ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانا غیر شرعی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل

جاسم محمد

محفلین
ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانا غیر شرعی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل
ویب ڈیسک جمعرات 4 اپريل 2019
1618914-handcuff-1554383678-544-640x480.jpg

الزام ثابت ہونے تک ہتھکڑیاں لگانا غلط فعل ہے، قبلہ ایاز، فوٹو: فائل

اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل نے ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانے کے عمل کو غیر شرعی قرار دیدیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے کہا کہ نیب پولیس یا کوئی بھی ادارہ ملزمان کو ہتھکڑیاں نہ لگائیں کیونکہ ہتھکڑی صرف ملزم کی طرف سے تشدد کی صورت میں لگ سکتی ہے اور الزام ثابت ہونے تک ہتھکڑیاں لگانا غلط فعل ہے اس لیے نیب کی جانب سے ملزموں کو ہتھکڑیاں پہنانا پاکستانی اور شرعی قوانین کی خلاف ورزی ہے، انہوں نے کہا کہ آئین میں طے کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے مغرب میں اسلامو فوبیا کے خطرناک رحجان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورپ، امریکا اور دیگر ممالک مسلمان اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کردار ادا کریں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے کراچی میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ کی مذمت بھی کی۔
 
ہاتھ کاٹنا اور سنگسار کرنا بھی غیر قرانی ، غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے۔ اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے؟
ٹیکس یعنی زکواۃ کی مٓقدار 20 فی صد ہے، جو کماتے ہی واجب الادا ہے، اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے۔
حدود اللہ صرف اور صرف چند معاملات کے لئے نہیں، ان باقی معاملات کے بارے مٓیں یہ کونسل کیا کہتی ہے۔

یہ بے کار کی باتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ ان کو لیڈر شپ کی سخت ضرورت ہے۔ :)
 

La Alma

لائبریرین
محترم فاروق سرور خان صاحب!! مجرموں کے ساتھ تو نرمی اور رعایت کا معاملہ اور ایک عام آدمی کے اوپر زکوٰة کے نام پر اتنا معاشی دباؤ۔۔۔ایسا کیوں؟
ہاتھ کاٹنا اور سنگسار کرنا بھی غیر قرانی ، غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے۔ اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے؟
بالفرض کسی کے گھر چوری ہو جائے اور چور ان کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹ کر فرار ہو جائیں تو مالی نقصان کے علاوہ جس خوف اور ذہنی اذیت سے گھر والے گزریں گے، اس کے سامنے تو ہاتھ کاٹنے کی سزا بہت معمولی لگتی ہے۔ البتہ یہ بات بحث طلب ضرور ہے کہ وہ کون سے حالات اور عوامل ہیں جہاں پر یہ سزا واجب العمل ہوگی۔ اگر کوئی نادانی میں کسی کی معمولی سی چیز اٹھا لے تو اسے عمر بھر کے لیے اپاہج تو نہیں کیا جا سکتا۔ شرعیت میں اس کے لیے کوئی نہ کوئی حد تو یقیناً مقرر ہو گی۔
ٹیکس یعنی زکواۃ کی مٓقدار 20 فی صد ہے، جو کماتے ہی واجب الادا ہے، اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے
ہر کمائی پر زکوٰة کی شرح 20 فیصد؟ ۔۔۔ معاف کیجئے یہ زکوٰة کم اور بھتا وصولی زیادہ لگ رہی ہے۔ یعنی اگر کوئی ایک لاکھ روپیہ مہینہ کماتا ہے تو 20000 ہزار اسے بہر صورت ہر ماہ ادا کرنے ہوں گے۔ پھر تو کسی غریب رشتہ دار، ہمسایہ یا ملازم کی لاٹری نکل آئے گی کہ ہر مہینے بغیر تگ و دو کیے، بیٹھے بٹھائے اضافی رقم مل جائے گی۔ پھر بھلا کس کو پڑی ہے کہ محنت کر کے اپنے لیے رزقِ حلال کمائے۔
ویسے بھی حاجت مندوں کی امداد صرف اور صرف زکوٰة کی رقم سے ہی کیوں۔۔۔؟ اسلام میں صدقہ و خیرات کی تو انتہائی ترغیب دی گئی ہے اور اس کی کوئی شرح بھی مقرر نہیں۔ اگر کوئی چاہے تو اپنی مرضی سے ہر کمائی پر 20 فیصد چھوڑ، سو فیصد بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
 
بالفرض کسی کے گھر چوری ہو جائے اور چور ان کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹ کر فرار ہو جائیں تو مالی نقصان کے علاوہ جس خوف اور ذہنی اذیت سے گھر والے گزریں گے، اس کے سامنے تو ہاتھ کاٹنے کی سزا بہت معمولی لگتی ہے۔ البتہ یہ بات بحث طلب ضرور ہے کہ وہ کون سے حالات اور عوامل ہیں جہاں پر یہ سزا واجب العمل ہوگی۔ اگر کوئی نادانی میں کسی کی معمولی سی چیز اٹھا لے تو اسے عمر بھر کے لیے اپاہج تو نہیں کیا جا سکتا۔ شرعیت میں اس کے لیے کوئی نہ کوئی حد تو یقیناً مقرر ہو گی۔

