وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی

اعلی ترین عسکری کمان میں رد و بدل کا اختیار فوج اپنے پاس کیوں نہیں رکھ لیتی؟ پورا ملک آپ کا ہے لیکن اعلی عہدوں میں ترقی کیلئے سویلین کی خودساختہ محتاجی پیدا کر رکھی ہے۔ مخولیہ جمہوریت بند کرو۔
دنیا کی آنکھوں میں مٹی ڈالنا بھی ضروری ہے۔
 

آصف اثر

معطل
اعلی ترین عسکری کمان میں رد و بدل کا اختیار فوج اپنے پاس کیوں نہیں رکھ لیتی؟ پورا ملک آپ کا ہے لیکن اعلی عہدوں میں ترقی کیلئے سویلین کی خودساختہ محتاجی پیدا کر رکھی ہے۔ مخولیہ جمہوریت بند کرو۔
کل آپ ہی روئیں گے پھر۔
 

جاسم محمد

محفلین
کسی بھی شخص پر اضافی ذمہ داری ڈالنا درست نہیں۔ اصولا نیا آرمی چیف آنا چاہئے تھا۔
البتہ پاکستان کی مغربی اور مشرقی سرحد پر اس وقت شدید بحران ہے۔ اور اگر جنرل باجوہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس بحران سے ملک کو نکال سکتے ہیں تو ایکسٹینشن دینے میں کوئی حرج نہیں۔ یقینا یہ فیصلہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی مشاورت سے ہی طے ہوا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہور دس (ووٹ) کنی عزتاں چائدیاں تینوں !!

او پئے جا ن لیگ دا جمہوری انقلاب:
جج ویڈیو اسکینڈل؛ شہبازشریف نے دوران تفتیش سارا معاملہ مریم نواز پر ڈال دیا - ایکسپریس اردو
ن لیگیوں کو بھی ذرا ہوش کے ناخن لینے چاہئے کہ جنرل جیلانی اور ضیاء الحق کی نرسری میں کاشت کیا گیا پودا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف انقلاب لائے گا؟
اور وہ بھی ایک کرپٹ منی لانڈر سیاسی خاندان کی قیادت میں؟ جس کا بھانڈا پوری دنیا نے پاناما لیکس میں پھوڑ دیا تھا؟
 

