نواز شریف کی حالت تشویش ناک، جیل سے سروسز اسپتال منتقل

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب اور حکومت ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ
ویب ڈیسک ہفتہ 26 اکتوبر 2019
1856802-nawazsharif-1572094013-274-640x480.jpg

نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت حکومت کا اختیار ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو:فائل


اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور چئیرمین نیب جاوید اقبال نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کی صورت میں ان کی صحت کی ذمہ داری کا بیان حلفی دیں اور اگر انہوں نے ضمانت کی مخالفت کی تو نواز شریف کی درخواست مسترد کردیں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے نوازشریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی جلد سماعت کےلیے شہباز شریف کی درخواست کی سماعت کی۔

نواز شریف کو دل کا دورہ

درخواست گزار کے وکیل نے نواز شریف کی صحت سے متعلق نئی رپورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کو مائنر (ہلکا) ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر طبیعت انتہائی تشویشناک ہے تو بتائیں، کیا فریقین نے لاہور میں ضمانت کی مخالفت کی؟۔ وکیل نے بتایا کہ زیادہ مخالفت نہیں کی۔

صوبائی حکومت کو سزا معطلی کا اختیار

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے وہ سزا معطل کر سکتی ہے، ڈویژن بنچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلاکر پوچھ لیتے ہیں، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی تحریر ہے کہ نواز شریف کی طبیعت تشویشناک ہے، ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنے چاہیے۔

عدالت نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چئیرمین نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی کوئی نمائندہ مقرر کر کے چار بجے عدالت بھجوائیں، متعلقہ حکام اپنے نمائندے منتخب کرکے رپورٹ پیش کریں۔

ڈیل

ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرارآفس نےبتایاٹی وی چینلزپرڈیل سےمتعلق خبریں نشرکی گئیں جس پر متعلقہ چینلزاوراینکرزکوتوہین عدالت کےنوٹس جاری کرکے آج شام چار بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

بعدازاں کچھ دیر بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست کی سماعت کی۔ رجسٹرار آفس نے بتایا کہ تمام فریقین بشمول چیف سیکرٹری پنجاب، اٹارنی جنرل آفس اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل اور 5 اینکرپرسنز کو فون کرکے عدالتی حکم سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

نواز شریف کی خرابی صحت کے ذمہ دار

عدالت نے کہا کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چئیرمین نیب کے نمائندگان عدالت کو بتائیں کہ وہ نواز شریف کی سزا معطلی کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ مخالفت کی صورت میں حلفیہ بیان دیں کہ اگر نواز شریف کی صحت مزید خراب ہوئی تو بیان حلفی دینے والے ذمہ دار ہوں گے۔

سیاسی معاملات میں نہیں الجھناچاہتے

شام 4 بجے حکومتی نمائندے اور اینکرز حامد میر، سمیع ابراہیم، محمد مالک، عامر متین اور کاشف عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے اینکرز سے کہا کہ عدالت نےبڑے تحمل کا مظاہرہ کیا، بڑی معذرت کےساتھ آپ کوبلایا، ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں توبات عدلیہ پرآتی ہے، مہذب معاشرےمیں ایسانہیں ہوتا، ہم ایک فیصلہ دیتےہیں تو ججزسےمتعلق میڈیاٹرائل اور سوشل میڈیا ٹرائل شروع ہوجاتاہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت سیاسی معاملات میں نہیں الجھناچاہتی، ایک اینکرنےوثوق سےکہاڈیل ہوگئی ہے، بتائیں کون ڈیل کررہاہے؟ کیاوزیراعظم اورعدلیہ ڈیل کاحصہ ہیں؟، کیس بعدمیں عدالت آتا ہے میڈیاٹرائل پہلےہوجاتاہے، ایسی باتیں ججز کو متنازع بناتی ہیں۔ عدالت نے ڈیل سےمتعلق خبروں پراینکرزسےتحریری جواب طلب کرلیا۔

وزیراعلی پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان، نیب کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیئر رضوی اور وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری داخلہ اعظم سلیمان عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈیل کی باتوں سے عسکری ادارے اور وزیراعظم بدنام

جسٹس اطہر من اللہ نے چئیرمین پیمرا کے نمائندے سے کہا کہ بتائیں ڈیل کون کر رہا ہے، آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں۔

طبی بنیادوں پر ضمانت حکومت کا اختیار

چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہئے، یہ حکومت کا اختیار ہے، میڈیکل بورڈ نے کہا ہے کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک اور بیماری جان لیوا ہے۔

عدالت نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ آپ لوگ آدھے گھنٹے میں وزیراعلی پنجاب اور چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر عدالت کو بتائیں کہ وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے یا بیان حلفی جمع کرائیں گے؟۔

نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب اور حکومت

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی سزا معطلی کی مخالفت کرے گا تو پھر نواز شریف کی درخواست مسترد کر دیتے ہیں، لیکن اس دوران اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ داری نیب اور حکومت ہوگی، حکومتی وزراء ذمہ داری عدالت پر ڈالنے کا بیانات دے رہے ہیں۔

حکومت کا ذمہ داری لینے سے انکار

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس تمام معاملے میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لینا دینا نہیں تو گورنر کو کیوں ہدایات دی جا رہی ہیں، آپ جذباتی نہ ہوں، یا تو ذمہ داری لیں یا پھر مخالفت نہ کریں، آپ مطمئن کریں کہ منگل تک میاں نواز شریف کو کچھ نہیں ہوگا۔

وفاقی حکومت نے ذمہ داری لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے میں ذمہ داری نہیں لے سکتے۔

عدالت سے سیاست نہ کریں

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس متعلق دلائل نہیں سنیں گے، صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں، عدالت کے ساتھ سیاست نہ کریں، ملک بھر کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ آپ درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کریں۔

ہاں یا ناں میں جواب دیں، عدالت

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہاں یا ناں میں جواب دیں، ہر کوئی ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہا ہے، قانون پر عملدرآمد کرنا حکومت پنجاب کی ذمہ داری تھی، ایسا کوئی قیدی جس کی جان کو خطرہ ہے تو ضمانت پر رہا کرنے کا حکومت کو اختیار ہے، اگر آپ تینوں بیان حلفی نہیں دے رہے تو کچھ خرابی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نیب کی سزا 14 سال ہے، سزائے موت کے قیدی کو بھی انسانی ہمدردی کے تحت ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے۔

ہاں یا ناں کرنے کی پوزیشن میں نہیں، حکومت

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم ابھی ہاں یا ناں کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ عدالت نے وزیراعلی پنجاب سے واضح ہدایت لینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں مزید آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
صحت کے معاملے پر سیاست اور جملہ بازی سے گریز بہتر ہے۔ کیا یہ سنگ دلی کی انتہا نہیں؟ خدائے بزرگ و برتر نواز شریف صاحب اور دیگر علیل افراد کو صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے، آمین!
 

