جو میرا ہمسفر ہے وہ ہم نوا نہیں ہے-----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
یاسر شاہ
-------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
------
جو میرا ہمسفر ہے وہ ہم نوا نہیں ہے
دل جو مرا لبھائے اُس میں ادا نہیں ہے
-----------------
میں نے ہیں دکھ اُٹھائے جس کے لئے ہزاروں
پرکھا ہے میں نے اُس کو ، اُس میں وفا نہیں ہے
-------------
دل کو چُرا کے پھر بھی وہ مانتے نہیں ہیں
کہتے ہیں کام کر کے یہ تو بُرا نہیں ہے
-----------------
دل کو لگا لیا ہے پردیس جا کے اس نے
رہتا ہے دل میں ہر دم جیسے گیا نہیں ہے
-------------
صدمات کا میں ایسے عادی سا ہو گیا ہوں
میرے لئے یہ صدمہ کچھ بھی نیا نہیں ہے
--------------
آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
پھیکی سی زندگی میں کچھ بھی مزا نہیں ہے
----------------
ارشد ہے دور مجھ سے رہتا ہے یاد ہر دم
اتنا مجھے بتا دے مجھ سے خفا نہیں ہے
--------------
 

عظیم

محفلین
جو میرا ہمسفر ہے وہ ہم نوا نہیں ہے
دل جو مرا لبھائے اُس میں ادا نہیں ہے
-----------------'جو' کے طویل کھینچے جانے کی وجہ سے روانی متاثر لگ رہی ہے۔
میرا جو ہمسفر ہے
کیا جا سکتا ہے۔ مگر اگلے ٹکڑے میں بھی مجھے لگتا ہے کہ 'وہ مرا ہمنوا نہیں ہے' ہونا چاہیے
صرف ہمنوا سے بات نہیں بن رہی۔
اور دوسرے مصرع میں بھی یہی خامی لگ رہی ہے۔ کہ اس میں 'وہ' ادا نہیں ہے ہونا چاہیے۔

میں نے ہیں دکھ اُٹھائے جس کے لئے ہزاروں
پرکھا ہے میں نے اُس کو ، اُس میں وفا نہیں ہے
-------------جس کے لیے ہزاروں میں.....الخ
روانی میں بہتر ہو گا
باقی ٹھیک لگ رہا ہے

دل کو چُرا کے پھر بھی وہ مانتے نہیں ہیں
کہتے ہیں کام کر کے یہ تو بُرا نہیں ہے
-----------------دوسرے میں دل چرانے کے کام کے بارے میں بات ہو رہی ہے تو یہ واضح نہیں ہے۔

دل کو لگا لیا ہے پردیس جا کے اس نے
رہتا ہے دل میں ہر دم جیسے گیا نہیں ہے
-------------ٹھیک

صدمات کا میں ایسے عادی سا ہو گیا ہوں
میرے لئے یہ صدمہ کچھ بھی نیا نہیں ہے
--------------درست ہے یہ بھی
دوسرے مصرع میں اگر صدمے کی وضاحت بھی ہو جاتی تو بہت خوب ہو جاتا۔ کہ یہ صدمہ کون سا؟

آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
پھیکی سی زندگی میں کچھ بھی مزا نہیں ہے
----------------درست ہے

ارشد ہے دور مجھ سے رہتا ہے یاد ہر دم
اتنا مجھے بتا دے مجھ سے خفا نہیں ہے
--------------دوسرا مصرع واضح نہیں لگ رہا۔ کون بتا دے اور کس کو بتا دے یہ سمجھ نہیں آ رہا
 
الف عین
عظیم
--------------
میرے تو دل میں کوئی تیرے سوا نہیں ہے
دل دے دیا ہے تجھ کو میرا رہا نہیں ہے
---------
(مطلع اس لئے تبدیل کر دیا ہے کہ جس طرح آپ چاہ رہے تھے وہ اس بحر میں نہیں آ رہا تھا)
-----------
جس کے لئے ہزاروں میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
پرکھا ہے میں نے اس کو ،اُس میں وفا نہیں ہے
----------------
دل کو چُرا کے پھر بھی وہ مانتے نہیں ہیں
کہتے ہیں دل چُرانا یہ تو بُرا نہیں ہے
--------
دل کو لگا لیا ہے پر دیس جا کے اس نے
رہتا ہے دل میں ہر دم جیسے گیا نہیں ہے
----------
صدمات کا میں ایسے عادی سا ہو گیا ہوں
میرے لئے یہ صدمہ کچھ بھی نیا نہیں ہے
------------یا
میرے لئے جدائی سہنا ، نیا نہیں ہے
---------------
آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
پھیکی سی زندگی میں کچھ بھی مزا نہیں ہے
-------------
ارشد نے دور جا کر مجھ کو بھلا دیا ہے
چاہے مجھے بھلا دے گر وہ خفا نہیں ہے
----------یا
میرا پیام دینا یہ تو وفا نہیں ہے
--------------
 

