سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
چل جھوٹی۔ الیکشن ایکٹ 2017 نواز شریف کا سپریم کورٹ سے تاحیات نا اہل ہونے کے بعد پاس کیا گیا تھا۔ جسے سپریم کورٹ معطل کر چکی ہے۔

آئین میں ایسی کوئی شرط نہیں کہ سزایافتہ شخص پارٹی عہدیدار نہیں ہوسکتا، مریم نواز
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1718064-maryamnawaz-1561443696-505-640x480.jpg

سپریم کورٹ کے فیصلوں کا الیکشن کمیشن پر اطلاق نہیں ہوتا، رہنما مسلم لیگ (ن) فوٹو: فائل

اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے پارٹی عہدے کے خلاف درخواست پر اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ آئین اور الیکشن ایکٹ میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ سزایافتہ شخص پارٹی کاعہدیدار نہیں ہوسکتا۔

الیکشن کمیشن نے مریم نواز کے سیاسی عہدے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کی۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جواب جمع نہ کرایا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار نے مریم نواز کی بطور پارٹی نائب صدر تقرری پریس کلپنگز دی ہیں اس سے متعلق نوٹی فکیشن نہیں دیا۔

مریم نواز نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ آئین اور الیکشن ایکٹ میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ سزایافتہ شخص پارٹی کاعہدیدار نہیں ہوسکتا، آمریت میں عوامی نمائندوں کومنتخب کرنے سے روکنے کے لئے اس طرح کے قوانین بنائے جاتے تھے، سیاسی جماعتوں کے آرڈر 2002 میں شق رکھی گئی تھی کہ سزا یافتہ شخص پارٹی کا عہدہ نہیں رکھ سکتا، پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں اس شق کو ختم کردیا تھا۔

مریم نواز نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا الیکشن کمیشن پر اطلاق نہیں ہوتا،اس لئے نواز شریف سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ یہاں لاگو نہیں ہوتا، ملیکہ بخاری اور دیگر درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہیں اس لئے درخواست ناقابل سماعت ہے اور اسے خارج کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
طاقت کے بنیادی اجزا
اعزاز سید

دنیا بھر میں طاقت پر بہت تحقیق کی گئی ہے کہ آخر یہ طاقت کیا چیز ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طاقت صرف اختیار کا نام ہے، آپ جتنے بااختیار ہیں اتنے ہی طاقتور۔ کچھ لوگوں نے طاقت کو دولت سے جوڑا ہے یعنی آپ دولت سے اختیار یا اقتدار خرید کر طاقتور بن سکتے ہیں، جتنے دولتمند اتنے ہی طاقتور۔ طاقت کی بحث میں شامل بعض لوگ شہرت کو بھی طاقت قرار دیتے ہیں یعنی جتنے مشہور اتنے ہی طاقتور اور بااثر۔ بحث میں شامل ایک طبقہ ایسا بھی آیا ہے جس کا کہنا ہے کہ طاقت بذات خود کوئی چیز نہیں، دراصل یہ محض ایک تاثر ہے۔ جب تک آپ کی طاقت کا تاثر موجود ہے آپ طاقتور ہیں جونہی آپ نے طاقت کا استعمال کیا آپ کی طاقت کو ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور آپ کا تاثر ختم یعنی طاقت ختم۔

آسان لفظوں میں طاقت کی ترکیب میں اختیار، دولت اور شہرت سب شامل ہیں مگر یہ سب ایک مضبوط تاثر کی بیساکھیوں پر کھڑے ہیں۔ اگر تاثر کی بیساکھیاں ہٹا دی جائیں تو طاقت ختم اور طاقتور دھڑام سے نیچے۔ طاقت کے اوپر بیان کیے گئے تین بنیادی اجزاء یعنی اختیار، دولت اور شہرت میں سے کوئی ایک بھی آپ کے پاس باقی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور آپ اس کا صحیح استعمال کرتے ہیں تو باقی دو اجزاء خود بخود آپ کے پاس آجاتے ہیں۔

پاکستان کی حالیہ 20سالہ تاریخ میں سب سے طاقتور اور بااختیار حکمران صرف پرویز مشرف تھے۔ چونکہ ان کا اقتدار ہی آئین و قانون کو پامال کرکے حاصل کیا گیا تھا لہٰذا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کی طاقت کے تاثر کو مارچ 2007میں اپنی برطرفی کے احکامات نہ مان کر چیلنج کیا۔ نتیجے کے طور پر پہلے آٹھ ماہ میں انہیں وردی اتارنا پڑی اور کل ملا کر ایک سال پانچ ماہ کے اندر اقتدار سے مکمل طور پر ہاتھ دھونا پڑے۔ جس طرح سازش انہیں اقتدار میں لائی اسی طرح سازش نے انہیں اقتدار سے نکالا۔ یعنی پرویزمشرف کی طاقت کا سارا تاثر کسی غبارے سے ہوا کی طرح زائل ہوگیا۔

جنرل پرویز مشرف کے بعد عمران خان سب سے طاقتور حکمران کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری کو ریاستی اداروں کی وہ حمایت حاصل نہیں تھی جو عمران خان کو ہے۔ عمران خان کی طاقت کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ ان کے پاس طاقت کے تین بنیادی اجزاء میں سے صرف شہرت سب سے زیادہ تھی۔ اس شہرت کو انہوں نے طاقت کے باقی دو اجزاء کے حصول کے لئے استعمال کیا۔ یعنی پہلے دولت اور پھر اقتدار۔

عمران خان نے ابھی حال ہی میں بجٹ اجلاس کے دوران پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ملکی تاریخ کے ایسے منفرد وزیراعظم ہیں کہ جن کو ریاستی اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ محض ایک دعویٰ ہی نہیں بلکہ کھلی حقیقت بھی ہے۔ وہ جس کو چاہیں جہاں تعینات کریں جس کو چاہیں جہاں لگائیں، اس کا اظہار ان کی مرضی کے عین مطابق کیا جارہا ہے۔ یعنی عمران خان کی طاقت اپنے مکمل جوبن پر ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے زوال کی انتہا پر موجود ہیں۔ حقیقی طاقت کے تاثر کو کوئی چیلنج کرنے والا ہے نہ ایسی سوچ اپوزیشن کی کسی بھی جماعت میں پائی جاتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں خود پر لگے چور اور ڈاکو کے الزامات اور داغ دھبوں کو دھونے میں مصروف ہیں۔

مگر عمران خان کی طاقت کے تاثر کو بجٹ نے پامال کیا ہے۔ لوگ مایوس ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتیں وہ کام نہیں کرسکیں جو خود عمران خان نے کردیا ہے۔ ویسے یہ سب کچھ کرنا ان کی مجبوری بھی تھا کیونکہ معیشت کے میدان میں اس کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا اور حکومت کے پاس صلاحیت کا فقدان اور ناتجربہ کاری کے مسائل بھی موجود تھے۔ یہ سب مل جائیں تو تباہی اور تباہی کے نتیجے میں عوامی غیظ آپ کا مقدر بن ہی جاتا ہے۔

ایک حکومتی وزیر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ جولائی کے بعد معیشت کے میدان میں آنے والا طوفان تھم جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جولائی میں معاہدہ ہوجائے گا جس کے بعد ایشین ڈویلپمنٹ بینک اوردیگر مالیاتی ادارے بھی حکومت کی مدد کے لئے آجائیں گے۔ اس لئے مایوسیوں کی یہ فضا ختم ہوجائے گی تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اگلے چھ ماہ یا ایک سال میں کوئی بڑی اچھی خبر عوام کے لئے موجود نہیں ہوگی لیکن اگر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو ظاہر ہے اس کا بوجھ عوام پر ڈالا جائے گا۔ فرض کریں معزز وزیر کی بات مان لی جائے مگر کیا مہنگائی کے اس طوفان کا مقابلہ کرتے عوام یہ سب مسائل سننے یا سمجھنے کے لئے تیار ہیں؟ وزیراعظم کی تقاریر عوام کی سکڑتی جیب کا زیادہ دیر مداوا نہیں کرسکتیں۔ سوچ اور سمجھ رکھنے والے لوگ عمران خان اور ان کی حمایت کرنے والے دونوں کو تنقیدکا نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ تنقید فی الحال تو گھروں میں بیٹھ کر کی جا رہی ہے مگر نومبر تک لوگ گھروں میں نہیں بیٹھیں گے۔ موسم بدلتے ہی لوگ نکلیں گے اور ایک نیا کھیل شروع ہو جائے گا۔

پاکستان میں طاقت کے اس کھیل میں ایک بار پھر یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ محض مکمل اختیار، دولت اور شہرت ہی اقتدار یا طاقت کی بنیادی جزیات نہیں بلکہ عوامی حمایت بھی طاقت کا اہم ترین جزو ہے۔ دھونس دھاندلی اور دھمکی کے ذریعے وقتی عوامی حمایت تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر طرزِ حکمرانی میں استعداد اور اہلیت کی کمی وقت کے ساتھ یہ حمایت زائل کر دیتی ہے۔ طاقت کے کھیل میں جمہوریت نے آئین کے ذریعے عوامی حمایت کا اصول متعارف کروایا تھا۔ شفاف انتخابات ہی اس اصول کے ضامن ہوتے ہیں۔

