سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
D-UW7TTX4AAthY2.jpg:large
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن کا اجڑا میلہ اور حکومت کی فتوحات
29/06/2019 عدنان خان کاکڑ



لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کا کیا ذکر بہت سوں کو تو کھانے پینے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مستحکم ہے۔ اس نے اپنے پہلے وزیر خزانہ کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ دور دور تک بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

عام طور پر جب ایسا ہو تو حکومت غیر مقبول ہوتی ہے اور اپوزیشن کی پتنگ چڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایسا ہوا کہ حکومت تو بے فکر ہو کر شغل لگانے میں مصروف ہے لیکن اپوزیشن حواس باختہ دکھائی دے رہی ہے۔ میاں نواز شریف اندر ہیں، مریم نواز چپ ہیں، آصف زرداری گرفتار ہو چکے ہیں، اور ان کی پارٹیاں دبکی بیٹھی ہیں۔

بہت رو پیٹ کر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی۔ اس میں بھی حکومت کو چیلنج دینے کا کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا سکا۔ مولانا فضل الرحمان اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تجویز پیش کیے بیٹھے تھے مگر بلاول نے یہ کہہ کر کہ اس کے نتیجے میں سیاسی سسٹم تباہ و برباد ہو سکتا ہے، مولانا کی تجویز کو رد کر دیا۔ دبے دبے لفظوں میں یہ بتایا گیا کہ جی ہم چیئرمین سینیٹ بدل دیں گے۔

حالانکہ یہ وہی چیئرمین سینیٹ ہیں جنہیں آصف زرداری نے منتخب کروایا تھا اور اس انتخاب کے دوران بعض اطلاعات کے مطابق ”ایک زرداری سب پر بھاری کے ساتھ نیازی، زرداری بھائی بھائی“ کے نعرے بھی لگائے گئے تھے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کو شکست دینا مقصود تھا۔ اب پیپلز پارٹی کو پتہ چلا ہے کہ ”نیازی زرداری بھائی بھائی“ کا نعرہ تو درست ہے لیکن اس رشتے میں زرداری برادر خورد ہیں اور برادر خورد کی حیثیت ایک مشہور فارسی محاورہ ہمیشہ کے لئے متعین کر گیا ہے۔

اپوزیشن کے حامی اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے دیا کرتے تھے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہی ہے تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے، عمران خان کا بخار اسی صورت میں عوام کے سر سے اترے گا اگر انہیں عمران خان کی حکومت کا مزا چکھایا جائے۔ لیکن اب جس طرح آسانی سے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا بجٹ پاس کروا لیا ہے اور بلاول بھٹو محض دھاندلی کا شور مچاتے رہ گئے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ اپوزیشن بالکل بے بس ہو چکی ہے۔ بلاول اب عوام سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ معیشت سکڑ رہی ہے۔ لوگوں کی نوکریاں جا رہی ہیں۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کون سی ایسی پارٹی ہے جو عوام کے جذبات کو زبان دے رہی ہو؟ کون سا لیڈر ہے جو یہ کہہ رہا ہو کہ وہ عوام کی تکلیف کو سمجھتا ہے اور اس کی خاطر کچھ کرنے کا متمنی ہے؟ اپوزیشن میں کون ہے جو عوام کے ان مسائل کو بنیاد بنا کر حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہو؟

عوام کو جب یہ دکھائی دے گا کہ نہ تو حکومت ان کے ساتھ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی لیڈر، تو پھر سڑکوں پر ایک بے قابو ہجوم ہی نکلے گا جس کا کوئی لیڈر نہیں ہو گا۔ اس ہجوم کے لئے اپوزیشن کے لیڈر بھی اتنے ہی قابل نفرت ہوں گے جتنے حکومت کے۔ عوام اس پر بلاول کی خواہش کے مطابق حکومت کے خلاف نہیں بلکہ سسٹم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ انہیں خواہ کالا چور ہی روٹی دینے کا وعدہ کرے وہ اس کا ساتھ دیں گے۔ پھر خواہ بوٹ آئیں یا داعش، یہ عوام کی قسمت ہو گی۔ نتیجے میں سیاسی سسٹم تباہ و برباد ہو سکتا ہے جسے بچانے کی چاہ بلاول رکھتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن لیڈر عوام کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں۔ صرف یہی فیکٹر سیفٹی والو کا کام دے سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شریف خاندان نے مداخلت کیلئے 2 ممالک کو پیغام بھجوایا، وزیر اعظم
ویب ڈیسک01 جولائی 2019

وزیر اعظم عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادوں نے دو ممالک سے رابطہ کیا اور ان کے والد کو سہولت فراہم کرنے کے لیے مداخلت کی درخواست کی۔

انہوں نے ان ممالک کا نام لیے بغیر کہا کہ ان ممالک کے پیغام پہنچایا لیکن مداخلت سے انکار کیا اور مجھے بتایا کہ وہ ملکی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' کے پروگرام میں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کے چیئرمین شبر زیدی کے ہمراہ بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 'این آر او کے لیے کسی کی سفارش نہیں چلے گی، سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو دیئے این آر او نے ملک کو تباہ کردیا، بعد ازاں دونوں نے ایک دوسرے کو این آر او دیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'این آر او تو ہونا نہیں ہے، پلی بارگین ہوسکتی ہے، آصف زرداری مشکل میں ہیں تو پیسہ واپس کر دیں جبکہ نواز شریف بھی پیسہ واپس کریں اور علاج کے لیے بیرون ملک چلے جائیں۔'

دونوں رہنماؤں کو ریلیف دینے کے لیے کسی قسم کے دباؤ سے متعلق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'یہ پہلا مرحلہ ہے جس میں پاک فوج، حکومت کے ایجنڈے اور منشور کے ساتھ کھڑی ہے، کوئی ملک سے فرار نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی سفارش کام آئے گی۔'

انہوں نے خبردار کیا کہ منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت گرفتار یا سزا یافتہ سیاست دان جیل میں سہولتیں حاصل نہیں کر سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں وزارت قانون کو کہہ چکا ہوں کہ منی لانڈررز کو عام جیل میں ڈالا جانا چاہیے اور جلد ہی اس حوالے سے قانون سازی کی جائے گی۔'

عمران خان کا کہنا تھا کہ 'ان منی لانڈررز کو علم ہونا چاہیے کہ ملک میں عام مجرم کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔'

'پی ٹی آئی کی حکومت نے 10 ارب ڈالر قرض ادا کیا'
وزیر اعظم نے ملک کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 'تحریک انصاف کی حکومت گزشتہ حکومتوں کی جانب سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں 10 ارب ڈالر خرچ کر چکی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'موجودہ حکومت کو 19 ارب ڈالر سے زائد کا ریکارڈ جاری خسارہ ملا جس سے روپے پر دباؤ بڑھا۔'

عمران خان نے اس حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے کہا کہ 'اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ پر قابو پانے کے لیے حکومت نے جامع منصوبہ بنایا ہے اور اس سلسلے میں نئی قانون سازی کی جائے گی۔'

آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس کا زیادہ ہدف مقرر کرنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس نیٹ کو بڑھا کر یہ ہدف حاصل کیا جائے گا۔'

انہوں نے ایک بار پھر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ٹیکس کے ذریعے ملک کی آمدنی کا نصف حصہ قرضوں کی واپسی میں چلا جاتا ہے۔'

انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اگلی ملاقات کے بعد اقتصادی محاذ پر صورتحال معمول پر آجائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جن لوگوں نے قوم کو مقروض کیا، میں ان سے جواب لوں گا: وزیراعظم
Last Updated On 03 July,2019 09:10 pm

راولپنڈی: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نیا پاکستان بننا شروع ہو گیا ہے، پہلے کبھی کسی نے بڑے ڈاکوؤں پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ اب جو مرضی کرنا ہے کر لیں، جس مرضی بادشاہ کے گھٹنے دبا لیں، کوئی این آر او نہیں ملے گا۔

سرسید ایکسپریس ٹرین کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک وسائل میں کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ کرپشن کی وجہ سے غریب ہوتا ہے۔ کرپشن غریب کو غریب اور ایک چھوٹے سے طبقے کو امیر کر دیتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 10 سال میں سابق حکومتوں نے پاکستان کا قرضہ 30 ہزار ارب پر پہنچا دیا ہے۔ ان دس سالوں میں زرداریوں اور شریفوں کے بچے بھی اربوں پتی بن گئے۔ ان سب کی بیرون ملک اربوں کی پراپرٹی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اپنی قوم سے وعدہ کرکے آیا تھا کہ جن لوگوں نے قوم کو مقروض کیا، میں ان سے جواب لوں گا۔ یہ شور مچاتے ہیں کہ میں ان کیخلاف انتقامی کارراوائی کر رہا ہوں لیکن ان لوگوں نے دراصل مجھے انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ میں دو مقدمات درج کرائے، 32 ایف آئی آر کٹوائیں جبکہ 6 الیکشن کمیشن میں کیس دائر کیے لیکن میں باہر نہیں بھاگا بلکہ عدالت میں جواب دیا اور صادق اور امین ٹھہرا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ اس حکومت نے روپے کو ڈی ویلیو کر دیا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ شہباز شریف اور زرداری خاندان چوری والا آدھا پیسہ واپس کر دیں تو روپے کی قدر بڑھ جائے گی اور ڈالر نیچے آ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اربوں چوری کرنے والے کہتے ہیں کہ باہر سے کھانا آنا چاہیے اور جیل وی آئی پی ہونی چاہیے، کہتے ہیں جیل کے اندر ٹی وی اور ایئرکنڈیشنڈ بھی دو۔ حالانکہ جیل کا مطلب ہوتا ہے کوئی چوری نہ کرے، سزائیں صرف چھوٹے چوروں کو ملتی ہے۔ نئے پاکستان میں قانون سب کے لیے ایک ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں اب رک جانا چاہیے
جاوید چوہدری جمعرات 4 جولائ 2019

سیف الرحمن اب تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکے ہیں لیکن ایک وقت تھا جب پورے ملک میں ان کا طوطی بولتا تھا‘ میاں نواز شریف کے پرانے دوست اور قطر کے شاہی خاندان کے مشیر تھے‘ یہ نواز شریف کے پہلے دور میں پاکستان آئے‘ ریڈکو کے نام سے کمپنی بنائی‘ حکومت سے ٹھیکے لیے اور دنوں مہینوں میں ارب پتی ہو گئے اور یہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں سینیٹر بن گئے۔

آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے دوسرے دور میں رحمن ملک کے ذریعے میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کو ان کے دفتر سے کرسی سمیت اٹھوایا تھا‘ میاں نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو یہ بھٹو خاندان سے اس ہزیمت کا بدلا لینا چاہتے تھے لیکن ن لیگ کا کوئی لیڈر انتقام کی اس سیاست میں نواز شریف کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تھا‘یہ ایک نازک مسئلہ تھا اور اس نازک مسئلے میں سیف الرحمن نے اپنی خدمات پیش کر دیں یوں میاں نواز شریف نے سیف الرحمن کو احتساب بیورو کا چیئرمین بنا دیا اور یہ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرنے پر تیار ہو گئے‘ پولیس میں سے یہ سروس رانا مقبول نے پیش کر دی۔

قصہ مختصر سیف الرحمن نے ’’کمال‘‘ کر دیا‘ احتساب کے نام پر آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف ایس جی ایس اور کوٹیکنا ‘ اے آر وائی گولڈ کے مالکان کے ساتھ مل کر سونے کی اسمگلنگ‘ ارسس ٹریکٹرز کی خریداری میں ڈیڑھ لاکھ روپے فی ٹریکٹر کمیشن اور آمدنی سے زائد اثاثوں کے ریفرنس بھی دائر کر دیے ‘ آپ نے سیف الرحمن کی جسٹس قیوم سے ٹیلی فونک گفتگو سنی ہو گی۔

اس میں سیف الرحمن نے جسٹس قیوم کو فون کر کے بے نظیر بھٹو کے خلاف جلد سے جلد فیصلے کا ’’حکم‘‘ جاری کیا تھا‘ کرپشن کے یہ سارے مقدمے چل رہے تھے‘ آصف علی زرداری جیل میں بھی تھے لیکن اس زمانے میں حکومت کے خوفناک دباؤ کے باوجود کوئی جج بھٹو خاندان کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ پوری عدلیہ جانتی تھی یہ مقدمے سیاسی ہیں اور بھٹو خاندان کبھی نہ کبھی ان مقدموں سے نکل آئے گا چناں چہ عدلیہ میاں نواز شریف کے لیے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو ناراض کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

حکومت کو ایک وقت پر محسوس ہونے لگا بھٹو خاندان تمام مقدمات سے بری ہو جائے گا لہٰذا سیف الرحمن نے اس وقت زرداری صاحب کو جیل میں رکھنے کے لیے خوف ناک چال چلی‘ حکومت کی ایما پر آصف علی زرداری کے خلاف منشیات اسمگلنگ کا پرچہ بھی درج کر دیا گیا‘ منشیات ناقابل ضمانت جرم بھی ہے اور اس کی حتمی سزا موت اور عمر قید بھی ہے‘ سیف الرحمن کا خیال تھا آصف علی زرداری اگر تمام مقدمات سے بری بھی ہو گئے یا ان کی ضمانت بھی ہو گئی تو بھی یہ منشیات کے کیس کی وجہ سے باہر نہیں آ سکیں گے لیکن آپ قدرت کا نظام ملاحظہ کیجیے۔

12 اکتوبر 1999ء آیا اور فوج نے سیف الرحمن کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا‘ اب صورت حال بہت دل چسپ تھی‘ آصف علی زرداری سیف الرحمن کی وجہ سے جیل میں تھے اور سیف الرحمن جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے جیل میں بند تھے اور یہ دونوں باری باری ایک ہی جج کے سامنے پیش ہوتے تھے‘ ان پیشیوں کے دوران ایک انتہائی دل چسپ وقت آیا‘ آصف علی زرداری اینٹی کرپشن کورٹ کے احاطے میں درخت کے نیچے بیٹھے تھے‘ سیف الرحمن آئے اور آصف علی زرداری کے پاؤں پکڑ لیے‘ زرداری صاحب نے سیف الرحمن کو اٹھایا اور ساتھ بٹھا لیا‘ سیف الرحمن اپنے ماضی کے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔

زرداری صاحب نے ان سے کہا ’’میں آپ کو دل سے معاف کرتا ہوں مگر میرے دل میں مرنے تک ایک تکلیف باقی رہے گی اور وہ ہے آپ کی ایک گری ہوئی حرکت‘ آپ نے مجھ پر کرپشن کے مقدمے بنائے‘ مجھے کوئی افسوس نہیں ہوا‘ آپ دس بیس مزید مقدمے بھی بنا دیتے تو مجھے کوئی ملال نہ ہوتا لیکن آپ نے میرے خلاف منشیات اسمگلنگ کا کیس بنا کر بڑی زیادتی کی‘ میں آپ کو یہ کبھی معاف نہیں کروں گا‘‘ اور زرداری صاحب نے آج تک سیف الرحمن کو یہ جرم معاف نہیں کیا‘ منشیات کا وہ جھوٹا مقدمہ گیارہ سال زیر سماعت رہا‘وہ مئی 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اختتام پذیر ہوا ۔

آپ یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے اور آپ اس کے بعد رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کا تجزیہ کیجیے‘ رانا ثناء اللہ کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے یکم جولائی کو موٹروے پر سکھیکی کے قریب گرفتار کر لیا‘ اے این ایف کے مطابق رانا صاحب کی گاڑی سے 21کلو گرام وزنی سوٹ کیس برآمد ہواجس میں15کلو گرام ہیروئن تھی ‘اگلے دن رانا ثناء اللہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا‘ یہ کیس کتنا جینوئن ہے یہ فیصلہ وقت کرے گا تاہم یہ بظاہر آصف علی زرداری کے خلاف سیف الرحمن کیس سے ملتا جلتا ہے‘ رانا ثناء اللہ کے بے شمار دشمن ہیں اور یہ دشمن ان پر بے شمار الزامات لگاتے ہیں۔

چوہدری شیر علی نے انھیں 20لوگوں کا قاتل کہا تھا اور رانا ثناء اللہ کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14لوگوں کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی لیکن کیا یہ منشیات کے اسمگلر یا منشیات فروش بھی ہو سکتے ہیں یہ ان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں مان رہا ‘ ہم اگر چند لمحوں کے لیے یہ فرض بھی کر لیں رانا ثناء اللہ کے خلاف الزامات سچ ہیں تو بھی دل یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا 30سال سیاست اور اقتدار میں رہنے والا شخص اس قدر احمق ہو سکتا ہے وہ 15 کلو منشیات اپنی گاڑی میں رکھ کر موٹروے پر سفر کرے گا اور وہ بھی ان حالات میں جب وہ جانتا ہو وہ حکومت کی موسٹ وانٹڈ فہرست میں شامل ہے‘ رانا ثناء اللہ پچھلے دو ماہ سے مختلف صحافیوں‘ اینکر پرسنز اور اپنے ساتھیوں کو بتا رہے تھے میرے خلاف کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ یہ مجھے ہر صورت میں گرفتار کریں گے۔

یہ آخری بار ہمارے شو میں آئے تھے‘ پروگرام کے بعد یہ چلتے چلتے کہنے لگے ’’میں شاید آپ کے پروگرام میں آخری بار آیا ہوں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’خیریت ہے‘‘ یہ چلتے چلتے بولے ’’حکومت اور حکومت کے اداروں کو میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رہا‘ مجھے خطرہ ہے اگر میرے خلاف کوئی ثبوت نہ ملا تو یہ مجھے مروا دیں گے‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر کہا ’’جان دیو رانا صاحب حالات ابھی اتنے خطرناک بھی نہیں ہوئے‘‘ یہ بھی ہنس کر چلے گئے‘ مجھے اس دوران پتا چلتا رہا رانا ثناء اللہ نے اپنی سیکیورٹی اور احتیاط دونوں بڑھا دی‘ گارڈز بھی نئے رکھ لیے اور یہ اپنی آمد ورفت بھی خفیہ رکھتے تھے۔

آپ اے این ایف کی ایف آئی آر بھی پڑھ لیجیے‘ چھاپا مارنے والے افسر نے ایف آئی آر میں لکھا ‘ہم نے رانا ثناء اللہ سے منشیات کے بارے میں پوچھا توانھوں نے اپنی سیٹ کے پیچھے پڑے سوٹ کیس میںشاپرکے اندر ہیروئن کی نشان دہی خود کی‘سوال یہ ہے کیا کوئی انسان اپنی گاڑی میں موجود منشیات کی نشان دہی خود کر سکتا ہے اور وہ کون سا بریف کیس ہے جس میں 15 کلو گرام منشیات آ جاتی ہے‘ عقل یہ نہیں مانتی‘پاکستان مسلم لیگ ن کے بے شمار لیڈر راناثناء اللہ کو خوش نصیب قرار دے رہے ہیں۔

ان کا خیال ہو گا یہ گرفتار ہو کر بچ گئے ہیں‘ یہ پکڑے نہ جاتے تو یہ مارے جاتے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ دراصل انتقال فرما چکے ہیں‘ ہمارے ملک میں کسی شخص پر منشیات اسمگلنگ کا الزام لگنا اور اس کا گرفتار ہونا کیا یہ موت کے برابر نہیں؟ یہ الزام 9 سی ہے اور اس میں ملزم کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے اور عمر قید بھی لیکن یہ بعد کی بات ہے‘ ملزم کو خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جن جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہ ملزم جانتا ہے یا اس کا خدا‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں اگر چوہدری شجاعت کی فائل کھل جاتی ہے تو یہ فائل 19 سال بند نہیں ہوتی‘ بابر اعوان نے 1996ء کے الیکشنز میں دھاندلی کی پٹیشن دائر کی تھی‘ یہ پٹیشن 21 سال بعد2017ء میں اختتام پذیر ہوئی‘ اس دوران چار حکومتیں گزر چکی تھیں جب کہ یہ نائن سی کا مقدمہ ہے‘ یہ رانا صاحب کی دو نسلیں کھا جائے گا چناں چہ میں سمجھتا ہوں رانا صاحب زندہ ہوتے ہوئے بھی انتقال فرما چکے ہیں۔

میں معاشرے اور ملک کے بارے میں بہت پر امید تھا‘ میرے دوست مجھے غیر ضروری حد تک پرامید سمجھتے ہیں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں قدرت جب تک سورج اور چاند کی آمد و رفت نہیں روکتی‘ جب تک بارشیں‘ ہوائیں‘ پھول اور پھل مایوس نہیں ہوتے یا دنیا میں جب تک بچے پیدا ہونا بند نہیں ہوتے انسان کو اس وقت تک مایوس نہیں ہونا چاہیے‘ اللہ تعالیٰ اگر ہماری آخری سانس تک ہمارے لیے توبہ کے دروازے بند نہیں کرتا تو پھر مایوسی کفر ہے لیکن یہ حالات دیکھ کر میں بھی پہلی بار مایوس ہو رہا ہوں‘ مجھے بھی محسوس ہو رہا ہے ہم دلدل کے اوپر چل رہے ہیں اور کسی دن یہ دلدل پھٹے گی اور ہم سب اس میں دھنس جائیں گے۔یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے‘ہماری چار نسلیں اس بدبودار نظام اور ان تعفن زدہ تکنیکس کی نذر ہو چکی ہیں‘ ہم نے ملک توڑ کر بھی سبق نہیں سیکھا‘ ہم آج بھی چٹان کے آخری سرے پر کھڑے ہو کر ایک ٹانگ پر اچھلنے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔

یہ کب تک چلے گا؟ میرے والد بھرپور زندگی گزار کر 84 سال کی عمر میں اس سال مارچ میں انتقال کر گئے‘ وہ آخری پانچ برسوں میں بار بار کہتے تھے ’’میں نے پوری زندگی اس ملک میں امن نہیں دیکھا‘ ہم نے بچپن میں انگریز کے خلاف جدوجہد کی اور ہم 70 برسوں سے انگریزی نظام کے خلاف جنگ کر رہے ہیں‘ میں جنگوں میں پیدا ہوا اور میں جنگ میں مر رہا ہوں‘ پتا نہیں اس ملک پر کس آسیب کا سایہ ہے‘ ہمیں سکھ کا سانس کب نصیب ہو گا‘‘ میں خود بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی کیفیت کا شکار ہوتا جا رہا ہوں اور بار بار سوچتا ہوں کیا ہماری اگلی نسل بھی اسی کنفیوژن‘ اسی خوف میں زندگی گزارے گی؟

کیا یہ بھی امن اور استحکام کو ترستی ترستی دنیا سے جائے گی؟ اور ہم ملک‘ قوم اور معاشرہ کب بنیں گے لہٰذا خدا کے لیے رانا ثناء اللہ اگر قاتل ہے تو اسے قتل میں گرفتار کریں‘ یہ اگر دہشت گرد ہے تو اسے دہشت گردی کے جرم میں پکڑیں اور یہ اگر کرپٹ ہے تو پھر اسے کرپشن کے الزامات میں حراست میں لیں‘ اسے یوں رسوا کر کے ریاست کی رسوائی میں اضافہ نہ کریں‘ اداروں کا مذاق نہ بنوائیں‘ یہ حماقتیں ریاست‘ اداروں اور حکومت تینوں کو ’’ڈس کریڈٹ‘‘ کر دیں گی‘ دنیا ہماری کسی بات اور کسی ادارے پر یقین نہیں کرے گی‘ ہمیں اب رک جانا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت پر الزام لگا کر اپوزیشن اپنے جرائم سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے، وزیراعظم
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1730366-imrankhane-1562248383-593-640x480.jpg

معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے مشکل فیصلے کیے، وزیراعظم ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ راناثناءاللہ کی گرفتاری سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں لیکن اپوزیشن حکومت پر الزام لگا کر اپنے جرائم سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پارٹی ترجمان اور رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی، اجلاس میں اپوزیشن رہنماوں کی گرفتاریوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی مشاورت کی گئی۔

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کاکہنا تھا کہ اپوزیشن صرف اپنے جرائم سے توجہ ہٹانے کے لئے حکومت پر الزامات لگا رہی ہے، انتقام کی سیاست پی ٹی آئی کا نظریہ نہیں ہے، لیگی رہنما راناثناءاللہ کی گرفتاری سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں، جن لوگوں پر مقدمات ہیں عدالتوں میں ان کی صفائی دیں، پاکستان میں اب ادارے اور عدالتیں آزاد ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیداد رکھنے والوں کو پورا موقع دیا گیا، لیکن اب بے نامی جائیداد رکھنے والوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی ہو گی۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان سے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ملاقات کی، وزیراعظم کو پنجاب میں صنعتی شعبے، زراعت اور سیاحت کے فروغ کے لئے کئے گئے اقدامات، خصوصی اقتصادی زونز کے قیام اور کاروباری طبقے کے مسائل اور حل پر بریفنگ دی گئی۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مشکل معاشی حالات میں حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیا ہے، بجٹ میں صنعتی شعبے کا فروغ اور کمزور طبقے کے تحفظ پرپوری توجہ دی گئی، معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے مشکل فیصلے کیے، ان فیصلوں کا مقصد معیشت کی سمت درست کرنا اور ملک کومعاشی مشکلات سے نکالنا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شہباز شریف سن لیں میں تو موت بھی برداشت کر سکتا ہوں، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے بیان پر درعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں تو موت بھی برداشت کر سکتا ہوں لیکن آپ نہیں کر سکتے۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے چند روز قبل اپنے بیان میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران نیازی صاحب اتنا ظلم کرو جتنا برداشت کر سکو۔

وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں غربت کے خاتمے کے قومی پروگرام ’احساس‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا شہباز شریف کہتے ہیں کہ اتنی سزا دینا جتنی برداشت کر سکتے ہو، آج شہباز شریف کے لیے پیغام ہے کہ میں تو اپنی موت بھی برداشت کر سکتا ہوں لیکن آپ نہیں کر سکتے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ شہباز شریف لوٹی گئی دولت سے لطف اندوز ہونے کے لیے موت برداشت نہیں کر سکتے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا افسوس سےکہنا پڑتا ہےکہ جو ملک اسلام کے نام پر بنا اس ملک میں انسانیت نظر نہیں آئی، غیر مسلم ممالک میں انسانیت کی زیادہ قدر نظر آئی۔

انہوں نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے لوگوں میں احساس ہے ریاست میں نہیں، انسان اور جانوروں کے معاشرے میں انصاف، انسانیت کا ہی فرق ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اسلامی تاریخ پڑھنی شروع کی تو پتا چلا یورپ کی تمام اچھی باتیں تو مدینہ کی ریاست میں تھیں، مدینہ کی ریاست میں تمام نظام ماڈرن تھا، پیسے والوں سے ٹیکس لے کر کمزور طبقے پرخرچ کیا جاتا تھا، مدینہ کی ریاست نے دنیا کو نئی تہذیب دی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چین نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا، 82 ہزار افراد کو بلا سود قرضے دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 60 فیصد پاکستانی 30 سال سے کم عمر ہیں، ہم نوجوانوں کو قرضے دے کر اوپر لائیں گے، نوجوانوں کو ہنر سکھا دیں تو یہ نوجوان ہماری طاقت بنیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عجیب عجیب باتیں سنتا تھا کہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنا دیں گے، لاہور کو پیرس بنا دیں گے، 30 سال سے اقتدار میں رہنے والےکہتے ہیں میڈیکل چیک اپ کیلیے لندن جائیں گے، یہ 30 سال اقتدارمیں رہے ایک اسپتال نہیں بنایا جہاں ان کاعلاج ہو سکے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کمزور طبقے کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور ہر ماہ احساس پروگرام کے تحت کمزور طبقے کو اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے شہریوں میں بہت احساس ہے، لوگوں کے اس احساس سے ہم نے کینسر اسپتال اور یونیورسٹی بنائی، چائے والے، چھابڑی والے نے کینسر اسپتال کے لیے پیسے دیئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اقتدار میں رہنے والے اربوں روپے کا بیرون ملک میں علاج کراتے رہے، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کا کام تھا کہ اچھے اسپتال بناتے۔

انہوں نے کہا کہ باہر سے کسی نے آکر نہیں ٹھیک کرنا، اپنے اداروں کو ہم نے ہی ٹھیک کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا جب لوگوں کو احساس ہو گیا کہ ہمارے پروگرام میں شفافیت ہے تو زیادہ لوگ پیسا دینا شروع کر دیں گے، مزید لوگ آئیں گے اور احساس پروگرام میں حصہ ڈالیں گے، غربت مٹاؤ پروگرام ہر وزارت کا حصہ ہو گا۔

بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی کرنے والوں کو 10 فیصد دینے کا اعلان

وزیراعظم عمران خان نے بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی کرنے والوں کو 10 فیصد دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بے نامی جائیدادوں کی جو بھی نشاندہی کرے گا ہم رولز تبدیل کر کے اس کو 10 فیصد دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بےنامی جائیداد سے حاصل ہونے والا سارا پیسا احساس پروگرام میں ڈال دیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فسطائیت کی چودہ نشانیاں
07/07/2019 وسعت اللہ خان



امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹ رکن الیگزینڈریا اوکاسئیو کارتیز نے حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے میکسیکو کی سرحد پر غیرقانونی تارکینِ وطن کو قید رکھنے کے لیے بنائے گئے حراستی مراکز کو کنسنٹریشن کیمپ قرار دیا تو اس کے ردِعمل میں واشنگٹن میں قائم ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی سربراہ سارہ بلوم فیلڈ نے خفا ہو کر کہا ہے کہ کنسنٹریشن کیمپ کی اصطلاح تیس اور چالیس کے عشرے کے ان نازی جرمن کیمپوں سے جڑی ہوئی ہے جو ساٹھ لاکھ یہودیوں کی قتل گاہ تھے۔ ان کیمپوں سے تارکینِ وطن کے حراستی مراکز کا موازنہ زیادتی ہے۔

سارہ بلوم فیلڈ کے اس بیان کی ہالو کاسٹ اور نسل کشی سے متعلق دنیا بھر کے ڈھائی سو محققین اور اساتذہ نے ایک اجتماعی خط میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیر علم دوست بیان ہالوکاسٹ میوزیم کی انتظامیہ کو زیب نہیں دیتا۔ اتنا جامد موقف اختیار کرنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں ماضی اور حال میں ہونے والے نسل کشی کے واقعات پر علمی و غیرجانبدارانہ انداز میں تحقیق مشکل اور ناقص ہوتی چلی جائے گی۔

خط میں حیرت ظاہر کی گئی ہے کہ جس ہالوکاسٹ میوزیم کی لابی میں فسطائیت سے خبردار کرنے کے بارے میں پوسٹر لگا ہوا ہے۔ اس میوزیم کی جانب سے اتنا بے لچک موقف سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس پوسٹر میں معروف سیاسی محقق ڈاکٹر لارنس برٹ کے ایک مقالے سے فاشزم کی چودہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔

ایک) جنونی قوم پرستی کا مسلسل پھیلاؤ اور ریاستی سرپرستی

دو ) انسانی حقوق کی گفتگو سے بیزاری

تین) اکثریتی گروہ کو متحد کرنے کے لیے مخصوص دشمنوں کی نشاندہی اور اس کے پردے میں اقلیتوں کو ہدف بنانے کی پالیسی

چار ) عسکریت کی بالا دستی اور اس کی شان و شوکت بڑھا چڑھا کے پیش کرنا۔

پانچ ) مردانگی کا مسلسل پرچار اور دیگر جنس کو کمتر سمجھنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی۔

چھ ) ذرایع ابلاغ پر مکمل کنٹرول

سات) قومی سلامتی کے نام پر مسلسل ڈر پھیلاتے رہنا ( یعنی ہم تمہارا تحفظ نہیں کریں گے تو کالا بھوت آ جائے گا)۔

آٹھ) مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کا سرکاری سطح پر استعمال۔

نو) سرمایہ دار کا تحفظ

دس) مزدور قوت کو کچلنا

گیارہ) فنون اور عقلیت پسندی سے نفرت و بیزاری

بارہ) جزا اور سزا پر زور اور سزائیں دینے کا جنون

تیرہ) اقربا پروری اور بدعنوانی

چودہ) انتخابی جعلسازی

گویا یہ وہ آئینہ ہے جس میں دیکھ کر کوئی بھی جانچ سکتا ہے کہ جس ریاست یا معاشرے میں وہ رہ رہا ہے اس میں فسطائیت کے کتنے جراثیم ہیں اور اس سے پہلے کہ یہ جراثیم جسم کو مکمل لپیٹ میں لے لیں ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

جنوری دو ہزار سترہ میں ’’ واشنگٹن منتھلی ’’نامی ویب سائٹ پر مارٹن لانگ مین کا ایک مضمون خاصا وائرل ہوا۔ اس مضمون میں لانگ مین نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کے امریکا میں فاشزم کی چودہ میں سے بارہ ابتدائی علامات موجود ہیں اور اگر ان پر دھیان نہ دیا گیا تو مرض بے قابو ہوتا چلا جائے گا۔

دو ہفتے پہلے نئی بھارتی لوک سبھا میں ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر پہلی بار منتخب ہونے والی رکنِ اسمبلی ماہووا موئترا کی پہلی تقریر نے ایوان سے لے کر ذرایع ابلاغ تک بجلی دوڑا دی۔ انھوں نے گنواتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اس وقت فاشزم کی چودہ میں سے سات نشانیاں ( ایک، دو، چھ، سات، آٹھ، گیارہ، چودہ) پوری طرح نظر آ رہی ہیں۔

ماہووا کی اس تقریر نے انتخابات کے بعد جامد اور بور بھارت میں تازہ بحث چھیڑ دی۔ لبرل میڈیا نے اس تقریر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بی جے پی کے حامی میڈیا نے ماہووا پر الزام لگایا کہ یہ ان کے اپنے خیالات نہیں بلکہ مارٹن لانگ مین کے مضمون سے چرائے گئے ہیں۔ چنانچہ مارٹن کو ٹویٹ کرنا پڑا کہ ’’ ان دنوں میں انٹرنیٹ پر بھارت میں بہت مشہور ہو گیا ہوں۔ کیونکہ ایک سیاستدان پر میرے مضمون سے سرقے کا الزام لگا ہے۔ یہ ایک بہت ہی بچگانہ الزام ہے۔ لگتا ہے دائیں بازو کے احمق بھلے کسی بھی ملک میں ہوں سوچتے ایک ہی طرح سے ہیں ‘‘۔

فاشزم کی نشانیاں صرف امریکا اور بھارت کی حد تک نہیں ہیں۔ یورپ میں ہنگری، آسٹریا، اٹلی اور ہالینڈ میں انتہائی دائیں بازو کا زور، اسرائیل، فلپینز اور برازیل میں انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کا اقتدار میں رہنا یا آنا۔ برطانیہ میں بریگزٹ کی مہم کا انتہائی دائیں بازو کے ہاتھ میں ہونا اور بریگزٹ کے سرخیل بورس جانسن کے اگلا برطانوی وزیرِ اعظم بننے کے قوی امکانات، گلوبلائزیشن اور اقتصادی لبرلائزئشن کے بعد سرمایہ دار دنیا کا دوبارہ اقتصادی دیواروں کے پیچھے پناہ لینا، تارکینِ وطن اور پناہ کے لیے سرگرداں مصیبت زدگان سے بیزاری اور انھیں روکنے کے لیے قوانین میں سختی۔

اس پس منظر میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے جاپان میں جی ٹوئنٹی اجلاس سے پہلے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان پر بھی کان دھرنے کی ضرورت ہے۔

فرماتے ہیں ’’ لبرل نظریہ اپنی عمر پوری کر چکا ۔ لوگ اب تارکینِ وطن، کھلی سرحد اور کثیرالثقافت معاشرے کے مخالف ہو رہے ہیں۔ اینجلا مرکل نے دس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول کے فاش غلطی کی ہے۔ جب کہ ٹرمپ میکسیکو کی طرف سے منشیات اور پناہ گزینوں کی آمد روکنے کے لیے قابلِ تعریف اقدامات کر رہے ہیں۔ مگر لبرل کہتے ہیں کہ چونکہ پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے بھی حقوق ہیں لہذا وہ بے فکری سے قتل، ریپ اور لوٹ مار کر سکتے ہیں۔ ہر جرم کی سزا ہے۔ اکثریت یہی سمجھتی ہے۔ لہذا لبرل نظریہ اکثریتی مفادات سے متصادم ہونے کے سبب بے اثر ہو چکا ہے ‘‘۔

