بیٹی کی ہڈیاں تک نہ مل سکیں!

عرفان سعید

محفلین
بیٹی کی ہڈیاں تک نہ مل سکیں!
(ماخوذ)

آج پورے 74 سال گزر گئے!

لیکن اتنی دہائیاں گزرنے کے باوجود وہ ہولناک اور اندوہناک ساعتیں جب لوحِ خیال پر مرتسم ہونا شروع ہوتی ہیں تو ایک غیر معمولی رنج و الم، ایک بھیانک حزن و ملال اور ایک اندوہناک اذیت و تکلیف سے میرا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے!

جیسے دکھ اور درد کا کوہِ گراں میرے سینے پر لاد دیا گیا ہو!

جیسے تعذیب و عقوبت کے آہنی وحشت ناک ہاتھ میرا گلا دبا رہے ہوں!

جیسے جذبات و احساسات کے قلزم میں قلق و اضطراب اور اضمحال و اختلال کی اٹھنے والی بلند و بالا موجیں میرے ساحلِ حیات کی خوبصورتی و رعنائی کو تاخت و تاراج کرنے کے درپے ہوں!

ایٹم بم سے ہونے والی تباہ کاری و غارت گری، اپنی وسعت، ضخامت ، دبازت اور دیرپا و طویل المدت نتائج کی ہولناکیوں کے اعتبار سے، ایک ایسا واقعہ ہے کہ چشمِ فلک نے جس کا مشاہدہ اس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔

6 اگست 1945 کا آغاز ایک خوبصورت دن کے طور پر ہوتا ہے، مطلع بالکل صاف ہے اور بادلوں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے کہ یکایک نیلگوں آسمان تلے نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ایک روشنی نمودار ہوتی ہے اور حرارت و تمازت کے تھپیڑے اور تابکاری شعاعیں فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ہیروشیما شہر کا وسط ہولناک شعلوں کے حصار میں گھِر چُکا ہے، جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع و عریض جابر و خونخوار آتش زدگی کا روپ دھار لیتے ہیں اور انسان اس جہنم میں جل جل کر جنوں اور بھوتوں سے بھی زیادہ بھیانک ہوتے جارہے ہیں۔

جس جگہ پر ایٹم بم گرا اور پھٹا، میرا گھر وہاں سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، جہاں میں اپنے شوہر اور اپنی سترہ سالہ بیٹی کے ساتھ قیام پذیر تھی۔ اپنی بیٹی کو ہم پیار سے سُگی چان کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ ان دنوں سکول کے امتحانات سے فراغت کے باعث سُگی عارضی طور پر ہیروشیما کے مرکزی ٹیلفون دفتر میں کام کر رہی تھی۔ 5 اگست کو اسکی شفٹ کا آغاز دوپہر دو بجے ہونا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن جانے سے پہلے سُگی نے مجھے کہا: "امی! سات یا آٹھ تاریخ کو ایک بہت بڑا فضائی حملہ متوقع ہے، اس لیے اپنا خاص خیال رکھیے گا"

یہ کہنے کے بعد اس نے مجھے خدا حافظ کہا اور بہت پر اعتماد قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کام کی جانب خراماں خراماں چل دی۔ عام طور پر میں سُگی کو گھر کے اندر سے ہی الوداع کرتی تھی، لیکن اس دن نجانے کیوں میرے قدم خود بخود گھر کی دہلیز تک مجھے لے آئے اور میں اس وقت تک اپنی لختِ جگر کو جاتے ہوئے تکتی رہی جب تک وہ میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔

اس رات فضا سے انسانی بستیوں کو نشانہ بنانے والے جنگی طیاروں کی چنگھاڑ، فضائی حملوں کے خطرے کی اطلاع دیتے ہوئے سائرن اور فوجی ہیڈ کواٹر سے ہونے والے اعلانات کے باعث ایک بے ہنگم سا شور و غوغا برپا تھا۔ دل و دماغ کو بہت سے اوہام و خدشات نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اورچھٹی حس کسی بہت بڑی بد بختی کی بار بار اطلاع دے رہی تھی۔ رات اسی کشمکش میں گزر گئی۔ علی الصبح دوبارہ جنگی طیاروں کی کانوں کو پھاڑنے والی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں اور مجھے دوبارہ یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ بہت جلد ہیروشیما شدید بمباری کی زد میں آنے والا ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد یہ طیارے واپس چلے گئے اور صبح سات بجے فضائی حملے کی وارننگ بھی اٹھا لی گئی۔ اس وقت میں نے اپنے آپ سے کہا: "خدا کا شکر ہے کہ ہم کم از کم اس وقت ٹھیک ہیں"۔ سات بجے ہی میرے شوہر ناشتہ کرنے کے بعد ایک قریبی کارخانے میں اپنی نوکری کے لیے گھر سے نکل گئے۔ سُگی کی نائٹ شفٹ تھی اور اب وہ گھر آنے ہی والی تھی۔ میں بیٹی کے انتظار میں اس کا ناشتہ تیار کرنے باورچی خانے تک آئی ہی تھی کہ فضا میں فضائی حملے کی وارننگ کے سائرن دوبارہ گونجنے لگے۔ میں نے کہا: "خدا خیر کرے"۔ تھوڑی دیر بعد یہ وارننگ بھی اٹھا لی گئی تو کچھ جان میں جان آئی۔ سُگی ابھی واپس نہیں لوٹی تھی اور میں اس کی راہ دیکھنے کے لیے دروازے تک جانے ہی والی تھی کہ اچانک ایک انتہائی ہولناک اور قیامت خیز دھماکے کی آواز سے میرا کلیجہ حلق تک آگیا، اور میں ہوش و حواس کھوتے ہوئے فرش پر گر گئی۔

جب مجھے کچھ ہوش آیا تو میں اپنے گھر کے تباہ شدہ ملبے تلے دبی ہوئی تھی۔ میرے ارد گرد مکمل اندھیرا تھا اور لکڑی کا ایک بہت بھاری شہتیر میرے کندھے کو مسلسل دبا رہا تھا۔ میں شدید درد اور تکلیف میں تھی اور اپنی پوری کوشش کے باوجود اس شہتیر کو معمولی سی حرکت دینے میں ناکام تھی۔ اندھیر اس قدر شدید تھا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر پڑے ہوئے ملبے کو محسوس کرتے ہوئے کچھ معمولی سی حرکت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ناامیدی مجھے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی اور موت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ زندگی کی خاطر لڑنے کا حوصلہ گو دم توڑ رہا تھا، لیکن ایک موہوم سی امید مجھے ہمت نہ ہارنے پر مجبور کیے ہوئے تھی۔ آخر خدا نے کرم کیا اور میرے اوپر ملبے میں ایک باریک سی درز نمودار ہونا شروع ہوئی، جس میں کچھ روشنی چھن چھن کر آنے لگی اور میں کچھ دیکھنے کے قابل ہو سکی۔ اپنی ساری قوت اور توانائی کو مجتمع کرتے ہوئے میں ملبہ اپنے اوپر سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی اور رینگتے ہوئے گھر سے باہر آگئی۔

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
ایک بار بھاری ملبے تلے سے رہائی پائی، تو گرد و نواح کے ہر گھر سے ملبے تلے دبے لوگوں کی اذیت ناک چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ ان دردناک آوازوں میں منت سماجت، التماس و گزارش اور التجا و استدعا میرے قلب و جگر کو چھلنی کر رہی تھی اور خون کے فوارے میرے پیروں سے رواں تھے۔ میں بمشکل اپنے قدم زمین پر جما سکتی تھی اور حسرت و یاس کی تصویر بنی اس آہ و بکاہ کو سن رہی تھی۔ سارا منظر اس زمین پر گویا ایک جہنم کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔اپنی آبلہ پائی کے ساتھ میں نے اٹھ کر بھاگنا چاہا لیکن جسم نے ساتھ دینے سے انکار کردیا اور میں منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔ اس لمحے مجھے اپنی بیٹی سُگی کا خیال آیا کہ نجانے کس حال میں ہو گی؟ جوں جوں سُگی کا خیال زور پکڑتا گیا، مجھے اپنے اند ایک نئی امنگ اور قوت کا احساس ہوا، اور ماں کی قوی اور زورآور مامتا نے زخمی و گھائل جسم کی ناتوانیوں کو بچھاڑ دیا اور میں کسی طرح اٹھ کھڑی ہوئی اور خود کو گھسیٹتے ہوئے سڑک تک لے آئی۔