عظیم

محفلین
میرے تو دل میں کوئی تیرے سوا نہیں ہے
دل دے دیا ہے تجھ کو میرا رہا نہیں ہے
---------'میرے تو' اچھا نہیں لگ رہا۔ 'اب دل میں میرے کوئی' کیا جا سکتا ہے
باقی ٹھیک لگ رہا ہے

جس کے لئے ہزاروں میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
پرکھا ہے میں نے اس کو ،اُس میں وفا نہیں ہے
----------------درست ہو گیا ہے

دل کو چُرا کے پھر بھی وہ مانتے نہیں ہیں
کہتے ہیں دل چُرانا یہ تو بُرا نہیں ہے
--------مکمل شعر دوبارہ کہنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ پہلے مصرع میں 'پھر بھی' عجیب لگ رہا ہے۔ اوردوسرے میں 'یہ تو' ۔

دل کو لگا لیا ہے پر دیس جا کے اس نے
رہتا ہے دل میں ہر دم جیسے گیا نہیں ہے
----------

صدمات کا میں ایسے عادی سا ہو گیا ہوں
میرے لئے یہ صدمہ کچھ بھی نیا نہیں ہے
------------یا
میرے لئے جدائی سہنا ، نیا نہیں ہے
---------------اصل شعر دیکھنے میں بہت اچھا ہے۔ لیکن 'یہ صدمہ' کی وجہ سے کام خراب ہو گیا ہے۔
دوسرے مصرع کے ساتھ بھی بات نہیں بن رہی۔ قافیہ بدل کر دیکھ لیں۔

آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
پھیکی سی زندگی میں کچھ بھی مزا نہیں ہے
-------------

ارشد نے دور جا کر مجھ کو بھلا دیا ہے
چاہے مجھے بھلا دے گر وہ خفا نہیں ہے
----------یا
میرا پیام دینا یہ تو وفا نہیں ہے
--------------پہلے کا اختتام بھی 'ہے' پر ہے۔ اسکی جگہ 'کیوں' وغیرہ لایا جا سکتا ہے۔ دوسرے کا متبادل بہتر ہے۔ 'تو' کا طویل ہونا بھی اگر ختم کر سکیں تو مزید بہتر ہو جائے
 

الف عین

لائبریرین
یہ دو اشعار عظیم سے صرف نظر ہو گئے ہیں
دل کو لگا لیا ہے پر دیس جا کے اس نے
رہتا ہے دل میں ہر دم جیسے گیا نہیں ہے
----------
شاید یہ مراد ہو کہ پردیس جا کر محبوب نے 'کسی اور سے' دل لگا لیا ہو! لیکن دوسرے مصرع سے ربط نہیں بنتا۔ اس مجرد مصرع میں بھی 'اب بھی' کے اضافے کی ضرورت ہے

آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
پھیکی سی زندگی میں کچھ بھی مزا نہیں ہے
------------- یہ بھی دو لخت لگتا ہے، تنہا ہی میں ہ کی تکرار بھی اچھی نہیں
 
الف عین
(شائد اب کچھ بہتر ہوں )
مجھ کو بھلا دیا ہے پر دیس جا کے اس نے
رہتا ہے دل میں ہر دم جیسے گیا نہیں ہے
----------
آساں نہیں ہے جینا تنہا تو اس جہاں میں
پھیکی سی زندگی کا ایسے مزا نہیں ہے
 

عظیم

محفلین
مجھ کو بھلا دیا ہے پر دیس جا کے اس نے
رہتا ہے دل میں ہر دم جیسے گیا نہیں ہے
----------دوسرے میں 'اب بھی' وغیرہ کی کمی ہے۔
شاید یوں کچھ بات بن جائے
دل میں ہے یوں کہ جیسے اب تک گیا نہیں ہے
مگر پہلے مصرع میں یا دوسرے میں کہیں 'لیکن' وغیرہ کی بھی کمی محسوس ہو رہی ہے

آساں نہیں ہے جینا تنہا تو اس جہاں میں
پھیکی سی زندگی کا ایسے مزا نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'تنہا تو' میں 'تو' بھرتی کا لگ رہا ہے۔ شاید یوں چل جائے
تنہا نہیں ہے جینا آسان اس جہاں میں
دوسرے میں 'پھیکی' اگر تنہائی کی وجہ سے کہا گیا ہے تو یہ صاف ظاہر نہیں ہو رہا۔
شاید یوں بات بن جائے
بن دوست زندگی کا کچھ بھی مزا نہیں ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
پہلے مصرع ہمیں یوں اچھا لگا

