امریکا اور طالبان میں معاہدے پر اتفاق ہوگیا

سید عمران

محفلین
۹،۱۱ حملے تو شائد مریخ میں گھس کر کئے گئے تھے۔ جواب میں جب القائدہ کو پناہ دینے والے طالبان کی ٹھکائی ہوئی تو الزام لگا دیا امریکہ ہمیں ناحق مار رہا ہے۔
وہ حملے بھی آپ نے خود کرائے تھے۔۔۔
یاد نہیں ملا عمر نے کہا تھا ثبوت دیں ہم خود اسامہ کو تمہارے حوالے کرتے ہیں۔۔۔
ثبوت دینا تو یاد نہیں، جوتے کھانا یاد رہ گیا!!!
 

جاسم محمد

محفلین
یاد نہیں ملا عمر نے کہا تھا ثبوت دیں ہم خود اسامہ کو تمہارے حوالے کرتے ہیں۔۔۔
یعنی طالبان نے عالمی طاقت امریکہ سے مقابلہ کرکے لاکھوں مسلمان شہید کروانا قبول کر لیا لیکن ایک اسامہ بن لادن (جو افغان شہری بھی نہیں تھا) اس کے حوالہ کرکے جنگ روکنے کو ترجیح نہ دی۔
اس ہٹ دھرمی اور ضد کا فائدہ کیا ہوا؟ اسامہ بن لادن تو ۱۰ سال بعد امریکہ نے پھر بھی ایبٹ آباد حملے میں ہلاک کر ہی دیا۔ یہی ۲۰۰۱ میں اس کو امریکہ کے حوالہ کر دیتے تو خطے کا آج یہ حال تو نہ ہوتا۔
 

جان

محفلین
امن معاہدہ محض اک خواب اور سراب ہے۔ امریکا محض 'باعزت' واپسی چاہتا ہے، اور بس! ٹرمپ کا یہ بیان کہ کروڑوں افراد کو مار دیا جائے تو امن ہو جائے گا، بہت کچھ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ دراصل، امریکا کو افغانستان میں قریب قریب ہر حوالے سے شکست ہوئی ہے۔ اب امریکا بہادر کسی ملک میں فوجیں اُتارنے سے قبل ایک سو ایک مرتبہ غور کرے گا۔ شاید وہ زمانہ گزر چکا جب کسی ملک میں فوجیں اُتار کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے جاتے تھے۔
امریکہ یقیناً باعزت واپسی چاہتا ہے کیونکہ طول جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں خاص کر اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب خطے کی ڈائنامکس، ملکی رائے عامہ اور قومی مفادات تبدیل ہو چکے ہوں۔ امریکن پالیسی ہمارے ملک کی پالیسیوں کی طرح بوسیدہ اور جذباتی پالیسی نہیں ہے کہ بس اسی سے چپکے رہو چاہے ذلت ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ امریکہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ چائنا اب افغانستان سے بڑا دشمن ہے، طول پکڑنے کی وجہ سے عوامی دلچسپی بھی افغان جنگ میں نہیں رہی کیونکہ اب وہ حالات بھی نہیں رہے، اس مسئلے سے زیادہ بڑے اور نئے مسائل سامنے آ رہے ہیں، تو ہر حال میں قومی مفادات اولین ترجیح ہے۔ اگر امریکہ کو کسی بھی ملک پہ حملہ کرنا اس کے مفادات کے عین مطابق ہوا تو وہ اس سے گریز نہیں کرے گا۔ ہم بطور امت مسلمہ اس کو جذبات کی نظر سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ اگر اس کو سٹیٹ پالیسی کے طور پر دیکھا جائے تو یہ بہترین پالیسی معلوم پڑتی ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
امریکہ یقیناً باعزت واپسی چاہتا ہے کیونکہ طول جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں خاص کر اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب خطے کی ڈائنامکس، ملکی رائے عامہ اور قومی مفادات تبدیل ہو چکے ہوں۔ امریکن پالیسی ہمارے ملکوں کی بوسیدہ اور جذباتی پالیسی نہیں ہے کہ بس اسی سے چپکے رہو چاہے ذلت ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ امریکہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ چائنا اب افغانستان سے بڑا دشمن ہے، طول پکڑنے کی وجہ سے عوامی دلچسپی بھی افغان جنگ میں نہیں رہی کیونکہ اب وہ حالات بھی نہیں رہے، اس مسئلے سے زیادہ بڑے اور نئے مسائل سامنے آ رہے ہیں، تو ہر حال میں قومی مفادات اولین ترجیح ہے۔ اگر امریکہ کو کسی بھی ملک پہ حملہ کرنا اس کے مفادات کے عین مطابق ہوا تو وہ اس سے گریز نہیں کرے گا۔ ہم بطور امت مسلمہ اس کو جذبات کی نظر سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ اگر اس کو سٹیٹ پالیسی کے طور پر دیکھا جائے تو یہ بہترین پالیسی معلوم پڑتی ہے۔
امریکا نے اپنے مفادات کے پیش نظر درست حکمت عملی اختیار کی ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں۔
 