میرے دائیں بائیں لوگ ناقابلِ شناخت حالت میں زمیں پر پڑے تھے، جن میں سے اکثر موت کو گلے لگا چکے تھے۔لاشیں تھی کہ بالکل ناقابلِ شناخت، زندہ لوگ تھے کہ جسم اور چہرے بری طرح مسخ ہو چکے تھے۔ خدا کرے میری بیٹی زندہ ہو! کہیں وہ بھی ان لوگوں کی طرح زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھی ہو! میں ان اندیشوں میں گرتی پڑتی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایک جانی پہچانی صورت میرے سامنے آگئی۔ میرے شوہر بالکل ٹھیک ٹھاک میرے سامنے کھڑے تھے اور مجھے سہارا دے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر ہم نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ جب کچھ کیفیت سنبھلی تو اپنی بیٹی کے بارے میں ہم دونوں بے حد فکر مندی کا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن کرتے بھی تو کیا کرتے، ہیروشیما کا ہنستا بستا شہر لمحوں میں آگ کے سمندر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ جس جانب نگاہ اٹھتی آگ ہی آگ دکھائی دے رہی تھی۔

پھونک پھونک کر قدم رکھتے، آگ سے دامن بچاتے، کبھی کسی ملبے کی اوٹ میں، کبھی کسی اونچائی کے مقام پر ہم آگ کے کچھ کم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ آگ کا زور کچھ تھما تو ہم نے بیٹی کے ٹیلفون آفس جانے کا فیصلہ کیا۔ اب تک میں اپنے جسم سے بہنے والے خون اور تکلیف کو بیٹی کی فکر میں مکمل طور پر فراموش کر چکی تھی۔ اب میرے قلب و روح بیٹی کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ بیٹی کے دفتر جانے والی سڑک پر چلنا شروع کیا تو سڑک ہر قدم پر لاشوں سے اٹی ہوئی تھی۔ جو لوگ زندہ تھے وہ دو گھونٹ پانی کے لیے چیخ و پکار کر رہے تھے، لیکن آس پاس دور دور تک پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا اور ہم بے بسی کے عالم میں ان زخمیوں کے لیے دعا کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ جب ہم بیٹی کے دفتر کی عمارت کے پاس پہنچے تو کسی زندہ انسان کے کراہنے کی آواز تک بھی نہیں آ رہی تھی، بس لاشوں کا ایک ڈھیر عمارت کے نیچے موجود تھا۔

(جاری ہے)
 

عرفان سعید

محفلین
یہ منظر دیکھ کر ہمارے دل بیٹھ گئے اور تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔ لاشوں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی کہ کسی ایک لاش کی شناخت ناممکن تھی۔ ہم نے واپسی کی راہ لی، لیکن بیٹی کو نہ دیکھنے کے غم میں بار بار راستہ بھولتے رہے۔ گرتے پڑتے، ہانپتے کانپتے جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں ہمارا گھر تھا کو صرف دو چیزیں دکھائی دے رہی تھیں ، ملبے کے ڈھیر اور انسانی لاشوں کے ڈھیر۔

