انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں طلبہ وطالبات کے اکٹھے بیٹھنے پر پابندی

جاسم محمد

محفلین
انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں طلبہ وطالبات کے اکٹھے بیٹھنے پر پابندی
508595_70049847.jpg

لاہور: (دنیا نیوز) یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی کینٹنز میں طلبہ اور طالبات کے اکٹھے بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں یہ نیا حکم نامہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے وائس چانسلر نے یو ای ٹی کی کینٹنز میں لڑکیوں اور لڑکوں ہے اکھٹے بیٹھنے پر پابندی لگا دی ہے۔

اس سلسلے میں تمام کینٹنز کی انتظامیہ اور کنٹریکٹر کو احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ کنٹینز انتظامیہ کو ہدایات پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں فوری طور پر سیل کرنے کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے۔
 

حُر نقوی

محفلین
نوٹ: یہ حکم گورنر پنجاب نے واپس کروا دیا ہے
قدامت پرست مذہبی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ مرد و خواتین کو ہر جگہ الگ الگ کردینے سے جنسی حراسگی کے واقعات کم ہوں گے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں دنیا بھر کے اعداد و شمار اور مثالوں سے اس بات کو ثابت کرسکتا ہوں کہ جن ممالک میں تعلیم کی کمی اور مرد و خواتین کے درمیان رابطے کا فقدان ہے، وہاں جنسی تشدد کے واقعات آزاد معاشرے کے مقابلے میں بہت زیادہ اور خواتین خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔
اپنا ذاتی تجربہ سب سے زیادہ اہم اور قابل اعتماد ہوتا ہے، اس لئے میں قارئین سے وہی شیئر کردیتا ہوں۔ 2000 کی دہائی کے وسط تک میں ایک مولوی ٹائپ نوجوان ہوتا تھا اور ایسے ہی ہم عمر افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا ہے۔ اس دور میں اپنی خونی رشتہ دار خواتین کے علاوہ باہر نظر آنے والی ہر عورت کو میں "گندی نظر" سے دیکھتا تھا اور دماغ میں عجیب و غریب خیالات آتے تھے۔ کالج تک ایسے ہی رہا لیکن پھر مخلوط ماحول والی ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں بالکل آزاد ماحول تھا اور پھر میری کلاس میں بھی لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شروع میں مجھے مخالف جنس کے ساتھ بات کرتے اور ایک ساتھ بیٹھتے ہوئے بہت بے چینی محسوس ہوتی تھی، ایک بار اپنے ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدار سے درخواست کی کہ مجھے کسی اور شعبے میں بھیج دیں، بس سوشل سائنس سے ایک بار نکالیں مگر وہ نہیں مانا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ہماری آپس میں بات چیت بڑھنے لگی تو پھر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ بے حجاب اور غیر خواتین کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔
جنسی حراسانی سے بچنے کیلئے اخلاقی تربیت ضروری ہے۔ اگر آپ اچھے اخلاق کے مالک ہیں تو جنگل میں اکیلی عورت سے بھی کوئی بدسلوکی نہیں کریں گے لیکن اگر آپ کے اخلاق ہی بہت برے ہیں تو مقدس ترین مقام پر حج زائرین خواتین بھی آپ کے شر سے بچ نہیں پائیں گی۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اس دور میں اپنی خونی رشتہ دار خواتین کے علاوہ باہر نظر آنے والی ہر عورت کو میں "گندی نظر" سے دیکھتا تھا اور دماغ میں عجیب و غریب خیالات آتے تھے۔
لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ہماری آپس میں بات چیت بڑھنے لگی تو پھر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہبے حجاب اور غیر خواتین کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔
یہ گندی سوچ خود مذہبی حلقوں کی پیدا کردہ ہے کہ جو خواتین حجاب یا پردہ نہیں کرتی وہ پاک دامن نہیں ہیں۔
 