آصف اثر

معطل
۹،۱۱ حملے تو شائد مریخ میں گھس کر کئے گئے تھے۔ جواب میں جب القائدہ کو پناہ دینے والے طالبان کی ٹھکائی ہوئی تو الزام لگا دیا امریکہ ہمیں ناحق مار رہا ہے۔
پہلی بات تو کسی متنازعہ حملے کا مکمل الزام دوسروں پر تھوپنا درست نہیں۔
دوسری بات کہ کیا عراق اور دیگر مسلمان اور غیر مسلم ملکوں پر چڑھائی بھی القاعدہ کی وجہ سے ہوئی تھی؟
کیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے اور دوسروں کا انسانیت کا درس دیتے ہوئے عوام کا قتلِ عام جائز ہے؟
کیا دوسرے ممالک میں خانہ جنگیاں کرانا درست ہے؟
کیا محض اس بہانے کے ہم محفوظ رہیں باقی سب کو جانور سمجھ کر صفحۂ ہستی سے مٹانا جائز ہے؟
 

جان

محفلین
امریکہ انسانیت سوز اقدامات کرے: مسلمانوں اور انسانیت کا جانی دشمن
ہم عین وہی عمل دہراہیں: جہاد فی سبیل اللہ

ظلم ہر حال میں ظلم ہے چاہے امریکہ کرے، مسلمان کرے، یہودی کرے، ہندو کرے یا کسی بھی مذہب کا پیروکار کرے اس کی توجیح نہیں دی جا سکتی۔ امریکہ نے افغانستان یا دیگر مسلمان ملکوں پہ حملہ کیا، ظلم کیا۔ افغانستان میں امریکہ کے بھی آنے سے قبل جو خانہ جنگی چل رہی تھی وہ بھی ظلم ہے اور اس کی موجودگی میں جو چل رہی ہے وہ بھی ظلم ہے۔ امریکہ نے تو ورلڈ وار ٹو کے بعد دنیا پہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائی ہے اور خاص کر کولڈ وار ارا کے بعد۔ افغانستان میں ان سٹیبیلیٹی ورلڈ وار ٹو سے بھی بہت پہلے کی داستان ہے، اگر بھولے نہ ہوں تو غزنوی غوری سے شروع ہیں جائیں اور چلتے چلے جائیں اور مذہب کی بنیاد پر تخصیص کر کے خود کو ہر معاملہ میں درست ثابت کرتے جائیں۔
 

سین خے

محفلین
امریکہ انسانیت سوز اقدامات کرے: مسلمانوں اور انسانیت کا جانی دشمن
ہم عین وہی عمل دہراہیں: جہاد فی سبیل اللہ

ظلم ہر حال میں ظلم ہے چاہے امریکہ کرے، مسلمان کرے، یہودی کرے، ہندو کرے یا کسی بھی مذہب کا پیروکار کرے اس کی توجیح نہیں دی جا سکتی۔ امریکہ نے افغانستان یا دیگر مسلمان ملکوں پہ حملہ کیا، ظلم کیا۔ افغانستان میں امریکہ کے بھی آنے سے قبل جو خانہ جنگی چل رہی تھی وہ بھی ظلم ہے اور اس کی موجودگی میں جو چل رہی ہے وہ بھی ظلم ہے۔ امریکہ نے تو ورلڈ وار ٹو کے بعد دنیا پہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائی ہے اور خاص کر کولڈ وار ارا کے بعد۔ افغانستان میں ان سٹیبیلیٹی ورلڈ وار ٹو سے بھی بہت پہلے کی داستان ہے، اگر بھولے نہ ہوں تو غزنوی غوری سے شروع ہیں جائیں اور چلتے چلے جائیں اور مذہب کی بنیاد پر تخصیص کر کے خود کو ہر معاملہ میں درست ثابت کرتے جائیں۔

سو فیصد متفق۔ امریکہ نے تو وحشیانہ روش اپنائی ہوئی ہے لیکن مسلمانوں نے بھی کچھ اچھا نہ کیا۔ جس نے برا کیا، اس نے برا کیا۔ لاکھوں شہری شہید ہوئے۔ جس نے کیا، ظلم کیا۔ ظلم پر کیوں پردہ ڈالا جائے؟