جاسم محمد

محفلین
العزیزیہ کیس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور
Last Updated On 26 October,2019 06:54 pm
515841_65894318.jpg

اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ میں العزیزیہ کیس میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صحت سے متعلق دائر ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ ن لیگی قائد کی طبی بنیادوں پر منگل تک عبوری ضمانت منظور کر لی گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا معطلی کے لیے شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی، جسٹس عامر فاروق کو چھٹی پر ہونے کے باعث بینچ کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلے میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف 20.20 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومت کو تمام قانونی گنجائشیں بتا دیں۔ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔ رپورٹ رجسٹرار ہائیکورٹ جمع کرائی جائے۔ وفاقی حکومت پوچھے کہ بیمار قیدیوں سے متعلق صوبائی حکومتوں نے کیا اقدامات کئے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیکرٹری داخلہ پندرہ دن میں رپورٹ جمع کرائیں۔ رپورٹ میں بتایا جائے کہ کتنے قیدی دوران قید صوبائی حکومت کے اختیارات پر عمل نہ کرنے پر انتقال کرگئے۔ ہم نے حکومت کو تمام قانونی گنجائشیں بتائیں۔ سیکرٹری داخلہ دو ہفتوں میں صوبائی حکومتوں سے جواب آنے کے بعد رپورٹ دیں۔

فیصلے میں قیدیوں سے متعلق عدالتی حکم پر عملدرآمد سے متعلق حکومت سے جواب طلب کر لیا گیا، فیصلے میں کہا گیا کہ جب عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھا کہ سیکشن 143 کے تحت انہوں نے کیا اقدامات کیئے دونوں حکومتیں جواب نہ دے سکیں۔

تیسری بار کیس کی سماعت

قبل تیسری بار کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب حکومت کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کہتے تو درخواست خارج کر دیتے ہیں، آپ مخالفت کرتے ہیں تو ذمہ داری آپ کی ہو گی۔ درخواست ضمانت پر عدالت میں ہاں یا ناں کا جواب دیں۔ آپ درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں تو درخواست مسترد کر دیتے ہیں، ہم وزیراعلیٰ پنجاب کو طلب کر لیتے ہیں، عدالت کے ساتھ فیئر رہیں۔ وفاقی حکومت کی یہ حالت ہے کہ انکا اپنا بورڈ ہے مگر زمہ داری نہیں لے رہے اگر آپ زمہ داری نہیں لے رہے تو کچھ خرابی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ پنجاب کا کہنا تھا کہ طبی بنیاد پر دائر درخواست کی ذمہ داری ہم نہیں لے سکتے، ہم نوازشریف کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتے، آپ میرٹ پر فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورٹ کے ساتھ سیاست نا کھیلی جائے۔

نمائندہ پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ تمام معاملے پر وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت معاملات کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ اگر نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو آپ ذمہ دار ہونگے۔ میڈیکل بورڈ آپ کا ہے آپ نے بتانا ہے۔ ہمیں ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ آپ ریاست ہیں۔ دیگر ہزاروں قیدیوں سے متعلق آپ کیا کہیں گے، ہر کوئی ہمیں الزام دے رہا ہے، یہ کام ریاست کا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون میں یہ ذمہ داری حکومت کی ہے، اگر کل کو علاج کرانے کے لیے باہر جانا پڑتا ہے تو کون ای سی ایل سے نام نکالے گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ رول 143 واضح ہے کہ حکومت کو ایسے معاملات میں قیدی کو رہا کرنے کا اختیار ہے۔

دوسری بار کیس کی سماعت

دوسری باری کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈیل کے حوالے سے طلب کیے گئے اینکرز پرسنز کو روسٹرم پر بلایا، اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی معذرت کے ساتھ اینکرز کو بلایا ہے۔ اینکرز اپنے تحریری جواب داخل کرائیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ افسوس ہوتا ہے جب آپ ڈیل سے متعلق بات کرتے ہیں، بہت تحمل کا مظاہرہ کیا گیا جب ڈیل کی باتیں کی گئیں۔ اس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے، کیس بعد میں آتا ہے میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے، سوشل میڈیا پر ججز کا ٹرائل کیا جاتا ہے، عدلیہ ایک معتبر ادارہ ہے، قانون کے مطابق سیاسی کیسز سنتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے دوران کیس ریمارکس دیئے کہ کیا ججز اپنے حلف کے پابند نہیں رہے، ججز کسی کے قابل رسائی نہیں، عدلیہ ایک ادارہ ہے، ہم اپنے حلف کی پاسداری کریں گے۔ کیا ادارے ڈیل کا حصہ ہے؟ کیا دوسرے اور وزیراعظم ڈیل کا حصہ ہیں۔ منتخب وزیراعظم کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ حساس اداروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دوران کیس ریمارکس دیئے کہ میڈیکل کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست عدالت میں نہیں آنی چاہیے، میڈیکل بورڈ نے کہا نوازشریف کی بیماری جان لیوا ہے۔ طبی بنیادپردرخواست ضمانت عدالت میں نہیں آنی چاہیے۔ میڈیکل بورڈنےکہاکہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ نواز شریف کا مقدمہ نہیں ہے، ایسے بھی لوگ ہیں جو درخواست نہیں لکھ سکتے، پنجاب حکومت نے اب تک کیا کیا۔ ہر بندہ کہہ رہا ہے عدالت ذمہ دار ہے۔ ہر بندہ کہہ رہا ہے جو عدالت کہے گی وہ حکومت کرے گی۔ ان لوگوں کا کیا بنے گا جو عدالت نہیں آ سکتے۔

اس دوران وکیل پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ مجھے پنجاب حکومت سے ہدایات لینے دیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت خود فیصلہ کیوں نہیں کرتی، پنجاب حکومت اگر صحت سے مطمئن ہے تو بیان حلفی دیں۔ ہم ٹال مٹول والا رویہ بالکل برداشت نہیں کرینگے، پنجاب حکومت ان کے لیے کیا کیا جو جیلوں میں علاج نہ ملنے پر مر گئے، اس کا بھی جواب دیا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نیب کی حراست میں ہیں، نیب ضمانت کی مخالفت کرتا ہے تو بیان حلفی دے۔اس دوران نیب پراسیکیوٹر کو آدھے گھنٹے میں ہدایت لینے کا حکم دیا گیا۔

کیس کی سماعت کے دوران بنچ کے دوسرے رکن جسٹس محسن اختر کیانی نے چیئر مین پیمرا کی جانب سے عدالت میں پیش نہ ہونے پر سختی برہمی کا اظہار کیا۔ دوران کیس چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ چیئر مین پیمرا کہاں ہیں؟ ادارے کے نمائندے نے جواب دیا کہ وہ شہر سے باہر ہیں جس پر فاضل بنچوں نے سختی برہمی کا اظہار کیا۔

کیس کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے پیمرا نمائندے کو جھاڑ بھی پلا دی۔ اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے موقف اختیار کیا کہ پیمرا والے آپ نے دیکھا رات کے پروگرام میں کیا تماشا بنا ہوا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پیمرا نے ابتک کتنے ایکشن لیے؟ عدالت پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، پیمرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ لوگ کہاں ہیں؟ ساری قوم کو ذہنی مریض بنا دیا ہے آپ نے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو روسٹرم پر بلایا گیا اور انہیں کوپرزن رولز پڑھنے کی ہدایت بھی کی گئی۔

پہلی بار کیس کی سماعت

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کی صحت سے متعلق عدالت میں نئی رپورٹ پیش کی گئی تھی، عدالت نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کی۔