تعزیت اور خبر

معروف صحافی رحمت علی رازی پچھلے دنوں لاہور میں انتقال کرگئے۔ بیوروکریسی کے بارے میں ان کی رپورٹنگ کا ایک زمانہ معترف رہا۔ ان کے کام پر ایک مفصل تحقیق کی ضرورت ہے۔ امید ہے پنجاب یونیورسٹی کا شعبۂ صحافت ان کی خدمات کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ رازی صاحب روزنامہ جنگ کے انہی صفحات پر کالم بھی لکھتے رہے۔ ان کے کالم کا حسن اس کے آخر پر بیورو کریسی کے بارے میں خبریں ہوا کرتی تھیں۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے یہ طالبعلم انہی کی طرز پر ایک خبر قارئین کی نذر کررہا ہے۔

خبر یہ ہے کہ نیب راولپنڈی نے گاڑیوں کے غلط استعمال کے کیس میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں ایک سابق سیکرٹری خارجہ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کی گرفتاری مہینوں نہیں بلکہ چند ہی دنوں کی بات ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کے خلاف محاذ کی تیاریاں، اپوزیشن جماعتوں کی ’اے پی سی‘ شروع
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1719669-apc-1561525926-284-640x480.jpg

اے پی سی میں حکومت مخالف تحریک اوربجٹ منظوری رکوانے پرمشاورت ہوگی، ذرائع : فوٹو: فائل

اسلام آباد: حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا آغاز ہوگیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کا تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوا۔ کانفرنس میں جماعت اسلامی کے سوا تقریبا تمام اپوزیشن جماعتیں شرکت کر رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی کے وفود اے پی سی میں شریک ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے وفد میں شہبازشریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق، احسن اقبال، مرتضیٰ جاوید عباسی، مریم اورنگزیب، راناثنااللہ اور دیگر شامل ہیں۔ پی پی پی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضاگیلانی،شیری رحمان، رضاربانی، نیّربخاری، فرحت اللہ بابر شرکت کررہے ہیں۔ میر حاصل بزنجو کی سربراہی میں نیشنل پارٹی کا وفد جبکہ ایم ایم اے کے ساجد میر اور دیگر رہنما اے پی سی میں شرکت کررہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اے پی سی میں حکومت مخالف تحریک اور بجٹ منظوری رکوانے پر مشاورت ہوگی جب کہ اسلام آبادلاک ڈاؤن کی تجویزاورجلسوں کا شیڈول بھی زیرغور آئیں گے۔

دوسری جانب حکومتی ٹیم نے بی این پی مینگل کو بجٹ کی حمایت کے لیے منالیا ہے اور اختر مینگل نے اپوزیشن کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سلطانی جمہور کے دعوے اور تاریخ کی درست سائیڈ - شمس الدین امجد
Untitled-13.png

اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کا تختہ الٹ کر انھیں قید اور بےنظیربھٹو کو خود ساختہ جلاوطنی پر مجبور کیا۔ کچھ عرصہ گزرا تھا کہ کلثوم نواز کی قیادت میں تحریک شروع ہوئی، اے آر ڈی بھی، پیپلزپارٹی جس کا حصہ تھی، نوابزادہ نصراللہ خان کی سربراہی میں اس کے ساتھ آ ملی۔ عمومی طور پر یہ سمجھا گیا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور آمریت سے نجات کے لیے متحد ہوئی ہیں، اب سلطانی جمہور کا وقت ہوا چاہتا ہے، اور مستحکم جمہوریت کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ مگر ابھی اس سلطانی کے بال و پر بھی نہ نکلے تھے کہ شریف برادران مشرف سے ڈیل کرکے یہ جا وہ جا ہوئے، نوابزادہ نصراللہ خان صاحب سمیت پوری سیاسی قیادت ہکا بکا رہ گئی۔ معلوم ہوا کہ تحریک کا مقصد ڈیل کے علاوہ کچھ نہ تھا، مگر سونے پر سہاگہ یہ کہ شریف خاندان اس معاہدے سے انکاری رہا، یہاں تک کہ سعودی انٹیلی جنس چیف مقرن بن عبدالعزیز نے معاہدے کی کاپی اسلام آباد میں لہرا کر انھیں خاموش کروایا۔

اس اقدام سے بداعتمادی کی فضا پیدا ہوئی جسے دور کرنے میں کئی سال لگے۔ پھر میثاق جمہوریت کا غلغلہ اٹھا۔ ہر طرف ایک شور سا تھا۔ نوازشریف اور بےنظیر بھٹو کو ایک ساتھ بیٹھا دیکھ کر جمہوریت کے متوالوں کی آنکھیں بھر آئیں، اور ایک یقین سا ہو گیا کہ دونوں بڑے لیڈر ایک ساتھ آ ملے ہیں، پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا، اب ایک دوسرے کو دھوکہ دیں گے نہ جمہوریت کے خلاف کبھی کوئی سازش کریں گے۔ آمریت کا خاتمہ اب بس دنوں کی کہانی ہے، پھر کبھی اس ملک میں خلائی مخلوق مداخلت کیا، اس کا سوچ بھی نہیں سکے گی۔ مگر اب ساری کہانی کھل گئی ہے اور ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہے۔ بالعموم کہا جاتا ہے کہ معاہدے کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ خلاف ورزی کر ڈالی، مگر یہاں معلوم ہوا کہ معاہدے سے پہلے ہی اس کی خلاف ورزی جاری تھی، اور میثاق جمہوریت این آر او کے حصول کےلیے مشرف پر دباؤ ڈالنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بعد کے برسوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی، کہ رابطے تو 2002ء کے الیکشن کے بعد ہی بحال ہو گئے تھے، اور باوجودیکہ پیپلزپارٹی سے 18 پیٹریاٹ نکال کر جمالی صاحب کو وزیراعظم بنایا گیا تھا مگر بےنظیر بھٹو صاحبہ اس سے بےمزہ نہ ہوئیں۔ اس دوران ان کی پہلے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پھر خود پرویز مشرف سے دبئی میں ملاقاتیں ہوئی۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ این آر او جو 2007ء میں ہوا، وہ 2004ء میں ہی ہو گیا ہوتا، اگر کچھ مسائل نہ درپیش ہوتے۔ مگر خیر معلوم ہوا کہ میثاق جمہوریت بھی این آر او کے حصول کے لیے دباؤ ڈالنے اور اپنی قیمت بڑھانے کے سوا کچھ نہ تھا۔

2007ء میں اے آر ڈی سے اختلافات کے بعد میاں صاحب نے اے پی ڈی ایم بنائی۔ طے ہوا کہ باوردی صدر کے تحت الیکشن میں حصہ نہیں لیا جائے گا۔ چنانچہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بائیکاٹ پر یکسو ہو گئیں، مگر عین موقع پر معلوم ہوا کہ وردی میاں صاحب کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، اور ان کی جماعت الیکشن میں حصہ لے گی۔ جماعت اسلامی کو اس دھوکے سے جو نقصان ہوا، اس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ پرویز مشرف نے جسٹس افتخار چوہدری کو ہٹا دیا تو ملک میں وکلا تحریک شروع ہوئی۔ عین اس دن جب جماعت اسلامی کے سابقہ جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ اور موجودہ سیکرٹری جنرل امیرالعظیم (اس وقت لاہور جماعت کے امیر) مال روڈ پر آنسو گیس کے شیل کھا رہے تھے، میاں نوازشریف راستہ بدل کر گوجرانوالہ جا پہنچے تھے اور جنرل کیانی کی کال پر واپس تشریف لے گئے تھے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ وہ ماڈل ٹاؤن سے ہی یقین دہانی کے بعد نکلے تھے۔ اور یہ یقین دہانی شہبازشریف اور چوہدری نثار کی رات کے اندھیرے میں کی گئی خفیہ ملاقاتوں کا نتیجہ تھی۔ پھر یہ زمزمہ ایسا بہا کہ قوم نے دیکھا کہ میمو گیٹ کیس میں میاں نوازشریف کالا کوٹ پہن کر خود عدالت جا پہنچے اور مقدمہ لڑتے دکھائی دیے۔ 2013ء کے الیکشن میں جو ہوا، وہ بھی سامنے ہے اور اب یہ راز نہیں رہا اور سینئر صحافیوں نے رپورٹ کیا کہ اس عرصے میں شہبازشریف اور چوہدری نثار کی درجن سے زائد ملاقاتیں ہوئیں۔ اس پر سید منور حسن نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ کچھ عرصہ گزرے گا کہ الیکشن مینیج کرنے والوں کو پشیمانی ہوگی کہ انھوں نے جیتنے والوں کو زیادہ جتوا دیا ہے اور ہارنے والوں کو زیادہ ہروا دیا ہے۔ یہ پشیمانی پھر اسلام آباد میں مسلسل دھرنوں کی صورت میں دیکھی گئی۔

