بلاگر محمد بلال خان قتل

ایف آئ آر جو گذشتہ رات ان کے والد کی مُدعیت میں درج کی گئی۔

64547396_1538632036276578_1675165647782281216_n.jpg

64393109_1538632026276579_873555408378134528_n.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم بلاگر کے قتل کو فوری طور پر جنرل فیض حمید سے جا کر ملانا غلط رویہ ہے۔
میں تو نہیں ملایا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والے ایک ٹرینڈ کی بات کی تھی۔
سوشل میڈیا کے مطابق محمد بلال خان مرحوم کو نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر تنقید کرنے پر قتل کیا گیا ہے۔
 

جان

محفلین
اللہ کریم مرحوم کی بخشش فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں۔ آمین۔
 
میں شعیہ ہوں مگر میں انہیں شہید سمجھتا ہوں۔ وہ حق کے راستے پر تھے اور شیطان کے پجاریوں کے ہاتھوں بے دردی سے شہید کر دیے گئے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔ بندہ ان کی جڑ (ایلومیناٹی، فری میسنز وغیرہ) تک پہنچنے کے کوشش کرے تو اسے پاگل پاگل کہہ کر کہیں کا نہیں چھوڑتے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
اسی بات پر تو مجھے غصہ آتا ہے بے شک انسانی جان محترم ہے مگر اس قسم کے واقعات کی آڑ میں دو دو ٹکے کے لوگ اپنا چورن بیچنا شروع کر دیتے ہیں جو کہ انتہائی قابل نفرت ہے
دو ٹکے کے لوگ جب اہم عہدوں پر تعینات کیے جائیں گے تو اس طرح کے واقعات روز کا معمول بن جاتے ہیں۔ آپ ان دو ٹکے کے لوگوں کو اہم عہدوں پر تعیناتی کے خلاف اعلان جہاد کردیں ملک سنور سکتا ہے۔ جس طرح اس قتل کا الزام بغیر ثبوت کے ایجنسیوں پر ڈالنا درست نہیں اسی طرح اسلامی اقدار کے لیے تخلیق کی گئی ان ایجنسیوں کے کالے کرتوت پر پردہ ڈالنا اور فرشتے ثابت کرنا بدرجہا غلط اور خلاف آئین ہے۔
 
سوشل میڈیا سے منقول ایک بہترین تحریر:

بلال خان کا قتل اور انسانیت کے اصول

میں نے یوٹیوب پر بلال خان کا چینل ایک عرصے سے سبسکرائب کر رکھا تھا۔ میں اس شخص کے نظریات سے سخت اختلاف رکھتا ہوں۔ اس نے ممتاز قادریت کو بڑھاوا دینے کے لئے یوٹیوب کا خوب استعمال کیا، ساتھ ہی یہ مشال خان کے قتل کی تاویلات پیش کرتا رہا۔ آسیہ بی بی کی رہائی پر بھی اس نے خوب واویلا کیا۔ عاصمہ جہانگیر کے جنازے کو جب عورتوں نے کاندھا دیا تو اس نے عاصمہ جہانگیر کے جنازے تک کو غیر شرعی قرار دیا۔ بشیر لونی کی موت کے لئے بھی یہ شخص تاویلات پیش کرتا رہا۔ مولوی خادم حسین رضوی، مولانا عبدالعزیز کی حمایت، آسیہ بی بی کے مخالف وکیل، ملاؤں اور گواہوں کے انٹرویو بلال خان نے اپنے چینل اور ویڈیوز کے ذریعے سوشل میڈیا پر خوب پھیلائے۔ بلال خان خود کو تحفظِ ناموس رسالت کا سپاہی کہتا تھا، ہر موقع پر اس نے پاکستان کی پسی ہوئی اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا، احمدی، عیسائی، ہندو سبھی اس کے پروپیگنڈا کے موضوعات رہے۔ جب سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنے کے واقعات سامنے آئے تو تب بھی بلال خان ان کے حق میں آواز اٹھانے کے بجائے مخالف کیمپ کی خوب حمایت کی۔ مولوی خادم حسین جیل سے باہر آ کر فوج مخالف بیانات سے اجتناب کرنے لگا، مگر بلال خان نے آسیہ بی بی کے پاکستان سے جانے کا ذمہ دار فوج، عدلیہ سمیت ہر ادارے کو ٹھہرایا۔

