تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

جاسم محمد

محفلین
IqOzd4r.jpg
محمد سعد رات نیند پوری نہیں ہوئی تھی؟ :D
 

زیک

مسافر
فاتح بھائی نے یہ خوبصورت غزل پیش کی۔

آفاق سے میرے گھر قندیل اتر آئی
گو نورِ مجسّم کی تمثیل اتر آئی

اک چہرۂ ابر آسا اترا مرے صحرا پر
ہاتھوں کے کٹورے میں اک جھیل اتر آئی

وہ صورتِ مریم تھی، میں منحرفِ تقدیس
ابلیس کے سینے میں انجیل اتر آئی

پڑھتا چلا جاتا تھا وہ اسم دُرُشتی سے
پھر مجھ پہ اچانک ہی ترتیل اتر آئی

اس نظمِ تمنّا کے ہونٹوں نے چھُوا جس دم
مجھ مصرعِ ناقص میں تکمیل اتر آئی

بس ترکِ تعلق کے موضوع پہ بحثیں تھیں
تنزیلِ مراسم میں تطویل اتر آئی

ٹھکرائی گئی جس دم قربانیِ جان و دل
پھر دل میں تمنائے قابیل اتر آئی

کشکول میں عزت کی خیرات تو ڈالی تھی
لہجے میں مگر اس کے تذلیل اتر آئی

امکان پذیری کی تجسیم تھی خوابوں میں
یوں کُن کی صداؤں میں تشکیل اتر آئی
شکر ہے ایسی مشکل شاعری سے میری بچت رہی
 

زیک

مسافر
اوہ یہ بات تو تذکرہ میں رہ گئی۔
کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لیے سب کے آگے کٹورے میں پانی رکھا گیا، جس میں گلاب کی پتیاں اور لیموں بھیگے ہوئے تھے۔ سعد بھائی کا اس میں ہاتھ دھونے سے زیادہ پینے کا جی چاہ رہا تھا۔ :)
یعنی ان کی شادی کے متعلق اب سوچا جانا چاہیئے
 

جاسمن

لائبریرین
واہ بھئی اسلام آبادیے اور کراچیے تو بہت ملنسار ہیں۔:) آئے دن ملاقاتوں کے احوال کی لڑیاں محفل پہ موجود ہوتی ہیں۔:)
 
کچھ دن پیشتر سید ذیشان نے ذاتی مکالمے میں بتایا کہ وہ پاکستان میں ہیں اور ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں دیگر شرکاء مکالمہ میں محمد تابش صدیقی فاتح سعادت محمد سعد اور نمرہ شامل تھے خیر پروگرام طے ہوا 4 اگست برور اتوار کو مین ڈبل روڈ پی ڈبلیو ڈی سوسائٹی پر واقع تندوری ریستوران جائے ملاقات قرار پایا فاتح نے ادھر میز پہلے ہی ریزرو کروا لی تھی وقت مقررہ پر ہم تندوری ریستوران پہنچے تو لیلیٰ شب اپنی زلفیں دراز کر چکی تھی سعادت اور محمد تابش صدیقی ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے سعادت سے مل کر خوشگوار حیرت ہوئی مزاج میں اپنے مراسلات کی طرح صلح جو دھیما مزاج اور انکساری اللہ اللہ خود سوچیں وہ حسن مجسم کیا ہو گا
محمد تابش صدیقی کے ساتھ یہ دوسری ملاقات تھی پہلی نظر میں آپ ان کی صلاحیتوں اور شخصیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے محمد تابش صدیقی اس قلزم خاموش کی طرح ہے جس کے اسرار آہستہ آہستہ کھلتے ہیں-
ابھی ہم نے گفتگو شروع ہی کی تھی کہ سید ذیشان اور نمرہ بھی پہنچ گئے سید ذیشان کا شمارمحفل کے چند انتہائی خوش اخلاق اور سلجھے ہوئے اراکین میں ہوتا ہے ہمارے درمیان بہت سے موضوعات پر اختلاف رائے کے باوجود باہمی عزت و احترام کا رشتہ قائم ہے۔
نمرہ کا اس سے پہلے نام نہیں سنا تھا پروفائل دیکھا تو علم ہوا کہ ہم سے کافی پہلے محفل جوائن کی ہے مگر کل مراسلات صرف 582 ہیں حیرت ہوئی کیونکہ خواتین کے متعلق مشہور ہے کہ بہت بولتی ہیں مگر ملاقات میں بہت کم بولیں مگر جو بھی بولیں نپا تلا اور مدلل باتوں سے ذہانت اور خود اعتمادی عیاں تھی ان کے پروفائل سے معلوم ہوا کہ شاعرہ بھی ہیں خوشگوار حیرت ہوئی چیدہ چیدہ کلام پڑھنے کا اتفاق ہوا لہجے میں توانائی اور سوچ میں گہرائی ہے نمونہ کلام ملاحظہ ہو

وفا کو دائمی سمجھا تھا، وہ بھی
سرِ ساحل مثالِ نقشِ پا تھی

یہ قصر خواب اپنی زندگی کا کل اثاثہ ہے
اسے تعمیر کر کے آپ مسماری میں رہتے ہیں

مزید آپ ان کی نثر پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی سوچ کسی معصوم بچے کی طرح امید کے بازؤں میں بھریاں مار رہی ہو۔
میری نمرہ سے گزارش ہے کہ زیادہ سے زیادہ محفل پر آیا کریں یقینا محفل پر اچھا اضافہ ثابت ہوں گی
باقی سے کا ذکر خیر ہو گیا اب رہ گیا محفل کا پرابلم چائلڈ اس شخص نے مجھے تو حیران کر دیا، ڈیرہ اسمعاعیل خان جیسے پسماندہ علاقے سے تعلق ہونے کے باوجود جہاں عورتیں اب بھی شٹل کاک برقعے پہنتی ہیں فزکس جیسے مشکل مضمون مین گولڈ میڈل لینا ان کی ذہانت اور لگن کو ظاہر کرتا ہے پہلی ملاقات میں آپ ان کے بارے میں سوچیں گے کہ کھلنڈرے لاابالی اور زندگی کو غیر سنجیدگی سے لینے والے شخص ہیں مگر جب یہ سنجیدہ ہوں تب ان کی شخصیت کا صحیح ادراک ہو گا امید ہے کہ شادی کے بعد ازدواجی زندگی کے تھپیڑے (بلکہ چپیڑیں) ان کو سنجیدہ کر دیں گی فلحال تو ان سے اتنا ہی کہوں گا

نالہ ہے بلبل شوریدہ سر ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
 
آخری تدوین:
Top