حُر نقوی

محفلین
یہ گندی سوچ خود مذہبی حلقوں کی پیدا کردہ ہے کہ جو خواتین حجاب یا پردہ نہیں کرتی وہ پاک دامن نہیں ہیں۔
درست فرمایا، کسی کے لباس یا حلیئے سے اس کے بارے میں کوئی منفی یا مثبت رائے قائم کرنا نہایت غیر مناسب عمل ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ فطری اور غیر ارادی طور پر ہوتا ہے۔ جلد اس موضوع پر ایک نئی تحریر لکھوں گا۔ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ داڑھی اور برقعے والوں کو ہمیشہ بہت اچھی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ایسے حلیئے والے خواتین و حضرات کے اچھے کردار کی تصدیق کردی جاتی ہے۔ لیکن جب یہی لوگ داڑھی رکھ کر سنگین جرائم کرتے ہیں، برقعہ پوش خواتین ہسپتال سے نومولود بچہ چوری کرکے فرار ہوجاتی ہیں تو یہ لوگ وضاحتیں پیش کرنے لگتے ہیں۔
دوسری طرف مذہبی حلقوں سے ناراض لوگ ایسے ہی حلیئے والے افراد کو دیکھتے ہی انہیں دل ہی دل میں برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ تو بہت بڑا منافق ہوگا۔ لیکن اگر منافقت اور بے رحم انسان کی شناخت مذہبی لباس اور داڑھی سے کرنے لگیں تو پھر عبدالستار ایدھی مرحوم کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے رنگ، ذات، نسل، مذہب اور فرقے کی پرواہ کئے بغیر پوری انسانیت کی خدمت کی؟ بابا ایدھی کو صرف ان کے لباس اور داڑھی کی وجہ سے امریکہ میں نامناسب سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وہ ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے وہاں گئے تھے۔
 