بلال خان آخر تھا کون؟ بلال خان کوئی انوکھا شخص نہیں تھا۔ یہ پاکستانی نوجوانوں کے اس طبقے کی نمائندگی کرتا تھا جو مذھبی غلاظت کے دلدل میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں، بیس بائیس سالہ یہ نوجوان، وہی رٹی رٹائی باتیں کرتا تھا جو پاکستان کے اکثر نوجوان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ یہ باتیں یوٹیوب پر کہنے لگا تھا اور ہزاروں لاکھوں لوگ اس کی یہ باتیں سنتے تھے۔ یہ عمر ہم نے بھی گزاری ہے، نوجوانی دراصل بے وقوفی کا خیمہ ہوتی ہے، نوجوان خود کو ناقابل شکست یعنی invincible سمجھتے ہیں۔ وہ آئڈیلزم یعنی مثالیت کو ایک حقیقت مانتے ہیں، مگر ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ انسان کو عقل آنی شروع ہو جاتی ہے۔ بلال خان وہی باتیں کرتا رہا جو اوریاہ مقبول جان، عامر لیاقت اور کئی اور الیکٹرانک میڈیا پر دن رات کرتے ہیں۔ مگر فرق صرف اتنا ہے کہ بلال خان ایک عام آدمی تھا جسے اس سیاست کے نشیب و فراز کی سمجھ آ ہی نہیں سکی اور وہ مار دیا گیا۔ اس کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اس نے فوج کی طرف سے نشانہ بننے کے امکان کی نشاندہی کی ہے۔

مگر آج سوشل میڈیا اس کی موت پر جنگ کا میدان بن چکا ہے، ملاؤں کے ہاتھ ایک اور ممتاز قادری آ چکا ہے، مگر لبرل اور پروگریسو طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد بھی بلال خان کی موت کو درست قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے جس طرح بلال خان اور اس جیسے لوگ سلمان تاثیر اور مشال خان کی موت کو درست قرار دیتے ہیں۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کسی شخص کے قتل کو کیونکر جائز قرار دے سکتے ہیں؟ وہ لکیر کہاں اور کس مقام پر کھینچنی ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ سلمان تاثیر کی موت تو غلط تھی مگر بلال خان کی درست ہے؟ خرم ذکی کے قتل پر بھی بہت سے لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان میں کوئی بھی ایسا قتل نہیں ہوا جس پر کسی نا کسی نے خوشی نا منائی ہو، کسی نے ایسا نہ کہا ہو "اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا"۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، شہباز بھٹی، امجد صابری حتیٰ کہ جنید جمشید کی حادثاتی موت پر بھی لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ ہمارے معاشرے کی عامیانہ سوچ ہے کہ ہم ہر موت کو اپنے ساتھ ہونے والی کسی نا کسی زیادتی کے مداوے کے طور پر لیتے ہیں۔

مذہبی شدت پسند ایک طرف ہیں، مگر عام سیکیولر لوگ جو انسانیت یعنی humanism کی بات کرتے ہیں وہ انسانیت کے کس اصول کے تحط بلال خان کے قتل کو درست قرار دے سکتے ہیں؟ انسانیت کسی بھی انسان کی جان لینے کی مخالفت کرتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف مذہب ہی میں pick and choose نہیں کرتے، اب ہم نے انسانیت یعنی humanism کے اصولوں میں سے بھی pick and choose کرنا شروع کر دیا ہے۔ بلال خان کا قتل ناحق ہے، اگر وہ دھشتگرد تھا، یا اس نے کوئی اور جرم کیا تھا تو ضرور اس پر مقدمہ چلتا اور اسے بمطابقِ قانون سزا دی جاتی۔ آزادیِ اظہار رائے کسی کی موت کا سبب نہیں بننا چاہیے، اسے اپنی بات کہنے کی اجازت ہونی چاہیے تھی۔ اگر تو ریاستی اداروں نے اس کو مارا ہے تو یہ ایک انتہائی سیاہ دور کی شروعات ہے، یہ معاشرے میں شدت پسندی کو مزید بڑھاوا دینے کی کوشش ہے۔ اس کے قتل کو پی ٹی ایم پر تھوپنے کی کوششیں بھی کی جار ہی ہیں، جس سے ملک میں انتشار اور بدامنی میں مزید اضافہ ہو گا۔