پھر یہ 2018ء کے الیکشن سے ذرا پہلے کی بات ہے۔ بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی، اور آصف زرداری صاحب بڑھکیں مارتے پائے گئے کہ بلوچستان کے بعد اب پنجاب کی باری ہے۔ وہاں بھی شریف خاندان سے حکومت چھین لیں گے۔ سینٹ الیکشن ہوا تو قوم نے دیکھا کہ آصف زرداری اور عمران خان ایک لائن میں لگ کر چیئرمین سینٹ کو ووٹ دیتے پائے گئے۔ اس موقع پر سراج الحق صاحب نے ''اوپر سے اشارہ ہے'' والا مشہور زمانہ بیان دیا تھا۔ یہ اشارہ اب کھل گیا ہے، سارا کھیل کیسے ہوا، وہ اب کوئی راز کی بات نہیں، سب کھلی کہانی ہے اور خود پیپلزپارٹی اس کا اعتراف کر رہی ہے۔ اس کے بعد صدارتی انتخاب کا مرحلہ آیا تو پیپلزپارٹی کے رہنما کہتے پائے گئے کہ ڈاڑھی والے کو ووٹ نہ دیں گے، یوں تحریک انصاف کے صدر کی راہ ہموار کر دی گئی۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی شہبازشریف ووٹ مانگتے ہوئے قوم کو بتا رہے تھے کہ آصف زرداری کو لاڑکانہ اور لاہور کی گلیوں میں گھیسٹیں گے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکالیں گے۔ مریم نواز بتا رہی تھیں کہ آصف زرداری اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ نوازشریف جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں، اور آصف زرداری کہتے تھے اس بار نواز کو معاف کیا تو خدا بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ مگر دونوں پھر سے ایک پیج پر ہیں۔ دوسرے کے زور پر باقی جماعتوں کو اکٹھا کرکے طاقت کے اصل مرکز سے ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔ دکھاتے کہیں ہیں مارتے کہیں ہے۔

دوسروں کے زور پر ذاتی مفادات کے حصول کی یہ طویل کہانی ہے۔ ایوب اور ضیاء الحق کے بجائے گزرے بیس سالوں کی دیگ کے چند چاول آپ کے سامنے پیش کیے ہیں جو تمام دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے درجنوں مزید واقعات گنوائے اور پیش کیے جا سکتے ہیں۔ آج بھی جب بعض دانشور تاریخ کی سیدھی الٹی سمت بتائے پائے جاتے ہیں، عین اسی وقت شہبازشریف اپنی مشہور زمانہ مفاہمانہ سیاست کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ جلوس لے کر لاہور کی سڑکوں پر مٹرگشت کرتے رہتے ہیں، ائیرپورٹ نہیں پہنچ پاتے، جبکہ پارلیمنٹ پہنچ کر کبھی ایک میثاق اور کبھی دوسرے میثاق کی بات کرتے ہیں۔ اندھیروں اجالوں میں ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں جس کا دعوی خود ن لیگی رہنما کرتے ہیں۔ یہی عالم پیپلزپارٹی کا ہے۔ آصف زرداری نے 2007ء کے بعد ساری سیاست مفاہمت والی کی ہے، ہر حکم بجا لائے ہیں، اور اب بھی ذرا سی چھوٹ اور اشارے کے منتظر ہیں۔

اس سارے پس منظر میں جب اپنا چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے راستے پر کیا چلنے، اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہے، کوئی جماعت اسلامی کو سبق دیتا دکھائی دیتا، اور سلطانی جمہور کا سورج طلوع ہونے کا دعوی کرتا ہے، تو بس حیرانی سی حیرانی ہوتی ہے۔ کیا آپ کو بھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
حکومتی فیصلے ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقاء کیلئے خطرہ بن چکے ہیں: اے پی سی اعلامیہ

اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں کی کُل جماعتی کانفرنس میں حکومتی فیصلوں کو ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقاء کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پر ہونے والی اے پی سی میں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی، اسفند یار ولی، پشونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

اے پی سی کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نام نہاد حکمرانوں کو تمام سیاسی جماعتیں مسترد کر چکی ہیں، ملک کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکا رہے اور ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملک دیوالیہ پن کی حدود کو عبور کرنے کی تیاری کر رہا ہے، حکومتی قیادت کے فیصلوں نے ہمارے شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیا ہے۔

کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی سے غریب عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور بیرونی قرضوں کا سیلاب اور معاشی اداروں کی بد نظمی معیشت کو دیوالیہ کرنے کو ہے، غربت و افلاس کی بڑھتی صورتحال پر تشدد عوامی انقلاب کی راہ ہموار کرتی دکھائی دیتی ہے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ معاشی زبوں حالی، بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ملکی سلامتی کیلیے بڑا چیلنج بن چکے ہیں اور حکمرانوں کا ایجنڈا ملکی مفادات کی بجائے کسی گھناؤنی سازش کا حصہ ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملکی حالات بہت بڑا سکیورٹی رسک ہیں، حکومت کےفیصلےملکی سلامتی،خود مختاری اور بقا کیلیے خطرہ بن چکے ہیں۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بیرونی قرضوں، بیرونی ادائیگیوں کے توسط سے بیرونی طاقتوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جب کہ بڑھتی شرح سود،کمزور ہوتا روپیہ اور بڑھتے ٹیکس منفی عوامل ہیں جن سے برآمدات مزید کم ہوں گی، بیرونی تجارت اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بڑھے گا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ملک دشمن قوتوں کی ایماء پر معاشی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے، بزنس کے مواقع مشکل بنا دیئے گئے ہیں اور معیشت آئی ایم ایف کے سپرد کر دی گئی ہے۔

اے پی سی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے قومی خارجہ امور میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا، اسٹریٹجک اثاثے اور سی پیک بچانے کے لیے ریاستی اداروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کا دفاع کرنا ہو گا۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ فضل الرحمان کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفوں کی تجویز کی پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے حمایت نہیں کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے ملکی مسائل کا حل نہیں ہے، پارلیمنٹ سے باہر رہ کر اپنا مؤقف بہتر طریقے سے پیش نہیں کیا جا سکتا اس لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مؤثر اور مشترکہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ معاشی زبوں حالی، بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ملکی سلامتی کیلیے بڑا چیلنج بن چکے ہیں اور حکمرانوں کا ایجنڈا ملکی مفادات کی بجائے کسی گھناؤنی سازش کا حصہ ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ملک دشمن قوتوں کی ایماء پر معاشی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے، بزنس کے مواقع مشکل بنا دیئے گئے ہیں اور معیشت آئی ایم ایف کے سپرد کر دی گئی ہے۔
پیچھے تو دیکھو۔ پیچھے دیکھو:
Capture.jpg

pakistan-debt-history.png
 

جاسم محمد

محفلین
کبھی شاہین تو کبھی کوے!
27/06/2019 ارشاد بھٹی



کالم ایک، موضوع کئی، آج دل کی مان کر ہر موضوع کا آغاز استادِگرامی حسن نثار کے قول سے، ملاحظہ کریں۔استاد کا کہنا’’میں سیاستدانوں کی اتنی عزت کرسکتا ہوں، جتنی وہ ایک دوسرے کی کرتے ہیں‘‘۔بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، سب کا سب کچھ آپکے سامنے، اتنی عزتیں کر رہے ایک دوسرے کی، گھر کی خواتین تک غیر محفوظ، پارلیمنٹ، ٹی اسکرینیں، بیان بازیاں، پریس کانفرنسیں، مایوسی ہی مایوسی، باقی چھوڑیں، ملکی مسائل، عوامی مصائب کیا، خود ساختہ رہنماؤں کے موضوع، ایجنڈے کیا، لایعنی شُرلیاں، بے معنی درفطنیاں، ساس بہو والے طعنے۔

اللہ کی شان، وقت یہ آگیا، بلاول، مریم اینڈ کمپنی عمران خان کو’ سلیکٹڈ وزیراعظم ‘کا طعنہ دے رہی، سلیکشن کی پیداوار سلیکشن کے طعنے دے رہی، بلاول کے نانا اسکندر مرزا، ایوب کی سلیکشن، مریم کے والد جنرل جیلانی، ضیاء الحق کی سلیکشن، بلاول کی پارٹی چیئرمینی سلیکشن، مریم کوابھی چند دن پہلے چچا شہباز نے لندن سے نائب صدر بنایا، ملکی اقتدار سے پارٹی سربراہوں تک بلاول کے نانا سے والد تک، مریم کے والد سے حمزہ تک سب سلیکشن کے مزے لُٹ رہے۔

کبھی غور کیا، یہ سب انقلابی، مزاحمتی، سب اچھے وقتوں کے پنچھی، چوریاں کھانے والے مجنوں، ڈیلوں، ڈھیلوں کے کھلاڑی، ذراسا مشکل وقت آئے، سب غائب، کیا یادآگیا، جب آلِ شریف سرور پیلس میں بیٹھ کر اسٹیل ملیں لگا، بھانت بھانت کے کاروبار فرمارہی تھی، تب جاوید ہاشمی آنکھوں پر پٹیاں بندھوائے، ہاتھوں میں زنجیریں پہنے، پہروں تفتیش بھگت رہا تھا، 10دن تک سورج کی روشنی نہ دیکھ سکنا، ننگے، گیلے فرش پر سونا، اڈیالہ جیل کے سیل میں مہینوں مکمل تنہائی، سب بھگت کر جسمانی طورختم ہوچکے جاوید ہاشمی کو صلہ کیا ملا۔

