سید عمران

محفلین
ہم بیمار ہوتے یا نانی، دونوں صورتوں میں نانی ہمارے گھر آجاتیں۔ کبھی وہ ہماری دیکھ بھال کرتیں کبھی ہم ان کی تیمارداری کرتے۔

ایک دن ہم اردو بازار گئے۔ خوب کتابیں دیکھیں. کچھ خرید بھی لیں۔ اس سارے عمل میں کافی وقت لگ گیا۔ بھوک کی زور آزمائی شدت دِکھانے لگی۔ سامنے ہی کچوری والا خوشبوئیں لُٹا رہا تھا۔ پیٹ بھر کے کچوریاں کھائیں۔ پیاس لگی تو لیچی کے ذائقہ والی کولڈ ڈرنک پی۔ نہ جانے کس میں گڑبڑ تھی، گھر پہنچے تو حالت بگڑ گئی۔ کئی دن ہاضمہ کی خرابی میں مبتلا رہے، بخار نے جان پکڑ لی، اوپر سے ڈاکٹر نے یہ روح فرسا خبر سنادی کہ ٹائیفائڈ ہوگیا ہے۔

ہم دس پندرہ دن ہوش و خرد سے بے پرواہ رہے۔ نانی دس پندرہ دن ہماری پرواہ کرتی رہیں۔ اب ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ نانی بیمار ہوں تو ان کی تیمار داری کریں اور احسانات کا یہ بارِ عظیم جلد از جلد اپنے مضبوط کاندھوں سے اتاریں۔

خدا خدا کرکے بڑی منتوں مرادوں بعد آخر ایک دن نانی بیمار ہو گئیں۔ ہماری دعائیں رنگ لائیں۔ فرض شناس قوم کا فرد ہونے کے ناطے ادائیگیِ فرض سے سبکدوش ہونے کے احساس سے ہماری بانچھیں کھلی جارہی تھیں۔ اماں اپنی چہیتی ماں کی بیماری پر ہماری خوشیاں دیکھ دیکھ کر تلملا رہی تھیں۔

بیماری کے چند دن اپنے گھر گزار کر ایک روز نانی ہمارے یہاں آگئیں۔ جب وہ ہمارے گھر آتیں تو ان کا بیڈ مخصوص ہوجاتا یعنی اماں کا۔ اور اماں کا بیڈ بھی مخصوص ہوجاتا یعنی ہمارا۔ ہمیں مجبوراً دوسرے بیڈ روم کا رُخ کرنا پڑتا۔

نانی اس رات اماں کے بیڈ پر تھیں۔ بخار کافی تیز تھا۔ ڈاکٹر نے تاکید کی تھی کہ بخار کی دوا دینے سے قبل ٹمپریچر دیکھنا ضروری ہے۔ اماں نے نانی کو چائے ٹوسٹ کھلائے اور دوا دینے کی ذمہ داری ہم پر عائد کرکے چلی گئیں۔

ہم نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق فرض شناسی کا مظاہرہ کیا۔ کافی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد تھرمامیٹر ڈھونڈا۔ اچھی طرح صابن لگا کے رگڑ رگڑ کر دھویا اور زور زور سے جھٹک کر پارہ نیچے لانے لگے۔ ہمیں ہمیشہ یہ مسئلہ درپیش رہا کہ جب تھرمامیٹر جھٹکتے وہ کسی نہ کسی چیز سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتا۔ ابھی بھی اسے جھٹک جھٹک کر بالکل صحیح سالم نانی کے بیڈ روم میں جارہے تھے، اس بار یقیناً کوئی حادثہ نہ ہوتا اگر دروازے کی چوکھٹ آڑے نہ آتی۔ لیکن اس میں غلطی ہماری نہ تھی۔ چوکھٹ غلط جگہ لگی تھی۔ چھن کی مانوس و منحوس آواز آئی، تھرمامیٹر کا شیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور اس میں موجود پارہ، پارہ پارہ ہوگیا۔

مجبوراً بازار جا کر نیا تھرمامیٹر لانا پڑا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے اماں نے جھٹ ہاتھ سے لیا، خود دھویا اور نانی کے منہ میں لگادیا۔ ہمیں تاکید کرتی ہوئی چلی گئیں کہ گھڑی دیکھ کر ٹھیک دو منٹ بعد تھرمامیٹر منہ سے نکالنا اور ٹمپریچر نوٹ کرکے دوا دے دینا۔ ہم نے گھڑی دیکھی، ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔

ابھی آدھا منٹ بھی نہ گزرا تھا کہ ڈور بیل بجی۔ تیزی سے گئے دیکھا فلسفی اور چیتا نانی کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔ فلسفی آگے بڑھ کر بیڈ روم میں گیا، دیکھا نانی آنکھیں بند کیے لیٹی ہیں، سمجھا سورہی ہیں، منہ پر انگلی رکھ کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور لائٹ بند کرکے کرسی پر بیٹھ گیا۔ ہم نے اور چیتے نے اس کے برابر والی کرسیاں سنبھال لیں۔ حسبِ معمول اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بغیر فل اسٹاپ اور کامے کے سرپٹ دوڑنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد نانی زور زور سے اُوں اُوں کی آوازیں نکالنے لگیں۔ فلسفی گھبرا گیا:
’’نانی کی حالت بگڑ رہی ہے۔ لائٹ آن کرکے دیکھو انہیں کیا ہورہا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر ہم بھی گھبرا گئے۔ جلدی سے لائٹ آن کی۔ دیکھا نانی اُوں اُوں کرکے تھرما میٹر کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔
اُف!!!
ہم باتوں کے دوران بھول ہی گئے کہ نانی کے منہ میں تھرمامیٹر لگا ہے۔ ٹمپریچر سے پہلے ٹائم دیکھا۔ آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا۔ چشم تصور میں اپنا حشر نشر ہوتے دیکھ کر گھڑی کی طرح ہمارے منہ پر بھی بارہ بجنے لگے۔

تھرمامیٹر اور نانی، دونوں کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا!!!
 
آخری تدوین:
ہم بیمار ہوتے یا نانی، دونوں صورتوں میں نانی ہمارے گھر آجاتیں۔ کبھی وہ ہماری دیکھ بھال کرتیں کبھی ہم ان کی تیمارداری کرتے۔

ایک دن ہم اردو بازار گئے۔ خوب کتابیں دیکھیں. کچھ خرید بھی لیں۔ اس سارے عمل میں کافی وقت لگ گیا۔ بھوک کی زور آزمائی شدت دِکھانے لگی۔ سامنے ہی کچوری والا خوشبوئیں لُٹا رہا تھا۔ پیٹ بھر کے کچوریاں کھائیں۔ پیاس لگی تو لیچی کے ذائقہ والی کولڈ ڈرنک پی۔ نہ جانے کس میں گڑبڑ تھی، گھر پہنچے تو حالت بگڑ گئی۔ کئی دن ہاضمہ کی خرابی میں مبتلا رہے، بخار نے جان پکڑ لی، اوپر سے ڈاکٹر نے یہ روح فرسا خبر سنادی کہ ٹائیفائڈ ہوگیا ہے۔

ہم دس پندرہ دن ہوش و خرد سے بے پرواہ رہے۔ نانی دس پندرہ دن ہماری پرواہ کرتی رہیں۔ اب ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ نانی بیمار ہوں تو ان کی تیمار داری کریں اور احسانات کا یہ بارِ عظیم جلد از جلد اپنے مضبوط کاندھوں سے اتاریں۔

خدا خدا کرکے بڑی منتوں مرادوں بعد آخر ایک دن نانی بیمار ہو گئیں۔ ہماری دعائیں رنگ لائیں۔ فرض شناس قوم کا فرد ہونے کے ناطے ادائیگیِ فرض سے سبکدوش ہونے کے احساس سے ہماری بانچھیں کھلی جارہی تھیں۔ اماں اپنی چہیتی ماں کی بیماری پر ہماری خوشیاں دیکھ دیکھ کر تلملا رہی تھیں۔

بیماری کے چند دن اپنے گھر گزار کر ایک روز نانی ہمارے یہاں آگئیں۔ جب وہ ہمارے گھر آتیں تو ان کا بیڈ مخصوص ہوجاتا یعنی اماں کا۔ اور اماں کا بیڈ بھی مخصوص ہوجاتا یعنی ہمارا۔ ہمیں مجبوراً دوسرے بیڈ روم کا رُخ کرنا پڑتا۔

نانی اس رات اماں کے بیڈ پر تھیں۔ بخار کافی تیز تھا۔ ڈاکٹر نے تاکید کی تھی کہ بخار کی دوا دینے سے قبل ٹمپریچر دیکھنا ضروری ہے۔ اماں نے نانی کو چائے ٹوسٹ کھلائے اور دوا دینے کی ذمہ داری ہم پر عائد کرکے چلی گئیں۔

ہم نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق فرض شناسی کا مظاہرہ کیا۔ کافی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد تھرمامیٹر ڈھونڈا۔ اچھی طرح صابن لگا کے رگڑ رگڑ کر دھویا اور زور زور سے جھٹک کر پارہ نیچے لانے لگے۔ ہمیں ہمیشہ یہ مسئلہ درپیش رہا کہ جب تھرمامیٹر جھٹکتے وہ کسی نہ کسی چیز سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتا ہے۔ ابھی بھی اسے جھٹک جھٹک کر بالکل صحیح سالم نانی کے بیڈ روم میں جارہے تھے، اس بار یقیناً کوئی حادثہ نہ ہوتا اگر دروازے کی چوکھٹ آڑے نہ آتی۔ لیکن اس میں غلطی ہماری نہ تھی۔ چوکھٹ غلط جگہ لگی تھی۔ چھن کی مانوس و منحوس آواز آئی، تھرمامیٹر کا شیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور اس میں موجود پارہ، پارہ پارہ ہوگیا۔