وکلاء نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی عدالت میں پیش کی، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا فریقین نے مخالفت کی، جس پر وکیل نے جواب دیا زیادہ مخالفت نہیں کی، نواز شریف کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا ہے، کل کے بعدان کی طبعیت مزید خراب ہوئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈویژن بنچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے وہ سزا معطل کرسکتی ہے، یہ بتا دیں کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں کیا ایمرجنسی ہے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلاکر پوچھ لیتے ہیں، ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنے چاہیے۔

دوسری جانب نواز شریف کی طبیعت بددستور ناساز ہے، سابق وزیراعظم کے دل کے ٹیسٹ ٹروپ ٹی اور ٹروپ آئی کی رپورٹ پازیٹو آئی، رپورٹ پازیٹو آنے کا مطلب ہارٹ اٹیک کی ابتدائی علامات کا ظاہر ہونا ہے، فوری طور پر خون پتلا کرنے والی دوائی کا استعمال شروع کرا دیا گیا۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق ایک طرف نواز شریف کو پلیٹ لیٹس کی کمی جبکہ دوسری طرف دل کے عارضہ کا پرانا مسئلہ ہے، نواز شریف 18 سال سے دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، سابق وزیراعظم 10 سال سے شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔ نواز شریف کی ایکو کارڈیو گرافی نارمل اور ای سی جی کی رپورٹ بہتر ہے۔

میڈیکل بورڈ کی جانب سے نواز شریف کو انجائنا کی درد کی وجہ سے دل کے ٹیسٹ تجویز کیے گئے تھے، نواز شریف کی 2 دفعہ انجیو پلاسٹی اور 2 دفعہ اوپن ہارٹ سرجری بھی ہو چکی ہے، نواز شریف کو گردوں، کولیسٹرول اور جوڑوں کے درد کا بھی سامنا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو ورلڈ ریکارڈ ہوگا۔۔۔
شکر ہے ایک ٹائٹل تو پاکستان کے نام ہوا۔۔۔
یہ بھی ایک ورلڈ ریکارڈ ہے کہ نواز شریف اور زرداری دونوں کو پی ٹی آئی کا مرض ہی لاحق ہے۔

آصف زرداری کو بھی نوازشریف جیسا مرض لاحق ہونے کا خدشہ
ویب ڈیسک / طفیل احمد ہفتہ 26 اکتوبر 2019
1856767-asifzardari-1572075539-173-640x480.jpg

حکومت کا آصف زرداری کا بھی ماہرِ امراضِ خون سے معائنہ کروانے پر غور


مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کے بعد آصف زرداری کو بھی آئی ٹی پی کا مرض لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

سابق صدر آصف زرداری کو بھی سابق وزیراعظم نوازشریف کی طرح آئی ٹی پی کا مرض لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے حکومت آصف زرداری کو بھی ماہرِ امراضِ خون سے معائنہ کروانے پر غور کررہی ہے۔

پمزاسپتال کے کارڈیک وارڈ میں زیرعلاج آصف زرداری کی ٹیسٹ رپورٹ میں پلیٹلیٹس 90 ہزار کم ہو گئے ہیں اور ان کی کمراور گردن کی تکلیف بھی سنگین ہوتی جارہی ہے، اس کے علاوہ آصف زرداری کی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں (اسپائنل کارڈ) میں خلا پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے انھیں چلنے پھرنے میں بھی تکلیف کا سامنا ہے اور اسپائنل کارڈکا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔

اسپتال ذرائع کے مطابق سابق صدر جسمانی طور پر بہت کمزور ہوچکے ہیں، ان کو مثانے میں تکلیف کا سامنا ہے، ان کے پروسٹیٹ بڑھنے لگے ہیں جس پر میڈیکل بورڈ نے معائنہ کیلئے یورالوجسٹ کو طلب کرلیا ہے۔

واضح رہے ڈاکٹرز نے آصف زرداری کی تکالیف کے باعث انہیں نیند کی گولیاں دینا شروع کرادی ہیں، خون میں پلیٹ لیٹس کی کمی کی وجہ سے آئی ٹی پی بیماری لاحق ہوتی ہے اور پلیٹلیٹس میں کمی زیر استعمال ادویات کا ردعمل ہو سکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے نواز شریف پر ترس نہیں آتا
26/10/2019 اویس احمد

دو سال پہلے کی بات ہے کہ جنوبی پنجاب کے ایک ضلع کے گاؤں میں ایک بااثر زمیندار گھرانے کے ایک مرد پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا گیا۔ مجھ تک یہ واقعہ میرے ایک جاننے والے کے توسط سے پہنچا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ زمیندار گھرانہ ایک اقلیتی عقیدے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مرد کا اٹھنا بیٹھنا ایک مذہبی گھرانے کے فرد کے ساتھ ہو گیا۔ ہم اقلیتی عقیدے کے فرد کا نام الف اور مذہبی گھرانے کے فرد کا نام جیم تصور کر لیتے ہیں۔

الف اور جیم میں گاڑھی چھننے لگی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ جیم نے الف کے عقیدے میں دلچسپی کا اظہار کر دیا۔ الف نے اس کو اپنے عقیدے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا جس پر جیم نے اس عقیدے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ باتیں جیم کے توسط سے مذہبی گھرانے تک پہنچ گئی۔ مذہبی گھرانے کے کرتا دھرتاؤں نے اس معاملے سے نبٹنے کی انوکھی ترکیب سوچی۔

ایک دن جب الف اور جیم، الف کے ڈیرے کی بیٹھک میں موجود تھے تو جیم کے گھر اور محلے کے کچھ افراد سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہاں پہنچے اور جیم کو وہاں سے لے جانے کی کوشش کی۔ جیم نے مزاحمت کی تو جیم کے گھر والوں نے اس سے زور زبردستی کی۔ الف نے جیم کی مدد کرنے کی کوشش کی تو جیم کے گھر والوں نے شور مچا دیا اور الف پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا۔

معاملہ دیکھتے ہی دیکھتے سنگین ہو گیا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ الف نے اپنی جان خطرے میں دیکھی تو وہاں سے فرار ہونے میں عافیت سمجھی اور فرار ہو گیا۔ معاملہ پولیس تک پہنچا اور blasphemy کا مقدمہ درج ہو گیا۔ الف مفرور تھا۔ پولیس نے الف کو حاضر کروانے کے لیے الف کے خاندان کے افراد کو دھر لیا۔ مجبوراً الف کو حاضر ہونا پڑا۔

اہالیان علاقہ الف کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ الف کے خاندان پر خوف چھایا ہوا تھا۔ ایسے میں وہ لوگ بھی اپنا حساب برابر کرنے کے لیے میدان میں نکل آئے جن کے ساتھ الف کے خاندان کے زمین کے معاملات پر کچھ تنازعات تھے۔ پولیس نے الف کو گرفتار کر کے تفتیش کی اور چالان کاٹ کر عدالت میں تعزیر پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ دائر کر دیا جس کی سزا موت ہے۔ مقدمہ شروع ہوا۔ الف کو جیل کی کال کوٹھری میں قید کر دیا گیا۔

