دل بھی تاثیرِ محبت سے بدل جاتا ہے

صفی حیدر

محفلین
دل بھی تاثیرِ محبت سے بدل جاتا ہے
داد فریاد سے پتھر بھی پگھل جاتا ہے
کیسی فطرت ہے الم کیش کی روتا ہے مگر
دل پہ جو ٹوٹے قیامت تو بہل جاتا ہے
باغباں ہو کے ستم ڈھاتا ہے وہ پھولوں پر
جو کلی چٹکے وہ پیروں سے مسل جاتا ہے
مجھ کو رسوا نہ کرے اس کی گلی میں جانا
کیوں مجھے لے کے وہاں جذبہِ دل جاتا ہے
رات آغوش میں بھر لیتی ہے مجھ کو صد شکر
قہر ڈھاتا ہوا دن حشر کا ڈھل جاتا ہے
ختم ہوتی ہے جو تاریک مسافت دن کی
شام ڈھلتی ہے تو دل شمع سا جل جاتا ہے
چارہ گر سے یہ کہو کام نہیں سوزن کا
نوکِ مژگاں سے صفی خار نکل جاتا ہے
 
Top