آصف اثر

معطل
نوٹ: یہ حکم گورنر پنجاب نے واپس کروا دیا ہے
قدامت پرست مذہبی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ مرد و خواتین کو ہر جگہ الگ الگ کردینے سے جنسی حراسگی کے واقعات کم ہوں گے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں دنیا بھر کے اعداد و شمار اور مثالوں سے اس بات کو ثابت کرسکتا ہوں کہ جن ممالک میں تعلیم کی کمی اور مرد و خواتین کے درمیان رابطے کا فقدان ہے، وہاں جنسی تشدد کے واقعات آزاد معاشرے کے مقابلے میں بہت زیادہ اور خواتین خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔
اپنا ذاتی تجربہ سب سے زیادہ اہم اور قابل اعتماد ہوتا ہے، اس لئے میں قارئین سے وہی شیئر کردیتا ہوں۔ 2000 کی دہائی کے وسط تک میں ایک مولوی ٹائپ نوجوان ہوتا تھا اور ایسے ہی ہم عمر افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا ہے۔ اس دور میں اپنی خونی رشتہ دار خواتین کے علاوہ باہر نظر آنے والی ہر عورت کو میں "گندی نظر" سے دیکھتا تھا اور دماغ میں عجیب و غریب خیالات آتے تھے۔ کالج تک ایسے ہی رہا لیکن پھر مخلوط ماحول والی ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں بالکل آزاد ماحول تھا اور پھر میری کلاس میں بھی لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شروع میں مجھے مخالف جنس کے ساتھ بات کرتے اور ایک ساتھ بیٹھتے ہوئے بہت بے چینی محسوس ہوتی تھی، ایک بار اپنے ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدار سے درخواست کی کہ مجھے کسی اور شعبے میں بھیج دیں، بس سوشل سائنس سے ایک بار نکالیں مگر وہ نہیں مانا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ہماری آپس میں بات چیت بڑھنے لگی تو پھر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ بے حجاب اور غیر خواتین کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔
جنسی حراسانی سے بچنے کیلئے اخلاقی تربیت ضروری ہے۔ اگر آپ اچھے اخلاق کے مالک ہیں تو جنگل میں اکیلی عورت سے بھی کوئی بدسلوکی نہیں کریں گے لیکن اگر آپ کے اخلاق ہی بہت برے ہیں تو مقدس ترین مقام پر حج زائرین خواتین بھی آپ کے شر سے بچ نہیں پائیں گی۔
آپ اسلامی شریعت اور فطری امور سے ہی صرف نظر کررہے ہیں تو کیا کہا جاسکتاہے۔
اگر تجربے اور مشاہدے ہی کی بنیاد پر بات کی جائے تو معاملہ بہت گھمبیر ہے۔ میں نے جتنی بھی جوڑیوں کا مطالعہ کیا ہے سب ہی لتھڑے ہوئے ہیں۔ ماسوائے ایک دو کے۔ وہ بھی نئی نئی جوڑیاں ورنہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے قربتیں آخری حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ پھر چراغوں میں روشنی ہی نہیں رہتی تو مزید کچھ کہنا ہی بے سود ہوگیا۔
جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آزاد سوچ رکھنے والے بےحجاب لڑکیوں یا خواتین کو بُری نظر سے نہیں دیکھتے، تو اس ضمن میں عرض ہے کہ پہلے تو یہ بات درست ہے ہی نہیں، بالفرض اگرکسی کے ساتھ ایسا درست بھی ہو تو اس کی خواہش کسی اور اعلیٰ جگہ سے پوری ہورہی ہوگی۔ جب کہ آپ جیسے گنے چنے چند مذہبی افراد کے ساتھ ایسا ہونا تعجب کی بات نہیں۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
خود کراچی یونیورسٹی میں، راقم کی کلاس فیلو لڑکی جو شروع میں بہت بھولی بھالی ہوا کرتی تھی لیکن رنگت اور جسامت کی رُو سے کافی پُرکشش تھی، ”بغیر داڑھی“ والوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ پھر نہ سبق رہا نہ گلے شکوے۔
البتہ چند ایک لڑکے چوں کہ کتابی کیڑے ہوا کرتے تھے لہذا وہ ان عیاشیوں کی جانب مائل ہی نہ ہوتے۔ اس کی وجہ بھی کتاب سے بےحد لگاؤ اور آگے کچھ کرنے کی لگن تھی ورنہ جنس مخالف کی جانب میلان انسانی سرشت میں شامل ہے، اور اسی وجہ سے اسلام نے اختلاط کو سختی سے منع فرمایا ہے۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
آپ اسلامی شریعت اور فطری امور سے ہی صرف نظر کررہے ہیں تو کیا کہا جاسکتاہے۔
آپ اسلامی شریعت اور فطری امور پہ اگر قران و سنت اور تحقیق و تجربات کی روشنی میں کچھ واضح فرمائیں تو مجھ جیسے کم علموں کے علم میں اضافہ ہو گا۔ فطرت کیا ہے اور ایسا کون سا طریقہ یا کلیہ ہے جس سے ہم فطری اور غیر فطری امور و عمل میں تفریق کر سکیں؟ مطلب میری ناقص رائے میں ہر شخص کی فطرت مختلف ہے تاہم اگر ایسا کوئی کلیہ اخذ کر لیا گیا ہے تو شریک کر کے علم میں اضافہ فرمائیں۔
 

آصف اثر

معطل
آپ اسلامی شریعت اور فطری امور پہ اگر قران و سنت اور تحقیق و تجربات کی روشنی میں کچھ واضح فرمائیں تو مجھ جیسے کم علموں کے علم میں اضافہ ہو گا۔ فطرت کیا ہے اور ایسا کون سا طریقہ یا کلیہ ہے جس سے ہم فطری اور غیر فطری امور و عمل میں تفریق کر سکیں؟ مطلب میری ناقص رائے میں ہر شخص کی فطرت مختلف ہے تاہم اگر ایسا کوئی کلیہ اخذ کر لیا گیا ہے تو شریک کر کے علم میں اضافہ فرمائیں۔
اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کا مطالعہ کریں۔ یعنی رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرت مبارکہ پڑھیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
البتہ چند ایک لڑکے چوں کہ کتابی کیڑے ہوا کرتے تھے لہذا وہ ان عیاشیوں کی جانب مائل ہی نہ ہوتے۔ اس کی وجہ بھی کتاب سے بےحد لگاؤ اور آگے کچھ کرنے کی لگن تھی ورنہ جنس مخالف کی جانب میلان انسانی سرشت میں شامل ہے
یہ تو کافی مثبت بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی سرشت میں شامل جنس مخالف کی جانب میلان کے باوجود پڑھاکو طلبا اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
یہ تو کافی مثبت بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی سرشت میں شامل جنس مخالف کی جانب میلان کے باوجود پڑھاکو طلبا اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہیں۔
بالکل درست کہا۔ لیکن کیا آپ اس کے مزید عوامل پر سوچ سکتے ہیں؟
مثلا گھریلوں ابتر حالات اور بوجھ کی وجہ سے ایسا ہوجانا۔
اپنے مقصد سے دور ہوجانے کا خوف۔
فطری جھجک یا کچھ اور ناامیدی اور دیگر فکٹرز جیسا کہ مذہبی پس منظر، شرمندگی کا خدشہ، شخصی نامطابقت، جنس مخالف کے مسترد کرنے کا اندیشہ وغیرہ بھی خود کو قابو میں رکھنے کے عمل میں شامل ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوٹ: یہ حکم گورنر پنجاب نے واپس کروا دیا ہے
یو ای ٹی لاہور: طلباء و طالبات کیساتھ بیٹھنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن واپس
ویب ڈیسک
677834_447782_UET_updates.jpg


یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی انتظامیہ نےطلباء و طالبات کے کیفے ٹیریا میں اکٹھے بیٹھنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن دو روز بعد واپس لے لیا۔

ڈپٹی رجسٹرار کی جانب سے جاری کیے گئے لیٹر میں کہا گیا ہے کہ طلباء و طالبات کے کینٹین میں بیٹھنے کے الگ الگ انتظامات کے حوالے سے جاری نوٹیفکیشن واپس لیا جا رہا ہے، یہ نوٹیفکیشن وائس چانسلر کی منظوری حاصل کیے بغیر جاری کیا گیا تھا۔

اس سے قبل یو ای ٹی کے ڈپٹی رجسٹرار کی جانب سے ہی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وائس چانسلر نے ہدایت کی ہے کہ کینٹین اور کیفے ٹیریا میں طلباء اور طالبات کے الگ الگ بیٹھنے کا مناسب انتظام کیا جائے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ وائس چانسلر اور ریزیڈنٹ آفیسر انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے اچانک دورے کریں گے، اگر ہدایات پر عمل درآمد دیکھنے میں نہ آیا تو بغیر کسی نوٹس کے کیفے ٹیریا اور کینٹین سیل کر دی جائے گی۔
 

رانا

محفلین
کراچی یونیورسٹی میں خاکسار نے بھی پڑھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن یہ کیسے پتہ لگے گا کہ کس کی کیا نیت ہے؟ مخلوط تعلیم پر بہرحال پابندی ہونی چاہئے۔ پابندی کے نتیجے میں کوئی نقصان نہیں جبکہ پابندی نہ ہونے سے یہ سب کو تسلیم ہے کہ کچھ گھرانے نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس لئے یہ کوئی دلیل نہیں کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پابندی ہو تو حرج کیا ہے؟ کونسا کام رکتا ہے یا تعلیم میں کس قسم کی کمی رہ جاتی ہے؟ جب کوئی نقصان ہی نہیں اور دوسری طرف اسکے برعکس بہرحال نقصان ہونے کے خطرات نہ صرف ہیں بلکہ مثالیں بھی موجود ہیں تو کیوں نہ وہ کام کیا جائے جس میں بہرحال یہ تسلیم ہے کہ کوئی نقصان نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پابندی کے نتیجے میں کوئی نقصان نہیں
تعلیم کا مقصد محض کتابوں کو دماغوں میں انڈیلنا نہیں بلکہ اسٹوڈنٹس کو ایک معاشرتی انسان بنانا بھی ہے۔ سکولوں کالجوں میں سوشل لائف کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ طلبا کو اکیڈیمیا کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کیلئے بھی تیار کیا جائے۔
جب عملی زندگی ، کام کاج سب مخلوط ہے تو صرف تعلیم کو کیوں الگ رکھا جائے؟
 