مقدمہ تقریباً پونے دو سال تک چلتا رہا۔ الف کی ضعیف ماں کو الف کے گرفتاری دینے اور جیل جانے کا نہیں بتایا گیا تھا۔ ماں کے استفسارات کے جواب میں اس کو یہی بتایا جاتا کہ اس کا بیٹا کسی دوسرے شہر میں محفوظ مقام پر موجود ہے۔ اس کی تسلی کے لیے الف کی ایڈٹ شدہ تصاویر (جب وہ عدالت میں پیشی پر لایا جاتا اور ہتھکڑیاں تصویر میں سے کاٹ دی جاتیں) دکھائی جاتیں اور پولیس کی کچھ منت سماجت کے ساتھ ماں سے الف کی مختصر بات کروا دی جاتی۔

گواہوں کے بیانات میں تضاد کے باعث مقدمہ کچھ کمزور ہو گیا تھا لیکن علاقے کے بااثر لوگ اور مذہبی طبقات عدالت پر دباؤ ڈالنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ تین جج اس مقدمے کو سننے سے معذرت کر چکے تھے۔ کئی وکیل دھمکیاں ملنے کے بعد کیس کی پیروی سے الگ ہو چکے تھے۔ الف کے گھر والے جیسے تیسے مقدمے کو آگے بڑھا رہے تھے۔

ایسے میں ایک سانحہ ہو گیا۔ الف کی عدالت میں پیشی تھی۔ پیشی سے پہلے پولیس نے الف کو برآمدے میں بٹھایا ہوا تھا جہاں پر کسی واقف کار نے اس کی ہتھکڑیوں سمیت تصویر بنا لی۔ کچھ دن بعد وہ واقف کار الف کے گھر پہنچے اور الف کی ماں کو وہ ہتھکڑی لگی تصاویر دکھا دیں۔

ماں کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ وہ چکرا کر گری اور پھر دوبارہ اٹھ نہ سکی۔ ماں کو فوری طور پر اسپتال لے کر جایا گیا جو جیل کے بالکل نزدیک تھا۔ ڈاکٹروں نے الف کی ماں کی صحت کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا۔ ماں اسپتال میں وینٹی لیٹر پر تھی اور کوئی لمحہ جاتا تھا کہ اس کی سانسیں پوری ہو جاتیں۔

جیل حکام اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ الف کو اس کی ماں سے اسپتال میں ملاقات کی اجازت دی جائے لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ یہاں تک کہ کال کوٹھڑی میں قید الف کو اس واقعے کی اطلاع دینا بھی ممکن نہ ہو سکا۔ ماں کا دل اپنے بیٹے کی ہتھکڑی لگی تصویر برداشت نہ کر سکا اور تیسرے دن دھڑکنا بند کر دیا۔

الف کے خاندان کے لیے یہ دوسرا سانحہ تھا۔ ایسے میں جیل حکام کو ترس آ گیا اور انھوں نے الف کو ماں کا آخری دیدار کرنے کی اجازت دے دی۔

یہ آخری دیدار ایسے کروایا گیا کہ ایک ایمبولنس میں ماں کا جسد خاکی رکھ کر جیل میں لے جایا گیا۔ ایمبولنس کو ایک پولیس والا چلا رہا تھا اور ماں کی میت کے ساتھ اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ الف کو ہتھکڑیوں سمیت جیل کے اندر ایمبولنس تک لایا گیا۔ وہیں اسے ماں کے مرنے کی خبر سنا کر آخری دیدار کے لیے ایمبولنس میں داخل ہونے کی ہدایت دی گئی۔

وہ وقت کیسا تھا۔ غم کی شدت کیا تھی اور الف پر اس لمحے کیا بیت رہی تھی یہ میں لکھنے سے قاصر ہوں کیونکہ یہ جس پر بیتتی ہے وہی جان سکتا ہے۔

ماں کی وفات کے کچھ ماہ کے بعد کیس کا فیصلہ الف کے حق میں ہو گیا اور عدالت نے الف کو جرم ثابت نہ ہونے پر باعزت بری کر دیا۔ جان کے خطرے کے پیش نظر الف کو جیل سے آدھی رات کو رہا کیا گیا اور اسی وقت اسے وہاں سے ایک دوسرے شہر منتقل کر دیا گیا۔

مجھے الف کی تصاویر جیل جانے سے پہلے اور بری ہونے کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک درد ناک اتفاق تھا۔ اچھا خاصا کڑیل انسان ایک جھوٹے الزام کی بدولت کچھ کا کچھ ہو گیا۔ کال کوٹھڑی کی قید اور ماں کی جدائی نے اس کی کمر توڑ دی۔ محاورۃ نہیں بلکہ حقیقتاً اس کی کمر جھک گئی۔

یہ اس ملک کے ایک عام آدمی کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے اور یہ کوئی انوکھا سلوک نہیں ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی لاتعداد کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ہمارے قانون اور انصاف کے نظام کے ہتھے جو بھی چڑھتا ہے وہ اپنی سات نسلوں کی پیدائش پر ماتم کرتا ہے۔

ایسے میں بدعنوانی کے جرائم میں سزا کاٹتے ہوئے پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیر اعظم نواز شریف کی بیماری پر ہونے والا شور شرابا دیکھا۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات دیکھے۔ میڈیا کی پل پل کی رپورٹ دیکھی۔ مریم نواز شریف کا عدالت میں رونا دیکھا اور آج نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی خبر سنی۔

مجھے نواز شریف پر بالکل ترس نہیں آیا۔ کوئی ہمدردی محسوس ہوئی اور نہ ہی دل سے ان کے لیے کوئی خیر کی دعا نکلی۔ ان لوگوں کے لیے قانون موم کی ناک ہے جس کو جب چاہے جیسے چاہے مروڑ دیا جاتا ہے۔ ان کو چھینک بھی آ جائے تو اسپتال کے وی آئی پی کمرے ان کے استقبال کو تیار رہتے ہیں۔ ان کو جیلوں میں ان کے من پسند کھانے پہنچتے ہیں۔ نواز شریف اسپتال پہنچیں تو مریم نواز تڑپ کر جیل سے اسپتال پہنچ جاتی ہیں لیکن کسی بھی الف کی ماں وینٹی لیٹر پر اپنے آخری سانس لے رہی ہو تو قانون اپنی گردن میں سریا ڈالے اکڑ کر کھڑا رہتا ہے اور ماں مر جاتی ہے۔

ماں باپ ہمیشہ نہیں رہتے۔ ایک دن مر جاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ کسی صاحب اقتدار و اختیار کی ماں یا باپ الف کی ماں کی طرح مرے اور اسے جیل میں ایمبولنس پر ماں کی میت کے سامنے لا کر ماں کے مرنے کی خبر سنائی جائے اور آخری دیدار کا موقع دیا جائے تو شاید انسانیت نام کی کوئی چیز کسی پتھر میں کوئی پھول اگا دے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھاگ رہا ہے سارا وطن، ساتھیو، مجاہدو!


