آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

زیک

مسافر
فٹنس کے چکر میں مطالعہ پیچھے رہ گیا ہے۔ اکثر رات کو سونے سے پہلے آدھ گھنٹہ کوئی کتاب پڑھا کرتا تھا۔ لیکن اب سائیکلنگ سے آنے کے بعد اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ساقی فاروقی کی ہدایت نامہ برائے شاعر تقریباً پڑھ لی ہے۔ یہ تنقید کی کتاب ہے اور بہت اچھی کتاب ہے۔

مصنف ادبی تنقید میں کافی درک رکھتے ہیں ۔ اپنی تحریر میں بڑے کھرے ہیں اور جس بات کو جیسا سمجھتے ہیں ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ اور یہی اُن کی خوبی ہے۔

تاہم کہیں کہیں جہاں ممکنہ طور پر لحاظ و مروت سے کام لیا جا سکتا تھا وہاں بھی اُنہوں نے دانستہ بدلحاظی کو روا رکھا ہے ۔

مجموعی اعتبار سے تنقید پر یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
حُقوق و فرائض
حافظ صلاح الدین یوسف

مکمل پڑھ لی ہے۔
یہ بہت اچھی کتاب ہے اور اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق پر کافی عمدہ بیان اس کتاب میں موجود ہے۔ یہ اس موضوع پر دو چار چھوٹی چھوٹی کتابوں کا مجموعہ ہے۔
 

بافقیہ

محفلین
خلیل جبران خلیل کو پڑھ رہا ہوں۔ کیا آدمی ہے یار۔ بہت مزیدار۔
نثر و شعر دونوں بلا کے۔ لیکن عقائد ناقابل قبول۔ ویسے بھی ادباء کو ادب کے لئے ہی پڑھنا چاہئے۔
 

منہاج علی

محفلین
آج کل سید مسعود حسن رضوی ادیبؔ کی کتاب ’’ہماری شاعری‘‘ پڑھ رہا ہوں۔
اس کتاب کی اہمیت بتانے کے لیے یاس یگانہ چنگیزی کا قول یہاں نقل کر رہا ہوں ’’ اس کتاب کے مطالعے سے خیالات میں نہایت صحیح اور مفید انقلاب پیدا ہوسکتا ہے۔۔۔۔ اس کتاب نے شعر فہمی کی بہت سی راہیں کھول دی ہیں جن کی بدولت ایک صحیح المذاق بہت کچھ ترقی کر سکتا ہے‘‘
 

یاقوت

محفلین
اسے میں اپنی شومئی قسمت کہوں یا بدقسمتی کی انتہاء کہ پچھلے کچھ عرصہ سے کوئی نئی کتاب نہیں پڑھ پایا اب کسی کے پاس نہ تو کتابیں نظر آتی ہیں اور اگرکسی کے پاس ہوں تو بھی تو وہ آئیں بائیں شائیں سے کام لیتے ہیں۔سو پچھلی کچھ کتابیں جو میرے پاس پڑی ہوئی ہیں انہیں ہی پڑھ پڑھ کر وقت گزر رہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لیفٹینٹ جنرل فیض علی چشتی کی کتاب
Betrayals Of Another Kind: Islam, Democracy And The Army In Pakistan
جنرل فیض علی چشتی، 1977ء کے مارشل لا کے ایک انتہائی اہم کردار ہیں۔ ٹیک اوور کے وقت روالپنڈی کور کے کمانڈر تھے اور "آپریشن فیئر پلے" کا منصوبہ بنانا اور اس پر عمل کروانا انہی کی ذمہ داری تھی۔ 1980ء میں ریٹائر ہو گئے اور جنرل ضیا الحق سے ان کی راہیں جدا ہو گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء خود ان سے خائف تھے اور ڈر تھا کہ کہیں ان کو ہی نہ فارغ کر دیں، اس لیے جنرل ضیا نے ان سے ٹیک اوور کروانے کے بعد مارشل لا ایڈمینسٹریشن میں ان کو کوئی عہدہ نہیں دیا تھا بلکہ دو تین غیر اہم سی وزارتیں ان کے حوالے کی گئی تھیں۔ جنرل ضیا نے سی ایم ایل اے کی حیثیت سے اپنے ایم ایل اے، ڈی ایم ایل اے اور ایس ایم ایل اے سب ایسے فوجی افسران کو بنایا جن پر مکمل اعتماد تھا جیسے جنرل سوار خان، جنرل فضل حق، جنرل جہاں داد خان، جنرل کے ایم عارف وغیرہ اور جنرل فیض علی چشتی کو اس انتہائی اہم اور "مالکِ کُل" دائرے سے باہر رکھا جس کا جنرل چشتی کو بہت رنج تھا اور اسی وجہ سے اپنی ریٹائرمنٹ (1980ء) کے کچھ عرصے بعد جنرل ضیاء پر تنقید شروع کر دی تھی۔ جنرل چشتی پر سے جنرل ضیا کا اعتبار اس حد تک اٹھ چکا تھا کہ جنرل چشتی کے زیر کمان 111 بریگیڈ (جو کہ اسلام آباد اور رالپنڈی کی سب سے اہم فارمیشن ہے) کا نیا بریگیڈیر، جنرل چشتی کے مشورے اور حمایت کے بغیر اپنے ایک پرانے ساتھی اور ماتحت بریگیڈیر (بعد میں میجر جنرل) خواجہ راحت لطیف کو تعینات کر دیا اور اس کو ایس ایم ایل اے بنا کر ایک طرح سے جنرل چشتی کی کمان سے باہر بھی کر دیا۔ بریگیڈیر راحت نے ایک موقع پر جنرل چشتی کو صاف کہہ دیا تھا کہ میں مارشل لا کی ذمہ داریوں میں آپ کو جواب دے نہیں ہوں جس پر جنرل چشتی سوائے سیخ پا ہونے کے کچھ بھی نہ کر سکا۔ جنرل چشتی کا فرمانا ہے کہ جنرل ضیا نے جان بوجھ کر ان کی کردار کشی کی اور بھٹو کو پھانسی سے پہلے جیل میں مار پیٹ کرنے کا الزام بھی ان پر جنرل ضیا نے غلط طور پر مشہور کیا تھا تا کہ پی پی کے ورکروں کا غصہ جنرل ضیا سے ہٹ کر جنرل چشتی کی طرف ہو جائے۔