بریگیڈئیر نیاز مرحوم کے ذریعے مشرف سے معاہدہ فرماکر شریف برادران واپس آئے اورہاشمی کھڈے لائن، بلکہ دکھی ہاشمی نے جب تحریک انصاف جوائن کی تو آج چچا جانی کی جڑیں کاٹتی مریم نواز نے ٹویٹ فرمایا ’’ہاشمی احسا ن فراموش، بے کا ر آدمی، بیمار آدمی‘‘، وہ جو آل شریف کیلئے مفلوج ہوا، مرتے مرتے بچا وہ احسان فراموش، کاش کوئی بولتا، کاش کوئی یہی کہہ دیتا، مریم صاحبہ احسان فراموش آپ یا جاوید ہاشمی۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہورہاتھا لفظ سلیکٹڈ کا، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا اسمبلی میں عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے پر پابندی لگانا، شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری، اتنا بھی کیا نازک مزاج ہونا، پھر لفظ سلیکٹڈ کے خالق بلاول خود مان چکے ’’میرے نانا ذوالفقار بھٹو کو اسکندرمرزا، ایوب نے میرٹ پر سلیکٹ کیا‘‘، ہیں جی، ہاں جی، ڈکٹیٹر برامگر نانا کو سلیکٹ کرے تو ڈکٹیٹر کا میرٹ اچھا، اب مریم نواز سے یہ سننا باقی رہ گیا کہ میرے ابو کو ضیاء نے میرٹ پر سلیکٹ کیا۔

حسن نثار صاحب کہیں ’’پہلے جمہوریت کے ساتھ میثاقِ جمہوریت نے ہاتھ کیا، اب کہیں معیشت کیساتھ میثاقِ معیشت ہاتھ نہ کرجائے‘‘۔ ویسے تو معیشت ہے کہاں، جس سے ہاتھ ہو، لیکن چونکہ یہاں سب کچھ باتوں باتوں میں ہورہا، لہٰذا باتوں کی حد تک بات کریں تو میثاقِ معیشت کے ساتھ پہلے دن ہی ہاتھ ہوگیا، مریم نواز نے چچا جانی کے میثاقِ معیشت کو مذاقِ معیشت فرما کر میثاقی کشتی میں اپنے قد سے بڑا سوراخ فرمادیا، اب رسمی صدر شہباز شریف ہتھ مَل رہے، شہبا ز شریف نے بھی کیا قسمت پائی، عمر بھر پرفارمنس دکھا دکھا، بھائی جان کی تابعداری فرما فرما، اب بھتیجی کے رحم وکرم پر۔

کبھی سوچا اپنے ہاں کوئی میثاقِ جمہوریت کیوں کامیاب نہیں ہوا، اس لئے میثاقِ جمہوریت کرنے والے خود جمہوریت پسند نہیں، میثاقِ معیشت ’خدا کا خوف‘ معیشت کا سوا ستیاناس کرنے والوں سے میثاقِ معیشت، یہ تو وہی ہوا’ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘،باقی رہ گئی مریم نواز، دو اہداف، آزاد نواز شریف اور اقتدار، انہیں ان دونوں اہداف کیلئے پارٹی سربراہی اپنے پاس رکھنی، تبھی تو چند دن پہلے 70منٹی پریس کانفرنس میں بقول حسن نثار مریم بے چاری نے بے دھیانی میں اچھے خاصے چچا جانی کو چاچا خواہ مخواہ بنا دیا، استاد کے لفظ بے دھیانی پر اعتراض، سب کچھ بڑے دھیان سے کیا مریم نواز نے۔

حسن نثار کہتے ہیں ’’جیسے آج تک کسی نے دیمک کے دانت، سانپ کے پاؤں اور چیونٹی کی ناک نہیں دیکھی، اسی طرح آج تک کسی نے کرپٹ کی کرپشن نہیں دیکھی‘‘۔گو کہ یہاں چار دہائیوں سے ملک وقوم کولوٹ لوٹ کر بڈھے ہوچکے بھی فرمارہے، ہم معصوم، ہم بے گناہ، گو کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک جہاں زرداری صاحب کا بھی دفاع کرنے والے موجود، جہاں سپریم کورٹ کے نااہل، کرپشن پر جیل جا چکے نوا ز شریف کی لیڈری کے گن گانے والے بھی پائے جائیں، باقی چھوڑیں، یہ مخول ملاحظہ ہو، یہ تووہ ملک جہاں انقلابی بیانیے کی وارث مریم نواز، بڑے بڑے جغادری مریم نواز سے انقلاب کشید رہے، لیکن حسن نثار صاحب سے بصدِادب اپنے پاکستان میں ایسے صاحب نظر بھی جنہیں دیمک کے دانت، سانپ کے پاؤں، چیونٹی کی ناک سمیت سب کچھ نظر آجائے مگر آنکھوں کے سامنے ہوئی کرپشن نظر نہ آئے۔

حسن نثار صاحب کا کہنا ’’خالی برتن شور بہت مچاتے ہیں، خالی تھیلے کبھی سیدھے کھڑے نہیں ہوسکتے‘‘۔بلاشبہ چاروں طرف یہی ہورہا، پتا ککھ نہیں، زبانیں آؤٹ آف کنٹرول، پانچویں فیل ملکی بجٹ کے تخمینے بتا، سمجھا رہے، اپنی دس بارہ فٹ کریانہ کی دکان چل نہیں رہی، ٹرمپ کو مشورے دیئے جارہے، گونگوں کو زبانیں لگی ہوئیں بلکہ زبانیں بندوں کو نہیں بندے زبانوں کو لگے ہوئے۔

حسن نثار صاحب فرمائیں ’’اپوزیشن کہتی ہے حکومت تنقید برداشت کرے اور یہ نہیں جانتی کہ تنقید اورگالی میں فرق ہوتاہے‘‘۔ استاد کے اس قول کا انگریزی ترجمہ کرواکربلاول کو پیش کریں اور اسے مزید آسان اردو میں مریم نواز تک پہنچائیں، امید ہے افاقہ ہوگا۔

حسن نثار کا کہنا ’’مجھے کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن اپنے کرکٹرز سے بے پناہ ہمدردی جو ایک میچ جیت کر’شاہین‘ اور دوسرا میچ ہارکر’ کوے‘ بن جائیں۔ ایک بار حضورؐ سے پوچھا گیا ’’دین کیا ہے‘‘ فرمایا ’’دین اعتدال، میانہ روی‘‘، اس کے بعد اور کیاکہوں، جب محبتیں، نفرتیں آؤٹ آ ف کنٹرول ہوجائیں توکبھی شاہین کبھی کوے، یہی ہوتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف حکومت کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ متحدہ اپوزیشن خود ہی ذلیل و خوار ہو رہی ہے:

اے پی سی میں اختلافی لمحات کی اندرونی کہانی: ہم سب خصوصی تجزیہ سیل
26/06/2019 ہم سب نیوز

باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے آخری حصے میں متعدد اختلافی نکات سامنے آئے۔ اے پی سی کے کنوینر مولانا فضل الرحمان نے تجویز دی کہ اپوزیشن پارٹیز کو تمام اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفے دے کر پارلیمنٹ کو غیر موثر کر دینا چاہیے۔ مولانا نے مزید کہا کہ اگر اس کے نتیجے میں مارشل لا بھی لگتا ہے تو اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

اس پر پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو نے فوری ردعمل دیا اور کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت گرانا کوئی مسئلہ نہیں لیکن میری شہید ماں نے مجھے یہی سکھایا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ دو الگ چیزیں ہیں۔


بلاول بھٹو کے اس ردعمل پر اجلاس کے شرکا سکتے میں آ گئے۔ تاہم رضا ربانی نے مولانا فضل الرحمان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ اس اجلاس کے کنوینر ہیں۔ آپ کا منصب اپنا ایجنڈا پیش کرنا نہیں بلکہ شریک سیاسی جماعتوں میں پل کا کردار ادا کرنا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس اجلاس کے شرکا مجھ سے بڑے ہیں، انہوں نے آمریتوں کا مقابلہ کر رکھا ہے، میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن میں پارلیمنٹ کو گرانے کی تجویز تسلیم نہیں کر سکتا۔ اگر اس نکتے پر اختلاف قائم رہتا ہے تو آپ اپنی جماعتوں کی سیاست کیجیے میں پیپلز پارٹی کی سیاست کروں گا۔ اس موقع پر مسلم لیگ نواز کے ارکان خاموش رہے۔ تاہم اے پی سی کا موڈ سمجھتے ہوئے مولانا نے اپنی تجویز واپس لے لی۔

آل پارٹیز کانفرنس کے آخری مرحلے میں یہ تجویز سامنے آئی کہ وزیراعظم عمران خان کی حالیہ ٹیلی ویژن تقریر میں مذہبی حوالے سے متنازع کلمات کو حکومت مخالف احتجاج کا مرکزی نقطہ بنایا جائے۔ بلاول بھٹو نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم مذہب کا ہتھیار استعمال نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم جمہوریت استعمال کرتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا کا عمومی تاثر یہ تھا کہ اردو زبان کے استعمال میں دقت کی وجہ سے بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں پائے۔

اس موقع پر قمر زمان کائرہ صاحب نے جمیعت علمائے اسلام کے ارکان سے کہا کہ آپ کا موقف تو تحریک لبیک جیسا ہے۔ کائرہ کے اس جملے پر مولانا عبدالغفور حیدری بھڑک اٹھے اور انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں تحریک لبیک سے ملا کر ہمارے جذبات مجروح کیے ہیں۔ اس پر قمر زمان کائرہ نے معذرت کرتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لے لئے۔