کے جی بی کا ایک سابق افسر جو شخصیت پرستی، جی حضوریوں کو وسائل پر تصرف اور مشرقی یوکرین اور کرائمیا پر قبضے اور شام میں بھرپور فوجی مداخلت کے نتیجے میں پانچ ملین شہریوں کو تارکینِ وطن بنانے کا سبب بن چکا ہو اور اپنی ریاست میں ہر اختلافی آواز کو کچل کے رکھا ہو اور بیرونِ ملک مقیم مختلف رائے رکھنے اور آواز بلند کرنے والے صحافیوں اور سوچنے والوں کا قلع قمع جائز سمجھتا ہو۔ اس کے نزدیک اگر لبرل ازم کی یہی تشریح ہے تو کچھ غلط نہیں۔ وہ اگر بظاہر بعد المشرقین ہونے کے باوجود اینجلا مرکل کو غلط اور ٹرمپ کو درست کہتا ہے تو کیسی حیرت؟

اقلیت کے جینے کے حق کی پامالی کی قیمت پر اکثریتی، نسلی، مذہبی یا علاقائی گروہ میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنا ہی اگر پاپولر ازم ہے تو پھر فاشزم کیا ہے اور جمہوریت کیا ہے؟ شائد پوتن بھی بھول چکے ہیں کہ دو کروڑ روسی فوجی اور شہری ہٹلر کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے کیوں مرے تھے۔ پوتن کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ یہ شہری شائد روس کو فاشزم سے بچانے کے لیے قتل نہیں ہوئے بلکہ قتل کیے گئے۔ آج اگر ہٹلر ہوتا تو اسے ٹینکوں کی ضرورت نہیں تھی۔ سوشل میڈیا کی ٹرول سپاہ کافی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان استعفیٰ دو اور گھر جاؤ، مریم نواز
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1734438-mariyamnawazscreengrab-1562528548-674-640x480.jpg

مریم نواز جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے (فوٹو: اسکرین گریب)

منڈی بہاء الدین: مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ نواز شریف بے قصور تھے انہیں غلط سزا دی گئی ان کا قصور یہ تھا کہ ان کا کوئی قصور ہی نہیں، سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان استعفی دیں اور گھر جائیں۔

منڈی بہاء الدین میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کو ووٹ دینے والوں کا سر فخر سے بلند ہے، دشمنوں نے نواز شریف کو گھیرا ہوا ہے نواز شریف کا کیا قصور تھا کہ انہیں ایک کے بعد ایک سزا دی گئی، ان کا قصور یہ تھا کہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔

مریم نواز نے کہا کہ ایک طرف عوام کا لیڈر نواز شریف اور دوسری طرف بزدل اعظم عمران خان ہے، لاہور سے یہاں تک کا سفر ڈھائی گھنٹے کا ہے مگر عوام کا سمندر اتنا تھا کہ میں 10 گھنٹے میں یہاں پہنچی ہوں، نظر آرہا ہے کہ عوام کس کے ساتھ ہے، عمران خان استعفی دیں اور گھر جائیں۔

مسلم لیگ کی نائب صدر نے کہا کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، منڈی بہاء الدین میں عوام کا جوش و خروش دیکھ کر یقین سے کہتی ہوں کہ جیل میں موجود نواز شریف جیت چکے ہیں، بے گناہ نواز شریف کو منڈی بہاء الدین کے عوام پر فخر ہے۔



اس موقع پر مسلم لیگی کارکنوں نے ’نواز شریف کو رہا کرو‘ کے نعرے بھی لگائے جب کہ مریم نواز نے کارکنوں سے ’گو سلیکٹڈ گو‘ کے نعرے لگوائے۔

قبل ازیں انتظامیہ نے مسلم لیگ (ن) کو جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جس پر مریم نواز ڈٹ گئیں تھی اور کہا تھا کہ جلسہ ضرور ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کا آصف زرداری اور نواز شریف کو رعایت نہ دینے کا فیصلہ
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1734848-nawazzardari-1562576367-254-640x480.jpg

وزیراعظم عمران خان کا دونوں رہنماؤں کے اخراجات کی تفصیلات منظرعام پر لانے کا فیصلہ

لاہور: وزیراعظم عمران خان نے آصف زرداری اور نواز شریف کو کوئی رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کو کسی قسم کی رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور دونوں رہنماؤں کے بطور صدر اور وزیراعظم غیر ملکی دوروں کی تفصیلات طلب کر لیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے وزارت خارجہ سے 2008 سے اب تک آصف زرداری اور نواز شریف کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات بھی طلب کرلیے اس کے علاوہ کابینہ ڈویژن سے کیمپ آفس کے اخراجات اور سیکیورٹی پر اخراجات کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق دونوں ادوار میں اراکین پارلیمنٹ کے دوروں اور بیرون ملک علاج کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں جب کہ وزیراعظم عمران خان نے اخراجات کی تفصیلات کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت نے آصف زرداری اور سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز روک دیے
ویب ڈیسک پير 8 جولائ 2019
1734917-zardarisaad-1562581482-419-640x480.jpg

آصف زرداری اور سعد رفیق پروڈکشن آرڈرز پر پارلیمنٹ میں آکر سیاست کرتے ہیں، متعلقہ حکام فوٹو:فائل

اسلام آباد: حکومت نے قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کے آصف زرداری اور سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز روک دیے۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین قائمہ کمیٹی آبی وسائل یوسف تالپور نے 10 اور 11 جولائی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی سمری پر دستخط کئے تھے لیکن اسمبلی سیکرٹریٹ نے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرتے ہوئے معاملہ وزارت قانون کو بھیج دیا ہے۔

اسپیکر آفس نے اسمبلی سیکرٹریٹ کے متعلقہ افسران کو پروڈکشن آرڈر فوری طور پر جاری نہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری کے ساتھ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کا معاملہ بھی موخر کر دیا گیا اور مذکورہ ارکان کی سیاسی سرگرمیوں کو جواز بنایا گیا ہے۔ متعلقہ حکام نے پروڈکشن آرڈر سمری پر نوٹ لکھا کہ مذکورہ ارکان پارلیمنٹ میں آکر سیاست کرتے ہیں۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی یوسف تالپور نے اس معاملے پر اسمبلی سیکرٹریٹ حکام سے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضوابط کے مطابق پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں چیئرمین قائمہ کمیٹی بااختیار ہے۔

آصف زرداری 8 اور 9 جولائی کو صنعت و پیداوار کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے جس کے لیے ان کے پروڈکشن آرڈرز کافی روز پہلے جاری ہوگئے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلیے مشترکہ قرارداد جمع کرادی
ویب ڈیسک 9 جولائی 2019

اسلام آباد : اپوزیشن سنیٹرز نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے مشترکہ قرارداد سینیٹ سیکر ٹریٹ میں جمع کرادی، قرارداد پر اڑتیس ارکان کے دستخط موجود ہیں، اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ اجلاس کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کرائی۔

تفصیلات کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر قائد حزب اختلاف سینیٹر راجہ ظفر الحق کی صدارت میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس شروع ہوا، اجلاس میں سینیٹر مشاہد اللہ خاں،شیری رحماں،مولاناعطاالرحمان ، عثمان کاکڑ، آصف کرمانی،میر کبیر محمد شاہی، سینیٹر ستارہ ایاز، پرویز رشید، مصدق ملک، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم شریک ہوئے۔