قران حکیم سے کوئی حوالہ عطا فرماسکتے ہیں؟
 
آخری تدوین:
ہر کمائی پر زکوٰة کی شرح 20 فیصد؟ ۔۔۔ معاف کیجئے یہ زکوٰة کم اور بھتا وصولی زیادہ لگ رہی ہے۔ یعنی اگر کوئی ایک لاکھ روپیہ مہینہ کماتا ہے تو 20000 ہزار اسے بہر صورت ہر ماہ ادا کرنے ہوں گے۔ پھر تو کسی غریب رشتہ دار، ہمسایہ یا ملازم کی لاٹری نکل آئے گی کہ ہر مہینے بغیر تگ و دو کیے، بیٹھے بٹھائے اضافی رقم مل جائے گی۔ پھر بھلا کس کو پڑی ہے کہ محنت کر کے اپنے لیے رزقِ حلال کمائے۔

کیا زکواۃ غریب غرباء کا حق ہے یا حکومت وقت کا حق ہے؟ اگر حکومت وقت کا کوئی حق نہیں تو پھر حکومت کیسے چلے گی اور سابقہ حکومتیں کیوں ٹیکس وصولتی رہیں ہیں؟ عمر رضی اللہ تعالی عنہہ کو کیا ضرورت تھی کے زکواۃ کے نا دہندگان کے خلاف تلوار اٹھاتے؟
 
ویسے بھی حاجت مندوں کی امداد صرف اور صرف زکوٰة کی رقم سے ہی کیوں۔۔۔؟ اسلام میں صدقہ و خیرات کی تو انتہائی ترغیب دی گئی ہے اور اس کی کوئی شرح بھی مقرر نہیں۔ اگر کوئی چاہے تو اپنی مرضی سے ہر کمائی پر 20 فیصد چھوڑ، سو فیصد بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

صدقہ اور خیرات، جتنا چاہے دیجئے، حکومت وقت کا کیا حق ہے، کیا زکواۃ ، ٹیکس ہےِ؟ یا حکومت وقت کو کچھ بھی ادا نہیں کیا جائے گا؟
 

La Alma

لائبریرین
قرآن حکیم سے کوئی حوالہ عطا فرماسکتے ہیں؟
شرعی سزاؤں کے نفاذ کا مقصد معاشرے کی اصلاح اور درستگی ہے، لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا ہر گز نہیں۔ اور نہ ہی سزاؤں پر عمل درآمد کرنے سے معاشرے میں کسی قسم کی بے چینی اور تشویش پیدا کرنا مقصود ہے بلکہ لوگوں کو شرپسندوں کے آزار سے محفوظ رکھنا ہے۔
اسلام میں چور کی سزا قطع ید ہی ہے۔
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۳۸﴾
چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا ، عذاب اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالٰی قوت و حکمت والا ہے.
(سورة المائدة, آیت: 38
تاہم یہاں معاشرتی رویوں کا بھی نہایت عمل دخل ہے ۔
نسائی کی ایک حدیث ہے۔
"سزاؤں کو آپس ہی میں معاف کر دیا کرو، کیونکہ جو معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا، اس میں سزا دینا لازم ہو جائے گا۔''
ارشاد باری تعالٰی ہے ۔
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ
بیشک اللہ‎ انصاف اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
یعنی انصاف کے ساتھ ساتھ احسان اور بھلائی کی بھی تلقین کی ہے ۔ احسان اضافی حکم ہے جس کا مطلب نرمی اور رعایت سے کام لینا ہے۔ انصاف ایسا ہونا چاہیے جس سے مزید بگاڑ کا اندیشہ نہ ہو۔
ایک مرتبہ کسی شخص کو نبی کریمؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس نے چوری کا ارتکاب کیا تھا۔ جب حضورؐ کو یہ بتایا گیا کہ اس سے یہ جرم سرزد ہوا ہے تو آپؐ کے چہرہ اقدس کی رنگت شدتِ غم سے متغیر ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا۔ ''میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں، جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔''
لہٰذا کچھ ذمہ داری معاشرے کے افراد پر بھی عائد ہوتی ہے کہ جرم کی سنگینی کے لحاظ سے ہی مقدمہ عدالت یا پنچائیت میں پیش کیا جائے۔ جہاں صرف تنبیہ، سرزنش اور ہلکی پھلکی سزا سے ہی اصلاح ممکن ہو، وہاں اس حد تک جانے کا آخر کیا جواز بنتا ہے۔
کیا زکواۃ ، ٹیکس ہےِ؟
زکوٰة کا تعلق عبادات اور تزکیہِ نفس سے ہے اور اس کی شرح مقرر ہے۔ جبکہ ٹیکس کی ادائیگی سوشل سسٹم کا ایک حصّہ ہے اور اس کی مقدار حسبِ ضرورت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔
جی مخیر حضرات پر حکومت کا ٹیکس ہے
غلط!!
گویا لاکھوں کی تعداد میں جو مسلمان غیر اسلامی ریاستوں میں سکونت پزیر ہیں وہاں کی حکومتوں کو ٹیکس ادا کرنے سے ان کی زکوٰة بھی ادا ہو جائے گی؟
یا پھر آپ کے خیال میں ان کے لیے کوئی اور قانون ہے اور اسلامی معاشرے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اور قانون؟
کیا زکواۃ غریب غرباء کا حق ہے یا حکومت وقت کا حق ہے؟ اگر حکومت وقت کا کوئی حق نہیں تو پھر حکومت کیسے چلے گی اور سابقہ حکومتیں کیوں ٹیکس وصولتی رہیں ہیں؟ عمر رضی اللہ تعالی عنہہ کو کیا ضرورت تھی کے زکواۃ کے نا دہندگان کے خلاف تلوار اٹھاتے؟
ایک مہذب اور ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہر شخص کا یہ قومی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ حکومتِ وقت کو اس کا عائد کردہ ٹیکس ادا کرے تاکہ ملکی معاملات احسن انداز میں سر انجام دیے جا سکیں۔ اسلام میں مسلم حاکم کی اطاعت ویسے بھی لازم ہے جب تک وہ شریعت کے خلاف حکم نہ دے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ (النساء:۵۹)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکام وقت کی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی معاملے میں تم میں تنازعہ واقع ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو.

