فوج کے بغیر انتخابات نہیں ہو سکتے: وزیر داخلہ اعجاز شاہ

جاسم محمد

محفلین
فوج کے بغیر انتخابات نہیں ہو سکتے: وزیر داخلہ اعجاز شاہ
05/11/2019 نیوز ڈیسک



وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ فوج کے بغیر انتخابات نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ مناسب نہیں ہے ۔

نجی نیوز چینل کے مطابق اعجاز شاہ نے کہا کہ دھرنے کے بیشتر شرکا کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے؟ دھرنے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پیچھے چلا گیا ہے۔ اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ دھرنا احسن طریقے سے ختم ہو جائے گا۔ بات چیت کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ اور فوج کے بغیر الیکشن دونوں مطالبے نا مناسب ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار فوج اور حکومت ایک پیچ پر ہیں۔ ہرملک میں آرمی چیف کاایک اہم کردار ہوتا ہے۔ جب تک فوج ہے، ملک غیر مستحکم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے میں پچاس ہزار سے زائد لوگ تھے ۔ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا نام ای سی ایل پر ہے۔ ان کے نام حکومت نے نہیں بلکہ نیب نے ای سی ایل پر ڈالے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا علاج باہر کروانے کیلئے راستہ نکل سکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی قیادت پاکستان کی سرزمین پر موجود نہیں ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ جنرل ۔۔ کرنل۔۔۔ بریگ۔۔۔ وغیرہ بھی نا۔۔۔ جوانی تو گزر جاتی ہے وضو کرنے میں ۔۔۔ اخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے۔۔۔ :arrogant::arrogant:
یہ وطن تمہارا ہے ہم ہیں خوامخواہ اس میں۔
D7-Pl-GVUWk-AAX8-OF.jpg

Whats-App-Image-2019-08-29-at-00-31-49.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
اپوزیشن کا مطالبہ درست ہے کہ فوج کا الیکشن میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیئے۔

لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رُخ اور آدھا مسئلہ ہے۔ فوج کے عمل دخل کے بغیر صرف ایک الیکشنز ہوئے ہیں، 1977ء کے اور ساری دنیا کہتی ہے کہ وہ پاکستان کے بدترین الیکشنز تھے، جس میں جیتنے کے لیے دھاندلی نہیں کی گئی تھی بلکہ ناک اونچی رکھنے کے لیے (وزیراعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ کو بلا مقابلہ منتخب کروا کر) اور دو تہائی اکثریت (مکمل ڈکٹیٹر شپ) کے لیے دھاندلی کی گئی تھی۔

یہ دونوں صورتیں ہی بھیانک ہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن کا مطالبہ درست ہے کہ فوج کا الیکشن میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیئے۔

لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رُخ اور آدھا مسئلہ ہے۔ فوج کے عمل دخل کے بغیر صرف ایک الیکشنز ہوئے ہیں، 1977ء کے اور ساری دنیا کہتی ہے کہ وہ پاکستان کے بدترین الیکشنز تھے، جس میں جیتنے کے لیے دھاندلی نہیں کی گئی تھی بلکہ ناک اونچی رکھنے کے لیے (وزیراعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ کو بلا مقابلہ منتخب کروا کر) اور دو تہائی اکثریت (مکمل ڈکٹیٹر شپ) کے لیے دھاندلی کی گئی تھی۔

یہ دونوں صورتیں ہی بھیانک ہیں!

انتخابات کے دو دن بعد حکمران جماعت کے انتہائی اہم افراد اجلاس میں شریک تھے۔ سب خوش تھے کیونکہ اکیلے ان کی پارٹی نے نو پارٹیوں کو شکست دی تھی ۔ وہ سب مسکراتے چہروں کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں موجود بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ کچھ بول کر خاموشی توڑ دیں ۔ کچھ ہی لمحوں بعد بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوکر خاموشی توڑ ہی دی' "حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہوگی"؟