اے این پی کے سیکرٹری اطلاعات زاہد خان نے اس بحث کو سمیٹنے کی کوشش کی اور ایک مصالحانہ جملہ مشترکہ اعلامیے میں شامل کروانا چاہا۔ زاہد خان نے کہا کہ ہمیں اپوزیشن جماعتوں میں اختلاف کا تاثر دے کر مخالفین کو خوش ہونے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ اگرچہ اس پر عمومی اتفاق تھا لیکن مولانا فضل الرحمان نے اصرار کیا کہ اے پی سی کی طرف سے ان معاملات پر تشویش کی بجائے بھرپور تشویش کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ مولانا کی یہ تجویز تسلیم کر لی گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
نہ کریں‘ نہ حساب دیں
جاوید چوہدری

”میں اب باقی زندگی مرضی سے اٹھوں گا‘ اخبار پڑھوں گا‘ واک کروں گا‘ نمازیں پوری کروں گا‘ دوستوں سے گپ لگاﺅں گا‘ شام کو جم جاﺅں گا‘ کتابیں پڑھوں گا اور سو جاﺅں گا‘ میں فلمیں بھی دیکھوںگا اور ملک ملک بھی پھروں گا اور بس“ وہ خاموش ہو گئے‘ کمرے میں ذرا سی حدت تھی‘ شاید کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی‘ اے سی کی ٹھنڈی ہوا کھڑکی سے باہر جا رہی تھی اور گرم تھپیڑے اندر آ رہے تھے لیکن وہ بے پروا ہو کر مسلسل بول رہے تھے۔

وہ سیلف میڈ بزنس مین ہیں‘ دس سال کی عمر میں کام شروع کیا‘ پچاس سال محنت کی اور ملک کے پانچ سو بڑے صنعت کاروں میں شامل ہو گئے‘ وہ اب ملک کے حالات

کی وجہ سے پریشان تھے‘ میں ان کی پریشانی کم کرنے کےلئے آیا تھا لیکن انہوں نے الٹا مجھے پریشان کر دیا‘ وہ بولے ” میں اب باقی زندگی کام نہیں کروں گا‘ بیٹے ملک سے باہر ہیں‘ وہ وہاں کام کریں گے‘ بیٹیاں اور داماد امریکا اور سپین میں ہیں‘ یہ وہاں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں‘ میں اور میری بیوی رہ گئے ہیں‘ ہمارے لئے کرائے کافی ہیں‘ ہم سردیوں میں پاکستان آئیں گے اور گرمیوں میں باہر چلے جائیں گے اور بس“ وہ سانس لینے کے لیے رک گئے‘ میں نے عرض کیا ”لیکن آپ تو فرمایا کرتے تھے کام خدمت ہے‘ ہم جیسے لوگ کام کریں گے تو ملک چلے گا‘ عوام کو روزگار ملے گا اور ریاست کے پاس پیسا آئے گا مگر اب آپ ہی ہمت ہار گئے ہیں“ شیخ صاحب نے لمبی سانس لی اور بولے ” میں بیوپاری ہوں‘ میں ٹیپو سلطان نہیں ہوں‘ آپ مجھ سے شیر کی ایک دن کی زندگی کی توقع نہ کریں‘ آپ مجھے عزت‘ سپیس اور گروتھ کا موقع دیں گے تو میں کام کرسکوں گا ورنہ دوسری صورت میں میرے پاس بے شمار آپشن ہیں“ وہ رکے اور بولے ”مثلاً دنیا کے ہر ملک میں ایک ملین ڈالر کا مالک شخص امیر سمجھا جاتا ہے‘ آپ نے اگر زندگی میں سترہ اٹھارہ کروڑ روپے کما لئے ہیں اور آپ فضول خرچ اور بے وقوف نہیں ہیں تو پھر آپ اس رقم سے بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
آپ آدھی رقم سے کمرشل پراپرٹی بنا لیں‘ آپ کو کرایہ آنا شروع ہو جائے گا‘ آپ باقی آدھی رقم سٹاک ایکسچینج اور شارٹ ٹرم سرمایہ کاری کےلئے وقف کر دیں اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مطمئن زندگی گزار دیں‘ نہ ہڑتالوں کا خوف‘ نہ ملازمین کی بک بک‘ نہ بجلی اور گیس کے بل‘ نہ را مٹیریل کی درآمد‘ نہ مال کی ایکسپورٹ کا ایشو‘ نہ ماحولیاتی انسپکٹر کا خوف اور نہ ایف بی آر اور نیب کا ڈر‘ اپنی مرضی سے سوئیں اور اپنی مرضی سے جاگیں‘ ہمارے پاس دوسرا آپشن نقل مکانی ہے۔

آپ ون ملین ڈالر امریکا‘ کینیڈا‘ برطانیہ یا یورپ کے کسی ملک میں منتقل کر دیں‘ یہ آپ کو فوراً نیشنلٹی دے دیں گے‘ آپ دو لاکھ ڈالر کا مکان لیں اور آٹھ لاکھ ڈالر سے پراپرٹی‘ شیئرز یا دکانیں خریدلیں اور مزے سے زندگی گزاریں‘ حکومت آپ کو مفت علاج کی فائیو سٹار سہولت بھی دے گی‘ بچوں کو تعلیم بھی اور لٹنے برباد ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوگا‘ یہ سہولت اب سعودی عرب اور یو اے ای بھی دے رہا ہے‘ آپ اپنا پیسہ وہاں بھی شفٹ کر سکتے ہیں اور تیسرا آپشن کاروبار کی شفٹنگ ہے‘ پوری دنیا تاجروں‘ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کا انتظار کر رہی ہے۔

آپ نے بس خود کو کام یاب بزنس مین ثابت کرنا ہے اور دنیا آپ کو مفت زمین بھی دے گی‘ قرضے بھی اور ٹیکس ایمنسٹی بھی‘ آسٹریلیا اور کینیڈا نے اپنی سرحدیں ہنرمندوں تک کے لیے کھول دی ہیں‘ آپ اگر کوالی فائیڈ ویلڈر بھی ہیں تو آپ آسٹریلیا چلے جائیں یا کینیڈا یہ آپ کو شہریت اور عزت دونوں دیں گے‘ میرے پاس بھی یہ تمام آپشن موجود تھے لیکن میں روح کی گہرائی تک پاکستانی ہوں چناں چہ میں پہلے آپشن پر چلا گیا‘ میں نے کام بند کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات اور ضرورت سے زیادہ دے رکھا ہے‘ میں اب کرائے کھاﺅں گا اور اللہ اللہ کروں گا‘ ملک جانے اور ملک چلانے والے جانیں“۔

میں نے بھی لمبی سانس لی اور عرض کیا ”لیکن جناب ایشو کیا ہے؟“ وہ ہنس کر بولے ”ایشو بزنس اور کام یابی ہے‘ ہمارے ملک میں کام اور کاروبار کرنے اور کام یاب لوگوں کی کوئی عزت نہیں‘ ہمیں ہر شخص چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمجھتا ہے چنانچہ ہم لوگ چوکیدار سے لے کر صدر تک ہر شخص کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں‘ ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ سب سے پہلے تاجروں‘ بزنس مینوں اور صنعت کاروں کو ٹائیٹ کر دیتی ہے‘ وہ کمانے والے بیٹے کو نکمے بیٹوں سے جوتے مرواتی ہے۔

معیشت ایک مشکل شعبہ ہے لیکن اس کے اصول بہت سادہ ہیں مثلاً کمائی پہلے آتی ہے اور ٹیکس بعد میں‘ آپ کمائیں گے تو ہی ٹیکس دیں گے‘ آپ اگر کما نہیں رہے‘ اگر آپ کی گروتھ رک گئی ہے تو ایف بی آر خواہ آپ کو الٹا لٹکا دے یہ آپ سے ایک دھیلا بھی وصول نہیں کر سکے گا‘ آپ لوگوں کو پہلے کمانے دیں‘ آپ پھر ٹیکس لگائیں لیکن آپ ساری انڈسٹری‘ سارے کاروبار بند کرا کے وصولیوں پر جت گئے ہیں‘ ملک کے تمام بڑے سیکٹر اس وقت منفی گروتھ پر ہیں‘ زراعت منفی ساڑھے چھ فیصد پر چلی گئی۔

کپاس کی پیداوارمنفی 12.74 رہی‘کان کنی اور صنعتی پیداوار منفی دو فیصد رہی‘ مینوفیکچرنگ منفی 0.3 فیصدپر پہنچ گئی اور تعمیرات کا شعبہ منفی 7.6 فیصد پر گر گیا لیکن آپ ٹیکس بڑھاتے چلے جا رہے ہیں‘ لوگ کہاں سے پیسا لائیں گے اور آپ کو کیسے ادا کریں گے؟ معیشت کا دوسرا اصول سرمایہ کار کا اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد اسے حکومت دیتی ہے لیکن پورے ملک میں اس وقت خوف کا عالم ہے‘ آپ کو نائی سے لے کر گاڑیاں بنانے والے تمام لوگوں کے چہروں پر خوف نظر آتا ہے۔