مجبوراً بازار جا کر نیا تھرمامیٹر لانا پڑا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے اماں نے جھٹ ہاتھ سے لیا، خود دھویا اور نانی کے منہ میں لگادیا۔ ہمیں تاکید کرتی ہوئی چلی گئیں کہ گھڑی دیکھ کر ٹھیک دو منٹ بعد تھرمامیٹر منہ سے نکالنا اور ٹمپریچر نوٹ کرکے دوا دے دینا۔ ہم نے گھڑی دیکھی، ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔

ابھی آدھا منٹ بھی نہ گزرا تھا کہ ڈور بیل بجی۔ تیزی سے گئے دیکھا فلسفی اور چیتا نانی کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔ فلسفی آگے بڑھ کر بیڈ روم میں گیا، دیکھا نانی آنکھیں بند کیے لیٹی ہیں، سمجھا سورہی ہیں، منہ پر انگلی رکھ کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور لائٹ بند کرکے کرسی پر بیٹھ گیا۔ ہم نے اور چیتے نے اس کے برابر والی کرسیاں سنبھال لیں۔ حسبِ معمول اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بغیر فل اسٹاپ اور کامے کے سرپٹ دوڑنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد نانی زور زور سے اُوں اُوں کی آوازیں نکالنے لگیں۔ فلسفی گھبرا گیا:
’’نانی کی حالت بگڑ رہی ہے۔ لائٹ آن کرکے دیکھو انہیں کیا ہورہا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر ہم بھی گھبرا گئے۔ جلدی سے لائٹ آن کی۔ دیکھا نانی اُوں اُوں کرکے تھرما میٹر کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔
اُف!!!
ہم باتوں کے دوران بھول ہی گئے کہ نانی کے منہ میں تھرمامیٹر لگا ہے۔ ٹمپریچر سے پہلے ٹائم دیکھا۔ آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا۔ چشم تصور میں اپنا حشر نشر ہوتے دیکھ کر گھڑی کی طرح ہمارے منہ پر بھی بارہ بجنے لگے۔

تھرمامیٹر اور نانی، دونوں کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا!!!
مزیدار مزیدار۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
بچپن کی حماقتیں ۔۔۔ از ۔۔۔ سید عمران

تاحال تحریر شدہ احوال کی صوتی روئداد
مابدولت کی ایک سعیء عاجزانہ ، ، پسندیدگی کی امید کے ساتھ:):)

اچھی کوشش ہے۔
لیکن اِس میں تلفظ کی غلطیاں ہیں اور بھی کُچھ مسائل ہیں جیسے کس جگہ رُکنا اور کِس لفظ پر زور دینا ہے اِس طرح کے کافی مسائل ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
اور بھی کُچھ مسائل ہیں جیسے کس جگہ رُکنا اور کِس لفظ پر زور دینا ہے اِس طرح کے کافی مسائل ہیں۔
مابدولت برادرم چیمہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں -:):)

کسی کو مسائل پر شکریہ ادا کرتے پہلی بار دیکھا ہے!!!
:thinking::thinking::thinking::thinking::thinking:
 

سید عمران

محفلین
نانی نے نئی نوکرانی رکھ لی۔ زینت بالکل اسمِ بے مسمیٰ تھی۔ قد کی چھوٹی، جسم کی موٹی، رنگ کی کالی، اُبھرا ہوا ماتھا اور دھنسی ہوئی آنکھیں۔ ملازم کی صورت تو کوئی نہیں دیکھتا لیکن اس کی سیرت بھی کسی کو پسند نہ آئی۔ زبان کی بدتمیز اور لہجے کی کڑوی۔ سب نانی کے سر ہوگئے اس کو نکال دیں۔ نانی نے منع کردیا، گھر کے کام کون کرے گا؟ نئی نوکرانی ملنے تک اسے برداشت کرنا ہوگا۔ سب اسے برداشت کرنے لگے۔

ان ہی دنوں بے بی کی منگنی تھی۔ ایک رات پہلے سب ماموں کے گھر جمع ہوگئے۔ نانی کے ساتھ زینت بھی آگئی۔ سسرالیوں کا ڈھیر ممانی کو ڈھیر کر رہا تھا۔ نانا نانی کا رعب تھا کہ دل ہی دل میں کلستی رہ گئیں، زبان کھولنے کی ہمت نہ کی۔ کر بھی لیتیں تو کون پرواہ کرتا۔