رانا

محفلین
تعلیم کا مقصد محض کتابوں کو دماغوں میں انڈیلنا نہیں بلکہ اسٹوڈنٹس کو ایک معاشرتی انسان بنانا بھی ہے۔ سکولوں کالجوں میں سوشل لائف کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ طلبا کو اکیڈیمیا کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کیلئے بھی تیار کیا جائے۔
جب عملی زندگی ، کام کاج سب مخلوط ہے تو صرف تعلیم کو کیوں الگ رکھا جائے؟
یہ آپ نے ایسے ہی ایک بات کردی ہے۔ وضاحت کریں کہ عملی زندگی میں بندے کو کیا مسائل پیش آئیں گے؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ آپ نے ایسے ہی ایک بات کردی ہے۔ وضاحت کریں کہ عملی زندگی میں بندے کو کیا مسائل پیش آئیں گے؟
یہ صرف ایک مثال ہے۔ ان جیسے لاکھوں کروڑوں ہیں جو مخلوط تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مختلف الجھنوں کا شکار ہیں یا رہ چکے ہیں۔
اپنا ذاتی تجربہ سب سے زیادہ اہم اور قابل اعتماد ہوتا ہے، اس لئے میں قارئین سے وہی شیئر کردیتا ہوں۔ 2000 کی دہائی کے وسط تک میں ایک مولوی ٹائپ نوجوان ہوتا تھا اور ایسے ہی ہم عمر افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا ہے۔ اس دور میں اپنی خونی رشتہ دار خواتین کے علاوہ باہر نظر آنے والی ہر عورت کو میں "گندی نظر" سے دیکھتا تھا اور دماغ میں عجیب و غریب خیالات آتے تھے۔ کالج تک ایسے ہی رہا لیکن پھر مخلوط ماحول والی ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں بالکل آزاد ماحول تھا اور پھر میری کلاس میں بھی لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شروع میں مجھے مخالف جنس کے ساتھ بات کرتے اور ایک ساتھ بیٹھتے ہوئے بہت بے چینی محسوس ہوتی تھی، ایک بار اپنے ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدار سے درخواست کی کہ مجھے کسی اور شعبے میں بھیج دیں، بس سوشل سائنس سے ایک بار نکالیں مگر وہ نہیں مانا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ہماری آپس میں بات چیت بڑھنے لگی تو پھر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ بے حجاب اور غیر خواتین کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔
 

