آسمان کِس چیز سے بنا ہوا ہے؟

عرفان سعید

محفلین
مثال کے طور پر کوئی ایک گیس جب ایک ہی جگہ اکٹھی ہوجاتی ہے تو وہ مختلف اشکال اختیار کرلیتی ہے کسی کو ہم چاند اور کسی کو ہم سورج کسی کو ہم ستارے ، سیارے کہتے ہیں
آپ نے تو سب اجرامِ فلکی کو گیسی غبارے بنا دیا!
:)
 

عرفان سعید

محفلین
گر آسمان کی ہر چیز گیس سے بنی ہوئی ہے تو لگتا ہے یہ چاند سورج اور سیارے بھی گیسوں کا مجموعہ ہیں مثال کے طور پر کوئی ایک گیس جب ایک ہی جگہ اکٹھی ہوجاتی ہے تو وہ مختلف اشکال اختیار کرلیتی ہے کسی کو ہم چاند اور کسی کو ہم سورج کسی کو ہم ستارے ، سیارے کہتے ہیں

ماری زمین بھی شاید کسی گیس کی بنی ہوئی ہے اِس کی مثال کچھ یوں ہے آپ سفید چونا لیں اُس کو پانی میں ڈالیں تو اُس میں سے گیس نکلنے لگتی ہے
کوئی گیس کا مسئلہ تو نہیں چل رہا آج کل
:)
 

محمد سعد

محفلین
گیس کی بڑی مقدار اکٹھی ہونے پر قوت ثقل کی وجہ سے دب کر ٹھوس اور مائع بھی بن جاتی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مقدار کتنی ہے اور اس کو وقت کتنا گزرا ہے۔
 

بندہ پرور

محفلین
یہاں آسمان کے وجود کی بات نہیں ہورہی آسمان کِس چیز سے بنا ہے وہ پوچھا جارہا ہے۔
درست فرمایا عبداقدیر صاحب لیکن میں نے یہ مراسلہ عباس اعوان کے جواب میں لکھا ہے جو کہتے ہیں کہ سائنسی نقطہ نظر سے آسمانوں کا وجود نہیں ہے
 

محمد سعد

محفلین
کسی "شے" کا "وجود" ہونا کئی طرح سے کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر۔ زبان وجود رکھتی ہے۔ اس میں الفاظ وجود رکھتے ہیں۔ لیکن لازمی نہیں کہ وہ وجود مادی صورت میں ہی ہو۔ کسی شے کے مجرد (abstract) ہونے کا مطلب لازمی نہیں کہ وہ وجود نہیں رکھتی۔
آسمان کے تذکرے کو ایک مجرد تصور سمجھ کر الفاظ میں اور مشاہدے میں تطبیق پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر پھر بھی آپ کا اصرار ہے کہ پرانی سمجھ ہی کو لیا جائے تو آپ کی مرضی، خاکسار کیا کر سکتا ہے سوائے ایک تجویز پیش کرنے کے۔
 

عباس اعوان

محفلین
جب وجود نہیں تو نظر کیوں آتا ہے؟
ویسے یہ سوال مبہم ہے۔
آسمان سے مراد زمین کی فضا ہے، یا ہر جسمِ فلکی کی فضا۔ عموما سوال آسمان کے نیلے رنگ کے متعلق کیا جاتاہے، مثلا آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے، جیسا کہ عبدالقدیر صاحب نے تصویر بھی کچھ اس طرح کی دی ہے۔ مزید یہ کہ مختلف سیاروں (مریخ اور دیگر) کی فضائی آسمان کا رنگ نیلا نہیں ہوتا۔ جن جن سیاروں کی فضا جتنی زیادہ کثیف اور مختلف بہ گیسوں کا آمیزہ ہوگی اتنا ہی اس کے آسمان کا رنگ مختلف ہوگا۔ چوں کہ چاند کی کوئی فضا نہیں لہذا وہاں آسمان تاریک نظر آئے گا۔

