عالم تمام شے ہے مگر تجھ سی شے کہاں ٭ راحیلؔ فاروق

عالم تمام شے ہے مگر تجھ سی شے کہاں
ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہے کہاں

پیاسا ہے پارساؤں کی بستی میں ہر کوئی
کوئی بہشت ڈھونڈیے دوزخ میں مے کہاں

ہم اٹھ کے اس کی بزم سے جانے کہاں گئے
ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ اے کہاں

گرتے ہیں ٹوٹ ٹوٹ کے تارے شبِ فراق
اونچی ہوئی تو جائے گی نالوں کی لے کہاں

مٹی پلید ہو گئی پھر مےکدے کی آج
کوئی بتاؤ شیخ کو کرتے ہیں قے کہاں

اے میرِ کاروانِ وفا دھیرے دھیرے چل
ان منزلوں کے راستے ہوتے ہیں طے کہاں

سب لوگ چل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
جو پہلے ہم سفر تھے گئے پے بہ پے کہاں

راحیلؔ دل کی آہ کے جو جو مقام ہیں
وہ قسمتِ رباب و دف و چنگ و نے کہاں

راحیلؔ فاروق​
 

یاسر شاہ

محفلین
عدنان بھائی پیشکش کا شکریہ -
راحیل بھائی آپ بھی لگتا ہے یہیں آس پاس ہوتے ہیں تو کیوں نہ آپ کو مخاطب ہی کر لیا جائے -

عالم تمام شے ہے مگر تجھ سی شے کہاں
ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہے کہاں

میں اگر یہ شعر کہتا تو یوں کہتا :

عالم کمال شے ہے مگر دل سی شے کہاں
ہے ،اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہے کہاں ؟

یوں خدا کو شے کہنے کا احتمال باقی نہ رہتااور شعر کا حسن بھی برقرار رہتا -

پیاسا ہے پارساؤں کی بستی میں ہر کوئی
کوئی بہشت ڈھونڈیے دوزخ میں مے کہاں

بلاتبصرہ

ہم اٹھ کے اس کی بزم سے جانے کہاں گئے
ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ اے کہاں

پھڑکتا ہوا شعر-جان غزل -<جانے کہاں گئے> اور< اے کہاں؟ > نے وہ برجستگی اور بیساختگی پیدا کر دی ہے شعر میں کہ جواب نہیں -

گرتے ہیں ٹوٹ ٹوٹ کے تارے شبِ فراق
اونچی ہوئی تو جائے گی نالوں کی لے کہاں

پہلا مصرع حال میں دوسرا مستقبل میں ،یعنی <گرتے ہیں تارے> اور <جائے گی لے کہاں >کچھ بھلا نہیں لگ رہا -میں یوں کہتا :

گرتے ہیں ٹوٹ ٹوٹ کے تارے شبِ فراق
نالے بلند ہوگئے تھے ، جاتی لے کہاں

مٹی پلید ہو گئی پھر مےکدے کی آج
کوئی بتاؤ شیخ کو کرتے ہیں قے کہاں

واہ -اسے بھی اگر میں کہتا تو یوں کہتا :

مٹی پلید ہو گئی پھر مے کدے کی آج
سمجھاؤ کوئی شیخ کو کرتے ہیں قے کہاں

اے میرِ کاروانِ وفا دھیرے دھیرے چل
ان منزلوں کے راستے ہوتے ہیں طے کہاں

واہ-کیا خوب

سب لوگ چل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
جو پہلے ہم سفر تھے گئے پے بہ پے کہاں

کیا کہنے -

راحیلؔ دل کی آہ کے جو جو مقام ہیں
وہ قسمتِ رباب و دف و چنگ و نے کہاں

خوب -سبحان الله -
 

سحر کائنات

محفلین
ہم اٹھ کے اس کی بزم سے جانے کہاں گئے
ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ اے کہاں



یوں دیکھیے

ہم اٹھ کے ان کی بزم سے اس بھرم میں گئے
ہم سے بھی کوئی پوچھے گا ,چلے کہاں
معزرت کے ساتھ
اصلاح نہیں ہے
صرف رائے
 

فاخر رضا

محفلین
عدنان بھائی پیشکش کا شکریہ -
راحیل بھائی آپ بھی لگتا ہے یہیں آس پاس ہوتے ہیں تو کیوں نہ آپ کو مخاطب ہی کر لیا جائے -

عالم تمام شے ہے مگر تجھ سی شے کہاں
ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہے کہاں

میں اگر یہ شعر کہتا تو یوں کہتا :

عالم کمال شے ہے مگر دل سی شے کہاں
ہے ،اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہے کہاں ؟