لندن کے ڈاکٹرز نے نواز شریف کو علاج کیلیے فوراً بلایا ہے، (ن) لیگ
ویب ڈیسک اتوار 27 اکتوبر 2019
1857358-nawazsharifjailed-1572123555-579-640x480.jpg

لندن کے ڈاکٹروں نے رپورٹ دیکھ کر کہا ہے کہ نواز شریف کی حالت خاصی تشویش ناک ہے، ذرائع ن لیگ (فوٹو: فائل)

لاہور: لندن کے ڈاکٹروں نے نواز شریف کی طبیعت کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر علاج کے لیے آنے کا مشورہ دیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی لندن بجھوائی گئی رپورٹس پر برطانوی طبی ماہرین کا جواب آگیا ہے جو کہ فون اور ای میل کی صورت میں شہباز شریف کو موصول ہوا ہے۔

(ن) لیگ کے ذرائع کے مطابق لندن کے ڈاکٹروں نے رپورٹ دیکھ کر کہا ہے کہ نواز شریف کی حالت خاصی تشویش ناک ہے، پلیٹ لیٹس کا اس طرح کم ہونا خطرناک ہے مریض دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ مرض کیا ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے مریض کو چیک اپ کے لیے لایا جائے، اب نواز شریف اور ان کے خاندان والوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ کہاں علاج کروانا ہے؟ اگر لندن جانا ہے تو کب جانا ہے اس کا فیصلہ شریف خاندان ہی کرے گا۔
 

زیک

مسافر
مجھے نواز شریف پر ترس نہیں آتا
26/10/2019 اویس احمد

دو سال پہلے کی بات ہے کہ جنوبی پنجاب کے ایک ضلع کے گاؤں میں ایک بااثر زمیندار گھرانے کے ایک مرد پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا گیا۔ مجھ تک یہ واقعہ میرے ایک جاننے والے کے توسط سے پہنچا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ زمیندار گھرانہ ایک اقلیتی عقیدے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مرد کا اٹھنا بیٹھنا ایک مذہبی گھرانے کے فرد کے ساتھ ہو گیا۔ ہم اقلیتی عقیدے کے فرد کا نام الف اور مذہبی گھرانے کے فرد کا نام جیم تصور کر لیتے ہیں۔

الف اور جیم میں گاڑھی چھننے لگی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ جیم نے الف کے عقیدے میں دلچسپی کا اظہار کر دیا۔ الف نے اس کو اپنے عقیدے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا جس پر جیم نے اس عقیدے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ باتیں جیم کے توسط سے مذہبی گھرانے تک پہنچ گئی۔ مذہبی گھرانے کے کرتا دھرتاؤں نے اس معاملے سے نبٹنے کی انوکھی ترکیب سوچی۔

ایک دن جب الف اور جیم، الف کے ڈیرے کی بیٹھک میں موجود تھے تو جیم کے گھر اور محلے کے کچھ افراد سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہاں پہنچے اور جیم کو وہاں سے لے جانے کی کوشش کی۔ جیم نے مزاحمت کی تو جیم کے گھر والوں نے اس سے زور زبردستی کی۔ الف نے جیم کی مدد کرنے کی کوشش کی تو جیم کے گھر والوں نے شور مچا دیا اور الف پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا۔

معاملہ دیکھتے ہی دیکھتے سنگین ہو گیا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ الف نے اپنی جان خطرے میں دیکھی تو وہاں سے فرار ہونے میں عافیت سمجھی اور فرار ہو گیا۔ معاملہ پولیس تک پہنچا اور blasphemy کا مقدمہ درج ہو گیا۔ الف مفرور تھا۔ پولیس نے الف کو حاضر کروانے کے لیے الف کے خاندان کے افراد کو دھر لیا۔ مجبوراً الف کو حاضر ہونا پڑا۔

اہالیان علاقہ الف کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ الف کے خاندان پر خوف چھایا ہوا تھا۔ ایسے میں وہ لوگ بھی اپنا حساب برابر کرنے کے لیے میدان میں نکل آئے جن کے ساتھ الف کے خاندان کے زمین کے معاملات پر کچھ تنازعات تھے۔ پولیس نے الف کو گرفتار کر کے تفتیش کی اور چالان کاٹ کر عدالت میں تعزیر پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ دائر کر دیا جس کی سزا موت ہے۔ مقدمہ شروع ہوا۔ الف کو جیل کی کال کوٹھری میں قید کر دیا گیا۔

مقدمہ تقریباً پونے دو سال تک چلتا رہا۔ الف کی ضعیف ماں کو الف کے گرفتاری دینے اور جیل جانے کا نہیں بتایا گیا تھا۔ ماں کے استفسارات کے جواب میں اس کو یہی بتایا جاتا کہ اس کا بیٹا کسی دوسرے شہر میں محفوظ مقام پر موجود ہے۔ اس کی تسلی کے لیے الف کی ایڈٹ شدہ تصاویر (جب وہ عدالت میں پیشی پر لایا جاتا اور ہتھکڑیاں تصویر میں سے کاٹ دی جاتیں) دکھائی جاتیں اور پولیس کی کچھ منت سماجت کے ساتھ ماں سے الف کی مختصر بات کروا دی جاتی۔

گواہوں کے بیانات میں تضاد کے باعث مقدمہ کچھ کمزور ہو گیا تھا لیکن علاقے کے بااثر لوگ اور مذہبی طبقات عدالت پر دباؤ ڈالنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ تین جج اس مقدمے کو سننے سے معذرت کر چکے تھے۔ کئی وکیل دھمکیاں ملنے کے بعد کیس کی پیروی سے الگ ہو چکے تھے۔ الف کے گھر والے جیسے تیسے مقدمے کو آگے بڑھا رہے تھے۔

ایسے میں ایک سانحہ ہو گیا۔ الف کی عدالت میں پیشی تھی۔ پیشی سے پہلے پولیس نے الف کو برآمدے میں بٹھایا ہوا تھا جہاں پر کسی واقف کار نے اس کی ہتھکڑیوں سمیت تصویر بنا لی۔ کچھ دن بعد وہ واقف کار الف کے گھر پہنچے اور الف کی ماں کو وہ ہتھکڑی لگی تصاویر دکھا دیں۔

ماں کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ وہ چکرا کر گری اور پھر دوبارہ اٹھ نہ سکی۔ ماں کو فوری طور پر اسپتال لے کر جایا گیا جو جیل کے بالکل نزدیک تھا۔ ڈاکٹروں نے الف کی ماں کی صحت کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا۔ ماں اسپتال میں وینٹی لیٹر پر تھی اور کوئی لمحہ جاتا تھا کہ اس کی سانسیں پوری ہو جاتیں۔

جیل حکام اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ الف کو اس کی ماں سے اسپتال میں ملاقات کی اجازت دی جائے لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ یہاں تک کہ کال کوٹھڑی میں قید الف کو اس واقعے کی اطلاع دینا بھی ممکن نہ ہو سکا۔ ماں کا دل اپنے بیٹے کی ہتھکڑی لگی تصویر برداشت نہ کر سکا اور تیسرے دن دھڑکنا بند کر دیا۔

الف کے خاندان کے لیے یہ دوسرا سانحہ تھا۔ ایسے میں جیل حکام کو ترس آ گیا اور انھوں نے الف کو ماں کا آخری دیدار کرنے کی اجازت دے دی۔

یہ آخری دیدار ایسے کروایا گیا کہ ایک ایمبولنس میں ماں کا جسد خاکی رکھ کر جیل میں لے جایا گیا۔ ایمبولنس کو ایک پولیس والا چلا رہا تھا اور ماں کی میت کے ساتھ اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ الف کو ہتھکڑیوں سمیت جیل کے اندر ایمبولنس تک لایا گیا۔ وہیں اسے ماں کے مرنے کی خبر سنا کر آخری دیدار کے لیے ایمبولنس میں داخل ہونے کی ہدایت دی گئی۔