رات گئے سب سو گئے تو ہم گیسٹ روم میں آگئے۔ مونوپلی نکال لیا۔ رقم تقسیم ہورہی تھی تب ہم نے سب کے بیچ اپنا والیٹ الٹ دیا۔ اتنے سارے پیسے۔ سب ہکا بکا رہ گئے.
’’یقیناً میری دراز سے نکالے ہیں۔‘‘ آصف کو اپنی پڑ گئی۔
’’بے کار کی نہ ہانکو، ہمارے اپنے ہیں۔‘‘ ہم نے فخریہ بتایا۔
’’نانا کی شیروانی سے نکالے ہیں؟‘‘ گڑیا کو سارے راز معلوم تھے۔ شک بھری نگاہوں سے گھورا۔
’’یہ اگر اتنے پیسے نکالتا تو نانا کو فوراً معلوم ہوجاتا۔ ویسے بھی ضرورت کے پیسے ہم نانا کے سامنے نکال لیتے ہیں۔‘‘ فلسفی نے انکار میں سر ہلا کر گڑیا کے شکوک رفع کیے۔
’’پھر کیا بینک لوٹا ہے؟‘‘ چیتا غرایا۔
’’ہاں۔‘‘ ہم نے جواب دیا۔
’’کیا!!!‘‘ سب نے شور مچادیا۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
’’بس ہوگیا۔ یہ سچ ہے۔‘‘ ہم نے حتمی لہجہ میں کہا۔
’’بات گول گول نہ گھماؤ، صحیح صحیح بتاؤ۔‘‘ آصف کے تنانے منانے شروع ہوگئے۔ ہم صحیح صحیح بتانا شروع ہوگئے۔

اس زمانے میں اسکول میں بینک والے آتے تھے۔ ہم نے اپنا اکاؤنٹ کھلوایا اور ہر ماہ جب بینک والے آتے پیسے جمع کرادیتے۔ تقریباً پانچ سال گزر گئے۔ کچھ ہمارے پیسے جمع ہوئے، کچھ سود لگا۔ ہوتے ہوتے اچھے خاصی رقم بن گئی۔
’’شرم نہیں آتی سود کی رقم کھاتے ہوئے۔‘‘ گڑیا نے آنکھیں دکھائیں۔
’’ابھی کھانی کہاں شروع کی ہے۔ آج صبح ہی نکلوائی ہے۔‘‘ ہم نے صفائی پیش کی۔
’’کرو گے کیا اتنی رقم کا؟‘‘ فلسفی کچھ سوچ رہا تھا۔
’’معلوم نہیں۔ خرچ کرنے کے بارے میں سوچا نہیں۔‘‘ ہماری ساری ضروریات اماں ابا پوری کردیتے تھے۔ خود سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
’’صبح حلوہ پوری کا ناشتہ کریں؟‘‘ ہم نے تجویز دی۔
’’کوئی سود کی رقم نہیں کھائے گا۔ بڑوں کو معلوم ہوگیا تو سب کے سامنے خوب ڈانٹ پڑے گی۔‘‘ گڑیا نے سخت لہجہ میں عار دلائی۔ فلسفی اور چیتے نے سر ہلادئیے۔

ہم نے رقم سمیٹی، والیٹ اٹھایا اور خاموشی سے جیب میں رکھ لیا۔ اتنی موٹی رقم ہاتھ سے گنوانے کا ارادہ نہیں بن رہا تھا۔ مونوپلی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ آصف اپنے کمرہ میں چلا گیا، چیتے نے لائٹ آف کی اور سب سونے لیٹ گئے۔ ہم نے والیٹ جیب سے نکال کر سرہانے رکھ لیا۔ رات میں اٹھ اٹھ کر ہاتھ لگاتے اور دوبارہ اطمینان سے سو جاتے۔

صبح گہما گہمی کا شور سن کر ہماری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کمرہ میں کوئی نہیں ہے۔ سب ناشتہ کرنے چلے گئے تھے۔ ہم نے سرہانے رکھا والیٹ دیکھا۔ مگر وہاں کوئی والیٹ نہیں تھا۔ تکیہ اٹھایا، چادر پلٹی لیکن والیٹ کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ نانی ہمیں بلانے کمرہ میں آگئیں۔ ان سے پوچھا۔ کہنے لگیں:
’’یہیں کہیں ہوگا۔ ناشتہ کرکے ڈھونڈ لینا۔‘‘

ہم نے بجھے دل سے ناشتہ کیا۔ واپس آئے، سارا کمرہ چھان مارا، کہیں نہ ملا۔ ہمارے دل پر اثر تھا لیکن باقی لوگ بے اثر تھے۔
’’ہمیں سود کی رقم کھونے کا کوئی غم نہیں۔‘‘ گڑیا اس اطمینان سے بولی گویا ہم سے زیادہ اسے ہماری عاقبت کی فکر لاحق ہو۔
’’اچھا ہوا، برائی خود ہی دور ہوگئی۔‘‘ فلسفی بھی مطمئن تھا۔
سب کی بے پرواہی دیکھ کر ہماری ہمت بندھنے لگی۔

’’ویسے معلوم تو کرنا چاہیے والیٹ گیا کہاں؟‘‘ گھر سے کبھی کوئی چیز غائب نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ہم واقعی حیران تھے۔
’’ ہاں، معلوم تو ہو والیٹ غائب کیسے ہوا؟ اتنی بھاری چیز ہوا سے اڑ کر ادھر ادھر نہیں ہوسکتی۔‘‘ فلسفی نے ہاں میں ہاں ملائی۔
’’چلو سب سے پوچھتے ہیں کسی نے تو دیکھا ہوگا۔‘‘ چیتا اٹھ کھڑا ہوا۔
ہمیں سب سے زیادہ شک اماں پہ تھا۔ جس طرح سال ہا سال سے وہ ہماری عیدیاں ہتھیاتی چلی آرہی تھیں اس کے مطابق سب سے زیادہ شک کی زد میں وہ ہی تھیں۔ اماں نے سنتے ہی صاف انکار کردیا۔ الٹا تاکید کی کہ مل جانے پر فی الفور سرکاری خزانہ میں جمع کرایا جائے۔ ممانی صبح سے اس کمرہ میں نہیں آئی تھیں۔ نانی نے بھی انکار کردیا۔

