اے خان سے ملاقات

اے خان

محفلین
ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح
صرف اک بار ملاقات کا موقع دے دے

میری منزل ہے کہاں میرا ٹھکانا ہے کہاں
صبح تک تجھ سے بچھڑ کر مجھے جانا ہے کہاں
سوچنے کے لیے ایک رات کا موقع دے دے

اپنی آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں جگنو میں نے
اپنی پلکوں پہ سجا رکھے ہیں آنسو میں نے
میری آنکھوں کو بھی برسات کا موقع دے دے

ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح
اب رولائے گا کیا
 
ہم مہمان کی پسند بھی مدنظر رکھتے ہیں۔۔۔
محض اپنی پسند اس کے سر نہیں دھرتے!!!
ایک دفعہ ایک دوست کے ماموں کے گھر مردان جانا ہوا۔ کھانے کے وقت سب کے سامنے پلاؤ کی الگ الگ پرات اور ساتھ ساگ سے بھری پلیٹ اور موٹی روٹی رکھی گئی۔
ہم بیچارے اسلام آبادی دوست بساط بھر کھا کر اٹھنے لگے تو ماموں نے پستول نکال کر سامنے رکھی، کہ کھانا ختم کرو پہلے۔
 

سید عمران

محفلین
ایک دفعہ ایک دوست کے ماموں کے گھر مردان جانا ہوا۔ کھانے کے وقت سب کے سامنے پلاؤ کی الگ الگ پرات اور ساتھ ساگ سے بھری پلیٹ اور موٹی روٹی رکھی گئی۔
ہم بیچارے اسلام آبادی دوست بساط بھر کھا کر اٹھنے لگے تو ماموں نے پستول نکال کر سامنے رکھی، کہ کھانا ختم کرو پہلے۔
ہمارے ایک دوست اپنے پٹھان دوست کے لے گئے۔ کھانے کے بعد کینو پیش کیے۔ کینو کیا کوئی چیز ذرا بھی ترش ہو ہم سے نہیں کھائی جاتی۔ ہم نے اسی اندیشے کی بنا پر معذرت کرلی کہ ہم کینو نہیں کھاتے۔بھائی صاحب جوش کے مارے کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے کیسے نہیں کھائے گا، ہم تمارے واسطے اتنی دور بازار سے لایا ہے۔ پھر ہم نے جس طرح وہ کینو کھائے ہم جانتے یا ہمارا خدا!!!
 

اے خان

محفلین
ہماری طرف تو پوچھا جاتا ہے۔
ٹھنڈے گرم کا پوچھا جاتا ہے ۔تو میں نے کہا کہ ٹھنڈا تو جواب میں عمران بھائی نے کہا کہ کونسی بوتل میں نے کہا جو بھی میسر ہو تو عمران بھائی نے کہا کہ ڈیٹول کی بوتل ٹھیک رہے گی۔میں حیران رہ گیا :desire:
 

سید عمران

محفلین
ٹھنڈے گرم کا پوچھا جاتا ہے ۔تو میں نے کہا کہ ٹھنڈا تو جواب میں عمران بھائی نے کہا کہ کونسی بوتل میں نے کہا جو بھی میسر ہو تو عمران بھائی نے کہا کہ ڈیٹول کی بوتل ٹھیک رہے گی۔میں حیران رہ گیا :desire:
یہ سب کب ہوا؟؟؟
:eek::eek::eek:
 