مرا ہمسفر ہے لیکن مرا ہم نوا نہیں ہے
خلیل بھائی اس طرح تو بحر بدل جائے گی -
آپ انھیں <دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب> سے <نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا> کی طرف لے جا رہے ہیں -خدا خیر کرے -:D
 
بن کر وہ ہمسفر بھی میرا ہمنوا نہیں ہے
دل میں مرے جو اترے اس میں ادا نہیں ہے
----------
اب دل میں میرے کوئی تیرے سوا نہیں ہے
دل دے دیا ہے تجھ کو میرا رہا نہیں ہے
--------
جس کے لئے ہزاروں میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
پرکھا ہے میں نے اس کو ،اُس میں وفا نہیں ہے
---------------
دل ہے مرا چرایا وہ مانتے نہیں اب
کہتے ہیں دل چُرانا ہوتا بُرا نہیں ہے
--------
مجھ کو بھلا دیا ہے پر دیس جا کے اس نے
دل میں ہے یوں کہ جیسے اب تک گیا نہیں ہے
------------
صدمات کا میں ایسے عادی سا ہو گیا ہوں
سہتا رہا ہوں جو کچھ اس سے بُڑا نہیں ہے
------------
آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
بن دوست زندگی کا کچھ بھی مزا نہیں ہے
-------------
مجھ کو بھلا دیا ہے ارشد نے دور جا کر
میں جانتا ہوں اس کو دل کا بُرا نہیں ہے
----------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلا مطلع دو لخت لگتا ہے اب بھی۔ اس کے علاوہ میرا 'مر' تقطیع ہوتا ہے، اسے نکال ہی دیں
فائنل کرنے میں چیک نہیں کیا گیا ہے کہ پرانا مصرع اب بھی نظر آ رہا ہے
دل کو لگا لیا ہے پر دیس جا کے اس نے
مجھ کو بھلا دیا ہے.... درست کیا جا چکا تھا!
اچھی طرح چیک کر کے پوسٹ کریں
 
الف عین
عظیم
------
وہ زندگی کا ساتھی ہے ہم نوا نہیں ہے
گھر میں مرے ہے لیکن دل میں رہا نہیں ہے
---
جس کے لئے ہزاروں میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
پرکھا ہے میں نے اس کو ،اُس میں وفا نہیں ہے
-------
دل دے دیا ہے تجھ کو میرا رہا نہیں وہ
اب دل میں میرے کوئی تیرے سوا نہیں ہے
---------------
دل ہے مرا چرایا وہ مانتے نہیں اب
کہتے ہیں دل چُرانا ہوتا بُرا نہیں ہے
--------
مجھ کو بھلا دیا ہے پر دیس جا کے اس نے
دل میں ہے یوں کہ جیسے اب تک گیا نہیں ہے
------------
تیری ملی جدائی صدمہ بہت ہے لیکن
جتنے سہے ہیں صدمے اُن سے بڑا نہیں ہے
------------
آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
بن دوست زندگی کا کچھ بھی مزا نہیں ہے
-------------
مجھ کو بھلا دیا ہے ارشد نے دور جا کر
میں جانتا ہوں اس کو دل کا بُرا نہیں ہے
----------یا
ارشد مجھے بتا دو مجھ کو بھلا دیا کیوں
میں جانتا ہوں تجھ کو دل کا بُرا نہیں ہے
----------
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
وہ زندگی کا ساتھی ہے ہم نوا نہیں ہے
گھر میں مرے ہے لیکن دل میں رہا نہیں ہے
--- پہلا مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں بات مکمل نہیں ہے، 'ہے' دوسرے ٹکڑے میں چلا گیا ہے
دوسرا اگرچہ پہلے سے ربط میں کمزور لگتا ہے لیکن یوں زیادہ رواں ہو گا
گھر میں ہے میرے لیکن ...

جس کے لئے ہزاروں میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
پرکھا ہے میں نے اس کو ،اُس میں وفا نہیں ہے
-------
دل دے دیا ہے تجھ کو میرا رہا نہیں وہ
اب دل میں میرے کوئی تیرے سوا نہیں ہے
--------------- 'وہ' بھرتی کا لگتا ہے۔ دوسرے میں بھی عجیب بات ہو گئی ہے کہ دل دینے کے بعد بھی آپ کے پاس دل ہے جس میں محبوب کے سوا کوئی نہیں ہے

دل ہے مرا چرایا وہ مانتے نہیں اب
کہتے ہیں دل چُرانا ہوتا بُرا نہیں ہے
--------
مجھ کو بھلا دیا ہے پر دیس جا کے اس نے
دل میں ہے یوں کہ جیسے اب تک گیا نہیں ہے
------------ یہ دونوں ٹھیک لگتے ہیں