وہ وقت کیسا تھا۔ غم کی شدت کیا تھی اور الف پر اس لمحے کیا بیت رہی تھی یہ میں لکھنے سے قاصر ہوں کیونکہ یہ جس پر بیتتی ہے وہی جان سکتا ہے۔

ماں کی وفات کے کچھ ماہ کے بعد کیس کا فیصلہ الف کے حق میں ہو گیا اور عدالت نے الف کو جرم ثابت نہ ہونے پر باعزت بری کر دیا۔ جان کے خطرے کے پیش نظر الف کو جیل سے آدھی رات کو رہا کیا گیا اور اسی وقت اسے وہاں سے ایک دوسرے شہر منتقل کر دیا گیا۔

مجھے الف کی تصاویر جیل جانے سے پہلے اور بری ہونے کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک درد ناک اتفاق تھا۔ اچھا خاصا کڑیل انسان ایک جھوٹے الزام کی بدولت کچھ کا کچھ ہو گیا۔ کال کوٹھڑی کی قید اور ماں کی جدائی نے اس کی کمر توڑ دی۔ محاورۃ نہیں بلکہ حقیقتاً اس کی کمر جھک گئی۔

یہ اس ملک کے ایک عام آدمی کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے اور یہ کوئی انوکھا سلوک نہیں ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی لاتعداد کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ہمارے قانون اور انصاف کے نظام کے ہتھے جو بھی چڑھتا ہے وہ اپنی سات نسلوں کی پیدائش پر ماتم کرتا ہے۔

ایسے میں بدعنوانی کے جرائم میں سزا کاٹتے ہوئے پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیر اعظم نواز شریف کی بیماری پر ہونے والا شور شرابا دیکھا۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات دیکھے۔ میڈیا کی پل پل کی رپورٹ دیکھی۔ مریم نواز شریف کا عدالت میں رونا دیکھا اور آج نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی خبر سنی۔

مجھے نواز شریف پر بالکل ترس نہیں آیا۔ کوئی ہمدردی محسوس ہوئی اور نہ ہی دل سے ان کے لیے کوئی خیر کی دعا نکلی۔ ان لوگوں کے لیے قانون موم کی ناک ہے جس کو جب چاہے جیسے چاہے مروڑ دیا جاتا ہے۔ ان کو چھینک بھی آ جائے تو اسپتال کے وی آئی پی کمرے ان کے استقبال کو تیار رہتے ہیں۔ ان کو جیلوں میں ان کے من پسند کھانے پہنچتے ہیں۔ نواز شریف اسپتال پہنچیں تو مریم نواز تڑپ کر جیل سے اسپتال پہنچ جاتی ہیں لیکن کسی بھی الف کی ماں وینٹی لیٹر پر اپنے آخری سانس لے رہی ہو تو قانون اپنی گردن میں سریا ڈالے اکڑ کر کھڑا رہتا ہے اور ماں مر جاتی ہے۔

ماں باپ ہمیشہ نہیں رہتے۔ ایک دن مر جاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ کسی صاحب اقتدار و اختیار کی ماں یا باپ الف کی ماں کی طرح مرے اور اسے جیل میں ایمبولنس پر ماں کی میت کے سامنے لا کر ماں کے مرنے کی خبر سنائی جائے اور آخری دیدار کا موقع دیا جائے تو شاید انسانیت نام کی کوئی چیز کسی پتھر میں کوئی پھول اگا دے۔
یہ صاحب اور دوسرے جنہیں عام لوگوں، ملزموں اور مجرموں کا غم کھائے جا رہا ہے یہ ان کے انسانی حقوق کے لئے کیا کر رہے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
العزیزیہ ریفرنس؛ نوازشریف کی طبی بنیادوں پر مشروط ضمانت منظور
ویب ڈیسک منگل 29 اکتوبر 2019
1859996-nawazsharif-1572327258-121-640x480.jpg

حکومت ضمانت کا فیصلہ کرے تو شاید وہ ڈیل نہ کہلائے، جسٹس محسن کیانی کے ریمارکس۔ فوٹو : فائل


اسلام آباد: العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر مشروط ضمانت منظور کرلی ہے۔

العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ میں خود بھی ایک وکیل ہوں، جیل کے قیدیوں کے مسائل موجود ہیں، میں نے ایک سال میں 8 جیلوں کے دورے کیے تاہم جیل میں قیدیوں کے حوالے سے اقدامات بہتر بنانے کی ضرورت ہے جب کہ پیرول ایکٹ کے حوالے سے قانون سازی ہورہی ہے۔

عدالت نے سروسز اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سلیم چیمہ کو روسٹرم پر طلب کیا، ڈاکٹر سلیم چیمہ نے نواز شریف کی نئی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روزمیڈیکل بورڈ کاساتواں اجلاس تھا، نواز شریف کی طبی حالت اب بھی تشویش ناک ہے۔

سابق وزیراعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی عمر 70 سال ہے اور دل کی بیماری بھی ہے، نوازشریف کے ساتھ 20 سال سے ہوں اور آج تک اتنی تشویش ناک حالت میں نہیں دیکھا، پلیٹلیٹس کی کم تعداد کی تاحال وجوہات کا علم نہیں ہو سکا، مسلسل علاج کے باوجود نواز شریف کے پلیٹلیٹس نہیں بڑھے، کسی بھی وقت خون بہنے کا خطرہ موجود ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا پلیٹلٹس بڑھانے سے دل کی بیماری شروع ہوجاتی ہے، اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جی نوازشریف کو بہت سی بیماریاں ہیں، ایک کے علاج سے دوسری متاثر ہوتی ہے، جب دل کی بیماری ہوتو اس کا اثر پلیٹلٹس پر بھی ہوتا ہے لہذا نواز شریف کو اجازت دی جائے کہ وہ جس ڈاکٹر سے چاہیں علاج کرائیں۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس میں کہا کہ کس نے فیصلہ کرنا ہے کہ جب نواز شریف ٹھیک ہوگئے تو سزا پوری کریں گے، اگر وہ کبھی بھی دوبارہ سزا کاٹنے کے قابل نہیں ہوتے تو کیا ہو گا، کیا سزا کو پھر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا، اگر ضمانت ہوجائے اور چند ماہ میں نواز شریف صحتمند ہو جائیں تو طریقہ کیا ہوگا۔

نیب نے دلائل کے آغاز میں نوازشریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینے کی مخالفت کی تاہم بعد میں نوازشریف کو مشروط اور محدود ضمانت دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی بنیاد پر نواز شریف کی میڈیکل حالت تشویشناک ہے، عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزامعطل کر دے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کو مخصوص مدت کے لیے ضمانت دی جاسکتی ہے، علاج کے لیے مخصوص مدت کے لیے ضمانت کا طریقہ کار سپریم کورٹ نے بنایا ہے جب کہ نواز شریف کیس میں میرٹ پر بات نہیں کرتے، دوسری صورت یہ ہے کہ درخواست ضمانت کو التواء میں رکھا جائے اور اس دوران نواز شریف کی فریش میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے، ہم صرف انسانی بنیادوں پر یہ بیان دے رہے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ایگزیکٹو اپنے اختیارات استعمال نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے کندھے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت کے 3 آپشنز ہمارے سامنے ہیں، پہلا آپشن یہ ہے کہ نوازشریف کو ضمانت دے دی جائے، دوسرا آپشن ہے کہ نیب کی تجویز کے مطابق مشروط ضمانت دے دی جائے جب کہ تیسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت کواختیار دے دیا جائے۔

جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ حکومت ضمانت کا فیصلہ کرے تو شاید وہ ڈیل نہ کہلائے، ڈیل کی باتوں نے رائے عامہ کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نوازشریف کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا، عدالت نے فیصلے میں سابق وزیراعظم کی طبی بنیادوں پر 8 ہفتے کے لیے مشروط ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف 8 ہفتے میں علاج کروالیں، عدالت نے انہیں 20، 20 لاکھ کے 2 مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔
 

جاسم محمد

محفلین
خوش نصیب نواز شریف!
ارشاد بھٹی

207260_830007_updates.jpg

وہ لبرل، سیکولر، روشن خیالوں کا مولانا پر واری واری جانا، اب بھسم بھڑوں ہو چکے: فائل فوٹو میاں نوازشریف

کیا دو دن، سنسنی خیز، معنی خیز، انہونی، ہونی ہوئی، ناممکن، ممکن ہوا، جو وہم و گمان میں نہ تھا، وہ ہو گیا، گو کہ ان دو دنوں میں حکومت، مولانا کا معاہدہ ہوگیا، نو دھرنا، نو لاک ڈاؤن، نو وزیراعظم استعفیٰ، نو الیکشن، صرف آزادی مارچ اور جلسہ، وہ مولانا کے دعوے، وہ للکار، وہ بغضِ عمران، بغضِ اسٹیبلشمنٹ میں مولانا کو مسیحا جان کر لڈیاں ڈالنے والے، اب بغلیں جھانک رہے۔


وہ لبرل، سیکولر، روشن خیالوں کا مولانا پر واری واری جانا، اب بھسم بھڑوں ہو چکے، ہاں اب بھی کچھ اس امید میں، آزادی مارچ آئے گا، مقررہ جگہ پر جلسہ ہوگا اور پھر آناً فاناً لاکھوں لوگ اسلام آباد آکر تبدیلی سرکار کی منجی ٹھوک دیں گے مگر میں کس ذکر کو چھیڑ بیٹھا، میرا موضوع مولانا مارچ نہیں، میرا موضوع اس سے اہم۔

جی بالکل صحیح سمجھے آپ، مجھے ذکر کرنا نواز شریف کو اسپتال کمرے میں ملے فوری اور سستے انصاف کا، 25 اکتوبر بروز جمعہ، چوہدری شوگر مل کیس، لاہور ہائیکورٹ، میاں صاحب کی طبی بنیادوں پر ضمانت، چلو ایک جمعہ تو میاں صاحب کو راس آیا، 26 اکتوبر بروز ہفتہ، اسلام آباد ہائیکورٹ، العزیزیہ کیس، میاں صاحب کی منگل تک طبی بنیادوں پر ضمانت، منگل کو ضمانت میں توسیع کا قوی امکان۔

ذرا فلم کو ریوائنڈ کریں، میاں صاحب نیب حراست میں، ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کا آنا، خون، پیشاب کے نمونے لے جانا، ٹیسٹ رپورٹوں کا آنا، پتا چلنا میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس (خون کے سفید خلیے) خطرناک حد تک کم، میاں صاحب کو سروسز اسپتال لے جایا جانا، طبیعت کا اور خراب ہونا، کراچی، اسلام آباد کے ڈاکٹروں کا پہنچ جانا، ہر شعبے میں بیٹھے غلاموں کے ماتم، میڈیا کی نواز بیماریوں پر میراتھون ٹرانسمیشن، گھنٹوں میں ایسا ماحول، مولانا اور مولانا کا مارچ، کشمیر اور مظلوم کشمیری، حکومت اور معیشت، سب کچھ غائب ہو جانا۔

خیر آخرکار پتا چلنا کہ میاں صاحب کو ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹو پینیا (آئی ٹی پی)، اس بیماری میں انسان کا مدافعتی سسٹم کمزور پڑے، جسم کا خودکار نظام جتنے سفید خلیے بنائے اس سے زیادہ تباہ کر دے، کراچی سے خصوصی طور پر منگوائے گئے ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق یہ بیماری عموماً بچوں کو ہو، بہت کم کیسز میں بڑی عمر کے لوگوں کو، یہ قابلِ علاج مرض، دوا، ٹیکوں سے علاج ممکن، ادویات ملنے کے 4پانچ دنوں میں پلیٹ لیٹس بحالی شروع، دس بارہ دنوں میں صورتحال نارمل، البتہ دوا کا استعمال 6ماہ سے ایک سال تک جاری رکھنا پڑے۔

نواز شریف کو پہلے درجن بھر بیماریاں، میاں صاحب کے وکلاء عدالت کو بتا چکے، ان کی 2ہارٹ سرجریاں ہو چکیں، انہیں 7اسٹنٹ پڑ چکے، ان کے دل کی کچھ شریانیں سکڑی ہوئیں، انہیں (سی کے ڈی) لیول تھری گردوں کا انفیکشن، انہیں مثانے کی تکلیف، انہیں ٹائپ ٹو شوگر، دن میں دو بار انسولین لگائیں، انہیں بلڈ پریشر اور ذہنی، اعصابی تناؤ بھی، ان کے گردوں کی شریانوں میں سوزش، ان کی دماغ کی شریانیں سوجی ہوئیں، انہیں بیمار دماغی شریانوں کی وجہ سے دورے پڑ چکے، دماغ کا کچھ حصہ متاثر ہو چکا، انہیں یورک ایسڈ بھی، انہیں دل کی دھڑکن کے مسائل بھی، انہیں جگر کا عارضہ بھی لاحق، ان پر اتنا دباؤ کہ جسمانی، نفسیاتی بیماریاں خطرناک ہونے کا اندیشہ، کارڈیک موت کا خطرہ، Sudden deathکا خدشہ، پلیٹ لیٹس مسائل سے پہلے نواز شریف روزانہ 17دوائیاں کھا رہے۔


لاہور ہائیکورٹ کا ڈبل بنچ جسٹس باقر نجفی، جسٹس سردار نعیم احمد پر مشتمل تھا، طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت کا خلاصہ، نواز شریف 69سال کے، سنیئر سٹیزن، بہت بیمار، زندگی کو خطرات لاحق، انسانی حقوق کا کیس، انسانی ہمدردی پر ضمانت دی جائے، 3وقفوں والی سماعت کے بعد طبی بنیادوں پر نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور ہوئی، 7صفحاتی فیصلے میں لاہور ڈبل بنچ نے یہ شعر بھی لکھا:۔

مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

ایک دن بعد، 26اکتوبر، بروز ہفتہ، اسلام آباد ہائیکورٹ، العزیزیہ کیس، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈبل بنچ، ویسے تو 4وقفوں والی یہ سماعت کہانی بہت لمبی، مگر قصہ مختصر، یہاں بھی نواز شریف کی طبی بنیادوں پر منگل تک ضمانت منظور ہو گئی۔