اے خان

محفلین
تنگ آکر ہم نےعدنان بھائی کا نمبر ملا کر فون پکڑادیا: ’’ عدنان بھائی سے بات کرو۔ ہوسکتا ہے وہ تمہیں راضی کرلیں۔‘‘
خیر عدنان بھائی تو اسے کیا راضی کرتے الٹا اسی نے عدنان بھائی کو راضی کرلیا!!! :p:p:p
ہماری تشویش لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی کہ اب تک اس پوشیدہ مرض کے ڈانڈے نہ مل سکے کہ اے خان واپس کیوں جانا چاہتا ہے۔ ہماری کھید کرید جاری تھی۔
’’شادی کی کوئی خبر۔‘‘ ہم نے تفتیش آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ابا راضی نہیں ہوتے۔‘‘ بے زاری سے جواب دیا۔
ہمیں لگا کہ ڈانڈے کچھ کچھ ملنے لگے ہیں۔ ہم نے ڈانڈے مزید ملانے کا سلسلہ مزید تیز کیا۔
’’یہاں کوئی لڑکی پسند آئی؟‘‘ ڈانڈے ملانے کے لیے ہمارا اگلا سوال۔
’’مجھے تو بہت پسند آئی، پر ابا کو نہیں ۔‘‘ اس کا چہرہ بجھ گیا، منہ لٹک گیا اور کندھے ڈھلک گئے۔ ہم پُر جوش ہوگئے۔ گویا ڈانڈے صحیح صحیح ملنے لگے ہیں۔
’’ابا کو لڑکی نہیں پسند تو کہہ دو کہ ابا شادی آپ کو نہیں کرنی۔‘‘
’’ہاں وہ تو ہے پر ابا راضی ہوں گے تو شادی ہوگی ورنہ نہیں۔‘‘ لہجے سے اداسی اپنے بال کھولے سونے کی تیاریاں کرتی نظر آئی۔
’’ابا کو کیا چیز پسند نہیں آئی، شکل یا عادات؟‘‘
’’نہیں شکل تو بہت اچھی ہے۔‘‘ لہجہ بے اختیار جذباتی اور تیز ہوگیا ۔
’’پھر عادات پسند نہیں؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’کون سی عادت بری لگتی ہے؟‘‘
’’بس جی وہ پردہ نہیں کرتی ہے ناں بس ابا کو وہی اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’ہمم۔‘‘ ہم ہنکارا بھر کر رہ گئے۔ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے۔ ابا لوگوں سے کون ٹکر لے سکتا ہے۔ خیر ہمیں خوشی ہوئی کہ ہمارے ڈانڈے اب اپنے ملنے کے لیے صحیح رُخ پر سفر طے کرنے لگے ہیں۔
’’اچھا اب سمجھ میں آگیا ۔ یہ ابا سے ناراض ہو کر جانے کی ضد ہے۔‘‘ ہم نے ڈانڈے ملانے کے لیے آخری پتہ پھینکا۔ وہ مسکرانے لگا، نظریں چُرانے لگا، خاموش لفظوں سے بتانے لگا کہ ہمارے ڈانڈے بالکل صحیح مل گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا: ’’اچھا عمران بھائی اب اجازت دیں؟‘‘
’’ اگر نہ دی تو؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’پھر ہم نہیں جائیں گے۔ میزبان کی خواہش کا احترام کریں گے۔‘‘ ہم نے اسے ستانا مناسب نہ سمجھا اور آرام سے اجازت دے دی۔
جاتے جاتے گھر کے باہر کھڑے ہوکر سیلفی دے گیا۔
بقول فہیم بھائی سیلفی نہ دے جاتا تو کیا کیمرہ دے جاتا!!!
:eek:
 

فرقان احمد

محفلین
ٹھنڈے گرم کا پوچھا جاتا ہے ۔تو میں نے کہا کہ ٹھنڈا تو جواب میں عمران بھائی نے کہا کہ کونسی بوتل میں نے کہا جو بھی میسر ہو تو عمران بھائی نے کہا کہ ڈیٹول کی بوتل ٹھیک رہے گی۔میں حیران رہ گیا :desire:

یعنی کہ، لکس سے پہلے اور بعد میں، ڈیٹول پیش کیا جاتا ہو گا۔ مفتی صاحب سے ملاقات کے بعد اسی لیے سب دھلے دھلائے ہو جاتے ہیں۔ عدنان میاں اس کی واضح مثال ہیں۔
 
Top