مجھے کل کوئی صاحب بتا رہے تھے حکومت نے پانچ ہزار بزنس مینوں کی فہرست بنا لی ہے‘ حکومت ان لوگوں کو باری باری اٹھائے گی اور یہ جب تک اپنی جیبیں خالی نہیں کریں گے یہ باہر نہیں آ سکیں گے‘ آپ بے وقوفی کی انتہا دیکھیے حکومت یہ تک نہیں جانتی سرمایہ کاروں کے پیسے جیبوں یا تجوریوں میں نہیں ہوتے‘ مارکیٹ اور بینکوں میں ہوتے ہیں اور بینک اور مارکیٹ دونوں ریاست کے پاس ہوتے ہیں‘ آپ بزنس مینوں کوغائب کریں گے تو یہ کیا کریں گے؟۔

یہ اسی مارکیٹ اور انہی بینکوں سے اپنے اثاثے نکال کر حکومت کے حوالے کر دیں گے لیکن پھر کیا ہوگا؟ بینک اور مارکیٹ دونوں کنگال ہو جائیں گے اور ملک کے تمام بڑے سرمایہ کار 1973ءکی طرح ملک سے چلے جائیں گے اور یوں پوری معاشی عمارت زمین بوس ہو جائے گی‘ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں آپ پانچ ہزار بزنس مینوں میں سے دس بیس سے رقم نکلوا لیں گے لیکن اس کے بعد باقی چار ہزار نو سو اسی بزنس مین کاروبار بند کر دیں گے اور اس کا نقصان کس کو ہوگا؟۔

آپ کسی دن تحقیق کر لیں حکومت بزنس مینوں سے زبردستی جتنی رقم نکلوائے گی یہ لوگ ہر سال اس سے کئی گنا زیادہ ٹیکس دیتے ہیں‘ یہ معیشت میں اس سے سو گنا زیادہ کنٹری بیوٹ کرتے ہیں چناں چہ حکومت دو انڈے نکالنے کی کوشش میں مرغی سے بھی جائے گی‘ یہ آج کی آمدنی سے بھی محروم ہو جائے گی اور معیشت کا تیسرا اور آخری فارمولا معاشی استحکام ہوتا ہے‘ ملک میں اگر ڈالر روزانہ کی بنیاد پر اوپر جائے گا اور حکومت دو تین ماہ میں اپنی ساری معاشی پالیسی بدل دے گی تو پھر کون کافر کام کرے گا۔

اسحاق ڈار جیسے بھی تھے لیکن ان کے دور میں ڈالرچارسال مستحکم رہا اور حکومت نے سرمایہ کاری اور تجارتی پالیسی میں بھی کوئی ردوبدل نہیں کیا چنانچہ معاشی گروتھ پانچ اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ گئی جبکہ یہ حکومت روز عدم استحکام پیدا کر دیتی ہے لہٰذا آپ خود بتایے حکومت جب کاروبار بند کرا دے گی‘ وزیراعظم جب بار بار ٹیلی ویژن پر آ کر قوم کو بتاتے رہیں گے میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور مارکیٹ میں جب اتنا عدم استحکام ہوگاکہ ڈالر128سے162روپےتک پہنچ جائے گا تو پھر میرے جیسے لوگ کیوں اور کیسے کام کریں گے؟ کیا پھر ہمارے لئے بہتر نہیں ہم گھر بیٹھیں‘ کرایہ کھائیں اورمزے کریں‘ ہم عثمان بزدار بن جائیں‘ نہ کچھ کریں گے اور نہ حساب دیں گے“ وہ خاموش ہو گئے۔

میں نے عرض کیا ”آپ کو کوئی حل نظر آتا ہے؟“ وہ ہنس کر بولے ”حل بہت آسان ہے‘ آپ جدید دنیا کی طرح پورے ملک کو بزنس فرینڈلی بنا دیں‘ آپ گریجوایشن کی ڈگری کے لیے ایک سال کی ملازمت اور سرکاری ملازمین کےلئے ملازمت سے پہلے دو سال کاروبار کی شرط رکھ دیں‘ملک پانچ دس سال میں ٹھیک ہو جائے گا“ وہ رکے اور بولے ” آپ کو میری تجویز حماقت محسوس ہو گی لیکن آپ یقین کریں ہمارے بچے جب تک ملازمت نہیں کریں گے انہیں اس وقت تک دولت اور محنت کی قدر نہیں ہو گی۔

یہ اس وقت تک یہ نہیں جانیں گے پیسا‘ کاروبار اور ملازمت کتنی مشکل ہوتی ہے‘ انسان کو ان کےلئے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ہمارے سرکاری ملازمین بھی جب تک دکان‘ سٹور‘ کمپنی یا مل نہیں چلائیں گے‘ یہ بھی اس وقت تک تیل اور تیل کی دھار سے واقف نہیں ہوں گے‘ یہ بھی اس وقت تک یہ نہیں جان پائیں گے ہم لوگ کتنے چور اور کتنے ڈاکو ہیں؟ ہمارا المیہ یہ ہے ہمارے سارے فیصلے وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے پوری زندگی کوئی کاروبار نہیں کیا اور ہمارے بارے میں رائے وہ لوگ قائم کرتے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی جاب‘ کوئی نوکری نہیں کی اور ہمارے وزیراعظم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔

آپ کمال دیکھیے عمران خان نے زندگی میں صرف ایک فلیٹ خریدا تھا‘ یہ آج تک اس کا حساب دے رہے ہیں لیکن یہ ہم سے اس زندگی میں فیکٹریوں‘ کمپنیوں اور زمینوں کا حساب مانگ رہے ہیں‘ آپ یقین کریں ہم مر جائیں گے لیکن ہمارا حساب مکمل نہیں ہوگا‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جب بارش سے پوچھیں گے تم اوپر سے نیچے کی طرف کیوں برستی ہو یا انڈے سے کہیں گے تم سفید کیوں ہوتے ہو تو وہ کیا جواب دے گا‘ وہ آپ کو کیسے مطمئن کرے گا چناں چہ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے یہی بہتر ہے یہ نہ کریں اور نہ حساب دیں‘ یہ بس مزے کریں“۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈالر کو مصنوعی طریقہ سے روک کے رکھنے (اسحاق ڈالر کی کرامات) حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ ڈالر کی روپے کے مقابلہ میں قدر ملک کی امپورٹ- ایکسپورٹ ، کرنٹ اکاؤنٹ وغیرہ طے کرتے ہیں۔ اور جیسی اعلیٰ ترین معیشت ن لیگ چھوڑ کر گئی ہے۔ مجھے تو حیرت ہے روپیہ ابھی تک اتنا مستحکم کیسے ہے۔
D96-U7-VOX4-AYvd8p.png

3-1532027175.jpg
 

آصف اثر

معطل
نہ کریں‘ نہ حساب دیں
جاوید چوہدری

”میں اب باقی زندگی مرضی سے اٹھوں گا‘ اخبار پڑھوں گا‘ واک کروں گا‘ نمازیں پوری کروں گا‘ دوستوں سے گپ لگاﺅں گا‘ شام کو جم جاﺅں گا‘ کتابیں پڑھوں گا اور سو جاﺅں گا‘ میں فلمیں بھی دیکھوںگا اور ملک ملک بھی پھروں گا اور بس“ وہ خاموش ہو گئے‘ کمرے میں ذرا سی حدت تھی‘ شاید کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی‘ اے سی کی ٹھنڈی ہوا کھڑکی سے باہر جا رہی تھی اور گرم تھپیڑے اندر آ رہے تھے لیکن وہ بے پروا ہو کر مسلسل بول رہے تھے۔

وہ سیلف میڈ بزنس مین ہیں‘ دس سال کی عمر میں کام شروع کیا‘ پچاس سال محنت کی اور ملک کے پانچ سو بڑے صنعت کاروں میں شامل ہو گئے‘ وہ اب ملک کے حالات

کی وجہ سے پریشان تھے‘ میں ان کی پریشانی کم کرنے کےلئے آیا تھا لیکن انہوں نے الٹا مجھے پریشان کر دیا‘ وہ بولے ” میں اب باقی زندگی کام نہیں کروں گا‘ بیٹے ملک سے باہر ہیں‘ وہ وہاں کام کریں گے‘ بیٹیاں اور داماد امریکا اور سپین میں ہیں‘ یہ وہاں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں‘ میں اور میری بیوی رہ گئے ہیں‘ ہمارے لئے کرائے کافی ہیں‘ ہم سردیوں میں پاکستان آئیں گے اور گرمیوں میں باہر چلے جائیں گے اور بس“ وہ سانس لینے کے لیے رک گئے‘ میں نے عرض کیا ”لیکن آپ تو فرمایا کرتے تھے کام خدمت ہے‘ ہم جیسے لوگ کام کریں گے تو ملک چلے گا‘ عوام کو روزگار ملے گا اور ریاست کے پاس پیسا آئے گا مگر اب آپ ہی ہمت ہار گئے ہیں“ شیخ صاحب نے لمبی سانس لی اور بولے ” میں بیوپاری ہوں‘ میں ٹیپو سلطان نہیں ہوں‘ آپ مجھ سے شیر کی ایک دن کی زندگی کی توقع نہ کریں‘ آپ مجھے عزت‘ سپیس اور گروتھ کا موقع دیں گے تو میں کام کرسکوں گا ورنہ دوسری صورت میں میرے پاس بے شمار آپشن ہیں“ وہ رکے اور بولے ”مثلاً دنیا کے ہر ملک میں ایک ملین ڈالر کا مالک شخص امیر سمجھا جاتا ہے‘ آپ نے اگر زندگی میں سترہ اٹھارہ کروڑ روپے کما لئے ہیں اور آپ فضول خرچ اور بے وقوف نہیں ہیں تو پھر آپ اس رقم سے بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
آپ آدھی رقم سے کمرشل پراپرٹی بنا لیں‘ آپ کو کرایہ آنا شروع ہو جائے گا‘ آپ باقی آدھی رقم سٹاک ایکسچینج اور شارٹ ٹرم سرمایہ کاری کےلئے وقف کر دیں اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مطمئن زندگی گزار دیں‘ نہ ہڑتالوں کا خوف‘ نہ ملازمین کی بک بک‘ نہ بجلی اور گیس کے بل‘ نہ را مٹیریل کی درآمد‘ نہ مال کی ایکسپورٹ کا ایشو‘ نہ ماحولیاتی انسپکٹر کا خوف اور نہ ایف بی آر اور نیب کا ڈر‘ اپنی مرضی سے سوئیں اور اپنی مرضی سے جاگیں‘ ہمارے پاس دوسرا آپشن نقل مکانی ہے۔

