ڈیل کا تاثر درست نہیں ہے احتساب کا عمل جاری رہے گا، وزیراعظم

محمداحمد

لائبریرین
میثاقَ جمہوریت کرنے والے لوگ اگر ایماندار اور ملک سے مخلص ہوتے تو اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کو کم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ سب مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو دولت اور اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی تقریر واقعی ایسی نہیں تھی کہ ایک منتخب وزیرِ اعظم کے شایان شان ہو۔

لیکن اُن کی مرضی کے خلاف نواز شریف دن دیہاڑے بیماری کا ڈرامہ کرکے ملک سے فرار ہو گئے ۔ اس پر اُن کا سیخ پا ہونا تو بنتا ہے۔
ارشاد بھٹی کو وزیر اعظم نے بتایا کہ وہ اس دن واقعی بہت غصہ میں تھے :)
 

الف نظامی

لائبریرین
عمران خان کی تقریر واقعی ایسی نہیں تھی کہ ایک منتخب وزیرِ اعظم کے شایان شان ہو۔

لیکن اُن کی مرضی کے خلاف نواز شریف دن دیہاڑے بیماری کا ڈرامہ کرکے ملک سے فرار ہو گئے ۔ اس پر اُن کا سیخ پا ہونا تو بنتا ہے۔
ان کی مرضی کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ اس بد دیانتی میں سب سٹیک ہولڈر ایک پیج پر ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
میثاقَ جمہوریت کرنے والے لوگ اگر ایماندار اور ملک سے مخلص ہوتے تو اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کو کم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ سب مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو دولت اور اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
میثاق جمہوریت واقعی ایک تاریخی موقع تھا جسے ان مفاد پرست کرپٹ ٹولوں نے گنوا دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی عمران خان بھی یہی چاہتے تھے کہ نواز شریف ملک سے فرار ہو جائیں؟

یا اُنہیں مجبور کیا گیا؟
مجبور کیا گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ واقعی ڈر گئی تھی کہ اگر نواز شریف کو زیر حراست کچھ ہو گیا تو پنجاب میں نیا بھٹو پیدا ہو جائے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میثاقَ جمہوریت کرنے والے لوگ اگر ایماندار اور ملک سے مخلص ہوتے تو اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کو کم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ سب مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو دولت اور اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
یہ میثاقِ جمہوریت سے زیادہ "میثاقِ باریت" تھا، بقولِ زرداری صاحب، انہوں (شریف برادران) نے لندن آ کر بی بی سے کہا کہ "پہلے تہاڈی باری تے فیر ساڈی باری"۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
یہ میثاقِ جمہوریت سے زیادہ "میثاقِ باریت" تھا، بقولِ زرداری صاحب، انہوں (شریف برادران) نے لندن آ کر بی بی سے کہا کہ "پہلے تہاڈی باری تے فیر ساڈی باری"۔ :)
یعنی عمران خان کا مؤقف درست ہے کہ یہ میثاق جمہوریت اصل میں میثاق مک مکا اور لوٹ مار تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
میثاقَ جمہوریت کرنے والے لوگ اگر ایماندار اور ملک سے مخلص ہوتے تو اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کو کم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ سب مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو دولت اور اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
مقتدرہ کی آگے کی پلاننگ:

یہ گئے تو پھر کیا ہو گا؟
ایاز امیر

اِن کا جانا تو ٹھہر گیا۔ یہ بات اَب عیاں ہے۔ وہ کیا جملہ ہے جو ہم اِن حالات میں گھسیٹ کے لے آتے ہیں کہ 'نوشتۂ دیوار ہے‘۔ جو نہ پڑھ سکیں اُن کا معاملہ اور ہے لیکن جن کے تھوڑے بہت کان کھڑے ہیں یا آنکھیں کھلی ہیں اُنہیں احساس ہو گیا ہے کہ بس یہ دور بھی ختم ہونے والا ہے۔
نواز شریف کے حوالے سے پانامہ کیس ایک ذریعہ بنا۔ لاوہ نہ پکا ہوتا تو ذریعے نے کچھ کام نہ آنا تھا۔ یہ جو موجودہ ہیں اِن کے بارے میں ذریعہ کیا بنے گا؟ پانامہ کا قضیہ تو اُلجھنوں سے بھرا ہوا تھا۔ غیر ملکی فنڈنگ کیس تو نسبتاً سیدھا سادہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے یہ کیس سالوں زیر التوا رہا۔ اَب اچانک اِس میں جان پڑ گئی ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے حکم صادر ہوا ہے کہ اِس کی روزانہ کی بنیاد پہ سماعت ہو گی۔ عقل مندوں کو چھوڑئیے، نا سمجھوں کیلئے بھی یہ اشارہ کافی نہیں؟ مولانا فضل الرحمن وغیرہ ایسے ہی نہیں تھے اعتماد سے لبریز۔ کچھ تو تھا اُن کے دعووں کے پیچھے کہ دو ماہ میں سب کچھ مکمل ہو جائے گا۔
صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے اور عمران خان کن بھول بھلیوں میں گم ہیں۔ آئے روز کسی بے تُکے موقع پہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جن کا اصل صورت حال سے دور کا تعلق نہیں۔ اِن ارشادات سے تو سب سے زیادہ بے خبر وہ لگتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے بے نظیر بھٹو کا 1990ء میں حال تھا۔ عین اُس دن جب اُن کی حکومت کی صدر غلام اسحاق خان نے چھٹی کرائی‘ اُنہوں نے اپنے معاونِ خصوصی ہیپی مِنوالا کو صدر صاحب کے پاس بھیجا کہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ صدر صاحب نے مِنوالا کو یقین دلایا کہ آئین سے ماورا کچھ نہیں ہو گا۔ اور پھر اُسی شام آئین کے آرٹیکل 58-2-b کے تحت قومی اسمبلی کو برخاست کر دیا گیا اور وزیر اعظم گھر چلی گئیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ جو بھی اَب کہا جائے کہ بہت نالائق نکلے، اتنی نالائقی کی توقع نہ تھی یا کوئی اور عذر پیش کیا جائے اِن موجودہ کو مختلف راستوں سے لانے والے تو وہی تھے جو اَب اُن سے نالاں ہیں۔ عوام کا ایک جتھہ اِن موجودہ کے ساتھ تھا لیکن پیچھے سے حمایت نہ ہوتی تو یہ اقتدار میں نہ آ سکتے تھے۔ تو پھر غلطی کس کی بنی، لانے والوں کی یا بیچارے عوام کی؟ اِس مخمصے کا علاج کیا ہے کہ خود ہی فیصلوں پہ پہنچا جاتا ہے اور جب فیصلے بار آور ثابت نہیں ہوتے تو چارج شیٹ بننا شروع ہو جاتی ہے یعنی خود ہی کرشمہ ساز اور پھر خود ہی گلہ کرنے والے۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟
نواز شریف کو لانے والے کون تھے؟ وہ اور اُن کی جماعت ملک پہ ٹھونسے گئے کیونکہ ناراضگی تب پاکستان پیپلز پارٹی سے تھی۔ نواز شریف کو تیار اس لئے کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کا توڑ مطلوب تھا۔ یہ مشق اتنی کامیاب رہی کہ پیپلز پارٹی پنجاب سے تقریباً فارغ ہو گئی اور سندھ کی پارٹی ہو کے رہ گئی۔
1988ء میں البتہ مقتدرہ کے ساتھ کچھ الگ معاملہ ہو گیا۔ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد الیکشن ناگزیر ہو گئے تھے۔ مارشل لاء لگانے میں کسی کو دلچسپی نہ تھی تو دوسرا راستہ الیکشن کا ہی تھا۔ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکا نہ جا سکا اور بینظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ کچھ وہ نا تجربہ کار تھیں، کچھ خرابیٔ بسیار میں اوروں کا حصہ تھا۔ لیکن ایک باقاعدہ مہم بھی بینظیر بھٹو کے خلاف چلی کہ نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ ملک دشمن بھی ہیں۔ دو سال تک بینظیر بھٹو کو برداشت کیا گیا اور پھر صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے اُن کی حکومت کو چلتا کیا۔
پیپلز پارٹی کو ہرانے کیلئے باقاعدہ ایک اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا۔ الیکشن میں اِس اتحاد کو بھاری کامیابی ملی۔ فیصلہ سازوں کی خواہش تھی کہ غلام مصطفی جتوئی وزیر اعظم بنیں لیکن آئی جے آئی کا زیادہ زور پنجاب میں تھا اور پنجاب میں بطور لیڈر نواز شریف اُبھر چکے تھے۔ اُن کا راستہ روکنا مشکل ہو گیا اور وہی وزیر اعظم بنے۔ بطورِ وزیر اعظم جب وہ پَر نکالنے لگے تو اُن کی یہ ادا پسند نہ کی گئی اور چند ماہ کے اندر ہی نواز شریف اور غلام اسحاق خان کی آپس میں ٹھن گئی۔
اِس تاریخ میں زیادہ کیا جایا جائے۔ فیصلہ کرنے والے کبھی ایک کے ساتھ ہوتے کبھی دوسرے کے۔ استحکام ملک کو نصیب نہ ہو سکا۔ پھر کہانی بنی کہ دونوں بڑی پارٹیاں چوروں اور ڈکیتوں پہ مشتمل ہیں۔ انہوں نے ملک کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ اَب نئی قیادت کی ضرورت ہے جو ماضی کے گند کو صاف کرے اور مملکت کو ایک نیا راستہ دکھائے۔ نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے اُن کے معاملات خراب ہوئے اور یہ سوچ پختہ ہوئی کہ نواز شریف کو ہٹائے بغیرکوئی چارہ نہیں۔ یہی سوچ پانامہ کیس کے وقت کارفرما تھی۔ ذریعہ تو وہ کیس بنا لیکن خواہش پکی ہو چکی تھی کہ نواز شریف کا جانا عین قومی مفاد میں ہے۔