اب چند باتیں بہت اہم، پہلی بات، نواز شریف خوش نصیب، اتنی بیماریاں اور surviveکر رہے، اللہ انہیں صحت یاب کرے، دوسری بات، نواز شریف خوش نصیب، ججز خریدیں، ججز پر چڑھائیاں کریں، سپریم کورٹ پر حملہ کریں، گاڈ فادر کہلائیں لیکن ہر عدالتی جنگ بالآخر جیت جائیں، غلام اسحاق خان اسمبلی توڑیں، انہیں ریلیف ملے، اتفاق فونڈری کا اسٹے 15سال تک لٹکائے رکھیں، 9دس سالہ جلاوطنی کے بعد آئیں، ایک درخواست، سب سزائیں، جرمانے، نااہلیاں ختم، حدیبیہ بند ہو جائے، فلیگ شپ میں تکنیکی بنیادوں پر نکل جائیں، ایون فیلڈ، العزیزیہ، چوہدری شوگر ملز میں ضمانتیں۔

تیسری بات، نواز شریف خوش نصیب، چوہدری شوگر ملز میں جسمانی ریمانڈ پر تھے مگر ضمانت مل گئی حالانکہ جب جسمانی ریمانڈ ختم ہو، ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل جائے تب ضمانت ہو پائے، چوتھی بات، نواز شریف خوش نصیب، 72سالہ تاریخ کے پہلے مجرم، جن کے 9میڈیکل بورڈ، 13میڈیکل رپورٹیں، 63ڈاکٹروں کے معائنے، طبی بنیادوں پر 6ہفتے رہائی کا ریلیف، من مرضی کی جیلیں، ہر قسم کی سہولتیں، قید خانے کے دروازے پر 24 گھنٹے ڈاکٹر، ایمبولینس موجود، پانچویں بات، نواز شریف خوش نصیب۔

سپریم کورٹ کہہ چکی، نواز شریف نے عدالت، پارلیمنٹ، عوام کو بیوقوف بنایا، جناب اسپیکر تقریر جھوٹ نکلی، قوم سے 3خطاب جھوٹ ہوئے، قطری خط، ٹرسٹ ڈیڈ، کیلبری فونٹ سب کچھ جعلی نکلا، ایک گواہ، ایک ثبوت اور نہ منی ٹریل مگر پھر بھی لیڈریاں قائم، چھٹی بات، نواز شریف خوش نصیب، صرف العزیزیہ کیس، ایک طرف 6ضمانت درخواستوں میں 5طبی بنیادوں پر درخواستیں، صحت خراب، رحم کیا جائے۔

دوسری طرف انقلابی، مزاحمتی، ووٹ کی عز ت کیلئے ڈٹا، ملک و قوم کی خاطر جیل میں پڑا منڈیلا، مزے کی بات رحم اپیلیں، انقلابی بھاشن دونوں فلمیں سپر ہٹ۔ ساتویں بات، نواز شریف خوش نصیب، جہاں دادے کا مقدمہ پوتا بھگت رہا، وہاں انہیں مہینوں میں من مرضی کا انصاف مل گیا، آٹھویں بات، نواز شریف خوش نصیب، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے ملک، نظام، سماج میں وہ میر حسن ابڑو نہیں کہ کتا ویکسین کیلئے کراچی جاتے ہوئے رستے میں تڑپ تڑپ مرنا پڑے، وہ نواز شریف جن کیلئے کراچی، اسلام آباد سے ڈاکٹر چل کر لاہور آئیں اور جن کا لندن میں ڈاکٹر لارنس انتظار کر رہا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈیل قریب است۔
نواز شریف کے پلیٹلیٹس میں اضافہ، سفر کے قابل ہوگئے
ویب ڈیسک 42 منٹ پہلے
1864184-nawazsharif-1572591012-689-640x480.jpg

نواز شریف کو ابھی ڈسچارج تو نہیں کیاجاسکتا لیکن اب وہ سفر کرسکتے ہیں، سربراہ میڈیکل بورڈ۔ فوٹو : فائل


لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد وہ سفر کے قابل ہوگئے ہیں۔

لاہور کے سروسز اسپتال میں 11 روز سے زیر علاج سابق وزیراعظم نواز شریف کی حالت میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے اور ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ آخری سی بی سی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد 55 ہزار تک پہنچ گئی ہے اور ان کی حالت میں بہتری آرہی ہے، 50 ہزار پلیٹلیٹس ہونے کے بعد نواز شریف سفر کر سکتے ہیں تاہم سربراہ میڈیکل بورڈ ڈاکٹر محمود ایاز کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ابھی ڈسچارج نہیں کیا جا سکتا۔

ذرائع میڈیکل بورڈ کے مطابق میڈیکل بورڈ روزانہ کی بنیاد پر نواز شریف کا طبی معائنہ کر رہا ہے، 12 رکنی میڈیکل بورڈ آج بھی نوازشریف کا طبی معائنہ کرے گا جس کے بعد مزید ٹیسٹ تجویز کیے جائیں گے، آئی ٹی پی تشخیص کے بعد تجویز کردہ ادویات نوازشریف کو بہتر کر رہی ہیں جب کہ نوازشریف کو دل اور گردہ کے مسائل علاج معالجہ میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈیل منظور کرنے والے سب سے بڑے منافق ہیں اور آزادی مارچ بھی فرینڈلی حکومت اور اپوزیشن کی اتفاقِ رائے سے ہو رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک برابر منافقانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان ایک طرف این آر او نہ دینے کی بات کرتا ہے دوسری طرف ٹریک ٹو ڈپلومیسی کےتحت ڈیل کامیاب کرو تحریک شروع کی ہے اور قوم کی توجہ ہٹانے کے لیے فرینڈلی حکومت و اپوزیشن آزادی مارچ کر رہی ہے۔
ڈیل منظور کرو تحریک از حکومت و اپوزیشن مشترکہ پیج
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
عدالت نے نواز شریف کی جیل واپسی کا اختیار وسیم اکرم پلس کو دے دیا :)


پنجاب حکومت کے فیصلے تک نواز شریف کی سزامعطل رہے گی، اسلام آبادہائی کورٹ
ویب ڈیسک بدھ 6 نومبر 2019
1871079-nawazsharif-1573050319-573-640x480.jpg

مرکزی اور صوبائی حکومتیں شدید بیمار قیدیوں کو ریلیف فراہم کریں۔ عدالت عالیہ فوٹو: فائل


اسلام آباد: ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت سے متعلق تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ پنجاب حکومت کے فیصلے تک نواز شریف کی سزامعطل رہے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پرضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس عامر فاروق نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں نوازشریف کی طبی بنیادوں پرضمانت منظور کرنے کی وجوہات بیان کی گئیں ہیں جب کہ اس میں اسپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے لیے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے، اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنا ریاست کے ہر ادارے پر لازم ہے، نوازشریف کی بیماری جیسے کیسز عدالتوں میں نہیں آنے چاہیئں، صوبائی حکومت خود سے کسی بھی قیدی کی سزا معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، آرٹیکل 401 کے تحت حکومت کو سزا معطل کرنے کا اختیار ہے، صوبائی حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ہزاروں بیمار قیدی بے یار و مددگار پڑے رہتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں شدید بیمار قیدیوں کو ریلیف فراہم کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ نواز شریف کو دل اور پلیٹ لیٹس کے علاج کے لیے دوسرے اسپتال جانا پڑرہا ہے، پنجاب حکومت جب تک فیصلہ نہیں دےگی تو ان سزامعطل رہے گی، پنجاب حکومت اگر نواز شریف سے تعاون نہ کرے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتےہیں۔
 
Top