رانا

محفلین
یہ صرف ایک مثال ہے۔ ان جیسے لاکھوں کروڑوں ہیں جو مخلوط تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مختلف الجھنوں کا شکار ہیں یا رہ چکے ہیں۔
جناب آپ نے عملی زندگی میں مسائل کا ذکر کیا تھا۔ یہ کسی فرد کا نفسیاتی مسئلہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی کا غیر عورت کےبارے میں اچھی رائے نہ رکھنا۔ یہ عملی زندگی کا مسئلہ کیسے ہوگیا؟ یہ مسئلہ ایک اسلام پر ایمان لانے والے کے ساتھ ممکن ہی نہیں کہ اسلام نے عورتوں کے اتنے حقوق بیان کئے ہیں اور عورت کو عزت دی ہے تو کیسے کوئی انسان کسی بھی عورت کے متعلق یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ بری ہوگی؟ اس مسئلے کا تعلق عملی زندگی سے نہیں بلکہ اسلامی تعلیم سے ناوقفیت سے ہے۔
آپ سے گذارش ہے کہ اپنے ذہن سے سوچ کر عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا ذکر کریں کہ مخلوط تعلیم حاصل نہ کرسکنے والے کو عملی زندگی میں کیا حقیقی مسائل پیش آئیں گے؟
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کا مطالعہ کریں۔ یعنی رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرت مبارکہ پڑھیں۔
مخلوط یا غیر مخلوط تعلیم سے قطع نظر کیونکہ اس پر کوئی تحقیقی مطالعہ یا سائنسی و معاشرتی تحقیق میری نظر سے نہیں گزری، جہاں تک میرا مطالعہ ہے میں آپ سے شاید اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اس دور کی معاشرت پہ اگر غور کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ دور بہت آزاد خیال دور تھا اتنا آزاد کہ خود صحابیہ رضہ نے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال پوچھے، اتنا آزاد کہ حضرت عائشہ رضہ نے جنگ جمل میں کلیدی کردار ادا کیا، اتنا آزاد کہ خود اللہ عزوجل نے عورت کو پسند کی شادی کی اجازت دی، اتنا آزاد کہ اماں حضرت خدیجہ رضہ نے خود حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کا پیغام پہنچایا۔ اب آپ سوچیں کہ کیا موجودہ دور میں یہ ممکن ہے؟
اگر تجربے اور مشاہدے ہی کی بنیاد پر بات کی جائے تو معاملہ بہت گھمبیر ہے۔ میں نے جتنی بھی جوڑیوں کا مطالعہ کیا ہے سب ہی لتھڑے ہوئے ہیں۔ ماسوائے ایک دو کے۔ وہ بھی نئی نئی جوڑیاں ورنہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے قربتیں آخری حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ پھر چراغوں میں روشنی ہی نہیں رہتی تو مزید کچھ کہنا ہی بے سود ہوگیا۔
ایسی کوئی باقاعدہ تجرباتی تحقیق یا مطالعہ میری نظر سے نہیں گزرا جس کے نتائج آپ نے شریک کیے ہیں۔ اگر ایسی کوئی سٹڈی کنڈکٹ کی گئی ہے تو اس کا حوالہ وغیرہ دے کر ہمیں بھی مستفید فرمائیں۔ بصورتِ دیگر یہ بات آپ کی رائے تصور ہو گی اور آپ کی رائے اتنی ہی درست یا غلط ہونے کے امکانات ہیں جتنے دوسروں کی رائے کے ہیں۔
جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آزاد سوچ رکھنے والے بےحجاب لڑکیوں یا خواتین کو بُری نظر سے نہیں دیکھتے، تو اس ضمن میں عرض ہے کہ پہلے تو یہ بات درست ہے ہی نہیں، بالفرض اگرکسی کے ساتھ ایسا درست بھی ہو تو اس کی خواہش کسی اور اعلیٰ جگہ سے پوری ہورہی ہوگی۔ جب کہ آپ جیسے گنے چنے چند مذہبی افراد کے ساتھ ایسا ہونا تعجب کی بات نہیں۔
بری نظر سے دیکھنے کے لیے داڑھی یا بغیر داڑھی کے ہونا شرط نہیں اور نہ ہی آزاد خیال یا غیر آزاد خیال ہونا کیونکہ اس کا دارومدار اخلاقی تربیت اور نیتوں پر ہے اور اس پر بھی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی کہ کون درست ہے یا غلط لیکن دونوں صورتوں میں اگر انسان کی اخلاقی تربیت اچھی کی گئی ہو اور انسان معاشرتی معاملات سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس سے معاملات بہت حد تک بہتر ہو جانے کے امکانات ہیں۔ آپ کا یہ دعوی بھی کہ اس شخص کی خواہش کہیں سے پوری ہو رہی ہو گی محض آپ کی ذاتی رائے ہے بلکہ میرے نزدیک یہ ایک الزام بغیر ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ جو شخص عورت سے بات کرنے کے لیے اس لیے الگ کیا گیا ہو کہ عورت جنسی خواہش ابھارنے کا ایک ذریعہ ہے اس کے دل و دماغ پہ ہر وقت یہی بات چھائی رہے گی کیونکہ دوری سے شبہات و تحفظات میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اگر ایک شخص کا انٹرکشن روزانہ کی بنیاد پر جنس مخالف سے ہے اس کے یہ شبہات و خیالات اس شخص کی نسبت بہت کم ہونگے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جو شخص عورت سے بات کرنے کے لیے اس لیے الگ کیا گیا ہو کہ عورت جنسی خواہش ابھارنے کرنے کا ایک ذریعہ ہے اس کے دل و دماغ پہ ہر وقت یہی بات چھائی رہے گی کیونکہ دوری سے شبہات و تحفظات میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اگر ایک شخص کا انٹرکشن روزانہ کی بنیاد پر جنس مخالف سے ہے اس کے یہ شبہات و خیالات اس شخص کی نسبت بہت کم ہونگے۔
الحمدللہ اس معاملہ میں ہم دونوں ایک پیج پر ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
مخلوط یا غیر مخلوط تعلیم سے قطع نظر کیونکہ اس پر کوئی تحقیقی مطالعہ یا سائنسی و معاشرتی تحقیق میری نظر سے نہیں گزری، جہاں تک میرا مطالعہ ہے میں آپ سے شاید اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اس دور کی معاشرت پہ اگر غور کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ دور بہت آزاد خیال دور تھا اتنا آزاد کہ خود صحابیہ رضہ نے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال پوچھے، اتنا آزاد کہ حضرت عائشہ رضہ نے جنگ جمل میں کلیدی کردار ادا کیا، اتنا آزاد کہ خود اللہ عزوجل نے عورت کو پسند کی شادی کی اجازت دی، اتنا آزاد کہ اماں حضرت خدیجہ رضہ نے خود حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کا پیغام پہنچایا۔ اب آپ سوچیں کہ کیا موجودہ دور میں یہ ممکن ہے؟