جاسم محمد

محفلین
بطور ادارہ، آرمی کا ڈسپلن مثالی رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آرمی چیف اپنی پالیسیاں اور حکمت عملی بنانے میں آزاد نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا کے بعد جنرل اسلم بیگ نے ضیا کی پالیسیوں سے کافی حد تک کنارا کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی وضع کی۔
پھر اسلم بیگ کے بعد جنرل آصف نواز آرمی چیف بنا جس کی وفات اپنے عہدے کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی ہوگئی۔ بینظیر کا مؤقف تھا کہ جنرل آصف نواز کو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے زہر دیا، یہی بیان مرحوم کی بیوہ کا بھی تھا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ وہ پیپلزپارٹی اور افغانستان کے حوالے سے مختلف پلان رکھتے تھے۔
آصف نواز کے بعد جنرل وحید کاکڑ آرمی چیف بنے، جس نے نوازشریف اور اسحاق ڈار کو فارغ کرتے ہوئے معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنایا اور پھر بینظیر کو حکومت تھما دی۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں پہلا بنیادی ٹرن بھی اسی وقت آیا۔
وحید کاکڑ کے بعد جہانگیر کرامت آرمی چیف بنے۔جہانگیر کرامت کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے حوالے سے واضح سوچ تھی جس پر ردعمل کے طور پر نوازشریف نے اسے فارغ کرکے مشرف کو چیف بنادیا۔
مشرف کی پالیسی بھی مختلف نکلی۔ وہ بنیادی طور پر ایگریسو اور جنگجو تھا، کارگل کے ذریعے حالات گرم کئے، پھر نوازشریف کو فارغ کیا، پھر افغانستان پر نئی پالیسی بنالی۔ مشرف پر بہت کچھ لکھا جاچکا، اس لئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
مشرف کے بعد جنرل کیانی آرمی چیف بنا۔ اس کی پالیسی یکسر مختلف تھی، دہشتگردی کے حوالے سے بھی اور داخلی حوالے سے بھی۔ سیاسی طور پر بھی جنرل کیانی بالکل مختلف سوچ کا حامل تھا۔
پھر آیا راحیل شریف۔ دہشتگردی کے حوالے سے تو جنرل کیانی کی پالیسی کا تسلسل رکھا، بلکہ اگلے مرحلے تک لے گیا، سیاسی طور پر بھی ایک منفرد پالیسی اپنائی۔ راحیل شریف کے دور میں فوج کی امیج بلڈنگ پر بھرپور توجہ دی گئی۔
پھر جنرل باجوہ آیا۔ جنرل باجوہ کی سوچ بالکل واضح تھی کہ سیاسی حوالے سے فوج اپنی پسند یا ناپسند کسی طور پر بھی نافذ نہیں کرے گی۔ احتساب کے نام پر ڈیلیں کروانے کی روایت بھی جنرل باجوہ نے ختم کردی۔ یہی وجہ ہے کہ شریف اور زرداری خاندان ابھی تک جیلوں میں ہے۔ جنرل باجوہ کی سب سے اہم پالیسی دفاعی حوالے سے تھے۔ اس پالیسی کے تحت تقریباً دو دہائیوں کے بعد انڈیا کو نئے سرے سے کشمیر میں انگیج کیا گیا، افغانستان میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کی گئی، تحریک طالبان کو ختم کرکے افغان طالبان کو پروموٹ کیا گیا، خالصتان تحریک کو دوبارہ زندہ کیا گیا ۔ ۔ ۔ حتی کہ پہلی مرتبہ بھارتی اشتعال انگیزیوں کا باقاعدہ جواب دیتے ہوئے ان کا جہاز گرایا گیا۔
اب اس تناظر میں دیکھیں تو نئے آرمی چیف کامطلب نئی پالیسی ہوتا جو کہ پاکستان شاید اس وقت افورڈ نہیں کرسکتا۔
کشمیر کے تناظر میں تو بالکل بھی نہیں۔
اس حوالے سے باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ پوری طرح سے درست اور جائز ہے
باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
تسلسل کیوں ضروری تھا؟
19/08/2019 انیق ناجی

جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع ہو چکی، اب یہ بحث ختم ہوئی۔ آئیڈیل دنیا میں اصول کیا ہوتے ہیں وغیرہ جیسی بحث کو اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور حقیقت کو ویسا دیکھنے کی کوشش کریں جیسی وہ ہے۔ ہمارے ملک میں آرمی چیف کا عہدہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے، یہ اصولی بحث نہیں حقیقت ہے۔ اس پوزیشن پر موجود شخصیت کا انداز فکر، دنیا کو دیکھنے کا انداز، حتیٰ کہ اس کی پسند ناپسند بھی ملکی پالیسی پر نظر انداز ہوتی ہے۔ جو لوگ اس توسیع کو محض عمران خان کا انتخاب یا مجبوری سمجھتے ہیں، وہ اس معاملے کو بہت محدود کر دیتے ہیں۔

سازشی تھیوری یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ عمران خان کو غیبی امداد ملی لہذا یہ اس کا جوابی شکریہ ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال خود جنرل باجوہ کی پہلی تقرری ہے۔ جس نے ان کو پہلی بار اس آفس میں بٹھایا تھا وہ تو جیل میں پڑا ہے۔ اس سے قبل کی مثال جنرل اشفاق پرویز کیانی ہے جن کو توسیع، آصف زرداری یا یوسف رضا گیلانی نے دی تھی مگر کیا ان دونوں کو اس کے بدلے کوئی ریلیف مل گیا تھا ؟ جواب نہیں میں ہے۔ اس سے قبل پرویز مشرف جس نے اپنے آپ کو خود ہی توسیع دی تھی اس کو بھی نواز شریف نے منتخب کیا تھا، پھر کیا ہوا؟ لہذا یہ سوچنا یا سمجھنا کہ عمران خان کی مدد ہوئی اور جواب میں انہوں نے مدد کر دی، بچوں والی سوچ ہے۔ ان عہدوں پر کام کرنے والے اگر چاہیں بھی تو اس طرح ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکتے۔