پھر جو پاپڑ ہو سکے بیلے گئے۔ تمام تدبیریں اور ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے۔ مشکلات ایک طرف کھڑی کی گئیں اور آسانیاں دوسری طرف۔ نتیجہ یہ نکلا جو ہمارے سامنے ہے۔ بطورِ مسیحائے قوم اِن موجودہ کو ہاتھ سے پکڑ کر اُوپر لایا گیا۔ جتنے کے تھے وہ اَب سب پہ عیاں ہے۔ اتنی صلاحیت ہی نہ تھی تو کرتے کیا۔ نعرہ تبدیلی کا تھا لیکن محض تسبیح ہلانے سے کیا تبدیلی آنا تھی۔ اَب لگتا ہے پھر فیصلہ ہو چکا ہے کہ اِن سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ معجزہ جو رُونما ہونا تھا قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ سزا یافتہ مجرم ضمانت پہ رہا ہوا اور جہاز پہ بیٹھ کے بیرون ملک چلا گیا۔ موجودہ تکتے ہی رہ گئے اور اب طرح طرح کی واویلیاں مار رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو بھی ہو، جو بھی جھٹکا لگے، جو ترکیب استعمال کی جائے مملکت کی صحت پہ کیا اثر پڑ ے گا؟ کیا قومی حالات بہتر ہو جائیں گے؟ کیا قومی معاملات بہتر انداز سے چلائے جائیں گے؟ ہم یہ ناٹک بہت دیکھ چکے۔ جنرل ضیاء تھے تو ہم جیسے بینظیر بھٹو کو نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ جنابِ زرداری کے کارنامے دیکھے تو اُمیدیں نواز شریف سے لگائیں۔ بیچ میں جنرل مشرف آئے اور اُن کی کیا بڑھکیں تھیں۔ پھر جمہوریت واپس لوٹی اور مملکت کے حالات بہتر کیا ہونے تھے مزید خراب ہوئے۔ اِن موجودہ کو بھی نجات دہندہ کے طور پہ پیش کیا گیا۔ اَب یہ بھی رخصت کے مراحل میں لگتے ہیں۔ ذرا بتایا تو جائے کہ اب کیا ہو گا، کون سامنے آئے گا، کس کو سامنے لایا جائے گا اور مزید کیا بڑھکیں ماری جائیں گی؟
ایک ہی سکرپٹ ہے بس ڈائیلاگ ادا کرنے والے بدل جاتے ہیں۔ کہانی بھی تقریباً وہی ہے۔ دیکھ دیکھ کے تھک چکے ہیں۔ اچھا خاصا ملک ہے۔ ہم کہتے نہیں تھکتے کہ قدرت کی بے پناہ مہربانیاں ہیں، ملک میں بڑا ٹیلنٹ ہے۔ ٹیلنٹ خاک ہے جب حکمرانی کے وصف سے لیس کوئی ملتا نہیں۔ جنرل ضیاء کے وقت ہم بارہ کروڑ تھے۔ اب ماشاء اللہ بائیس کروڑ ہو چلے ہیں۔ ڈھنگ سے ملک کے حالات سنبھالنے والے کوئی مل نہیں رہے۔ ایک جمہوری حکمران نا کام، دوسرا بھی اُسی کیٹیگری میں۔ تیسرے کے بارے میں اب کہا جائے گا کہ نالائقوں کا سردار نکلا۔ جن کا کام ہے حکومت کرنا اُنہیں یہ کام آتا نہیں۔ جن کا کام کچھ اور ہے وہ باگیں اپنے ہاتھ میں رکھنے پہ مُصر رہتے ہیں۔ یہ مخمصہ کب اورکیسے حل ہو گا؟
اسی لیے بارہا کہا کہ ہماری بلا سے کہ اَب یہاں کیا ہوتا ہے۔ ہم بہت دیکھ چکے۔ یہی آرزو رہ گئی کہ شام اچھی گزرے لیکن معاشرہ کم بخت ایسا ہم نے بنا دیا کہ یہ معصوم سی خواہش بھی کسی ڈھنگ سے پوری نہیں ہوتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوٹ لکھپت جیل سے ایون فیلڈ فلیٹس تک!
ارشاد بھٹی
21 نومبر ، 2019