تیری ملی جدائی صدمہ بہت ہے لیکن
جتنے سہے ہیں صدمے اُن سے بڑا نہیں ہے
------------ 'تیری ملی' اچھا نہیں لگ رہا۔
تیری جدائی کا بھی صدمہ بہت ہے لیکن
دوسرے میں 'سہے' کی بجائے ملے یا مل چکے ہو تو بہتر ہو جائے
جتنے اٹھا چکا ہوں، ان سے بڑا نہیں ہے
شاید چل جائے

آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
بن دوست زندگی کا کچھ بھی مزا نہیں ہے
------------- درست ہے

مجھ کو بھلا دیا ہے ارشد نے دور جا کر
میں جانتا ہوں اس کو دل کا بُرا نہیں ہے
----------یا
ارشد مجھے بتا دو مجھ کو بھلا دیا کیوں
میں جانتا ہوں تجھ کو دل کا بُرا نہیں ہے
---------- پہلا بہتر ہے صرف دوسرے میں
لیکن میں جانتا ہوں
کر لیں تو پہلے سے ربط قائم ہو جائے
 
عظیم
وہ زندگی کا ساتھی ہے ہم نوا نہیں ہے
گھر میں ہے میرے لیکن دل میں رہا نہیں ہے
--------
جس کے لئے ہزاروں میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
پرکھا ہے میں نے اس کو ،اُس میں وفا نہیں ہے
-------
تیرے لئے جہاں کا ہر غم بھلا دیا ہے
اب دل میں میرے کوئی تیرے سوا نہیں ہے
---------------
دل ہے مرا چرایا وہ مانتے نہیں اب
کہتے ہیں دل چُرانا ہوتا بُرا نہیں ہے
--------
مجھ کو بھلا دیا ہے پر دیس جا کے اس نے
دل میں ہے یوں کہ جیسے اب تک گیا نہیں ہے
------------
تیری جدائی کا بھی صدمہ بہت ہے لیکن
جتنے اُٹھا چکا ہوں اُن سے بڑا نہیں ہے
------------
آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
بن دوست زندگی کا کچھ بھی مزا نہیں ہے
------------
مجھ کو بھلا دیا ہے ارشد نے دور جا کر
لیکن میں جانتا ہوں دل کا بُرا نہیں ہے
---------
 

عظیم

محفلین
وہ زندگی کا ساتھی ہے ہم نوا نہیں ہے
گھر میں ہے میرے لیکن دل میں رہا نہیں ہے
-------- پہلے مصرع کے بارے میں مَیں شاید سمجھا نہیں پایا!
یہ بحر دو ٹکڑوں پر منقسم ہے تو ہر ایک ٹکڑے میں بات مکمل ہونی چاہیے
جو یہاں پہلے مصرع کے ہہلے ٹکڑے میں نہیں ہو رہی۔ 'وہ زندگی کا ساتھی' کے ساتھ 'ہے' بھی ہونا تھا مگر یہ اگلے ٹکڑے کے ساتھ مل گیا ہے

جس کے لئے ہزاروں میں نے ہیں دکھ اُٹھائے
پرکھا ہے میں نے اس کو ،اُس میں وفا نہیں ہے
------- یہ تو درست کر لیا گیا ہے

تیرے لئے جہاں کا ہر غم بھلا دیا ہے
اب دل میں میرے کوئی تیرے سوا نہیں ہے
--------------- دونوں کا آپس میں ربط؟ اور 'ہے' آپ کی ردیف ہے اس لیے اسی لفظ کے ساتھ ہہلے مصرعے کا اختتام ہو گا تو یہ اچھا نہیں رہتا

دل ہے مرا چرایا وہ مانتے نہیں اب
کہتے ہیں دل چُرانا ہوتا بُرا نہیں ہے
-------- اس میں اگر الفاظ کی نشست بدلی جائے تو بیتر ہو سکتا ہے۔ 'دل ہے مرا' اور 'ہوتا برا' کے ٹکڑے اچھے نہیں لگ رہے

مجھ کو بھلا دیا ہے پر دیس جا کے اس نے
دل میں ہے یوں کہ جیسے اب تک گیا نہیں ہے
------------ یہ بھی ٹھیک کر لیا گیا ہے

تیری جدائی کا بھی صدمہ بہت ہے لیکن
جتنے اُٹھا چکا ہوں اُن سے بڑا نہیں ہے
------------ دوسرے مصرعے میں 'صدمے' کی کمی محسوس تو نہیں ہوتی؟

آساں نہیں ہے جینا تنہا ہی اس جہاں میں
بن دوست زندگی کا کچھ بھی مزا نہیں ہے
------------ 'تنہا ہی' ہا ہی کو اگر دور کیا جا سکے تو مزید بہتر ہے

مجھ کو بھلا دیا ہے ارشد نے دور جا کر
لیکن میں جانتا ہوں دل کا بُرا نہیں ہے
--------- ٹھیک ہو گیا
 
Top