یہ کتاب اس ڈائڑیکٹ ڈاؤنلوڈ ربط سے اتاری جا سکتی ہے لیکن اس میں رموز و اوقاف کی بے شمار غلطیاں ہیں۔

wp56c484c3_06.png


انہی واقعات کے متعلق جنرل فیض علی چشتی کا ایک انٹرویو:

 

محمد وارث

لائبریرین
میرا بھی آج کراچی سے ایک درجن پرانی کتابوں کا پارسل آ گیا۔ فیس بُک کا چلو کوئی فائدہ تو ہوا۔ ہاں اب گھر جا رہا ہوں لے کر، اللہ ہی خیر کرے کہ بیوی نے مزید کتابوں کا داخلہ گھر میں بند کر رکھا ہے۔ دیکھتے ہیں، راستے میں کوئی دم درود کرتے ہیں۔ :)
 
آج کل ارونگ ویلس کا ناول "دی ورڈ" زیرِ مطالعہ ہے۔ ان کے اس ناول کا پہلا ایڈیشن ہے ہماری ذاتی لائیبریری میں۔ کالج کے زمانے میں ایک مرتبہ پڑھ چکے ہیں اس کتاب کو۔
 

زیک

مسافر
کیوں؟
جاسوسی، سسپینس،زبردست ذہانت، ایڈوینچر۔۔۔کیا یہ سب کچھ نہیں ہے سڈنی شیلڈن کے ناولز میں؟
کچھ وجوہات کی بنا پر ہی ایسا سوچا تھا۔ خیر اچھی بات ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں کافی پڑھا شیلڈن کو۔

ابھی دوبارہ دیکھا تو تین میں سے ایک شیلڈن کا ناول ہے باقی دونوں اس کے نام پر وفات کے بعد کسی اور نے لکھے ہیں۔
 

زیک

مسافر
میرا بھی آج کراچی سے ایک درجن پرانی کتابوں کا پارسل آ گیا۔ فیس بُک کا چلو کوئی فائدہ تو ہوا۔ ہاں اب گھر جا رہا ہوں لے کر، اللہ ہی خیر کرے کہ بیوی نے مزید کتابوں کا داخلہ گھر میں بند کر رکھا ہے۔ دیکھتے ہیں، راستے میں کوئی دم درود کرتے ہیں۔ :)
دفتر یا گاڑی میں رکھیں۔ بس ایک کام نہ کریں کہ ٹائلیٹ کی ٹنکی کو پانی سے خالی کر کے اس میں نہ چھپائیں کہ کوئی نہ کوئی پانی کھول دے گا اور کتابیں مکمل بھیگ جائیں گی
 
Top