’’آصف تمہیں تو والیٹ کا ضرور پتا ہوگا؟‘‘ گڑیا نے بلا شک و شبہ اس پر شک کیا۔
’’ تمہارا دماغ تو درست ہے۔ میں دیکھ بھی لیتا تو اٹھاتا کیوں؟‘‘
بات اس کی بھی درست تھی۔ کسی کے ذہن میں چوری کا تصور تک نہ آتا تھا۔ پھر والیٹ کہاں غائب ہوگیا؟ سب اشتیاق احمد کی طرح سر جوڑے جاسوس بنے بیٹھے تھے۔

’’ارے!!!‘‘ گڑیا کے منہ سے نکلا۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ پھر اچانک اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’کدھر؟‘‘ سب نے پوچھا۔
وہ ابھی آتی ہوں کہہ کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپسی ہوئی۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور کامیابی کا اطمینان تھا۔
’’ لگتا ہے کچھ پتا چل گیا۔‘‘ فلسفی نے ہنکارا بھرا۔
’’سب پتا چلا گیا۔ نانا کے کمرہ میں آجاؤ۔‘‘ گڑیا باہر چلی گئی۔
’’پورا فرزانہ کا رول نبھا رہی ہے۔‘‘ فلسفی نے دانت کچکچائے۔
سب نانا کے کمرہ میں آگئے۔ نانی بھی موجود تھیں۔ گڑیا غائب تھی۔ تھوڑی دیر بعد زینت کو لیے آگئی۔
’’تم نے پیسوں کا بٹوہ چرایا ہے؟‘‘ نانی نے سخت لہجہ میں پوچھا۔
’’ کیسا بٹوہ؟ میں نے کچھ نہیں چرایا.‘‘ زینت بدتمیزی سے لہجہ سخت کرکے بولی۔
گڑیا نے دروازہ کے پیچھے چھپا اس کا بڑا سا بیگ نکال لیا۔
’’سچی ہو تو اس کا تالا کھول کر دکھاؤ اندر بٹوہ ہے یا نہیں۔‘‘ گڑیا نے بیگ اس کے منہ کے سامنے کردیا۔ اس کے چہرہ پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
’’اس میں میری اپنی چیزیں ہیں آپ لوگوں کو کیوں دکھاؤں۔‘‘ زینت تڑخ کر بدتمیزی سے بولی۔
نانی سنجیدگی سے اسے گھورنے لگیں۔ نانا خاموش لیٹے تھے زور دار آواز میں بولے:
’’ ہمارے گھر میں کبھی چوری نہیں ہوئی۔ آج غلط کام کیسے ہوا۔ جس پر شک ہوگا اس پر لازم ہے کہ اسے دور کرے۔ چاہے گھر کا فرد ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
نانا کی رعب دار آواز پر زینت نے کانپتے ہاتھوں سے تالا کھولا۔ بیگ کھلتے ہی اوپر ہمارا والیٹ اپنی جھلک دکھلانے لگا۔

بچوں کو کمرہ سے باہر بھیج دیا گیا۔ اندر نہ جانے کیا ہورہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد لال بابا کو بلوایا اور زینت ان کے ساتھ چلی گئی۔ بس اتنا معلوم ہوا کہ لال بابا زینت کو اس کے گھر پہنچانے گئے ہیں۔

’’تم نے اتنا شاندار تُکا کیسے مارا؟‘‘ فلسفی سے گڑیا کی ذہانت ہضم نہیں ہورہی تھی۔
’’میں مسلسل سوچ رہی تھی یہ حرکت ہم میں سے تو کوئی نہیں کرسکتا۔ پھر وہ کون ہے جو ہم میں سے نہیں ہے۔ اسی پر اچانک ذہن میں زینت کا خیال آگیا۔ ہمارے درمیان نئی وہی تھی۔ میں نے چپکے سے اس کے بیگ کی زپ میں انگلی پھنسا کر جھانکا تو والیٹ اوپر رکھا نظر آگیا۔ اگر وہ نیچے چھپا کر رکھتی تب بھی نانی سے کہہ کر اس کے بیگ کی تلاشی ضرور لیتی۔‘‘

آج کی مہم کا سہرا گڑیا کے سر تھا۔ اس کے تیور الگ ہی تھے۔ فلسفی کی اہمیت زیرو ہورہی تھی۔ اسے گڑیا کی اتراہٹ ایک آنکھ نہ بھائی:
’’پکی شیطان کی خالہ ہو۔‘‘ اس کے جلے کٹے لہجہ پر سب کا قہقہہ لگ گیا۔