حفیظ پیرزادہ نے برجستہ جواب دیا " سر تیس سے چالیس تک ۔۔۔۔ بھٹو نے یہ سنا تو وہاں موجود تمام افراد سے پوچھا ۔" کیا پی این اے والوں سے بات نہیں ہو سکتی کہ وہ ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے ؟ اس کہانی کا ذکر بھٹو مرحوم کے دست راست اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی مولانہ کوثر نیازی نے اپنی کتاب "اور لائن کٹ گئی" میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میرے چودہ طبق روش ہوگئے کیونکہ میں پورے الیکشن کمپین کے دوران اس بات سے بے خبر رہا کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی ۔
بس نظام ہی پٹڑی سے اتر جاتا ہے ۔ شبیر بونیری - Daleel.Pk
 

جاسم محمد

محفلین
یہ دونوں صورتیں ہی بھیانک ہیں!
آپ نے سو فیصد درست بات کہی ہے۔ ملک کے سب سے صاف و شفاف الیکشن فوج کی نگرانی میں 1970 میں ہوئے تھے۔ جس کے نتائج سب نے تسلیم کئے لیکن ان کی بنیاد پر اقتدار کا ٹرانسفر نہ ہونے کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا۔
اسی طرح ملک کے سب سے زیادہ دھاندلی شدہ الیکشن فوج کی نگرانی کے بغیر 1977 میں ہوئے تھے۔ جس کے نتائج کسی نے تسلیم نہیں کئے۔ خود الیکشن جیتنے والی حکومتی جماعت نے مانا کہ انہوں نے وسیع پیمانہ پر دھاندلی کی تھی۔ جس کے بعد جنرل ضیاء نے اس کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انتخابات کے دو دن بعد حکمران جماعت کے انتہائی اہم افراد اجلاس میں شریک تھے۔ سب خوش تھے کیونکہ اکیلے ان کی پارٹی نے نو پارٹیوں کو شکست دی تھی ۔ وہ سب مسکراتے چہروں کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں موجود بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ کچھ بول کر خاموشی توڑ دیں ۔ کچھ ہی لمحوں بعد بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوکر خاموشی توڑ ہی دی' "حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہوگی"؟

حفیظ پیرزادہ نے برجستہ جواب دیا " سر تیس سے چالیس تک ۔۔۔۔ بھٹو نے یہ سنا تو وہاں موجود تمام افراد سے پوچھا ۔" کیا پی این اے والوں سے بات نہیں ہو سکتی کہ وہ ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے ؟ اس کہانی کا ذکر بھٹو مرحوم کے دست راست اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی مولانہ کوثر نیازی نے اپنی کتاب "اور لائن کٹ گئی" میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میرے چودہ طبق روش ہوگئے کیونکہ میں پورے الیکشن کمپین کے دوران اس بات سے بے خبر رہا کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی ۔
بس نظام ہی پٹڑی سے اتر جاتا ہے ۔ شبیر بونیری - Daleel.Pk
جی ہاں میں نے بھی یہ کتاب اور یہ واقعہ پڑھا ہے۔اس میں مولانا کوثر نیازی نے صرف اپنی "صفائی" بیان کی ہے کہ وہ اس تمام "دھاندلے" سے بے خبر تھے۔ کوثر نیازی کی اس وقت کی حیثیت سامنے رکھتے ہوئے یہ دعویٰ بعید از قیاس ہی لگتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے سو فیصد درست بات کہی ہے۔ ملک کے سب سے صاف و شفاف الیکشن فوج کی نگرانی میں 1970 میں ہوئے تھے۔ جس کے نتائج سب نے تسلیم کئے لیکن ان کی بنیاد پر اقتدار کا ٹرانسفر نہ ہونے کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا۔
1970ء کے الیکشنز شفاف تھے، درست ہے۔

لیکن یہ شفاف کیسے ہو گئے؟ اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔ المختصر، انٹیلی جنس کا کمال تھا۔ جنرل یحییٰ اور ملٹری جنتا کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ نتائج منقسم ہونگے اور کسی کو اکثریت نہیں ملے گی لہذا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ نتائج منقسم تھے، لیکن ایسے منقسم ہونگے یہ ان جنرلز کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن ایسے منقسم ہونگے یہ ان جنرلز کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
الیکشن کے نتائج جتنے بھی منقسم تھے۔ بنگالی قیادت نے بہرحال الیکشن جائز طریقہ سے جیتا تھا۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ جنرل یحییٰ اقتدار مجیب الرحمان کو منتقل کرتے۔ اور بھٹو ان کو وزیر اعظم مان لیتے۔ مگر وہ دونوں اڑ گئے اور ملک توڑ کر دم لیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
الیکشن کے نتائج جتنے بھی منقسم تھے۔ بنگالی قیادت نے بہرحال الیکشن جائز طریقہ سے جیتا تھا۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ جنرل یحییٰ اقتدار مجیب الرحمان کو منتقل کرتے۔ اور بھٹو ان کو وزیر اعظم مان لیتے۔ مگر وہ دونوں اڑ گئے اور ملک توڑ کر دم لیا۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا! :)