آپ ون ملین ڈالر امریکا‘ کینیڈا‘ برطانیہ یا یورپ کے کسی ملک میں منتقل کر دیں‘ یہ آپ کو فوراً نیشنلٹی دے دیں گے‘ آپ دو لاکھ ڈالر کا مکان لیں اور آٹھ لاکھ ڈالر سے پراپرٹی‘ شیئرز یا دکانیں خریدلیں اور مزے سے زندگی گزاریں‘ حکومت آپ کو مفت علاج کی فائیو سٹار سہولت بھی دے گی‘ بچوں کو تعلیم بھی اور لٹنے برباد ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوگا‘ یہ سہولت اب سعودی عرب اور یو اے ای بھی دے رہا ہے‘ آپ اپنا پیسہ وہاں بھی شفٹ کر سکتے ہیں اور تیسرا آپشن کاروبار کی شفٹنگ ہے‘ پوری دنیا تاجروں‘ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کا انتظار کر رہی ہے۔

آپ نے بس خود کو کام یاب بزنس مین ثابت کرنا ہے اور دنیا آپ کو مفت زمین بھی دے گی‘ قرضے بھی اور ٹیکس ایمنسٹی بھی‘ آسٹریلیا اور کینیڈا نے اپنی سرحدیں ہنرمندوں تک کے لیے کھول دی ہیں‘ آپ اگر کوالی فائیڈ ویلڈر بھی ہیں تو آپ آسٹریلیا چلے جائیں یا کینیڈا یہ آپ کو شہریت اور عزت دونوں دیں گے‘ میرے پاس بھی یہ تمام آپشن موجود تھے لیکن میں روح کی گہرائی تک پاکستانی ہوں چناں چہ میں پہلے آپشن پر چلا گیا‘ میں نے کام بند کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات اور ضرورت سے زیادہ دے رکھا ہے‘ میں اب کرائے کھاﺅں گا اور اللہ اللہ کروں گا‘ ملک جانے اور ملک چلانے والے جانیں“۔

میں نے بھی لمبی سانس لی اور عرض کیا ”لیکن جناب ایشو کیا ہے؟“ وہ ہنس کر بولے ”ایشو بزنس اور کام یابی ہے‘ ہمارے ملک میں کام اور کاروبار کرنے اور کام یاب لوگوں کی کوئی عزت نہیں‘ ہمیں ہر شخص چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمجھتا ہے چنانچہ ہم لوگ چوکیدار سے لے کر صدر تک ہر شخص کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں‘ ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ سب سے پہلے تاجروں‘ بزنس مینوں اور صنعت کاروں کو ٹائیٹ کر دیتی ہے‘ وہ کمانے والے بیٹے کو نکمے بیٹوں سے جوتے مرواتی ہے۔

معیشت ایک مشکل شعبہ ہے لیکن اس کے اصول بہت سادہ ہیں مثلاً کمائی پہلے آتی ہے اور ٹیکس بعد میں‘ آپ کمائیں گے تو ہی ٹیکس دیں گے‘ آپ اگر کما نہیں رہے‘ اگر آپ کی گروتھ رک گئی ہے تو ایف بی آر خواہ آپ کو الٹا لٹکا دے یہ آپ سے ایک دھیلا بھی وصول نہیں کر سکے گا‘ آپ لوگوں کو پہلے کمانے دیں‘ آپ پھر ٹیکس لگائیں لیکن آپ ساری انڈسٹری‘ سارے کاروبار بند کرا کے وصولیوں پر جت گئے ہیں‘ ملک کے تمام بڑے سیکٹر اس وقت منفی گروتھ پر ہیں‘ زراعت منفی ساڑھے چھ فیصد پر چلی گئی۔

کپاس کی پیداوارمنفی 12.74 رہی‘کان کنی اور صنعتی پیداوار منفی دو فیصد رہی‘ مینوفیکچرنگ منفی 0.3 فیصدپر پہنچ گئی اور تعمیرات کا شعبہ منفی 7.6 فیصد پر گر گیا لیکن آپ ٹیکس بڑھاتے چلے جا رہے ہیں‘ لوگ کہاں سے پیسا لائیں گے اور آپ کو کیسے ادا کریں گے؟ معیشت کا دوسرا اصول سرمایہ کار کا اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد اسے حکومت دیتی ہے لیکن پورے ملک میں اس وقت خوف کا عالم ہے‘ آپ کو نائی سے لے کر گاڑیاں بنانے والے تمام لوگوں کے چہروں پر خوف نظر آتا ہے۔

مجھے کل کوئی صاحب بتا رہے تھے حکومت نے پانچ ہزار بزنس مینوں کی فہرست بنا لی ہے‘ حکومت ان لوگوں کو باری باری اٹھائے گی اور یہ جب تک اپنی جیبیں خالی نہیں کریں گے یہ باہر نہیں آ سکیں گے‘ آپ بے وقوفی کی انتہا دیکھیے حکومت یہ تک نہیں جانتی سرمایہ کاروں کے پیسے جیبوں یا تجوریوں میں نہیں ہوتے‘ مارکیٹ اور بینکوں میں ہوتے ہیں اور بینک اور مارکیٹ دونوں ریاست کے پاس ہوتے ہیں‘ آپ بزنس مینوں کوغائب کریں گے تو یہ کیا کریں گے؟۔

یہ اسی مارکیٹ اور انہی بینکوں سے اپنے اثاثے نکال کر حکومت کے حوالے کر دیں گے لیکن پھر کیا ہوگا؟ بینک اور مارکیٹ دونوں کنگال ہو جائیں گے اور ملک کے تمام بڑے سرمایہ کار 1973ءکی طرح ملک سے چلے جائیں گے اور یوں پوری معاشی عمارت زمین بوس ہو جائے گی‘ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں آپ پانچ ہزار بزنس مینوں میں سے دس بیس سے رقم نکلوا لیں گے لیکن اس کے بعد باقی چار ہزار نو سو اسی بزنس مین کاروبار بند کر دیں گے اور اس کا نقصان کس کو ہوگا؟۔

آپ کسی دن تحقیق کر لیں حکومت بزنس مینوں سے زبردستی جتنی رقم نکلوائے گی یہ لوگ ہر سال اس سے کئی گنا زیادہ ٹیکس دیتے ہیں‘ یہ معیشت میں اس سے سو گنا زیادہ کنٹری بیوٹ کرتے ہیں چناں چہ حکومت دو انڈے نکالنے کی کوشش میں مرغی سے بھی جائے گی‘ یہ آج کی آمدنی سے بھی محروم ہو جائے گی اور معیشت کا تیسرا اور آخری فارمولا معاشی استحکام ہوتا ہے‘ ملک میں اگر ڈالر روزانہ کی بنیاد پر اوپر جائے گا اور حکومت دو تین ماہ میں اپنی ساری معاشی پالیسی بدل دے گی تو پھر کون کافر کام کرے گا۔

اسحاق ڈار جیسے بھی تھے لیکن ان کے دور میں ڈالرچارسال مستحکم رہا اور حکومت نے سرمایہ کاری اور تجارتی پالیسی میں بھی کوئی ردوبدل نہیں کیا چنانچہ معاشی گروتھ پانچ اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ گئی جبکہ یہ حکومت روز عدم استحکام پیدا کر دیتی ہے لہٰذا آپ خود بتایے حکومت جب کاروبار بند کرا دے گی‘ وزیراعظم جب بار بار ٹیلی ویژن پر آ کر قوم کو بتاتے رہیں گے میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور مارکیٹ میں جب اتنا عدم استحکام ہوگاکہ ڈالر128سے162روپےتک پہنچ جائے گا تو پھر میرے جیسے لوگ کیوں اور کیسے کام کریں گے؟ کیا پھر ہمارے لئے بہتر نہیں ہم گھر بیٹھیں‘ کرایہ کھائیں اورمزے کریں‘ ہم عثمان بزدار بن جائیں‘ نہ کچھ کریں گے اور نہ حساب دیں گے“ وہ خاموش ہو گئے۔