جو منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اس کے دیکھ لینے کے باوجود ہم اس نخیف اور موہوم سی امید کے سہارے خود کو دلاسا دے رہے تھے کہ جس وقت ایٹم بم کا دھماکہ ہوا، اس وقت شاید سُگی اپنے دفتر سے نکل چکی ہو اور زخمی حالت میں راستے میں اب بھی کہیں زندہ ہو۔ ہم کئی دنوں تک لاشوں اور ملبے کے انباروں تلے اپنی بیٹی کو تلاش کرتے رہے، لیکن تمام کوششیں بے سود رہیں۔ اس دوران ہمارے قلب و جگر پر جو گزرتی رہی اس کا اظہار کرنے سے الفاظ عاجز ہیں۔ آخر ایک ہفتے بعد ہمیں یہ تصدیق شدہ خبر ملی کہ ہماری بیٹی اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے دوران عمارت کے عین باہر موجود تھی اور ان لوگوں میں سے تھی جن پر جوہری دھماکے کی حرارت اور تابکاری کے براہ راست شدید ترین فوری اثرات پڑے۔ اپنے فرائضِ منصبی کے دوران اپنی جان دینے والی ہماری بیٹی کی لاش تو درکنار، ہمیں اپنے جگر کے ٹکڑے کی ہڈیاں تک دیکھنا نصیب نہ ہو سکا!
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ، لیکن اس ہولناک واقعے کی یادیں ابھی ذہن میں تازہ ہیں۔ بیٹی کے بچھڑنے کا غم رات دن ہمیں اندر سے کھوکھلا کرتا رہتا ہے۔ میں جب اس عظیم سانحے کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے دل میں صرف ایک خواہش جاگتی ہے کہ اس روئے ارض پر بسنے والا ہر انسان ہیروشیما اور ناگاساکی کی ہولناکیوں کا صحیح معنوں میں ادراک کرے۔ کاش کہ یہ آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جائے کہ جوہری جنگ کی تباہی و بربادی اس ہنستی بستی دنیا کو جہنم بنانے کے مترادف ہے۔ کیا زندگی اس قدر ارزاں ہے کہ اسے بموں کے ہولناک شعلوں میں جھلسنے دیا جائے؟ کیا انسانی جان کی حرمت تباہ کن ہتھیاروں سے بھی کم ہے؟ کیا ہم اس زمین پر ان ہولناک جوہری بموں کی بجائے اپنی ساری قوتیں امن و محبت کے فروغ کے لیے صرف نہیں کر سکتے؟ کیا زندہ رہنا ہر ذی روح کا بنیادی حق نہیں ہے؟ گو اس زمیں پر بہت سی نسلیں، مذاہب اور تہذیبیں موجود ہیں لیکن ہم سب اس زمیں کے باسی ہیں اور اس کے ہر چپے کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

ایٹم بم کے دھماکے میں زندہ بچ جانے کے بعد میں اس پیغام کے ساتھ اپنی کہانی سب کو سنا رہی ہوں کہ اے اقوام عالم کے لوگو! اپنی کرشماتی سائنسی صلاحیتوں کو ان ہتھیاروں کو بنانے میں استعمال نہ کرو کہ ایک دن تم سب کو بھی اپنے جگر گوشوں کی ہڈیاں تک دکھائی نہ دیں!

(ختم شد)
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
وضاحت:
مندرجہ بالا تحریر ہیروشیما کے ایٹمی دھماکے میں زندہ بچ جانے والی ایک خاتون، کیکُو اے کوماتسُو، کی چشم دید جاپانی داستان سے ماخوذ ہے۔
 
انسانیت سوز ظلم و ستم کی ہولناک داستان ہے جیسے پڑھ کر جسم کا رواں رواں کانپ جائے ۔بربریت اور سفاکی کی انتہا ہے ۔رہتی دنیا تک اس حیوانیات کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہوگی ۔
 

لاریب مرزا

محفلین
یہ حقیقتاً ایک دل دہلا دینے والا عظیم سانحہ ہے۔

کیا کوئی محفلین ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہونے والے اس حملے کا پس منظر بیان کر سکتا ہے؟؟
 

عرفان سعید

محفلین
کیا کوئی محفلین ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہونے والے اس حملے کا پس منظر بیان کر سکتا ہے؟؟
علمی دہشت گردی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے!
ایٹمی ہٹھیار بنانے کے بعد اس کو ٹیسٹ کرنا مقصود تھا اور اس کی تباہی و ہولناکی کا بچشم مشاہدہ کرنا تھا کہ انسان اپنے "علم" کے "کرشمے" دیکھ سکے!
 

لاریب مرزا

محفلین
علمی دہشت گردی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے!
ایٹمی ہٹھیار بنانے کے بعد اس کو ٹیسٹ کرنا مقصود تھا اور اس کی تباہی و ہولناکی کا بچشم مشاہدہ کرنا تھا کہ انسان اپنے "علم" کے "کرشمے" دیکھ سکے!
انسانیت سوز!!