چچا غالب فرماتے ہیں،

۔۔ گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔ بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
 

محمد وارث

لائبریرین
الیکشن کے نتائج جتنے بھی منقسم تھے۔ بنگالی قیادت نے بہرحال الیکشن جائز طریقہ سے جیتا تھا۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ جنرل یحییٰ اقتدار مجیب الرحمان کو منتقل کرتے۔ اور بھٹو ان کو وزیر اعظم مان لیتے۔ مگر وہ دونوں اڑ گئے اور ملک توڑ کر دم لیا۔
یہ مسئلہ اتنا سیدھا نہیں ہے کہ سارا ملبہ یحییٰ، بھٹو اور مجیب پر ڈال دیا جائے۔ یہ اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی تھی، اس دیوار نے منہدم ہونا ہی تھا۔
 
فوج کے بغیر انتخابات نہیں ہو سکتے: وزیر داخلہ اعجاز شاہ
05/11/2019 نیوز ڈیسک



وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ فوج کے بغیر انتخابات نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ مناسب نہیں ہے ۔

نجی نیوز چینل کے مطابق اعجاز شاہ نے کہا کہ دھرنے کے بیشتر شرکا کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے؟ دھرنے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پیچھے چلا گیا ہے۔ اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ دھرنا احسن طریقے سے ختم ہو جائے گا۔ بات چیت کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ اور فوج کے بغیر الیکشن دونوں مطالبے نا مناسب ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار فوج اور حکومت ایک پیچ پر ہیں۔ ہرملک میں آرمی چیف کاایک اہم کردار ہوتا ہے۔ جب تک فوج ہے، ملک غیر مستحکم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے میں پچاس ہزار سے زائد لوگ تھے ۔ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا نام ای سی ایل پر ہے۔ ان کے نام حکومت نے نہیں بلکہ نیب نے ای سی ایل پر ڈالے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا علاج باہر کروانے کیلئے راستہ نکل سکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی قیادت پاکستان کی سرزمین پر موجود نہیں ہے ۔
درست کہتے ہیں آنریبل منسٹر۔ پاکستان میں فوج کے بغیر پتہ بھی ہل نہیں سکتا، نہ ہی پرندہ پر مار سکتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انتخابات کی اینٹ یا جمہوریت کی اینٹ ؟ :)
بنگال کی تقسیم کی اینٹ۔

محمد علی جناح متحدہ بنگال کی صورت میں اس کو ایک الگ ملک بنانے پر رضامند تھے۔
حسین شہید سہروردی صرف کلکتہ کو مشرقی بنگال کے ساتھ ملا کر بھی ایک علیحدہ ملک بنانے پر رضامند تھے جس پر مسلم لیگ تیار نہ تھی۔
کانگریس صرف اس صورت میں ہند کی تقسیم قبول کرنے کو تیار تھی کہ نہ صرف بنگال کو تقسیم کیا جائے بلکہ کلکتہ مغربی بنگال میں شامل کیا جائے۔

یعنی یہ پیچ در پیچ بھول بھلیاں ہیں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
کانگریس صرف اس صورت میں ہند کی تقسیم قبول کرنے کو تیار تھی کہ نہ صرف بنگال کو تقسیم کیا جائے بلکہ کلکتہ مغربی بنگال میں شامل کیا جائے۔
کانگریس نے کمال مہارت سے نہ صرف تمام ہندو اکثریت علاقے حاصل کر لئے بلکہ مسلم اکثریت کشمیر بھی چھین کر لے گئے۔ مسلم لیگ ن بس ہاتھ ملتے رہ گئی۔
 
Top