وزیراعظم نے کہا ’’کابینہ نے مجھے روکا مگر مجھے نواز شریف پر رحم آگیا‘‘، حضرت عمرؓ یاد آگئے، فرمایا’’جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے، وہاں بے گناہ بے رحمی سے مرتے ہیں‘‘، جیسے نواز شریف کیس اور سانحہ ساہیوال، جیسے نواز شریف کیس اور صلاح الدین قتل۔

اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں سے جڑے کرکٹ گراؤنڈ میں واک کرتے ابھی دوسرا چکر بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑی بے تکلفی سے کہا ’’بھٹی صاحب! مبارک ہو‘‘ میں چلتا چلتا آہستہ ہوا، نیم اندھیرے میں اپنی دائیں جانب قدرے ناگواری سے دیکھا کہ کون بے تکلف ہو رہا، نظر پڑی، سامنے سابقہ بیورو کریٹ، پاک چین تھنک ٹینک کے روح رواں، شاعر، علم نجوم، تصوف، معرفت کے استاد، سابق وزیر، اپنے ہر فن مولا دوست ملک صاحب۔

میں نے رک کر زیرِ لب مسکراتے ملک صاحب کو جپھی ڈالتے ہوئے پوچھا ’’سر مبارک کس بات کی‘‘ بولے ’’میاں صاحب کے لندن جانے کی‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’پھر تو آپ کو بھی مبارک ہو، آپ کے تو میاں صاحب سابقہ باس‘‘، مجھے کھڑا دیکھ کر کہا ’’رکیں نہیں واک جاری رکھیں، باتیں، واک ساتھ ساتھ‘‘ ۔آتی سردیاں، عشاء کا وقت، ہلکی ہلکی ہوا، مسلسل بڑھتی خنکی، چاروں طرف درختوں میں گھرا کرکٹ گراؤنڈ، چند قدم ہی چلے تھے کہ ملک صاحب بولے ’’کیا میاں صاحب واقعی بیمار ہیں‘‘ میں نے حیران ہوکر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا مطلب، آپ کو کوئی شک ہے، یہ بات تو حکومت بھی مان چکی۔

انہیں 12بیماریاں، وہ روزانہ 17دوائیاں کھائیں اور...‘‘ میری بات کاٹ کر بولے ’’آپ نے لندن جاتے ان کی تصویریں دیکھی ہیں، کیا وہ 69 سال کے تشویشناک حد تک بیمار شخص لگ رہے ہیں، چلو یہ رہنے دیں کہ اگر بندہ تشویشناک حد تک بیمار ہو تو پاکستان میں اسپتال کے بجائے گھر کیوں رہے گا۔

وہ تشویشناک حد تک بیمار ہوگا تو لندن جاکر اسپتال کے بجائے اپنے گھر کیوں رہے گا، یہ بات بھی چھوڑیں، جو تشویشناک حد تک بیمار وہ بذریعہ دوحہ لندن کیوں جائے گا، ڈائریکٹ کیوں نہیں، یہ دیکھیں، تھری پیس سوٹ، مفلر گلے میں، چہرے پر بیماری کا رتی بھر اثر نہیں‘‘ ملک صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے کہا ’’گو کہ میں نے میاں صاحب کی رپورٹیں دیکھیں نہ سرکاری ڈاکٹروں یا ذاتی معالج سے ملا، لیکن جب حکومت، ڈاکٹر، میاں صاحب کا خاندان اور سب لیگی کہہ رہے کہ وہ تشویشناک حد تک بیمار تو پھر یہ شک کرنا کہ وہ بیمار نہیں۔

جھوٹ بولا جا رہا یا جعلی بیماریاں بتائی جا رہیں، کوئی مناسب بات نہیں لگتی، اللّٰہ انہیں صحت دے۔۔۔‘‘ ملک صاحب نے ایک بار پھر میری بات کاٹی، کہنے لگے ’’بھائی جان سب کچھ پتا چل جائے گا، اب کوئی چیز چھپتی ہے نہ چھپائی جا سکتی ہے، تھوڑا سا انتظار بس، جیسے میاں صاحب کی لندن جاتے دو تصویروں نے تشویشناک حد تک بیمار کی قلعی کھول دی، ویسے ہی باقی بھی سب پتا چل جائے گا‘‘ ملک صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے کہا ’’ویسے اپنے ملک میں بھی کیا وقت آگیا کہ کوئی مر بھی رہا ہو مگر یار کہہ رہے ہوتے ہیں، ڈرامے کر رہا ہے‘‘۔

میری بات سن کر ملک صاحب پہلے ہنسے، پھر بڑے سنجیدہ لہجے میں راز دارانہ انداز میں بولے ’’یہ تو نہیں بتاؤں گا کہ میاں صاحب کے ساتھ گئے 14سوٹ کیسوں میں کیا، سب سوٹ کیس لندن پہنچے یا کہیں اور، لیکن یہ سن لیں، اب حسین نواز میڈیا پر ایکٹیو ہو جائیں گے جبکہ مریم نواز پس پردہ چلی جائیں گی۔