ہمارا خیال تھا کہ کسی چپقلش کے نتیجہ میں یہ سانحہ رونما ہوا تھا۔ کس ملک کی جانب سے یہ انسانیت سوز حملہ ہوا؟؟
 

عرفان سعید

محفلین
ہمارا خیال تھا کہ کسی چپقلش کے نتیجہ میں یہ سانحہ رونما ہوا تھا۔
چپقلش تو خیر دوسری جنگِ عظیم کی شکل میں جاری تھی۔ جنگ کچھ دیر اور جاری رہتی تو بھی جاپان نے ہتھیار ڈال دینے تھے۔
کس ملک کی جانب سے یہ انسانیت سوز حملہ ہوا؟؟
امریکہ صاحب بہادر کی طرف سے
 

زیک

مسافر
علمی دہشت گردی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے!
ایٹمی ہٹھیار بنانے کے بعد اس کو ٹیسٹ کرنا مقصود تھا اور اس کی تباہی و ہولناکی کا بچشم مشاہدہ کرنا تھا کہ انسان اپنے "علم" کے "کرشمے" دیکھ سکے!
ایٹم بم گرانے کی وجہ اس سے بہتر نہیں بیان کی جا سکتی۔
جنگ کچھ دیر اور جاری رہتی تو بھی جاپان نے ہتھیار ڈال دینے تھے۔
جاپان جنگ ہار رہا تھا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ جنگ کب اور کیسے ختم ہوتی کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم 6 اور 9 اگست کو گرائے گئے اور سوویت یونین 9 تاریخ کو جاپان کے خلاف جنگ میں شامل ہوا جبکہ جاپان نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان 15 اگست کو کیا
 

جاسم محمد

محفلین
علمی دہشت گردی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے!
ایٹمی ہٹھیار بنانے کے بعد اس کو ٹیسٹ کرنا مقصود تھا اور اس کی تباہی و ہولناکی کا بچشم مشاہدہ کرنا تھا کہ انسان اپنے "علم" کے "کرشمے" دیکھ سکے!
ایٹم بم گرانے کی وجہ اس سے بہتر نہیں بیان کی جا سکتی۔
جاپان جنگ ہار رہا تھا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ جنگ کب اور کیسے ختم ہوتی کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم 6 اور 9 اگست کو گرائے گئے اور سوویت یونین 9 تاریخ کو جاپان کے خلاف جنگ میں شامل ہوا جبکہ جاپان نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان 15 اگست کو کیا
ہم نے جو اسکولوں، کالجوں میں پڑھا ہے۔ اس کے مطابق جاپان تمام مقبوضہ جزائر ہارنے کے باوجود ہتھیار نہیں ڈال رہا تھا۔ اب اتحادیوں کے پاس دو انتخاب تھے:
اول: جزیرہ جاپان پر لنگر انداز ہو کر پورا ملک فتح کرنے کی کوشش کریں
دوئم: ایٹم بم پھینک کر جاپان کو ہتھیار ڈالنے کیلئے مجبور کریں

امریکی صدر نے مغربی محاذ(یورپ) میں اتحادی فوجوں کے لنگر اندازی اور جرمنی پر قبضہ کے بعد جو انسانی جانوں کا نقصان ہوا تھا۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مشرقی محاذ (ایشیا) میں جنگ کو فوری ختم کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے پہلے ہیروشیما کو نشانہ بنایاگیا لیکن جاپانیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ جس کے بعد دوسر ا ایٹم ا بم ناگاساکی پر پھنک دیا گیا۔ جاپانی سیاسی و عسکری کمان نے تب بھی ہتھیار نہیں پھینکے۔ بالآخر جاپانی بادشاہ کو ہی اپنے لوگوں کی خاطر مداخلت کرنا پڑی۔ اور یوں فوج نے ہتھیار پھینک دئے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ جرمنی ، روس اور جاپان بھی خفیہ ایٹمی پروگرام چلا رہے تھے۔ امریکہ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ سب سے پہلے ایٹمی گول کر گیا۔ نہیں تو یہ یہی ایٹم بم اتحادی شہروں پر بھی گر سکتے تھے۔
The Decision to Drop the Bomb [ushistory.org]
 

