قسم کی ضمانت نہیں دی گئی، ایسی صورت میں ہم اس کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں۔ 25نومبرکو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کیس کی اپیل بھی مقرر ہے، اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہو گا اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے ہیں۔
اشتیاق احمد خان نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافٹ کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے، بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کے ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں۔
“حکومتی شرط غیر قانونی ہے”
درخواست کی سماعت کے دوران شہباز شریف نے ٹیلی فون پر نواز شریف، مریم نواز اور اپنی والدہ سے مشاورت کی۔ اس دوران نواز شریف نے کہا کہ ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کے لئے حکومتی شرط غیر قانونی ہے، عدالت کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر ہوگا، عدالتی احکامات پر من و عن عمل کیا جائے گا۔

کیس کا پس منظر؛
حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی تاہم اس کے لیے ان کی جانب سے 80 لاکھ پاؤنڈ، 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر، 1.5 ارب روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی جانب سے دائر درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی تاہم اس کے لیے ان کی جانب سے 80 لاکھ پاؤنڈ، 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر، 1.5 ارب روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی جانب سے دائر درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔

یہ رقم تین الگ الگ کرنسیوں میں مانگی جا رہی ہے یا صرف سمجھانے کے لئے تین کرنسیوں کا ذکر کیا گیا ہے؟
 
Top