آج کل کے حالات میں تو ویسے بھی یہ توسیع والا معاملہ محض عمران خان کی خواہش پر نہیں تھا۔ کیا گورنر سٹیٹ بنک شبر زیدی یا مشیر خزانہ حفیظ شیخ عمران خان کا انتخاب تھے ؟ ان کا انتخاب تو اسد عمر تھے جو آج کل مکیش کے پرانے گانے سنتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر اپنے حل کی جانب چل پڑا ہے، پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں پسند آئے نہ آئے، اس مسئلے کو اب ایک یا دو سال میں حل ہونا ہے۔ امریکہ کی افواج کا افغانستان سے انخلا کا مرحلہ بھی اگلے دو برس میں طے پائے گا۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بھی تین سالہ ہے جس میں سے چند ماہ گزر چکے۔ پاکستان کی معیشت کو ڈاکومنٹ کرنا یا تاجر کو راضی کرنا کہ وہ اپنے کھاتے کھول دے، پل صراط سے گزرنے کے برابر ہے، دھشت گرد تنظیموں کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ وہ تاریخی موقع ہے جس میں پاکستان کو ان راستوں پر سے گزرنا ہے جو کم سے کم الفاظ میں مشکل ترین ہوں گے۔ خصوصاً مسئلہ کشمیر کا حل جو میرے گمان کے مطابق طے ہو چکا ہے۔ اس موقع پر ایک کلیدی منصب پر کسی نئی شخصیت کا آنا بہرحال شک و شبے کی گنجائش پیدا کر سکتا تھا۔ فرض کریں کہ اگر مسئلہ کشمیر کے کسی حل پر اتفاق ہے تو وہ ان ہی شخصیات کے بیچ ہے جو اس وقت آفس میں موجود ہیں، ان میں سے کسی ایک کا جانا اور نئی شخصیت کا داخل ہونا اس تمام پراسس کو راستے سے ہٹاتا نہیں تو کوئی نئی جہت دے سکتا تھا جس کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں۔

موجودہ فوجی قیادت کا تسلسل در اصل موجودہ پالیسی کا تسلسل ہے،عمران خان کی خواہش نہیں۔ میں ایک قدم آگے بڑھ کے کہتا ہوں کہ یہ عمران خان کی خواہش سرے سے تھی ہی نہیں بلکہ حالات کا جبر تھا۔ اب جو لوگ سوچ رہے ہیں کہ اس قدم سے عمران خان کی حکومت کو تین سالہ ضمانت مل گئی، وہ بھی جذبات ہی سے کام لے رہے ہیں۔ کس طرح سے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

شروع کریں ذوالفقار علی بھٹو سے جس نے نئے پاکستان کا نعرہ پہلی بار لگایا تھا۔ وہ ایک شکست خوردہ آدھے ملک کے وزیر اعظم بنے اور اسے نئے پاکستان کا نام دیا، اسے آئین دیا، پانچ سال ایک ایسی فوج کے ساتھ گزارے جو شکست کا زخم لئے بیٹھی تھی اس کے باوجود بھی بھٹو صاحب نے کسی کو سزا تو کیا دلوانی تھی، حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے تک کی جرات نہ کر سکے۔ اپنی مرضی کا ایک ایسا چیف نکال کر لائے جو ان کی نظر میں بے ضرر ترین آدمی تھا، بھٹو کو یقین تھا کہ ضیاء الحق، ان کی شخصیت کا دیوانہ ہے۔ تقرری ہوئی پھر کیا ہوا ؟