عرفان سعید

محفلین
ہم نے جو اسکولوں، کالجوں میں پڑھا ہے۔ اس کے مطابق جاپان تمام مقبوضہ جزائر ہارنے کے باوجود ہتھیار نہیں ڈال رہا تھا۔ اب اتحادیوں کے پاس دو انتخاب تھے:
اول: جزیرہ جاپان پر لنگر انداز ہو کر پورا ملک فتح کرنے کی کوشش کریں
دوئم: ایٹم بم پھینک کر جاپان کو ہتھیار ڈالنے کیلئے مجبور کریں

امریکی صدر نے مغربی محاذ(یورپ) میں اتحادی فوجوں کے لنگر اندازی اور جرمنی پر قبضہ کے بعد جو انسانی جانوں کا نقصان ہوا تھا۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مشرقی محاذ (ایشیا) میں جنگ کو فوری ختم کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے پہلے ہیروشیما کو نشانہ بنایاگیا لیکن جاپانیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ جس کے بعد دوسر ا ایٹم ا بم ناگاساکی پر پھنک دیا گیا۔ جاپانی سیاسی و عسکری کمان نے تب بھی ہتھیار نہیں پھینکے۔ بالآخر جاپانی بادشاہ کو ہی اپنے لوگوں کی خاطر مداخلت کرنا پڑی۔ اور یوں فوج نے ہتھیار پھینک دئے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ جرمنی ، روس اور جاپان بھی خفیہ ایٹمی پروگرام چلا رہے تھے۔ امریکہ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ سب سے پہلے ایٹمی گول کر گیا۔ نہیں تو یہ یہی بم اتحادی شہروں پر بھی گر سکتے تھے۔
The Decision to Drop the Bomb [ushistory.org]
تاریخی مبحث ہے، بہت سی آراء ہو سکتی ہیں۔
میں نے بہرحال اپنا رجحان بیان کردیا ہے۔ جو وضاحت آپ نے پیش کی ہے میرے نزدیک اس کی حیثیت پوسٹ وار پروپیگنڈہ سے زیادہ کچھ نہیں۔
علمی دہشت گردی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے!
ایٹمی ہٹھیار بنانے کے بعد اس کو ٹیسٹ کرنا مقصود تھا اور اس کی تباہی و ہولناکی کا بچشم مشاہدہ کرنا تھا کہ انسان اپنے "علم" کے "کرشمے" دیکھ سکے!
 

جاسم محمد

محفلین
میں نے بہرحال اپنا رجحان بیان کردیا ہے۔ جو وضاحت آپ نے پیش کی ہے میرے نزدیک اس کی حیثیت پوسٹ وار پروپیگنڈہ سے زیادہ کچھ نہیں۔
ہو سکتا ہے آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ البتہ امریکی صدر کے جوتے پہن کر سوچیں کہ اس صورتحال میں آپ کیا کرتے؟ جاپان کے پاس مین لینڈ پر ابھی بھی کئی ملین کی مسلح ا فوج موجود تھی جو اپنے ملک کیلئے لڑمرنے کیلئے تیار تھی۔
اگر اتحادی وہاں لنگر انداز ہوتے تو فضائی بمباری (جیسا کہ جرمنی میں کی گئی) اور شہروں میں افواج کی جھڑپوں سے زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہوتا۔ بعدی النظر میں امریکہ کا جاپان کے دو شہر مٹا کر باقی شہریوں کو بچانا ٹیکٹیل اور اسٹرٹیجک نگاہ سے زیادہ بہتر فیصلہ تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس بیانیے سے تو یوں لگ رہا ہے کہ گویا شب برات پر پٹاخے چھوڑنے کا مقابلہ تھا!
:)
جنگ اور کس چیز کا نام ہے؟ اگر امریکہ کی طرف سے انسانیت کا مظاہر ہ ہی مقصود تھا تو جاپان امریکہ کا پرل ہاربربحری بیڑہ اتنی بری طرح تباہ کر کے اسے دوسری جنگ عظیم میں زور زبردستی شامل نہ کرواتا۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
سچ مچ، عُنوان دیکھ کر، کچھ پڑھنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ کاش، اِس عنوان کو بدلنا بھی بس میں ہوتا۔ مالک کرم فرمائے، سب پر!
 
Top