پچھلے سال افغان علماء نے افغان طالبان کے خود کش دھماکوں کے خلاف فتوی دیا تھا۔ اس کانفرنس میں افغان علماء کے علاوہ پاکستان اور انڈونیشاء سے بھی علماء شریک ہوئے تھے۔ افغان طالبان نے علماء کو روکنے کی بھی کوشش کی تھی۔

https://aalmiakhbar.com/archives/48850

اس کے کچھ عرصے بعد افغانستان میں بھی علماء نے فتوی دیا تھا اور اس اجتماع پر خودکش حملہ ہو گیا تھا۔

کابل: افغان علماء کے اجتماع پر خودکش حملہ، 7 جاں بحق - World - Dawn News
 

جان

محفلین
افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد پاور ویکیوم پیدا ہونے کے سبب ظلم کی ایک نئی ویو آنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس سے افغانستان کے شہری تو متاثر ہونگے ہی تاہم خطرہ بدستور موجود ہے کہ اس سے پاکستان بھی متاثر ہو گا۔ اللہ ہر آنے والے برے وقت سے بچائے۔ آمین۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلی بات تو کسی متنازعہ حملے کا مکمل الزام دوسروں پر تھوپنا درست نہیں۔
پہلے تو یہ کہ آپ امریکیوں سے زیادہ نہیں جانتے جن کے سیکورٹی اداروں کا بجٹ ہی پورے پاکستان کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔
دوسرا یہ کہ 9،11 حملے امریکی سر زمین پر ہوئے تھے۔ ان حملہ آوروں کی نقل و حرکت کو ٹریس کر کے اصل لیڈران تک پہنچنا کونسا مشکل کام تھا۔

دوسری بات کہ کیا عراق اور دیگر مسلمان اور غیر مسلم ملکوں پر چڑھائی بھی القاعدہ کی وجہ سے ہوئی تھی؟
نہیں وہاں اور وجوہات تھیں۔

کیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے اور دوسروں کا انسانیت کا درس دیتے ہوئے عوام کا قتلِ عام جائز ہے؟
کیا کمرشل ہوائی جہازوں کا استعمال کرتے ہوئے اور اسلام امن کا دین ہے کا درس دیتے ہوئے نہتے شہریوں کا قتال جائز ہے؟

کیا دوسرے ممالک میں خانہ جنگیاں کرانا درست ہے؟
کیا دوسرے ممالک میں دہشت گردی کرانا درست ہے؟

کیا محض اس بہانے کے ہم محفوظ رہیں باقی سب کو جانور سمجھ کر صفحۂ ہستی سے مٹانا جائز ہے؟
کیا محض امارت اسلامی قائم کرنے کی خاطر پوری دنیا سے لڑنا جائز ہے؟
 

سین خے

محفلین
رائے دینے کا سب کو حق حاصل ہے۔ تکرار لگتی ہے تو سو بار تکرار لگے۔ جن کو کسی کے مراسلے پر اعتراض ہے وہ رپورٹ کر کے مراسلے حذف کرا دیں۔
 
