سید عمران

محفلین
گڑیا کے ساتھ دو مسئلے شروع ہوگئے ۔ اس نے نئے اسکول میں داخلہ لے لیا، اور وہم کی بیماری لگ گئی۔ اسکول میں داخلہ مسئلہ نہیں تھا لیکن وہاں اس کی ایک سہیلی بن گئی۔ سہیلی بننا بھی مسئلہ نہیں لیکن مسئلہ اس کے ساتھ فون پر گھنٹوں باتیں کرنا تھا۔

وہم کی بیماری بقول فلسفی گڑیا کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ چوں کہ ماسی کے پونچھا لگاتے وقت نعمت خالہ ہٹو بچو کا نعرہ لگاتیں تو گڑیا کے تحت الشعور نے اپنے لاشعور کو اس شعور سے آگاہ کیا کہ نہ صرف پونچھا لگانا بلکہ پونچھے کے متعلقات سب سے شعوری طور پر بچنا چاہیے۔ کیوں کہ لاشعوری طور پر جراثیم ہاتھوں سے چپک جاتے ہیں۔ اسی لیے شعوری طور پر گڑیا اس کمرہ کا رُخ نہ کرتی جہاں ماسی پونچھا لگاتی اور پونچھے کو ہاتھ لگانا ناممکنات میں سمجھتی۔ کیوں کہ اس کے لاشعور۔۔۔
’’بس کردو۔‘‘ چیتے نے دونوں ہاتھوں سے اس کا منہ بند کردیا۔
فلسفی کا منہ بند ہونے کے باوجود گڑیا کا وہم اسی زور و شور سے جاری رہا۔

فون کی گھنٹی بجی۔ نعمت خالہ اور گڑیا دونوں لپکیں۔ نعمت خالہ جیت گئیں۔ ہانپتے ہوئے فون اٹھایا اور منہ بناتے ہوئے گڑیا کو دے دیا۔
’’کون ہے؟‘‘
’’وہی منحوس نورین۔‘‘
گڑیا کی بانچھیں کھل گئیں۔
تھوڑی دیر بعد فلسفی آیا۔ گڑیا کو دیکھا اور منہ بنا کر بولا:
’’وہی ہوگی منحوس نورین۔‘‘ گڑیا نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔
ایک گھنٹہ گزرا کہ پسینہ میں شرابور چیتا لاؤنج میں داخل ہوا۔ گڑیا کو دیکھا۔ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا۔ فلسفی بولا:
’’ نورین ہی ہے۔‘‘ چیتے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
دو گھنٹہ بعد گڑیا فون سے فارغ ہوئی تو نعمت خالہ سے پوچھا:
’’آپ کو یقین تھا کہ نورین کا فون ہے تو فون اٹھانے کیوں لپکیں؟‘‘
’’کسی اور کا فون بھی آسکتا ہے۔ مجھ سے ذرا چوک ہوجائے تو وہ بے چارہ اس منحوس کی وجہ سے دو گھنٹہ تک بلکتا رہے گا۔‘‘
نعمت خالہ کا منہ دیکھ کر گڑیا نے مزید منہ نہ لگنے کا فیصلہ کیا اور اپنے کمرہ کی جانب بڑھ گئی۔

سب ناشتہ کی میز پر تھے۔ فون کی گھنٹی بجی۔ کوئی نہ اٹھا ۔گڑیا ناشتہ چھوڑ کر تیزی سے اٹھی۔ اس کی جانب کسی کی نظر نہ اٹھی۔ سب سمجھ گئے نورین کا فون ہے۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ سب ناشتہ کرکے اُٹھ رہے تھے کہ گڑیا آگئی۔
’’ہائیں۔ اتنی جلدی کیسے فارغ ہوگئیں؟‘‘ نعمت خالہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
’’نوین کو سرسام تو نہیں ہوگیا؟‘‘ فلسفی کا فلسفہ کچھ اور کہہ رہا تھا۔
’’یا تمہارے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہےتھے؟‘‘ چیتا بھی ہکا بکا تھا۔
’’افوہ ! ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ سب کی بے تکی سن کر گڑیا جھنجھلا گئی۔
’’بتاؤ کیا بات ہے۔ مجھے ہولیں اٹھ رہی ہیں۔‘‘ نعمت خالہ پریشان ہوگئیں۔
نعمت خالہ کا بگڑا موڈ دیکھ کر گڑیا کو اصل بات بتانی پڑی:
’’وہ، اصل میں رانگ نمبر تھا۔‘‘

گڑیا سر جھکائے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے زندگی میں پہلی بار شرما رہی تھی!!!
 
آخری تدوین:
اب جبکہ اس لڑی کے کل مراسلوں کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ ہوچکی، کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تبصروں کے لیے علیحدہ لڑی بنادی جائے ، مزید یہ کہ ان اقساط پر نمبر بھی ڈال دئیے جائیں؟
 

سید عمران

محفلین
اب جبکہ اس لڑی کے کل مراسلوں کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ ہوچکی، کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تبصروں کے لیے علیحدہ لڑی بنادی جائے ، مزید یہ کہ ان اقساط پر نمبر بھی ڈال دئیے جائیں؟
ڈر ہے اگر تبصرے نکال دیے گئے تو لڑی سکڑ کر بھیا کے منہ جتنی نہ رہ جائے!!!
 
Top