اپوزیشن اجلاس میں موجود تمام ارکان نے دستخط کیے۔

سنیٹرز کے دستخط کے بعد چیئرمین سینیٹ کوہٹانے کے لیے قرارداد سینیٹ سیکر ٹریٹ میں جمع کرائی گئی ، قرارداد اپوزیشن اراکین نے مشترکہ جمع کرائی ، جس پر 38 ارکان کے دستخط موجود تھے۔

قرارداد پر رولزکےمطابق 26ارکان کےدستخط لازمی ہیں ، اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ اجلاس کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کرائی گئی ، رولز کے مطابق ریکوزیشن پر سات دن میں سینیٹ اجلاس طلب کیاجاتاہے۔

مزید پڑھیں : اپوزیشن کا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ
چیئرمین سینیٹ کے خلاف ایوان میں قرارداد منظور کی جائےگی ، چیئرمین سینیٹ کو مستعفی ہونے کے لیے کہا جائے گا، مستعفی نہ ہونے کی صورت میں عدم اعتماد کی تحریک لائی جائےگی ۔

تحریک پیش کرنے کی اجازت کے بعد قرارداد پر خفیہ رائے شماری ہو گی اور چیئرمین سینیٹ کو 30 منٹ تک بات کرنے دی جائے گی، اکثریت نے ہٹانے کا فیصلہ دے دیا تو چیئرمین سینیٹ عہدے پر نہیں رہیں گے۔

اس وقت 104 کے ایوان میں 103 ارکان ہیں حلف نہ اٹھانے والے اسحاق ڈار کے بغیر مسلم لیگ ن کے 30 سینیٹرز ہیں، سینیٹ میں اپوزیشن نے 67 سینیٹرز اراکین کی حمایت کا دعوی کیا ہے جبکہ حکومت کو36 ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل ہے۔

پی پی، ن لیگ، نیشنل پارٹی، پی کے میپ، جے یو آئی ف اور اے این پی حکومت کیخلاف جبکہ پی ٹی آئی کیساتھ ایم کیوایم، آزاد ارکان، فنکشنل لیگ، بی این پی مینگل اور دیگر شامل ہیں۔

یاد رہے 5 جولائی کو متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد نوجولائی کوجمع کرانے کا اعلان کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان لوگوں کو جمہوریت، آزادی اظہار یا پریس فریڈم کا کچھ علم نہیں
اسی لئے پاکستان میں ایک سزا یافتہ مجرم بلاخوف و خطرہ حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف کیچڑ اچھال رہی ہے۔ اتنی آزادی اظہار اور پریس فریڈم تو آپ کے جمہوریہ امریکہ میں بھی نہیں۔
وہاں تو ججوں کو دھمکانے پر جرم میں ملی سزا بڑھا دی جاتی ہے۔ اور ادھر پاکستان میں ججوں کو دھمکا کر سزا سے ریلیف حاصل ہوتا ہے۔
میرا ایک جاننے والا اس وقت امریکی جیل میں 11 سال کی سزا کاٹ رہا ہے۔ جب اسے سزا سنائی گئی تو اس نے ججوں کو دھمکایا۔ جس کے بعد اسی جج نے اس کی سزا میں توسیع دی۔ اس کا آزادی اظہار اور پریس فریڈم کدھر گیا؟
دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کا دیوالیہ ہی عمران خان کا پرچہ ترکیب استعمال ہے
11/07/2019 سید مجاہد علی



گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی زیر تفتیش سیاست دان کا انٹرویو نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب اس فیصلہ سے پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی یعنی پیمرا کو مطلع کیا جائے گا تاکہ وہ حکومت کی منشا اور صوابدید کے مطابق قومی ٹیلی ویژن نشریات کو کنٹرول اور محدود کرنے کا اقدام کرے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت براہ راست سنسر شپ کے حوالے سے اس سے بدتر فیصلہ نہیں کر سکتی۔

اس دوران ملک کے اٹارنی جنرل انور منصور علی خان کا ایک انٹرویو نشر ہؤا ہے جس میں انہوں نے مریم نواز کی طرف سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو پر تبصرہ کیا ہے۔ انہیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ کسی پرائیویٹ شخص نے ایک دوسرے شخص کی اجازت کے بغیر ویڈیو بنائی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس پر مملکت کو حرکت میں آنا چاہیے اور ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو اس جرم میں ملوث ہیں۔

اگرچہ اٹارنی جنرل ہی ملک میں قانون نافذ کرنے اور مختلف جرائم میں ملوث ہونے والوں کے خلاف اقدام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اگر مریم نواز کی جاری کردہ ویڈیو ’غیر قانونی اور ایک فرد کی پرائیویسی پر حملہ‘ کے مترادف ہے تو اس شخص کو ’انصاف‘ فراہم کرنے کے لئے ملک کا قانون نافذ کرنے کے لئے وہ خود کیا اقدام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

معاملہ کا یہ پہلو دلچسپ بھی ہے اور تعجب خیز بھی کہ انور منصور خان نے اس پیچیدہ اور مشکل مسئلہ کو ایک سادہ قانون شکنی تو قرار دیا لیکن وہ خود یہ حوصلہ نہیں کر پائے کہ فوری طور پر پولیس حکام کو ایف آئی آر درج کرنے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے جنہوں نے جج ارشد ملک کی ویڈیو تیار کی اور پھر اسے نشر کر کے بطور شہری ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔ اس ویڈیو کے متن کی تردید کرتے ہوئے جج ارشد ملک نے اپنی پریس ریلیز میں بھی یہ حرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا ’مشورہ‘ دیا تھا لیکن وہ بطور جج یا بطور متاثرہ شہری مدعی بن کر پولیس کے پاس نہیں گئے تاکہ یہ ویڈیو نشر کرنے پر مریم نواز اور ان تمام دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی جو اس ’غیر قانونی‘ ویڈیو ریکارڈنگ میں ملوث ہیں۔

اب مریم نواز نے جج ارشد ملک کی دو مزید ویڈیو جاری کی ہیں۔ اس طرح جج صاحب اور اٹارنی جنرل کا ’مقدمہ‘ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ اہل پاکستان کو انتظار کرنا چاہیے کہ ملکی عدالتی تاریخ میں دباؤ میں فیصلہ کا ’اعتراف‘ کرنے والے جج کا معاملہ نمٹانے کی بجائے ملک کے اٹارنی جنرل پہلے غیرقانونی ریکارڈنگ کرنے والے افراد کو کیفر کردارتک پہنچانے کا اقدام کریں۔