بٹوہ کی رقم کے بارے میں جان کر نانا نے لال بابا کو بلایا۔ لال بابا قریب موجود جھگیوں میں کسی کو وہ بٹوہ دے آئے۔ ہمیں رقم سے محرومی پر غمزدہ دیکھ کر نانی سے رہا نہ گیا۔ فوراً گلے لگا لیا اور نانا کی طرف دیکھنے لگیں۔ نانا نے مسکراتے ہوئے شیروانی کی جیب سے لفافہ نکالا اور ہمیں تھما دیا۔ ہم نے جھٹ لفافہ کھولا۔ اندر اتنی ہی رقم تھی جتنی ہمارے والیٹ میں تھی۔

سب زور زور سے نعرے لگاتے ہوئے کمرے سے باہر آ گئے۔ اُس روز سب کو دو خوشیاں ملی تھیں۔ ایک نانا کا تحفہ ملنے کی، دوسری زینت سے نجات ملنے کی۔
’’شام کو سب آئس کریم کھانے چلیں گے۔‘‘ گڑیا نے از خود ہماری رقم پر رعب جمایا۔
ہم نے ہاں میں سر ہلادیا۔

اب اس کا اتنا حق تو بنتا تھا ناں!!!
 
آخری تدوین:
نانی نے نئی نوکرانی رکھ لی۔ زینت بالکل اسمِ بے مسمیٰ تھی۔ قد کی چھوٹی، جسم کی موٹی، رنگ کی کالی، اُبھرا ہوا ماتھا اور دھنسی ہوئی آنکھیں۔ ملازم کی صورت تو کوئی نہیں دیکھتا لیکن اس کی سیرت بھی کسی کو پسند نہ آئی۔ زبان کی بدتمیز اور لہجے کی کڑوی۔ سب نانی کے سر ہوگئے اس کو نکال دیں۔ نانی نے منع کردیا، گھر کے کام کون کرے گا؟ نئی نوکرانی ملنے تک اسے برداشت کرنا ہوگا۔ سب اسے برداشت کرنے لگے۔

ان ہی دنوں بے بی کی منگنی تھی۔ایک رات پہلے سب ماموں کے گھر جمع ہوگئے۔ نانی کے ساتھ زینت بھی آگئی۔ سسرالیوں کا ڈھیر ممانی کو ڈھیر کر رہا تھا۔ نانا نانی کا رعب تھا کہ دل ہی دل میں کلستی رہ گئیں، زبان کھولنی کی ہمت نہ کی۔ کر بھی لیتیں تو کون پرواہ کرتا۔

رات گئے سب سو گئے تو ہم گیسٹ روم میں آگئے۔مونوپلی نکال لیا۔ رقم تقسیم ہورہی تھی تب ہم نے سب کے بیچ اپنا والیٹ الٹ دیا۔ اتنے سارے پیسے۔ سب ہکا بکا رہ گئے:
’’یقیناً میری دراز سے نکالے ہیں۔‘‘آصف کو اپنی پڑ گئی۔
’’بے کا ر کی نہ ہانکو، ہمارے اپنے ہیں۔‘‘ ہم نے فخریہ بتایا۔
’’نانا کی شیروانی سے نکالے ہیں؟‘‘ گڑیا کو سارے راز معلوم تھے۔ شک بھری نگاہوں سے گھورا۔
’’یہ اگر اتنے پیسے نکالتا تو نانا کو فوراً معلوم ہوجاتا۔ویسے بھی ضرورت کے لیے پیسے نانا کے سامنے نکال لیتے ہیں۔‘‘ فلسفی نے انکار میں سر ہلا کر گڑیا کے شکوک رفع کیے۔
’’پھر کیا بینک لوٹا ہے؟‘‘ چیتا غرایا۔
’’ہاں۔‘‘ ہم نے جواب دیا۔
’’کیا!!!‘‘ سب نے شور مچادیا۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
’’بس ہوگیا۔ یہ سچ ہے۔‘‘ ہم نے حتمی لہجہ میں کہا۔
’’بات گول گول نہ گھماؤ، صحیح صحیح بتاؤ۔‘‘ آصف کے تنانے منانے شروع ہوگئے۔ہم صحیح صحیح بتانا شروع ہوگئے۔

اس زمانے میں اسکول میں بینک والے آتے تھے۔ ہم نے اپنا اکاؤنٹ کھلوایا اور ہر ماہ جب بینک والے آتے پیسے جمع کرادیتے۔ تقریباً پانچ سال گزر گئے۔ کچھ ہمارے پیسے جمع ہوئے، کچھ سود لگا۔ ہوتے ہوتے اچھے خاصی رقم بن گئی۔
’’شرم نہیں آتی سود کی رقم کھاتے ہوئے۔‘‘ گڑیا نے آنکھیں دکھائیں۔
’’ابھی کھانی کہاں شروع کی ہے۔ آج صبح ہی نکلوائی ہے۔‘‘ ہم نے صفائی پیش کی۔
’’کرو گے کیا اتنی رقم کا؟‘‘ فلسفی کچھ سوچ رہا تھا۔
’’معلوم نہیں۔ خرچ کرنے کے بارے میں سوچا نہیں۔‘‘ ہماری ساری ضروریات اماں ابا پوری کردیتے تھے۔ خود سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
’’صبح حلوہ پوری کا ناشتہ کریں؟‘‘ ہم نے تجویز دی۔
’’کوئی سود کی رقم نہیں کھائے گا۔ بڑوں کو معلوم ہوگیا تو سب کے سامنے خوب ڈانٹ پڑے گی۔‘‘ گڑیا نے سخت لہجہ میں عار دلائی۔ فلسفی اور چیتے نے سر ہلادئیے۔