یوں خدا کو شے کہنے کا احتمال باقی نہ رہتااور شعر کا حسن بھی برقرار رہتا -

پیاسا ہے پارساؤں کی بستی میں ہر کوئی
کوئی بہشت ڈھونڈیے دوزخ میں مے کہاں

بلاتبصرہ

ہم اٹھ کے اس کی بزم سے جانے کہاں گئے
ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ اے کہاں

پھڑکتا ہوا شعر-جان غزل -<جانے کہاں گئے> اور< اے کہاں؟ > نے وہ برجستگی اور بیساختگی پیدا کر دی ہے شعر میں کہ جواب نہیں -

گرتے ہیں ٹوٹ ٹوٹ کے تارے شبِ فراق
اونچی ہوئی تو جائے گی نالوں کی لے کہاں

پہلا مصرع حال میں دوسرا مستقبل میں ،یعنی <گرتے ہیں تارے> اور <جائے گی لے کہاں >کچھ بھلا نہیں لگ رہا -میں یوں کہتا :

گرتے ہیں ٹوٹ ٹوٹ کے تارے شبِ فراق
نالے بلند ہوگئے تھے ، جاتی لے کہاں

مٹی پلید ہو گئی پھر مےکدے کی آج
کوئی بتاؤ شیخ کو کرتے ہیں قے کہاں

واہ -اسے بھی اگر میں کہتا تو یوں کہتا :

مٹی پلید ہو گئی پھر مے کدے کی آج
سمجھاؤ کوئی شیخ کو کرتے ہیں قے کہاں

اے میرِ کاروانِ وفا دھیرے دھیرے چل
ان منزلوں کے راستے ہوتے ہیں طے کہاں

واہ-کیا خوب

سب لوگ چل رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں
جو پہلے ہم سفر تھے گئے پے بہ پے کہاں

کیا کہنے -

راحیلؔ دل کی آہ کے جو جو مقام ہیں
وہ قسمتِ رباب و دف و چنگ و نے کہاں

خوب -سبحان الله -
یوں خدا کو شے کہنے کا احتمال باقی نہ رہتا
خدا کو شے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں (حدیث کی کتاب اصول کافی دیکھیے)
سمجھاؤ کوئی شیخ کو
یہاں یہ کہا گیا ہے کہ شیخ اتنا ٹن ہے کہ اسے سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں قے کی جاتی ہے لہٰذا کوئی اسے بتاؤ. شیخ کو ٹن حالت میں سمجھایا نہیں جائے گا بلکہ بتایا جائے گا
 

یاسر شاہ

محفلین
جناب یہ اصلاحی تجاویز نہ تھیں محض خواہش کا اظہار تھا کہ میں اگر کہتا تو یوں کہتا -
خدا کو شے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں (حدیث کی کتاب اصول کافی دیکھیے)
حوالہ آپ پہ ادھار رہا -حدیث پیش کیجیے جس میں خدا کو شے کہا گیا ہے -

یہاں یہ کہا گیا ہے کہ شیخ اتنا ٹن ہے کہ اسے سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں قے کی جاتی ہے لہٰذا کوئی اسے بتاؤ. شیخ کو ٹن حالت میں سمجھایا نہیں جائے گا بلکہ بتایا جائے گا
<کوئی بتاؤ...>پہ میں نے داد دے کر ہی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میں یوں کہتا -ویسے ٹنکی میں سمجھانا اور بتانا دونوں بیکار ہیں -ہاں ایک کیفیت ہوتی ہے ابتدائے شراب نوشی میں کہ جسم حرام کو قبول نہیں کرتا اور ٹن ہونے سے پہلے ہی قے آجاتی ہے ،تب ہر طور کا سمجھانا مفید ہے -
 

ربیع م

محفلین
حوالہ آپ پہ ادھار رہا -حدیث پیش کیجیے جس میں خدا کو شے کہا گیا ہے -
ویسے سوال تو یہ فاخر رضا صاحب سے کیا گیا ہے لیکن میں بھی اس میں کچھ حصہ ڈال دیتا ہوں.
اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :
القرآن - سورۃ نمبر 6 الأنعام
آیت نمبر 19

أَعوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجيم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَىُّ شَىۡءٍ اَكۡبَرُ شَهَادَةً ؕ قُلِ اللّٰهُ ‌ۙ شَهِيۡدٌ ۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ‌ ۚ وَاُوۡحِىَ اِلَىَّ هٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَكُمۡ بِهٖ وَمَنۡۢ بَلَغَ‌ ؕ اَئِنَّكُمۡ لَتَشۡهَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخۡرٰى‌ؕ قُلْ لَّاۤ اَشۡهَدُ‌ ۚ قُلۡ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ‌ۘ ۞

ترجمہ:
کہہ کون سی چیز گواہی میں سب سے بڑی ہے ؟ کہہ اللہ میرے درمیان اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے، کیا بیشک تم واقعی گواہی دیتے ہو کہ بیشک اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ؟ کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا، کہہ دے وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹھہراتے ہو۔

اور اسی پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی "صحیح" میں کتاب التوحید میں باب باندھا ہے
(باب : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلْ اللهُ ، فسمى الله تعالى نفسه شيئاً )
تو یہاں اللہ نے اپنے آپ کو شیء قرار دیا ہے.
اس سلسلے میں اور بھی بہت سے علماء کے فتاوی دیکھے جا سکتے ہیں.