میں نے عرض کیا ”آپ کو کوئی حل نظر آتا ہے؟“ وہ ہنس کر بولے ”حل بہت آسان ہے‘ آپ جدید دنیا کی طرح پورے ملک کو بزنس فرینڈلی بنا دیں‘ آپ گریجوایشن کی ڈگری کے لیے ایک سال کی ملازمت اور سرکاری ملازمین کےلئے ملازمت سے پہلے دو سال کاروبار کی شرط رکھ دیں‘ملک پانچ دس سال میں ٹھیک ہو جائے گا“ وہ رکے اور بولے ” آپ کو میری تجویز حماقت محسوس ہو گی لیکن آپ یقین کریں ہمارے بچے جب تک ملازمت نہیں کریں گے انہیں اس وقت تک دولت اور محنت کی قدر نہیں ہو گی۔

یہ اس وقت تک یہ نہیں جانیں گے پیسا‘ کاروبار اور ملازمت کتنی مشکل ہوتی ہے‘ انسان کو ان کےلئے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ہمارے سرکاری ملازمین بھی جب تک دکان‘ سٹور‘ کمپنی یا مل نہیں چلائیں گے‘ یہ بھی اس وقت تک تیل اور تیل کی دھار سے واقف نہیں ہوں گے‘ یہ بھی اس وقت تک یہ نہیں جان پائیں گے ہم لوگ کتنے چور اور کتنے ڈاکو ہیں؟ ہمارا المیہ یہ ہے ہمارے سارے فیصلے وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے پوری زندگی کوئی کاروبار نہیں کیا اور ہمارے بارے میں رائے وہ لوگ قائم کرتے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی جاب‘ کوئی نوکری نہیں کی اور ہمارے وزیراعظم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔

آپ کمال دیکھیے عمران خان نے زندگی میں صرف ایک فلیٹ خریدا تھا‘ یہ آج تک اس کا حساب دے رہے ہیں لیکن یہ ہم سے اس زندگی میں فیکٹریوں‘ کمپنیوں اور زمینوں کا حساب مانگ رہے ہیں‘ آپ یقین کریں ہم مر جائیں گے لیکن ہمارا حساب مکمل نہیں ہوگا‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جب بارش سے پوچھیں گے تم اوپر سے نیچے کی طرف کیوں برستی ہو یا انڈے سے کہیں گے تم سفید کیوں ہوتے ہو تو وہ کیا جواب دے گا‘ وہ آپ کو کیسے مطمئن کرے گا چناں چہ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے یہی بہتر ہے یہ نہ کریں اور نہ حساب دیں‘ یہ بس مزے کریں“۔
جاوید چوہدری کا یہ کالم مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا تھا۔ اس میں معاشی صورتِ حال کا جو دلچسپ زاویہ دکھایا گیا ہے وہ واقعتا تشویشناک اور حقیقی ہے۔
 

آصف اثر

معطل
الجزیرہ پر ایک متوازن تجزیاتی کالم۔
Why Pakistan's economy is sinking

اس کے زیربحث لائے گئے (پیرا بہ پیرا) نکات درجہ ذیل ہیں:
1۔ جاری بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن کی طرف سے بجٹ منظوری پر شدید تحفظات
2۔ بجٹ کے باعث ملکی معاشی صورتِ حال کا تاریک مستقبل۔
3۔ تمام معاشی اشارے تنزل کا شکار۔
4۔ ترقی کی شرح 6.2 سے 3.3 پر آنا، جو کہ گزشتہ دس برس کی کم ترین سطح پر اگلے سال 2.4 تک جاسکتاہے۔
5۔ روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں سال کے آغاز سے پانچویں حصے تک گراوٹ۔
6۔ مہنگائی میں آئندہ 12 مہینوں میں 13 فیصد اضافہ
7۔ بڑھتا قرضہ۔ جو بجٹ کا 30 فیصد کھاجاتاہے۔ درایں اثنا پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینا۔ اور آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر لینے کی صورت میں اور اضافہ۔
8۔ عمران خان کا پچھلی حکومتوں میں قرضے کی بڑھوتری کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا قیام۔
9۔ پاکستان کے اصل مسائل میں سے ایک: آمدنی کم ہے اور ایسے خرچے جس سے کوئی فائدہ نہیں ملتا، زیادہ ہیں۔
10۔ دہائیوں سے حکومتوں کا ٹیکس کی وصولی نظام کو سخت نہ کرنے سے ہونے والا نقصان۔ صرف ایک فیصد کاروباری طبقہ ٹیکس دیتاہے۔ جی ڈی پی کے حساب سے ٹیکس کی کم ترین وصولی یا ادائیگی میں پاکستان چند گنے چُنے ممالک میں شامل ہے۔
پچھلی حکومتوں میں اس ٹیکس وصولی کے نظام کی ناکارگی کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں، جو حکومتوں میں بھی رہے اور جن کو ٹیکس بھی دینا تھا لیکن انہوں نے اپنے عہدوں/تعلقات سے فائدہ اُٹھا کر خود کو ٹیکس دینے سے بچائے رکھا۔ ایک وجہ کرپشن بھی تھا، بجائے ٹیکس دینے کے وہ رشوت دے کر بچ جاتے۔
جس کا سارا بوجھ غریب عوام پر پڑرہاہے۔ ایک تہائی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور۔
11۔ خان نے حکومت میں آنے سے پہلے کافی بلند وبانگ دعوے کیے لیکن کچھ کیا نہیں۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آئی ہے حکومتی سطح پر بھی کافی کرپشن ہوئی ہے، جب کہ ایک وزیر نے ٹیکس سے بچنے کے لیے قیمتی جائداد اپنے نام کے بجائے اپنے ملازم کے نام پر خریدی۔ تاکہ ٹیکس سے بچاجائے۔ وزیر موصوف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
12۔ اسی جانبدارنہ انصاف کی وجہ سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بری طرح ناکام رہا۔
13۔ آمدن بڑھانے میں ناکامی کے علاوہ وہ خرچے بھی بند یا کم نہیں کیے جارہے جن کی وجہ سے ملکی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ ان میں سے ایک بڑا ذریعہ فوج کے خرچے ہیں۔
قرضوں کی ادائیگیوں کے بعد بجٹ کا 18 سے 23 فیصد تک فوج وصول کرجاتی ہے۔
فوج اس کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع سے بھی کمارہی ہے۔ اور اب تو تیل اور گیس کے میدان میں بھی شامل ہوگئی ہے۔ دیگر ذرائع سے دولت کمانے کی وجہ سے اتنی زیادہ دولت مند ہونے کے باوجود فوج بجٹ پر بوجھ بن گئی ہے۔ موجودہ حکومت میں اس سلسلے کے رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
14۔ حال ہی میں بننے والی قومی ترقیاتی کونسل میں آرمی چیف کی شمولیت سے یہ واضح ہے کہ فوج فیصلہ سازی میں مرکزی کردار ادا کرنے کی خواہش مند ہے۔
15۔ ایوانِ زیریں میں بجٹ پیش کرنے سے چند دن پہلے خان نے اعلان کیا کہ فوج اس بار رضاکارانہ طور پر کم بجٹ لے گی۔ لیکن جب بجٹ پیش ہونے کے بعد تفصیل سامنے آئی تو پتا چلا کہ یہ پچھلے سال سے بھی 17.6 فیصد زیادہ ہے۔ جس پر یہ چہ میگوئیاں بھی ہوئی کہ یہ عوام اور بین الاقوامی قرض دینے والوں کو بےوقوف بنانے کی کوشش تھی۔
بیرونی عوامل کے دباؤ کے باوجود دفاعی بجٹ کو ترجیح دی گئی۔ جس کا حکومتی بہانہ وہی ہے کہ پڑوسی ممالک سے خطرہ ہے۔ جو کہ کچھ پہلووں سے فوج کا بیانیہ ہے۔
16۔ پھر افغانستان اور بھارت سمیت مختلف جنگجو گروہوں کا ذکر۔
17۔ پس پاکستان اسی دائرے میں گھوم رہاہے، جس میں آرمی اور طاقتور معاشی طبقے کے مطالبات کو پورا کرنے میں ہی حکومتی دور گزر جاتے ہیں۔ معاشی تباہ کاری کے یہ طبقے حکومتوں کو اسی طرح مزید قرضے لینے پر مجبور کرتی رہی ہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو نتیجتا پاکستانی مکمل دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔
18۔ اس مقام پر ان مذکورہ طبقوں کو سوچنا چاہیے کہ ایک ساتھ دو متوازی حکومتیں نہیں چل سکتی۔ ایک واحد حل یہ ہے کہ سب اداروں اور طبقوں پر ٹیکس نافذ کیا جائے۔ یا بڑھتے فوجی بجٹ کو منجمد کیا جائے۔ یعنی مزید بڑھنے نہ دیا جائے۔
آخر میں اگر پاکستانی اس تباہی سے بچنا چاہتا ہےتو اسے آمدن کے ایسے سرمایہ کاری کو ترجیح دینا ہوگی جو سماجی اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کرتے ہوئے غریب کو سہارا دے، نہ کہ صرف فوجی اور غیرفوجی کرداروں کو۔
 
آخری تدوین:
Top