ہم نے رقم سمیٹی، والیٹ اٹھایا اور خاموشی سے جیب میں رکھ لیا۔ اتنی موٹی رقم ہاتھ سے گنوانے کا ارادہ نہیں بن رہا تھا۔ مونوپلی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ آصف اپنے کمرہ میں چلا گیا، چیتے نے لائٹ آف کی اور سب سونے لیٹ گئے۔ ہم نے والیٹ جیب سے نکال کر سرہانے رکھ لیا۔ رات میں اٹھ اٹھ کر ہاتھ لگاتے اور دوبارہ اطمینان سے سو جاتے۔

صبح گہما گہمی کا شور سن کر ہماری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کمرہ میں کوئی نہیں ہے۔ سب ناشتہ کرنے چلے گئے تھے۔ ہم نے سرہانے رکھا والیٹ دیکھا۔ لیکن وہاں کوئی والیٹ نہیں تھا۔ تکیہ اٹھایا، چادر پلٹی لیکن والیٹ کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ نانی ہمیں بلانے کمرہ میں آگئیں۔ ان سے پوچھا۔ کہنے لگیں:
’’یہیں کہیں ہوگا۔ ناشتہ کرکے ڈھونڈ لینا۔‘‘

ہم نے بجھے دل سے ناشتہ کیا۔ واپس آئے ، سارا کمرہ چھان مارا، کہیں نہ ملا۔ ہمارے دل پر اثر تھا لیکن باقی لوگوں بے اثر تھے۔
’’ہمیں سود کی رقم کھونے کا کوئی غم نہیں۔‘‘ گڑیا اس اطمینان سے بولی گویا ہم سے زیادہ اسے ہماری عاقبت کی فکر لاحق ہو۔
’’اچھا ہوا ، برائی خود ہی دور ہوگئی۔‘‘ فلسفی بھی مطمئن تھا۔
سب کی بے پرواہی دیکھ کر ہماری ہمت بندھنے لگی۔

’’ویسے معلوم تو کرنا چاہیے والیٹ گیا کہاں ؟‘‘ گھر سے کبھی کوئی چیز غائب نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ہم واقعی حیران تھے۔
’’ ہاں، معلوم تو ہو والیٹ غائب کیسے ہوا؟ اتنی بھاری چیز ہوا سے اڑ کر ادھر ادھر نہیں ہوسکتی۔‘‘ فلسفی نے ہاں میں ہاں ملائی۔
’’چلو سب سے پوچھتے ہیں کسی نے تو دیکھا ہوگا۔‘‘ چیتا اٹھ کھڑا ہوا۔
ہمیں سب سے زیادہ شک اماں پہ تھا۔ جس طرح سال ہا سال سے وہ ہماری عیدیاں ہتھیاتی چلی آرہی تھیں اس کے مطابق سب سے زیادہ شک کی زد میں وہ ہی تھیں۔ اماں نے سنتے ہی صاف انکار کردیا۔ الٹا تاکید کی کہ مل جانے پر فی الفور سرکاری خزانہ میں جمع کرایا جائے۔ ممانی صبح سے اس کمرہ میں نہیں آئی تھیں۔ نانی نے بھی انکار کردیا۔

’’آصف تمہیں تو والیٹ کا ضرور پتا ہوگا؟‘‘ گڑیا نے بلا شک و شبہ اس پر شک کیا۔
’’ تمہارا دماغ تو درست ہے ۔ میں دیکھ بھی لیتا تو اٹھاتا کیوں؟‘‘
بات اس کی بھی درست تھی۔ کسی کے ذہن میں چوری کا تصور تک نہ آتا تھا۔ پھر والیٹ کہاں غائب ہوگیا؟ سب اشتیاق احمد کی طرح سر جوڑے جاسوس بنے بیٹھے تھے۔