خلق قرآن کے موضوع پر یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی معتزلہ کے خلاف مناظرے میں ایک دلیل بھی تھی
واللہ اعلم بالصواب
 

فاخر رضا

محفلین
جناب یہ اصلاحی تجاویز نہ تھیں محض خواہش کا اظہار تھا کہ میں اگر کہتا تو یوں کہتا -

حوالہ آپ پہ ادھار رہا -حدیث پیش کیجیے جس میں خدا کو شے کہا گیا ہے -


<کوئی بتاؤ...>پہ میں نے داد دے کر ہی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میں یوں کہتا -ویسے ٹنکی میں سمجھانا اور بتانا دونوں بیکار ہیں -ہاں ایک کیفیت ہوتی ہے ابتدائے شراب نوشی میں کہ جسم حرام کو قبول نہیں کرتا اور ٹن ہونے سے پہلے ہی قے آجاتی ہے ،تب ہر طور کا سمجھانا مفید ہے -
شراب نوشی کے تدریجی مراحل پر آپ کا مراسلہ مجھ ناچیز کے لئے انتہائی معلوماتی ہے
 

فاخر رضا

محفلین
ویسے سوال تو یہ فاخر رضا صاحب سے کیا گیا ہے لیکن میں بھی اس میں کچھ حصہ ڈال دیتا ہوں.
اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :
القرآن - سورۃ نمبر 6 الأنعام
آیت نمبر 19

أَعوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجيم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَىُّ شَىۡءٍ اَكۡبَرُ شَهَادَةً ؕ قُلِ اللّٰهُ ‌ۙ شَهِيۡدٌ ۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ‌ ۚ وَاُوۡحِىَ اِلَىَّ هٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَكُمۡ بِهٖ وَمَنۡۢ بَلَغَ‌ ؕ اَئِنَّكُمۡ لَتَشۡهَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخۡرٰى‌ؕ قُلْ لَّاۤ اَشۡهَدُ‌ ۚ قُلۡ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ‌ۘ ۞

ترجمہ:
کہہ کون سی چیز گواہی میں سب سے بڑی ہے ؟ کہہ اللہ میرے درمیان اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے، کیا بیشک تم واقعی گواہی دیتے ہو کہ بیشک اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ؟ کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا، کہہ دے وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹھہراتے ہو۔

اور اسی پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی "صحیح" میں کتاب التوحید میں باب باندھا ہے
(باب : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلْ اللهُ ، فسمى الله تعالى نفسه شيئاً )
تو یہاں اللہ نے اپنے آپ کو شیء قرار دیا ہے.
اس سلسلے میں اور بھی بہت سے علماء کے فتاوی دیکھے جا سکتے ہیں.

خلق قرآن کے موضوع پر یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی معتزلہ کے خلاف مناظرے میں ایک دلیل بھی تھی
واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ
 

یاسر شاہ

محفلین
ویسے سوال تو یہ فاخر رضا صاحب سے کیا گیا ہے لیکن میں بھی اس میں کچھ حصہ ڈال دیتا ہوں.
اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :
القرآن - سورۃ نمبر 6 الأنعام
آیت نمبر 19

أَعوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجيم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَىُّ شَىۡءٍ اَكۡبَرُ شَهَادَةً ؕ قُلِ اللّٰهُ ‌ۙ شَهِيۡدٌ ۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ‌ ۚ وَاُوۡحِىَ اِلَىَّ هٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَكُمۡ بِهٖ وَمَنۡۢ بَلَغَ‌ ؕ اَئِنَّكُمۡ لَتَشۡهَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخۡرٰى‌ؕ قُلْ لَّاۤ اَشۡهَدُ‌ ۚ قُلۡ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ‌ۘ ۞

ترجمہ:
کہہ کون سی چیز گواہی میں سب سے بڑی ہے ؟ کہہ اللہ میرے درمیان اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے، کیا بیشک تم واقعی گواہی دیتے ہو کہ بیشک اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ؟ کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا، کہہ دے وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹھہراتے ہو۔

اور اسی پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی "صحیح" میں کتاب التوحید میں باب باندھا ہے
(باب : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلْ اللهُ ، فسمى الله تعالى نفسه شيئاً )
تو یہاں اللہ نے اپنے آپ کو شیء قرار دیا ہے.
اس سلسلے میں اور بھی بہت سے علماء کے فتاوی دیکھے جا سکتے ہیں.