ایسی کوئی باقاعدہ تجرباتی تحقیق یا مطالعہ میری نظر سے نہیں گزرا جس کے نتائج آپ نے شریک کیے ہیں۔ اگر ایسی کوئی سٹڈی کنڈکٹ کی گئی ہے تو اس کا حوالہ وغیرہ دے کر ہمیں بھی مستفید فرمائیں۔ بصورتِ دیگر یہ بات آپ کی رائے تصور ہو گی اور آپ کی رائے اتنی ہی درست یا غلط ہونے کے امکانات ہیں جتنے دوسروں کی رائے کے ہیں۔

بری نظر سے دیکھنے کے لیے داڑھی یا بغیر داڑھی کے ہونا شرط نہیں اور نہ ہی آزاد خیال یا غیر آزاد خیال ہونا کیونکہ اس کا دارومدار اخلاقی تربیت اور نیتوں پر ہے اور اس پر بھی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی کہ کون درست ہے یا غلط لیکن دونوں صورتوں میں اگر انسان کی اخلاقی تربیت اچھی کی گئی ہو اور انسان معاشرتی معاملات سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس سے معاملات بہت حد تک بہتر ہو جانے کے امکانات ہیں۔ آپ کا یہ دعوی بھی کہ اس شخص کی خواہش کہیں سے پوری ہو رہی ہو گی محض آپ کی ذاتی رائے ہے بلکہ میرے نزدیک یہ ایک الزام بغیر ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ جو شخص عورت سے بات کرنے کے لیے اس لیے الگ کیا گیا ہو کہ عورت جنسی خواہش ابھارنے کا ایک ذریعہ ہے اس کے دل و دماغ پہ ہر وقت یہی بات چھائی رہے گی کیونکہ دوری سے شبہات و تحفظات میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اگر ایک شخص کا انٹرکشن روزانہ کی بنیاد پر جنس مخالف سے ہے اس کے یہ شبہات و خیالات اس شخص کی نسبت بہت کم ہونگے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔
حضرت آپ نے تو قرآن اور احادیث مبارکہ کی وہ تشریح کردی جو بڑے بڑے علامہ بھی نہ کرسکے۔ قرآن اور احادیث میں پردے کے واضح احکام کے باوجود آپ کا اس بات پر اصرار تعجب خیز ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو اپنی نیتیں ”صاف“ کرکے بھائی بہنوں کی طرح ایک ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ جہاں تک اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنگ جمل کی بات ہے تو اس وقت وہ ایک پورے لشکر کی سپہ سالاری کررہی تھی، اور ایک کجاوے میں اپنے اعلیٰ و ارفع تشخص اور مقام کے ساتھ تشریف فرما تھیں لہذا اس کو ایسے منظر نامے کے لیے بطورِ مثال پیش کرنا حماقت ہی ہے۔ معذرت چاہوں گا لیکن آپ کے اس بےربط مثال پر اور کوئی مناسب لفظ مل نہیں رہا۔ اسی طرح پردے کے دوسری جانب بیٹھ کر صحابہ کے ساتھ اہم امور اور سیرت النبیﷺ و احادیث مبارکہ سے متعلق گفتگو کرنا بھی آپ کے لیے بطورِ دلیل نہیں ہوسکتے۔
پھر بھی اگر آپ کو قرآن و احادیث کے برخلاف کچھ معاشرتی انقلابات کا شوق ہے تو اسے پورا کرلیجیے۔ میں منع نہیں کرسکتا۔
 
Top