’’ارے!!!‘‘ گڑیا کے منہ سے نکلا۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اچانک وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’کدھر؟‘‘ سب نے پوچھا۔
وہ ابھی آتی ہوں کہہ کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپسی ہوئی۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور کامیابی کا اطمینان تھا۔
’’ لگتا ہے کچھ پتا چل گیا۔‘‘ فلسفی نے ہنکارا بھرا۔
’’سب پتا چلا گیا۔ نانا کے کمرہ میں آجاؤ۔‘‘ گڑیا باہر چلی گئی۔
’’پورا فرزانہ کا رول نبھا رہی ہے۔‘‘ فلسفی نے دانت کچکچائے۔
سب نانا کے کمرہ میں آگئے۔ نانی بھی موجود تھیں۔ گڑیا غائب تھی۔ تھوڑی دیر بعد زینت کو لیے آگئی۔
’’تم نے پیسوں کا بٹوہ چرایا ہے؟‘‘ نانی نے سخت لہجہ میں پوچھا۔
’’ کیسا بٹوہ۔ میں نے کچھ نہیں چرایا؟‘‘ زینت بدتمیزی سے لہجہ سخت کرکے بولی۔
گڑیا نے دروازہ کے پیچھے چھپا اس کا بڑا سا بیگ نکال لیا۔
’’سچی ہو تو اس کا تالا کھول کر دکھاؤ اندر بٹوہ ہے یا نہیں۔‘‘ گڑیا نے بیگ اس کے منہ کے سامنے کردیا۔ اس کے چہرہ پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
’’اس میں میری اپنی چیزیں ہیں آپ لوگوں کو کیوں دکھاؤں۔‘‘ زینت تڑخ کر بدتمیزی سے بولی۔
نانی سنجیدگی سے اسے گھور نے لگیں ۔ نانا خاموش لیٹے تھے زور دار آواز میں بولے:
’’ ہمارے گھر میں کبھی چوری نہیں ہوئی۔ آج غلط کام کیسے ہوا۔ جس پر شک ہوگا اس پر لازم ہے کہ اسے دور کرے۔چاہے گھر کا فرد ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
نانا کی رعب دار آواز پر زینت نے کانپتے ہاتھوں سے تالا کھولا۔ بیگ کھلتے ہی اوپر ہمارا والیٹ اپنی جھلک دکھلانے لگا۔

بچوں کو کمرہ سے باہر بھیج دیا گیا۔ اندر نہ جانے کیا ہورہا تھا۔تھوڑی دیر بعد لال بابا کو بلوایا اور زینت اس کے ساتھ چلی گئی۔ بس اتنا معلوم ہوا کہ لال بابا زینت کو اس کے گھر پہنچانے گئے ہیں۔

’’تم نے اتنا شاندار تُکا کیسے مارا؟‘‘ فلسفی سے گڑیا کی ذہانت ہضم نہیں ہورہی تھی۔
’’میں مسلسل سوچ رہی تھی یہ حرکت ہم میں سے تو کوئی نہیں کرسکتا۔ پھر وہ کون ہے جو ہم میں سے نہیں ہے۔ اسی پر اچانک ذہن میں زینت کا خیال آگیا۔ ہمارے درمیان نئی وہی تھی۔ میں نے چپکے سے اس کے بیگ کی زپ میں انگلی پھنسا کر جھانکا تو والیٹ اوپر رکھا نظر آگیا۔ اگر وہ نیچے چھپا کر رکھتی تب بھی نانی سے کہہ کر اس کے بیگ کی تلاشی ضرور لیتی۔‘‘

آج کی مہم کا سہرا گڑیا کے سر تھا۔ اس کے تیور الگ ہی لگ رہے تھے۔فلسفی کی اہمیت زیرو ہورہی تھی۔ ا سے گڑیا کی اتراہٹ ایک آنکھ نہ بھائی:
’’پکی شیطان کی خالہ ہو۔‘‘ اس کے جلے کٹے لہجہ پر سب کا قہقہہ لگ گیا۔

بٹوہ کی رقم کے بارے میں جان کر نانا نے لال بابا کو بلایا۔ لال بابا قریب موجود جھگیوں میں کسی کو وہ بٹوہ دے آئے۔ہمیں رقم سے محرومی پر غمزدہ دیکھ کر نانی سے رہا نہ گیا۔ فوراً گلے لگا لیا اور نانا کی طرف دیکھنے لگیں۔ نانا نے مسکراتے ہوئے شیروانی کی جیب سے لفافہ نکالا اور ہمیں تھما دیا۔ ہم نے جھٹ لفافہ کھولا۔ اندر اتنی ہی رقم تھی جتنی ہمارے والیٹ میں تھی۔

سب زور زور سے نعرے لگاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔اُس روز سب کو دو خوشیاں ملی تھیں۔ ایک نانا کا تحفہ ملنے کی، دوسری زینت سے نجات ملنے کی۔
’’شام کو سب آئس کریم کھانے چلیں گے۔‘‘ گڑیا نے از خود ہماری رقم پر رعب جمایا۔
ہم نے ہاں میں سر ہلادیا۔

اب اس کا اتنا حق تو بنتا تھا نا!!!
زبردست! مزیدار!
 

سید عمران

محفلین
اب ذکر چھیڑ ہی دیا ہے آپ نے تو اِس مہ پارہ صاحبہ کی کہانی بھی سنا دیجئے۔:glasses-cool:
دل کے آرماں آنسوؤں میں بہنے دیجیے۔۔۔
خاطر جمع رکھیے۔۔۔
مراسلہ دوبارہ اطمینان سے پڑھیے۔۔۔
یہاں مہ پارہ آپ حضرات کو کہا گیا ہے!!!
:hot::hot::hot:
 
Top