خلق قرآن کے موضوع پر یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی معتزلہ کے خلاف مناظرے میں ایک دلیل بھی تھی
واللہ اعلم بالصواب

ربیع میم صاحب -آپ کی بات میرے لیے ایک نیا انکشاف ہے کہ خدا کو شے کہا جا سکتا ہے -آپ نے ایک آیت بھی پیش کی ہے جو آپ کے نزدیک سند ہے -لیکن انٹرنیٹ کی معلومات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا -آپ کو ایسا مواد بھی مل جائے گا :
God is no thing, but he is in charge of things

نیٹ کی محافل پہ آپ کو ایک سے ایک فنکار ملے گا، مصنوعی اخلاق کا سرخی پاوڈر اور مسکارہ لگائے جو آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہو گا یعنی اپنے مسلک اور اپنی جماعت کی طرف -جہاں آپ نے ایسی بات کی جو داعی کی جماعت کے منشور کے مطابق ہے تو خوب بغلیں بجائی جائیں گی اور جہاں ایسی بات کی جو اس کی جماعت کے منشور سے ہٹ کر ہے تو منھ چڑایا جائے گا-لا حول ولا قوة -

بہر حال کل میں نے خدا کو شے کہنے کی بابت نقطۂ نظر جاننے کے لیے ایک عالم و مفتی ،جو میرے دوست بھی ہیں، کو فون کیا- ان کی بھی اس موضوع پر تحقیق نہیں تھی ،یہی فرما رہے تھے کہ تحقیق کے بعد بتاؤں گا -بہر حال ان کا ذوق و وجدان بھی خدا کو شے کہنے کے متعلق میرے موافق تھا کہ یہ نامناسب سا لگتا ہے-حافظ بھی تھے آیت کے متعلق یہی فرما رہے تھے کہ یہ اس باب میں صریح نہیں -ممکنہ مراد یہ ہو سکتی ہے کہ پیچھے شہادت کا ذکر ہے سو آگے الله ﷻ کا بطور شاہد ذکر آیا ہو -

بہرحال شرعی فیصلہ تو بعد تحقیق وہ کر ہی لیں گے ،فی الحال شعر کے نقطۂ نظر سے یہی کہوں گا کہ بالفرض مان لیا جائے امام احمد بن حنبل نے معتزلہ کے خلاف مذکورہ نقطۂ نظر اپنایا تھا ، ممکن ہے وہ نقطۂ نظر موجود و غیر موجود کی بحث کے حل کے طور پہ ہو -شعر کے چسکے کے طور پہ خدا کو شے کہنا کیا ضروری ہے -اکثر شعراء نے خدا کو ہستی،ذات اور احساس لکھا ہے-بشیر بدر کا شعر یاد آیا :

خدا ایسے احساس کا نام
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
 

ربیع م

محفلین
لیکن انٹرنیٹ کی معلومات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا
آپ کے حسن ظن کا شکریہ کہ میں نے محض نیٹ کی معلومات ہی آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں
آپ کو قرآن کی آیت بھی پیش کی اور اس پر امام بخاری رحمہ اللہ کا فہم کیا تھا وہ بھی پیش کیا اور بھی کئی علماء کا اس پر فتویٰ موجود ہے
جو طوالت کے پیش نظر ذکر نہیں کیا
بہرحال اسے آپ تسلیم کریں یا نا کریں یہ آپ کی مرضی ہے
اور نہ ہی یہ کوئی ایمان و کفر کا معرکۃ الآراء مسئلہ ہے
البتہ نیٹ سے کاپی پیسٹ کا تمغہ وصول کر کے خوشی ہوئی :)
 

یاسر شاہ

محفلین
آپ کے حسن ظن کا شکریہ کہ میں نے محض نیٹ کی معلومات ہی آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں
آپ کو قرآن کی آیت بھی پیش کی اور اس پر امام بخاری رحمہ اللہ کا فہم کیا تھا وہ بھی پیش کیا اور بھی کئی علماء کا اس پر فتویٰ موجود ہے
جو طوالت کے پیش نظر ذکر نہیں کیا
بہرحال اسے آپ تسلیم کریں یا نا کریں یہ آپ کی مرضی ہے
اور نہ ہی یہ کوئی ایمان و کفر کا معرکۃ الآراء مسئلہ ہے
البتہ نیٹ سے کاپی پیسٹ کا تمغہ وصول کر کے خوشی ہوئی :)
محترمی آپ کی معلومات کو میں نے کاپی پیسٹ نہیں کہا -لیکن آپ کا مجھ سے واسطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہے-سو میرے لیے آپ کی معلومات کا ذریعہ بہرحال انٹر نیٹ ہے -بس اتنی سی بات عرض کی تھی -
 
Top