عرفان سعید

محفلین
کیا یہ ننگا پربت ہے؟ یا اس کے قریب کوئی اور پہاڑ؟


یہ میرے خیال میں چونگرا اور ننگا پربت ہیں

فلک بوس پہاڑوں کی ان شاندار تصاویر کو دیکھ کر بے اختیار بانگِ درا کی پہلی نظم "ہمالہ" یاد آگئی!

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے

امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو دیوارِ ہندستاں ہے تو
مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تو
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاۂ مہرِ عالم تاب پر

تیری عمر ِرفتہ کی اک آن ہے عہدِ کہن
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن
چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرمِ سخن
تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن
چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیال ہے
دامنِ موج ہوا جس کے لیے رومال ہے

ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برقِ سر ِکہسار نے
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے
دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے
ہائے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیلِ بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر

جنبشِ موجِ نسیم صبح گہوارہ بنی
جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی
یوں زبانِ برگ سے گویا ہے اس کی خامشی
دستِ گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا
کنجِ خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا

آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگِ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو

لیلیٔ شب کھولتی ہے آ کے جب زلفِ رسا
دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر

اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازہ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو
 
آخری تدوین:
ہمیں تو نانگا پربت شریف نے ٹھیک سے دیدار ہی نہ بخشا تھا اور مسلسل بادلوں میں چھپی رہی لیکن شبہات و شکل وغیرہ سے انتہائی بائیں والی چوٹی معلوم پڑتی ہے کلر ماؤنٹین۔
پی ایس: یہ عمومی مراسلہ ہے۔۔۔

کیا یہ ننگا پربت ہے؟ یا اس کے قریب کوئی اور پہاڑ؟

 

زیک

مسافر
ہمیں تو نانگا پربت شریف نے ٹھیک سے دیدار ہی نہ بخشا تھا اور مسلسل بادلوں میں چھپی رہی لیکن شبہات و شکل وغیرہ سے انتہائی بائیں والی چوٹی معلوم پڑتی ہے کلر ماؤنٹین۔
آپ کو ٹیگ کرنے ہی لگا تھا۔ آپ کا اندازہ درست معلوم ہوتا ہے۔ رہی ننگا پربت اور بادلوں کی بات تو اگلے دن کی روداد کا انتظار کریں۔ آپ شاید بہتر محسوس کریں گے
 
آپ شاید بہتر محسوس کریں گے

نہیں بہتر تو اب میں روپل فیس سے دیکھ کر ہی کروں گا۔ لیکن اب لگ رہا کہ یہ منظر بھی شاندار ہے۔
قراقرم کلب میں کچھ پوسٹ میں ان چوٹیوں کا عکس جھیل میں دیکھا ہے۔ کیا آپ نے ایسا کچھ دیکھا؟
 

زیک

مسافر
راما جھیل پر کچھ پاکستانی سیاح ملے۔ اپنی ٹوپیوں، داڑھیوں اور لباس سے سب مولوی لگ رہے تھے۔ اچھے لوگ تھے۔ علاقے کی خوبصورتی پر گپ شپ ہوئی۔ ان کے استفسار پر بتایا کہ ہم امریکہ سے ہیں۔ پوچھنے لگے کہ امریکہ میں ایسی خوبصورتی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ خوبصورت پہاڑ، سبزہ، برف، گلیشیر، جھیلیں سب ادھر ہیں لیکن پہاڑ اتنے بلند نہیں جیسے ہمالیہ اور قراقرم کے۔

پھر انہوں نے ایک عجیب سوال کیا کہ میں مسلمان ہوں یا کرسچین۔ میں نے کہا کہ میں مذہبی نہیں ہوں۔ اس پر وہ کچھ گڑبڑا سے گئے جیسے ان کے نزدیک یہ ممکن نہ تھا۔

بہرحال ان سے اچھی گفتگو رہی۔ ہم سے ملنے کے بعد وہ راما جھیل اور پہاڑوں کے ساتھ سیلفی بنانے میں مصروف ہو گئے۔
 

زیک

مسافر
یہ کل ہائیک ساڑھے آٹھ کلومیٹر کی تھی۔ یہ ہمارے ٹرپ کی مصروف ترین ہائیک تھی۔ کافی لوگ دیکھے۔ سینڈلوں میں سیاحوں کو گلیشیر کراس کرتے بھی دیکھا۔

یہ رہا ہائیک کا نقشہ

 

زیک

مسافر
ہوٹل گئے جو راما میڈوز سے پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ یہ کسی کا گھر لگتا تھا جسے انہوں نے گیسٹ ہاؤس بنا لیا تھا۔

شام کو بارش ہونے لگی اور تیز ہوا چلی۔

اور یوں ایک اور دن اختتام کو پہنچا
 

زیک

مسافر
30 جون

صبح غسل خانے میں گرم پانی نہیں تھا اور باتھ روم میں نکاسی کا انتظام بھی کافی خراب تھا کہ شاور کھولا تو پانی غسلخانہ سے کمرے میں جانے لگا۔

سات بجے ناشتہ کر کے ہم نکلے۔

ساڑھے نو بجے رائیکوٹ پل پہنچ گئے۔ وہاں جیپ والوں سے بات کی۔ ان کا آپس میں معاملہ طے ہے اور آپ منشی سے بات کرتے ہیں۔ ٹٹو تک اور واپس جیپ کا کرایہ 8100 روپے ہے۔

جیپ کرائی تو انہوں نے مسئلہ ڈال دیا کہ پاکستانی نہیں ہو۔ شناختی کارڈ دیکھ کر بھی نہ مانے۔ خیر رائے کوٹ کی پولیس چوکی پر جانا پڑا۔ وہاں بنیان میں ملبوس پولیس والے نے ایک موٹے رجسٹر میں ہمارے پاسپورٹس سے معلومات نوٹ کیں۔
 
Top