اصلاحِ سخن : لہجے کو تیرے دیکھا یہ حاجت نہیں رہی

استاتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے

مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن

لہجے کو تیرے دیکھا تو حاجت نہیں رہی
کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
مردہ سا ہو گیا ہے یہ تہذیب کا بدن
اس کے لہو میں اب وہ حرارت نہیں رہی
اب تو بہار آئے نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
اب میکدے میں باقی نہیں رسمِ مے کشی
زندہ وہ بادہ خواروں کی صحبت نہیں رہی
اب بھی محبتوں کا تو قائم ہے سلسلہ
لیکن وہ سوزِ رفتہ وہ شدت نہیں رہی
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
لہجے کو تیرے دیکھا تو حاجت نہیں رہی
کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی
۔۔۔دیکھا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
لہجے کو تیرے دیکھ کے حاجت نہیں رہی
کیا جا سکتا ہے

اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
۔۔۔درست اور اچھا لگ رہا ہے یہ شعر

مردہ سا ہو گیا ہے یہ تہذیب کا بدن
اس کے لہو میں اب وہ حرارت نہیں رہی
۔۔۔'یہ' بھرتی کا لگ رہا ہے۔

اب تو بہار آئے نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
۔۔۔'تو' کا طویل کھینچا جانا روانی متاثر کرتا ہے۔ اسے یک حرفی ہی استعمال کرنا چاہیے۔

اب میکدے میں باقی نہیں رسمِ مے کشی
زندہ وہ بادہ خواروں کی صحبت نہیں رہی
۔۔۔باقی میں ی کا گرنا اچھا نہیں لگ رہا۔
الفاظ کی نشست بدل کر دیکھیں

اب بھی محبتوں کا تو قائم ہے سلسلہ
لیکن وہ سوزِ رفتہ وہ شدت نہیں رہی
۔۔۔شعر بھی پچھلے سبھی اشعار کی طرح اچھا ہے۔ اور درست بھی ہے ماشاء اللہ
 
تبدیلیوں کے بعد دوبارہ پیشِ خدمت ہے

لہجے کو تیرے دیکھ کے حاجت نہیں رہی
کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
آئے بہار اب ،یا نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
باقی نہیں ہے میکدے میں رسمِ مے کشی
زندہ وہ بادہ خواروں کی صحبت نہیں رہی
اب بھی محبتوں کا تو قائم ہے سلسلہ
لیکن وہ سوزِ رفتہ وہ شدت نہیں رہی
 

الف عین

لائبریرین
محبت سناش؟ غالباً شناس کہنا چاہ رہے ہیں
مطلع میں کس بات کی حاجت نہیں رہنے کی بات ہے؟ واضح نہیں
آئے بہار اب ،یا نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
'یا نہ آئے' میں یا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں، اسے 'کہ نہ آئے' کیا جا سکتا ہے
کیونکہ میں کہ کا 'کے' کی طرح تقطیع ہونا بھی اچھا نہیں لگتا
اب مے کدے سے آٹھ بھی چکی رسمِ مے کشی
کیسا مصرع رہے گا؟
دوسرے مصرع میں بھی 'زندہ' کی نشست بدل دیں، یہ َسوال بھی اٹھتا ہے کہ پھر مے کدے میں کیا ہونے لگا ہے؟
 
محبت سناش؟ غالباً شناس کہنا چاہ رہے ہیں
مطلع میں کس بات کی حاجت نہیں رہنے کی بات ہے؟ واضح نہیں
آئے بہار اب ،یا نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
'یا نہ آئے' میں یا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں، اسے 'کہ نہ آئے' کیا جا سکتا ہے
کیونکہ میں کہ کا 'کے' کی طرح تقطیع ہونا بھی اچھا نہیں لگتا
اب مے کدے سے آٹھ بھی چکی رسمِ مے کشی
کیسا مصرع رہے گا؟
دوسرے مصرع میں بھی 'زندہ' کی نشست بدل
جی سر بہت شکریہ میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں
 
اصلاح کے بعد دوبارہ پیشِ خدمت ہے

پہلا سا درد پہلی سی وحشت نہیں رہی
لگتا ہے جیسے تجھ سے محبت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
آئے بہار اب ، کہ نہ آئے یہ غم نہیں
یوں بھی ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
اب بھی محبتوں کا تو قائم ہے سلسلہ
لیکن وہ سوزِ رفتہ وہ شدت نہیں رہی
بدلا ہے اس مزاج سے عالم کا یہ نظام
عہدِ کہن کی کوئی روایت نہیں رہی
 

عظیم

محفلین
شناس ابھی بھی درست نہیں ہوا۔

آئے بہار اب ، کہ نہ آئے یہ غم نہیں
یوں بھی ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
۔۔دوسرے مصرع میں 'بھی' کو طویل کھینچنا مجھے یہاں اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کے علاوہ پہلے مصرع میں 'غم نہیں' ہے تو دوسرے میں 'یوں بھی' بے معنی ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔
یوں ہے کہ اب بہار کی عادت نہیں رہی
'اب بہار' میں تنافر ہے صرف مثال کے لیے لکھ رہا ہوں ۔ آپ خود الفاظ بدل۔کر کوشش کریں
نیا شعر بھی مجھے درست لگ رہا ہے۔ باقی سب پر تو بات ہو چکی ہے۔
 
Top