شہباز شریف پاکستان، برطانیہ میں شٹل کاک بنیں گے، میاں صاحب کا بیرونِ ملک قیام اندازوں سے زیادہ ہوگا اور آخرکار مریم نواز بھی چلی جائیں گی‘‘، اس سے پہلے ملک صاحب کوئی اور بات کرتے میں نے ان کی بات کاٹی اور قدرے ترش لہجے میں کہا، سر پلیز! اب میاں صاحب کا اور ذکر نہیں، اب ہم اپنی باتیں کریں گے، یقین کریں، میاں صاحب، میاں صاحب بول بول زبان پر چھالے پڑ گئے۔

میاں صاحب، میاں صاحب سن سن کان پک گئے، میاں صاحب، میاں صاحب سازشی تھیوریوں نے دماغ کی دہی نہیں چٹنی بنا دی، میاں صاحب یہ خبر، میاں صاحب وہ خبر، یہ بریکنگ نیوز، وہ اسپیشل ٹرانسمیشن، اب تو بس ہوگئی، سر صورتحال ملاحظہ کریں، کل ایک ٹی وی چینل میاں صاحب کی ایئر ایمبولینس کے اندرونی مناظر دکھا دکھا تبصر ے فرما رہا تھا۔

وہ دیکھئے میاں صاحب بیٹھے ہوئے، وہ دیکھئے میاں صاحب کوٹ اتار کر بیٹھے ہوئے، وہ دیکھئے میاں صاحب کے گلے میں مفلر، وہ دیکھئے میاں صاحب ہاتھ کا اشارہ کر رہے، لگتا ہے کہ کچھ کہنا چاہ رہے، وہ دیکھئے وہ ہیں میاں صاحب، میری رننگ کمنٹری سن کر ملک صاحب نے پہلے اوپر تلے قہقہے مارے، پھر واکنگ ٹریک کے گیٹ کے قریب پہنچ کر رکے، لمحہ بھر کیلئے سانسیں درست کیں۔

بولے، مزیدار بات سنو، ایک ملزم نے ایک مجرم کی ضمانت دی، ضمانت منظور ہوئی، ملزم، مجرم لندن پہنچے، آگے عدالتی مفروروں نے ریسیو کیا جبکہ ریاستِ مدینہ والے وزیراعظم کو اس سب پراسیس پر رحم آرہا‘‘ یہ کہہ کر ملک صاحب نے ایک پُرجوش جپھی ڈالی، اگلے ہفتے کھانے یا کافی پر ملنے کا وعدہ لیا، پارکنگ کی طرف چل پڑے۔

دوستو، اپنی ڈیلوں، ڈھیلوں بھری سیاسی تاریخ، ڈیلوں، ڈھیلوں سے لبالب بھرے اپنے سیاستدانوں کو دیکھ، بھگت کر بھی یہ نہیں کہوں گا کہ میاں صاحب بیمار نہیں یا کوئی ڈیل، ڈھیل کا چکر، یہ میری عدالتوں کا فیصلہ، مجھے اپنی عدالتوں کا ہر فیصلہ قبول، ہاں یہ دکھ ضرور کہ میرے ملک میں اب اچھائی، برائی کا فرق مٹ گیا، اب میرے ملک میں غریب جس کی کوئی جان پہچان، سفارش، پرچی نہ ہو وہ کاکروچ، دکھ یہ بھی، اب میرے ملک میں لوگ بڑے فخریہ انداز میں مجرموں کو ہار پہنائیں، ریلیف ملنے پر مٹھائیاں اور دکھ یہ بھی کہ تبدیلی لانے اور دو نہیں ایک پاکستان کے خواب دکھانیوالا وزیراعظم کوٹ لکھپت جیل سے ایون فیلڈ فلیٹس لندن کے اس انوکھے سفر پر فرمائے ’’کابینہ نے تو مجھے روکا مگر مجھے نواز شریف پر رحم آگیا‘‘۔

حضرت عمرؓ یاد آ رہے، فرمایا ’’جو ریاست مجرموں پررحم کرتی ہے، وہاں بے گناہ بے رحمی سے مرتے ہیں‘‘، جیسے نواز شریف کیس اور سانحہ ساہیوال، جیسے نواز شریف کیس اور صلاح الدین قتل۔
 
Top