حیرت تو اس بات پر بھی ہونی چاہیے کہ حکومت اور اٹارنی جنرل کو یہ پریشانی تو نہیں ہے کہ ملک میں احتساب کے معاملات دیکھنے والے ایک جج پر تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف، دباؤ میں فیصلہ کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جج صاحب نے اس ویڈیو میں سامنے لائے گئے مؤقف کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا دعویٰ ضرور کیا ہے لیکن وہ اس کے ساتھ ہی ریکارڈنگ کرنے والے اور شریک گفتگو شخص کو جاننے اور متعدد بار اس سے ملاقات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نہ اس معاملہ کو اہم سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ اس متنازعہ ویڈیو کی وجہ سے ملک میں احتساب اور انصاف کا پورا نظام کٹہرے میں کھڑا ہو چکا ہے۔ وہ پورے عدالتی نظام کو اس الزام سے بچانے کے لئے کوئی اقدام تجویز کرنے یا مستقبل میں اس قسم کی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لئے کوئی راستہ نکالنے کی بجائے الزام کے جواب میں الزام عائد کر کے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا یہ مؤقف اور طرز عمل وفاقی کابینہ کے اس فیصلہ سے ملتا جلتا ہے جس میں گزشتہ روز ’زیر حراست‘ سیاست دانوں کے انٹرویو نشر کرنے کا سلسلہ بند کرنے کے لئے پیمرا کو ’حکم‘ جاری کیا گیا ہے۔ اس طرح کابینہ نے بھی مشکل اور پیچیدہ مسائل کا آسان راستہ تلاش کرنے کی مثال قائم کی ہے۔ وہ سیاسی مخالفین کی دلیل یا شکایت کا جواب دینے کی بجائے ان کی آواز بند کرنے کو ہی آسان ترین حل سمجھتی ہے۔ کیوں کہ اس کے خیال میں اسی طرح قومی مفاد کا بہترین طریقے سے تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

یعنی ملک کے میڈیا کو ’جرم کرنے والوں‘ کو شہرت دینے کا مرتکب قرار دے کر خبر اور رائے عام کرنے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا جائے۔ یوں لگتا ہے کہ معاشی بحران میں گھری حکومت اصل مسائل پر توجہ دینے اور ان کا حل تلاش کرنے کی بجائے، سیاسی معاملات میں نکتہ رسی اور تصادم کی صورت حال پیدا کرکے مسلسل عوام کی ہمدردی جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسی لئے حکومت کو نہ تو اس بات کی پرواہ ہے اور نہ ہی شاید اسے اس بات کا ادراک ہے کہ براہ راست ٹکراؤ کی حکمت عملی سے اگر دو سیاسی خاندانوں کا خاتمہ کر بھی دیا گیا تو بھی ملک میں تقسیم، باہمی عدم اعتماد، ذہنی خلفشار اور نفرت کا جو ماحول پیدا کیا جائے گا اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی ملک کے نظام کو گھن کی طرح کھا جائے گی۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن بھی اس وقت تصادم اور براہ راست ٹکراؤ ہی کی پالیسی پر گامزن ہے۔

ایک طرف چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا رہی ہے تو دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری مہنگائی کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کر رہے ہیں اور مریم نوز مسلسل احتساب عدالتوں کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان حالات میں ملک کی کابینہ سمیت کوئی بھی ایسا شخص یا ادارہ موجود نہیں ہے جو انتشار اور تصادم کی اس کیفیت کو ختم کر سکے۔ بلکہ دامن بچا کر ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جو موجودہ بحران اور پریشان خیالی میں اضافہ کا سببب بنے گی۔

ان میں سے ہی ایک سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز بھی ہیں جنہوں نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس معاملہ میں اپوزیشن کو حیران کر دے گی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن کے متعدد سینیٹرز سے رابطے میں ہیں اور چئیرمین سینیٹ کو ہٹانے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے انہیں ان سینیٹرز کا تعاون حاصل ہونے کی قوی امید ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اقلیت میں ہے۔

اپوزیشن اور آزاد ارکان کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔ صادق سنجرانی کو منتخب کروانے کے لئے گزشتہ سال مارچ میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری کا تعاون حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی پیش کش قبول کرنے کی بجائے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کو چئیرمین منتخب کروا لیا۔ اب تحریک انصاف حکومت میں ہے لیکن آصف زرداری قید ہیں۔ حالات پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی توقعات کے برعکس رخ اختیار کر چکے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے نمائندے اپوزیشن کو یہ تحریک واپس لینے کے لئے راضی کرنے کی بجائے اس میں پھوٹ ڈلوانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے پنجاب اسمبلی ارکان سے ملاقات کرکے اسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کہ سیاسی اختلاف کو سیاسی مشاورت سے حل کرنے کی بجائے اپوزیشن کو دھمکی دی جائے کہ اگر اس نے حکومت کو چیلنج کیا تو اس کی صفوں میں سے ابن الوقت قسم کے لوگوں کو توڑ کر ان پارٹیوں کو کمزور کیا جائے گا۔ ماضی میں تمام فوجی حکومتیں یہی طریقہ کار اختیار کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لئے بھی اسی آزمودہ طریقہ پر عمل کیا گیا تھا۔ اسی لئے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے کہا تھا کہ عمران خان کی کابینہ تو ان کے دوستوں پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی تفصیلات اب پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہیں۔ لیکن انصاف اور دیانت کی دعویدار حکومت پھر بھی اس سیاسی جبر اور جوڑ توڑ کو بدعنوانی کی بجائے عین کار خیر سمجھتی ہے۔

اس کے باوجود نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے نہ شرم محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے جان بلب عوام یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کرنے کے بعد ہر دم نیا پاکستان بن رہا ہے کے نعرے لگا کر حکومت کے ارکان ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حکومت کے سارے ہتھکنڈے پرانے اور عمران خان کے ساتھیوں میں سب لوگ جانے پہچانے ہیں لیکن مفاد پرستوں کے اس گروہ کے بیچ بیٹھ کر نہ صرف وزیر اعظم بلکہ ہر حکومت میں شامل رہنے والے یہ لوگ بھی ہر گھڑی بڑے جوش سے ’نیا پاکستان بن رہا ہے‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور وزیر اعظم یہ دلاسہ دیتے ہیں کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ ۔

آج کراچی کے دورہ کے دوران بھی وزیر اعظم نے تاجروں اور صنعتکاروں سے ملاقاتوں میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے تاجروں سے حکومت کا ساتھی بننے کی اپیل کرتے ہوئے یہ پیش گوئی بھی کر دی کہ اگر لوگوں نے ٹیکس دینا شروع نہ کیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے تو ضرور ’نیا پاکستان‘ معرض وجود میں آ چکا ہے کہ حکومت کا سربراہ خود ملک کے دیوالیہ ہونے کا منحوس لفظ منہ پر لانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ نہ جانے عمران خان یہ دھمکی کس کو دے رہے ہیں۔

ایک طرف وہ سرمایہ کاری کو معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی اور سماجی بے چینی میں اضافہ کے ذریعے سرمایہ داروں کو پاکستان سے دور رہنے کے اشارے دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ ٹیکس میں اضافہ کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کے قلیل طبقہ پر ٹیکسوں کا بہت بوجھ ہے۔ ملک کے صنعتکار 70 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم نے یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے کہ صنعت کا یہ ٹیکس مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعے انہی صارفین سے وصول کرتے ہیں جو پہلے ہی بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم نے گورنر ہاؤس کراچی میں آج جو شو منعقد کیا اور اس میں جو باتیں کیں، وہ ملکی معیشت کے حل سے زیادہ سیاسی چومکھی کا وہی بیانیہ ہے جو انہوں نے کسی مدرسے کے معانی سے نابلد طالب علم کی طرح رٹا ہؤا ہے۔ جب تک عمران خان اس ’ازبر سبق‘ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ”حالات میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یا وہ معیشت اور قوم پر یہ احسان کردیں کہ معاشی مسائل پر براہ راست گوہر افشانی سے گریز کیا کریں۔ کسی عطائی کی دوا سے بہتر ہے کہ مریض کو دوا کے بغیر مرنے دیا جائے۔
 
Top