میرے خیال میں بلال خان اور اس جیسے دوسرے لوگ ڈائلاگ کا راستہ کھولتے ہیں، اور یاد رکھیے آپ ضرور کہیں گے کہ وہ معاشرے میں شدت پسندی کو بڑھاوا دے رہا تھا، مگر یہ بھی یاد رکھیں کے یہ معاشرہ ویسے ہی شدت اور انتہائی پسندی کی اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں سے اس کا لوٹنا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ بلال خان ویڈیوز بنا رہا تھا، اور یہ ضرور ممکن تھا کہ اس کی ویڈیوز کے مخالف ویڈیوز بنائی جاتی، جس میڈیم کا وہ استعمال کر رہا تھا اسی میڈیم کو اس کے نظریات کا رد کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا اور اس کے counter narrative کو سامنے لایا جاتا۔ میں ان سیکیولر اور لبرل لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو ٹوٹر اور فیسبک پر یک سطری یعنی one liner پوسٹوں کے ذریعے درست اور غلط کے ٹھپے لگاتے نظر آتے ہیں، مگر شدت پسندی اور عقل و خرد کی جنگ میں ان کا کردار صفر ہے۔

ذرا اس نوجوان کی جگہ اپنے آپ کو رکھیے، آپ بائیس سال کی عمر میں کیا تھے، آپ کے نظریات کیسے تھے، کہیں آپ شدت پسند مذھبی تو نہیں تھے؟ کیا آپ بے وقوف تھے، خیر میں تو آج بھی بے وقوف ہی ہوں، مگر جو عقل کی دو باتیں مجھے آج پتہ ہیں وہ 22 سال کی عمر میں میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وقت انسان کو عقل اور سمجھ دیتا ہے، مگر افسوس اس نوجوان کو یہ وقت مل ہی نا سکا۔ جوان موت بہت اندھوناک اور بھیانک ہوتی ہے، ایک شخص کے ساتھ کئی دوسروں کے خواب بھی مر جاتے ہیں۔ مولوی خادم حسین، مولوی عبدالعزیز، عامر لیاقت، اوریاہ مقبول جان اور ان جیسے دوسرے گھاگھ کھلاڑی خوب سمجھتے ہیں کہ کہاں طوطے کی طرح بولنا ہے اور کہاں چپ کرنا ہے۔ مگر یہ نوجوان موقعے کی نزاکت کو بھانپنے کی بصیرت رکھتا ہی نہیں تھا۔ نا حق مارا گیا۔

یاد رکھیے پاکستان میں ہر دوسرا شخص وہی باتیں کرتا ہے جو بلال خان کرتا تھا، مگر آج ہمارے ہی کچھ ساتھی انسانیت سے واجب القتل کا فتویٰ برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ان سب لوگوں کو انتباہ کرتا ہوں کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ انسانیت، رواداری، ہمدردی کے اصول بھی اگر من مرضی کے غلام ہیں تو پھر ہم سبھی میں کہیں نا کہیں کوئی ممتاز قادری بیٹھا ہے، وہ کسی کو قتل تو نہیں کرتا مگر واجب القتل ضرور سمجھتا ہے۔ قتل و غارت کے کھیل میں فتح صرف ممتاز قاردیت کی ہی ہو گی۔ بلال خان کے قتل کی بھی مذمت ہونی چاہیے۔ پاکستان سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار رائے کرنے والوں کی جہنم بنتا جا رہا ہے، کچھ اٹھا لیئے جاتے ہیں، کچھ قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ خرم ذکی کے نظریات سے بھی بہت لوگوں کو اختلاف تھا، مگر وہ بھی ایسی موت کا حقدار نہیں تھا۔ پانچ بلاگر اٹھائے گئے تو پوری دنیا نے احتجاج کیا، خوشقسمتی کہ وہ زندہ لوٹے۔ آج ان کی آوازوں کی طاقت اور گونج ہم سن رہے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں نشانہ بننے والوں کی آوازوں کی گونج ہم دوبارہ سن نہ پائیں گے۔

میں پچھلے چھ سال سے سوشل میڈیا پر سرگرم ہوں، اپنی آواز لوگوں تک پہنچا رہا ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو شخص بھی اپنا نقطہ نگاہ اچھا یا برا لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہے، اسے اپنی بات بے دھڑک اور بے خوف کہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ جو ہتھیار نہیں اٹھاتا خواہ میں اس کے نظریات سے کتنا بھی اختلاف رکھتا ہوں، میں اس کے قلم توڑے جانے پر کبھی بھی خوشی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ میں انسانیت کے اصولوں کے تحت ہر کسی سے زیادتی کی مذمت کروں گا، چاہے وہ شخص خود انسانیت کے قوانین سے مخالفت ہی کیوں نہ رکھتا ہو، ہمارے نظریات اور ہمارا نصب العین جذباتی کے بجائے اصولی ہونا چاہیے۔ جو لوگ جذبات کی گنگا میں بہہ کر اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہیں وہ کبھی بھی نا تو فلاح پا سکتے ہیں اور نا ہی کسی احسن تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کا وجود بھلائی کی وجہ ہونا چاہیے تو پھر اپنے اصول طے کر لیجئے اور اگر آپ اپنے اصول طے نہیں کر سکتے تو پھر انسانیت کی بانسری بجانے سے توبہ کر لیجئے۔ بات انسانیت اور انسانی حقوق کی ہے۔ اور انسانی حقوق کے کسی اصول میں واجب القتل کا فتویٰ موجود نہیں۔