اب اگر سوال رنگ کے متعلق نہیں ہے تو پھر آپ زمین کی سطح سے اوپر اُٹھنا شروع ہوجائیں، کچھ سینکڑوں کلومیٹر تک کی (زمینی) فضا مختلف گیسوں کا مجموعہ ہے، جن میں پانی کے چھوٹے موٹے قطرے مختلف مقداروں میں موجود ہوتے ہیں۔ مزید اوپر جائیں تو رفتہ رفتہ فضا کی یہ آمیزش ختم ہوجاتی ہے۔ اور صرف خلا (یعنی خالی جگہ) رہ جاتی ہے، جس میں شمسی سیاروں کے ساتھ سورج اور اس سے بھی بڑے لاتعداد ستارے موجود ہیں۔ لیکن ان تمام اجسامِ فلکی کے مابین جو خالی جگہ (خلا) ہے وہ بذاتِ خود چند گیسوں کے ذیلی ایٹمی ذرات، بہت چھوٹے ذرات کے گرد وغبار اور مختلف شعاعوں (ایکس ریز، روشنی، انفراریڈ، ریڈیو امواج) کے علاوہ تاریک-مادے اور تاریک-توانائی کا ملغوبہ ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
جب وجود نہیں تو نظر کیوں آتا ہے؟
یہ ایک 360 ڈگری ویڈیو ہے جو کہ غبارے کے ساتھ کیمرا باندھ کے ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کو آپ گھما پھرا کر مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ کیمرا ایک ہی ہے جو تیزی سے گھومتے ہوئے ویڈیو بنا رہا ہے جس کو بعد میں سٹیبلائز کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے آپ کو اس میں لہریں بنتی نظر آئیں گی۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کم و بیش وہی صورت حال ہے جو آصف اثر نے بیان کی۔ کہ جوں جوں آپ اوپر اٹھتے جائیں گے، فضا کی کثافت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا نیلا رنگ (جس کی وضاحت آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں) ختم ہوتا جائے گا۔ لیکن چونکہ آپ سورج کو براہ راست جھیل رہے ہیں تو باقی کے ستاروں اور اجرام فلکی کو دیکھنے کے لیے درکار تاریکی آپ کو میسر نہیں ہے۔
بہت ہی آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ہمارے سیارے زمین کی فضا، ایک نیلے رنگ کی عینک ہے، جب ہم اس فضا کے ذریعے سے خلا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نیلا نیلا نظر آتا ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
جب وجود نہیں تو نظر کیوں آتا ہے؟
بہت ہی آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ہمارے سیارے زمین کی فضا، ایک نیلے رنگ کی عینک ہے، جب ہم اس فضا کے ذریعے سے خلا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نیلا نیلا نظر آتا ہے۔
جب آپ اس عینک کے اوپر اٹھ کر دیکھیں گے، تو آپ کو نیلا آسمان نظر نہیں آئے گا۔
اس کا مشاہدہ محمد سعد بھائی کی شئیر کردہ ویڈیو میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قران پاک میں آسمانوں کا ذکرہے اور دیگر الہامی کتب میں بھی ذکر ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمانوں کا وجود ہے
جب یہ الہامی کتب نازل ہوئیں، اس وقت گیسی غباروں ، دوربینوں اور دیگر جدید سائنسی آلات سے آسمان کا مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
درست فرمایا عبداقدیر صاحب لیکن میں نے یہ مراسلہ عباس اعوان کے جواب میں لکھا ہے جو کہتے ہیں کہ سائنسی نقطہ نظر سے آسمانوں کا وجود نہیں ہے
سائنس تو وہی بتا رہی ہے جو حقیقت ہے۔ باقی دینی نکتہ نظر سے آسمانوں کا وجود ہے۔
 
جب یہ الہامی کتب نازل ہوئیں، اس وقت گیسی غباروں ، دوربینوں اور دیگر جدید سائنسی آلات سے آسمان کا مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ الہامی کتابوں کے اصل منبع یعنی ذاتِ باری تعالیٰ کو ان آلات کی ضرورت نہ تھی، نہ ہے، نہ ہوگی۔ :)
سائنس تو وہی بتا رہی ہے جو حقیقت ہے۔ باقی دینی نکتہ نظر سے آسمانوں کا وجود ہے۔
سائنس وہ بتا رہی ہے جو اسے فی الحال سمجھ آرہا ہے۔ دینی نکتۂ نظر سے آسمانوں کا وجود ہے، لیکن ان کی کیفیت اور حقیقت کیا ہے، یہ واقعتا اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔
کسی "شے" کا "وجود" ہونا کئی طرح سے کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر۔ زبان وجود رکھتی ہے۔ اس میں الفاظ وجود رکھتے ہیں۔ لیکن لازمی نہیں کہ وہ وجود مادی صورت میں ہی ہو۔ کسی شے کے مجرد (abstract) ہونے کا مطلب لازمی نہیں کہ وہ وجود نہیں رکھتی۔
آسمان کے تذکرے کو ایک مجرد تصور سمجھ کر الفاظ میں اور مشاہدے میں تطبیق پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر پھر بھی آپ کا اصرار ہے کہ پرانی سمجھ ہی کو لیا جائے تو آپ کی مرضی، خاکسار کیا کر سکتا ہے سوائے ایک تجویز پیش کرنے کے۔
تفسیرِ قرآن اور تشریحِ احادیث کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ جب تک قرآن و حدیث کے کسی جملے کا حقیقی معنیٰ مراد لینا ممکن ہو اس وقت تک مجازی معنیٰ مراد لینا درست نہیں ہے۔ چنانچہ جب قرآن کریم میں نہ صرف تخلیقِ آسمان کا تذکرہ موجود ہے بلکہ اس کی تخلیق میں جو مدت صرف ہوئی وہ بھی مذکور ہے اور پھر واقعہ معراج میں آپ ﷺ کا اپنے جسم مبارک کے ساتھ مختلف آسمانوں پر تشریف لے جانا اور انبیاء علیہم السلام سے ملاقات فرمانا اور وہاں کے مختلف احوال کا تذکرہ مستند احادیث مبارکہ میں موجود ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم آسمانوں کو محض ایک تصوارتی اور خیالی وجود تسلیم کرلیں، بلکہ انہیں ایک حقیقی وجود تسلیم کرنا ضروری ہوگا۔
البتہ یہ بات قابلِ تسلیم ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جس نیلے پن کو یا جس سیاہی کو ہم آسمان سمجھ رہے ہیں وہی آسمان ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ آسمانوں سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جو مراد ہے وہ ہماری نظروں سے اوجھل اور ہمارے دائرہ علم میں موجود کہکشاؤں سے بالا تر اور ماوراء، اللہ تعالیٰ کی قدرتِ تخلیق کا کوئی عظیم الشان مظہر ہو جس تک ہمارے علم کی تاحال رسائی نہ ہو سکی ہو۔ آخر یہ بات بھی تو ذہن میں رکھنے کی ہے کہ خود سائنس اس بات کی معترف ہے کہ کائنات کا جو حصہ آج ہمارے مشاہدے میں ہے وہ کائنات کی حقیقی وسعتوں کے مقابلے میں محض اتنا سا ہے جتنا کسی بڑے وائٹ بورڈ پر ایک معمولی سا نکتہ۔ اس صورتِ حال میں ہماری کیا مجال رہ جاتی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو حتمی طور پر آسمان قرار دیں یا آسمان کے وجود کو کوئی خاص جہت دینے کی کوشش کریں۔
 
آخری تدوین:
Top