جنرل اسلم بیگ سترہ اگست کے حادثے کے نتیجے میں چیف بنے، انتخابات ہوئے، بادل ناخواستہ بے نظیر بھٹو کو قبول کرنا پڑا، تمغہ جمہوریت حاصل کیا اور بے نظیر کو چلتا کیا۔ اب آئے جنرل آصف نواز جن کو قدرت نے مہلت نہیں دی، نواز شریف جب آئے تھے، اس وقت مسلح افواج کے سربراہ کی تقرری کا اختیار صدر مملکت کے پاس تھا جو غلام اسحاق خان تھے، ان کا انتخاب جنرل وحید کاکڑ بنے۔ نواز، اسحاق لڑائی کے بعد اسمبلی توڑی گئی جو سپریم کورٹ نے بحال کردی، ڈیڈ لاک پیدا ہوا، جنرل وحید کاکڑ نے اپنا کردار ادا کیا جس کے بعد غلام اسحاق خان کو نواز شریف کے ساتھ جانا پڑا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جنرل کاکڑ نے غلام اسحاق کے لئے سسٹم نہیں لپیٹا۔ الیکشن ہوئے بے نظیر بھٹو آئیں، اور ان کر ساتھ فاروق لغاری، اب فاروق لغاری کا انتخاب بنے جنرل جہانگیر کرامت، یہ وہ جنرل تھے جن کے ہوتے ہوئے ہی لغاری نے بے نظیر کی حکومت توڑی، الیکشن ہوئے، نواز شریف آئے، صدر سے اسمبلی توڑنے کے اختیار سمیت بہت کچھ واپس لے لیا جس میں مسح افواج کے سربراہ کا تقرر بھی شامل تھا، اب نواز، لغاری لڑائی شروع ہوئی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری ایک طرف تھے، نواز شریف دوسری جانب۔ لغاری کو امید تھی کہ جہانگیر کرامت جو ان کا انتخاب تھے ان کے ساتھ مل کر نواز شریف کا تختہ الٹ دیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا، اور لغاری کو مستعفی ہونا پڑا، سجاد علی شاہ کو خود ان کے ساتھی ججوں نے فارغ کر دیا۔

جنرل جہانگیر کرامت نے ملکی معاملات کو چلانے کے لئے ایک نیشنل سیکیورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی جس کے بعد نواز شریف نے ان سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ یعنی وہ جنرل جہانگیر کرامت جو فاروق لغاری کا انتخاب تھے اور جس نے لغاری، سجاد علی شاہ کے مقابلے میں نواز شریف کا ساتھ دیا تھا، وقت بدلنے پر محض ایک بیان پر قربان کر دیے گئے۔

اب آئے پرویز مشرف جن کا انتخاب نواز شریف نے تازہ ملی آئینی طاقت کے بعد کیا تھا، پھر کیا ہوا؟ اس کے بعد کے جنرلز کی مثالیں کالم کے آغاز میں دے چکا ہوں۔

مختصر ترین الفاظ میں تاریخ دہرانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ موجودہ توسیع کے بارے میں یہ سمجھنا کہ پہلے عمران خان کی مدد ہوئی اور اب انہوں نے جواب دے کر اپنی حکومت مستحکم کر لی ہے۔ محض سادہ لوحی ہے۔ جس نے جانا ہوتا ہے، وہ چلا جاتا ہے اس کا کوئی براہ راست تعلق کسی کی تقرری یا توسیع سے نہیں ہوتا۔ بلکہ دوسری طرح سے دیکھیں تو اس توسیع کے بعد عمران خان کمزور ہوئے ہیں کہ اب ان کے پاس فوجی قیادت کو آفر کرنے کے لئے مزید کچھ بچا ہی نہیں اور آخری تحفے کے بعد تو اولاد تک نظریں بدل جاتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انتہائی غلط فیصلہ ہے۔ ایسے ہی غلط فیصلوں کی داغ بیل جنرل ایوب کو توسیع دے کر ڈالی گئی تھی، جنرل ایوب اگر 1954ء میں ریٹائر ہو جاتا تو شاید اس ملک کی تاریخ بھی کچھ اور ہوتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرا خیال تھا کہ لہجے کے معمولی سے فرق کو یاردوستوں نے دل پر لے لیا ہوگا لیکن یہ تو بہت واضح اور انتہائی درستگی کی حد تک ’’پٹ‘‘ ہے۔:)
اگر اُس زمانے میں سوشل میڈیا ہوتا تو یہ "پٹ" ہفتوں مہینوں تک ٹاپ ٹرینڈ ہوتا۔ بہرحال ہم نے یہ لائیو سنا تھا اور بعد میں کافی عرصے تک سینہ گزٹ اور ٹی سٹال ٹاک کا موضوع بنا رہا۔ پی پی کے جیالے اس "پٹ" پر وہ کمال دھمال ڈالتے تھے کہ رہے نام اللہ کا۔ :)
 
باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن سے لیفٹینٹ جنرلز کی وہ لاٹ (23) جو پروموٹ ہوسکتی تھی میں سے 19 پروموشن کے حق سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔ جبکہ سنیارٹی پر اثر پڑنے والوں کی تعداد نامعلوم رہے گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پی ایس: جنرل ضیا کے جہاز پھٹنے اور لاش کی شناخت کے بارے میں بھی بہت سے لطیفہ نما واقعات اور چند "کثیفے" بھی مشہور ہوئے تھے، شاید کچھ لوگوں کو ابھی بھی یاد ہوں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن سے لیفٹینٹ جنرلز کی وہ لاٹ (23) جو پروموٹ ہوسکتی تھی میں سے 19 پروموشن کے حق سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔ جبکہ سنیارٹی پر اثر پڑنے والوں کی تعداد نامعلوم رہے گی۔
ن لیگ آج کل کر بڑی انصافین بنی ہوئی ہے۔ فوج تک میں انصاف کی باتیں کر رہی ہے۔ سب خیریت ہے نا؟
 

جاسم محمد

محفلین
انتہائی غلط فیصلہ ہے۔ ایسے ہی غلط فیصلوں کی داغ بیل جنرل ایوب کو توسیع دے کر ڈالی گئی تھی، جنرل ایوب اگر 1954ء میں ریٹائر ہو جاتا تو شاید اس ملک کی تاریخ بھی کچھ اور ہوتی۔
اس وقت ملک میں باجوہ ڈاکٹرائن نافذ ہے۔ اگر کوئی عام جمہوری وطن ہوتا تو آرمی چیف کے آنے جانے سے ملک کی اہم پالیسیوں پر کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔
البتہ یہ پاکستان ہے جس کی طویل تاریخ ہے کہ یہاں ہر آنے والا آرمی چیف اپنا منفرد نظریہ لا کر نافذ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا ناگزیر تھا۔ ان کے موجود رہنے سے کم از کم اگلے تین سال تک ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیاں یکدم تبدیل ہو جانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
یعنی داخلی محاذ پر سیاسی چوروں کو کوئی این آر او نہیں ملے گا جبکہ خارجی محاذ پر موجودہ پالیسیوں کا تسلسل قائم رہے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس وقت ملک میں باجوہ ڈاکٹرائن نافذ ہے۔ اگر کوئی عام جمہوری وطن ہوتا تو آرمی چیف کے آنے جانے سے ملک کی اہم پالیسیوں پر کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔
البتہ یہ پاکستان ہے جس کی طویل تاریخ ہے کہ یہاں ہر آنے والا آرمی چیف اپنا منفرد نظریہ لا کر نافذ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا ناگزیر تھا۔ ان کے موجود رہنے سے کم از کم اگلے تین سال تک داخلی اور خارجی پالیسیاں یکدم تبدیل ہو جانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
یعنی داخلی محاذ پر سیاسی چوروں کو کوئی این آر او نہیں ملے گا جبکہ خارجی محاذ پر موجودہ پالیسیوں کا تسلسل قائم رہے گا۔
درست، ہر ڈکٹیٹر بھی یہی کہتا رہا ہے ماضی میں تو باجوہ صاحب کو بھی دس بارہ سال مزید دے دیں، تین سالوں (سال کی جمع) سے کیا ہوگا۔
 
Top