غالب کمال
 

آورکزئی

محفلین
خبردار اگر کسی نے لب کشائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی بند رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قاتل نا معلوم
 
کسی کی وفات کے زیراثر مثبت/منفی مگر مبالغہ آمیز سطحی جذباتیت کے مظاہرہ پر عالمی تمغہ دینا ہو تو اولین حقدار امت مسلمہ ہی ٹھہرے گی!
 

آصف اثر

معطل
کسی کی وفات کے زیراثر مثبت/منفی مگر مبالغہ آمیز سطحی جذباتیت کے مظاہرہ پر عالمی تمغہ دینا ہو تو اولین حقدار امت مسلمہ ہی ٹھہرے گی!
مبالغہ آمیز اور سطحی جذباتیت پر تمغہ دینا تو مشکل ہے کہ یہ زاویۂ نظر کا معاملہ ہے لیکن سب سےزیادہ قتل کیے جانے اور مظلوم ہونے کے باوجود مسلسل برداشت کرنے پر تمغہ ہائے تحسین ضرور دینے چاہیے۔
 

جان

محفلین
امت مسلمہ میں مقتول و قاتل دونوں مظلوم ہیں۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں! :disapointed:
 

آصف اثر

معطل
ایک دو قاتلوں کو لاکھوں مقتول بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے برابر ٹھہرانا عقل کو قتل کرنے کے برابر ہے۔
 

جان

محفلین
قوم کی بے حسی کی انتہا ہے کہ قتل پہ بھی سیاست جاری ہے۔ اس شدتِ غم کا احساس نہیں کہ ایک 'انسان' قتل ہوا ہے چاہے اس کے عقائد کیسے ہی کیوں نہ ہوں! افسوس!
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
ایک دو قاتلوں کو لاکھوں مقتول بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے برابر ٹھہرانا عقل کو قتل کرنے کے برابر ہے۔
افسوس ہے آصف بھائی صد افسوس کہ آپ کے رویے سے اب تو یہی گماں گزرتا ہے کہ بندہ خود کو آپ سے 'قالو سلاما' تک محدود رکھے!
قران کیا کہتا ہے، حاضر ہے!
فَ۔بَعَثَ اللّ۔ٰهُ غُ۔رَابًا يَّبْحَثُ فِى الْاَرْضِ لِيُ۔رِيَهٝ كَيْفَ يُوَارِىْ سَوْءَةَ اَخِيْهِ ۚ قَالَ يَا وَيْلَتَ۔آ اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُ۔وْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُ۔رَابِ فَاُوَارِىَ سَوْءَةَ اَخِىْ ۖ فَاَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِيْنَ (31)
"پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدتا تھا تاکہ اسے دکھلائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپانا ہے، اس نے کہا افسوس مجھ پر اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر کرتا، پھر پچھتانے لگا۔"
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اَنَّهٝ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْ۔رِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِى الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَ۔مِيْعًاۖ وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَ۔مِيْعًا ۚ وَلَقَدْ جَآءَتْ۔هُ۔مْ رُسُلُ۔نَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُ۔مَّ اِنَّ كَثِيْ۔رًا مِّنْ۔هُ۔مْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِى الْاَرْضِ لَمُسْ۔رِفُوْنَ (32)
"اسی سبب سے، ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی، اور ہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔" (سورۃ المائدہ.31-32)
 

سید ذیشان

محفلین
کسی کے خیالات سے غیر متفق ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ اگرچہ ناموس صحابہ کی حفاظت کرتے کرتے موصوف ناصبیت کی طرف چلے گئے تھے لیکن یہ معاملہ ان کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ کسی انسان کو اختیار نہیں کہ دوسرے کی کہی ہوئی باتوں پر اس کی جان لی جائے۔

 
Top