یعنی طالبان نے عالمی طاقت امریکہ سے مقابلہ کرکے لاکھوں مسلمان شہید کروانا قبول کر لیا لیکن ایک اسامہ بن لادن (جو افغان شہری بھی نہیں تھا) اس کے حوالہ کرکے جنگ روکنے کو ترجیح نہ دی۔
اس ہٹ دھرمی اور ضد کا فائدہ کیا ہوا؟ اسامہ بن لادن تو ۱۰ سال بعد امریکہ نے پھر بھی ایبٹ آباد حملے میں ہلاک کر ہی دیا۔ یہی ۲۰۰۱ میں اس کو امریکہ کے حوالہ کر دیتے تو خطے کا آج یہ حال تو نہ ہوتا۔
تاریخ درست کرلیجئے یا پھر اسے پھریری بنا کر استعمال کرنے کے عواقب سے واقفیت حاصل کر لیجئے - طالبان پہلے ہی اسامہ کی حوالگی کے سلسلے میں ثبوتوں کا مطالبہ کر چکے تھے جو کہ تہذیب کے نام پر طاغوت کے غلام ابن غلام حکمرانوں کے لیئے بھی ایک معیار ہے۔ اسامہ کو مار دیا گیا ہے کا دعویٰ کرنے والے آج بھی ایسا کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے امریکہ کو اپنے مطالبات کے مطابق معاہدہ کرنے پر راضی کر کے ثابت کیا ہے کہ اگر آپ حق پر ہیں اور آپ کا موقف واضح ہے تو سپرطاقتیں بھی آپ سے آپ کی شرائط پر گفتگو کریں گی اور معاہدہ کرنے پر مجبور ہونگی لیکن اگر بے پیندے کے لوٹے ہیں جو ہر روز نیا صنم تراش کر اس کی پوجا کے چکروں میں پڑنا چاہیں گے تو پھر کبھی کوئی چور حاکم ہوگا اور کبھی غیر مسلم مسلمان کا بھیس بدل کر آپ کو بے وقوف بنائیں گے ۔ جب تک لا الہ الااللہ اور محمد رسول اللہ کے اصل مفہوم سے آشنا ہو کر اپنا سر صرف اس ایک ہستی کے سامنے اطاعت کے لیئے جھکائے رکھیں گے کسی کے آگے سر نہ جھکے گا ۔ دوسری صورت میں ہر حاکم نمرود و شداد کا پیروکار ملے گا۔ و نعوذ باللہ من ذلک
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری جانب طالبان نے امریکہ کو اپنے مطالبات کے مطابق معاہدہ کرنے پر راضی کر کے ثابت کیا ہے کہ اگر آپ حق پر ہیں اور آپ کا موقف واضح ہے تو سپرطاقتیں بھی آپ سے آپ کی شرائط پر گفتگو کریں گی اور معاہدہ کرنے پر مجبور ہونگی
اس میں طالبان کا کیا کمال ہے؟ یہ تو امریکہ کی بدقسمتی ہے کہ اسے ٹرمپ جیسا ٹرول حکمران ملا ہے۔ جو اپنے ہی سیکورٹی اداروں کے خدشات رد کرتے ہوئے اگلے الیکشن سے پہلے پہلے کسی بھی صورت امریکی افواج افغانستان سے نکالنا چاہتا ہے۔ تاکہ اس "کامیابی " کو عوام میں بیچ کر دوبارہ صدر بن سکے۔
 

آصف اثر

معطل
آصف اثر آپ اوپر میرے مراسلہ کو منفی ریٹنگ دینا بھول گئے ہیں :)
میں خود منفی ریٹنگ دینے میں بہت اختیاط سے کام لیتا ہوں، یہ تو ایک جھلک دکھانا مقصود تھا کہ مجھے جو منفی ریٹنگ دی جارہی ہو وہ آپ ہی کی جانب سے آشکار ہو۔ اور شکر ہے کامیاب رہا۔:)
 
آخری تدوین:
یہ تو ایک جھلک دکھانا مقصود تھا کہ مجھے جو منفی ریٹنگ دی جارہی ہو وہ آپ ہی کی جانب سے آشکار ہو۔
برادرم، آئندہ ایسی جھلک نہ دکھائیں تو مہربانی ہو گی، کیونکہ یہ درجہ بندی کے نظام کے غیر مناسب استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔ :) :) :)
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

خطے ميں امريکی فوج کی موجودگی اور امن مذاکرات کی کامياب تکميل کے بعد فوجی انخلا کے حوالے سے ہماری واضح کردہ خواہش کا بنيادی مرکز اور سوچ کبھی بھی يہ نہيں تھی کہ ہم اپنی کاميابی کا جشن منانے کے مواقع تلاش کريں، لامتناعی مدت کے ليے علاقوں پر قبضہ جمائيں يا افغان معاشرے کے کسی طبقے کو صفحہ ہستی سے مٹا ديں۔

ہمارے واضح کردہ اہداف ہمشيہ يہی تھے کہ ايک ايسے افغانستان کے حصول کی جانب کاوشيں کريں جہاں دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کو فعال رہنے کا موقع ميسر نا ہو۔

افغانستان کے ليے امريکہ کے خصوصی نمايندے زلمے خليل زاد جنھوں نے کابل ميں ميڈيا کے نمايندوں سے ملاقات کی ہے، اپنے بيان ميں واضح کيا کہ "يہ امن کے ليے ايک موقع ہے" اور ان کی يہ توقع ہے کہ افغان شہری اس موقع سے مثبت طريقے سے اور ہنگامی بنيادوں پر فائدہ اٹھائيں گے۔

"اس موقع سے فائدہ اٹھائيں۔ ہمارے پاس موقع ہے کہ مستقبل ميں سانحات سے نجات پائيں، اور چاليس برس سے جاری جنگ کو اختتام تک پہنچائيں اور ميں سب کو تاکيد کروں گا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائيں۔ اور مجھے اميد ہے کہ وہ ايسا ہی کريں گے"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top