جو لوگ صدقہ و خیرات کے مستحق ہیں وہی زکوة کے حقدار بھی ٹھہرتے ہیں۔ زکوٰة کے مصارف درج ذیل ہیں۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]
اگر حکومتی سطح پر زکوة کی کولیکشن اور تقسیم کا خاطر خواہ انتظام موجود ہو تو یہ رقم وہاں بھی جمع کرائی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ واضح ہے کہ زکوة کا ایک مصرف " فی سبیل اللہ‎ " بھی ہے۔ لہٰذا مساجد اور درسگاہوں کا قیام، رفاہِ عامه کے پراجیکٹس، ہسپتالوں کی تعمیر ، دفاعی نظام، عوام الناس کی بھلائی کے تمام منصوبے، زلزلے، سیلاب ، جنگ اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات وغیرہ وغیرہ، یہ سب فی سبیل اللہ‎ کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اگر ان کاموں میں زکوة کی رقم سے حکومت کا ہاتھ بٹایا جا سکتا ہے تو کیوں نہیں۔ لیکن جہاں حکمرانوں کو اپنی عیش و عشرت سے ہی فرصت نہ ہو، وہاں زکوة کے مصارف کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کرنا ہی بہتر ہو گا۔
 
پہلے آپ ظہر کی چار فرض کا قرآن سے حوالہ عطا فرمائیں۔۔۔
نیز ظہر کی نماز کی فرضیت بھی قرآن سے ثابت کریں اور اس کی ادائیگی کا طریقہ بھی!!!
میں بے کار کی بحث میں نہیں پڑتا، آپ خود ریسرچ کرلیجئے :)
لگتا ہے کہ آپ کا یقین ہے کہ قرآن میں آپ کی مرضی کی کوئی بات نہیں ہے؟
 
گویا لاکھوں کی تعداد میں جو مسلمان غیر اسلامی ریاستوں میں سکونت پزیر ہیں وہاں کی حکومتوں کو ٹیکس ادا کرنے سے ان کی زکوٰة بھی ادا ہو جائے گی؟
یا پھر آپ کے خیال میں ان کے لیے کوئی اور قانون ہے اور اسلامی معاشرے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اور قانون؟

یہ اسلامی معاشرہ کیا ہوتا ہے؟ اس معاشرے میں جہاں چوری ہو، جھوٹ ہو، حق تلفی ہو، عورتوں پر ہر طرح کی پابندی ہو، بے غیرتی سے عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جائے، تجارت جھوٹی ہو، مال نقلی ہو؟ پاکستان کیا اسلامی ملک ہے؟
یا ان سب کا الٹ ، جیسا کہ اسلامی معاشرہ کی درست تعریف، امریکہ جیسی جگہ؟

معیشیت کو ترقی دینے کے لیئے اکاؤنٹس پے ایبل رقم ہے زکواۃ ، جو کہ حکومت وقت کو ادا کرنا فرض ہے۔ فرض
صداقات ، حکومت کے ریسیو ایبل رقمات، جو حکومت وصولتی ہے، یعنی حکومت کا ریوینیو

یہ آپ لوگوں کی انفرادی تعریفوں سے بہت ہی تنگ آیا ہوں۔ اگر دین صرف فرداَ فرداَ ہی ہوتا تو رسول اکرم کو رب کریم کو غار حرا سے باہر نہیں نکالتا، غار حرا میں عبادت کافی تھی۔ مکہ پر 10 ہزار کا لشکر لے کر چڑھائی نا ہوتی۔

اگلے مراسلے کا انتظار کیجئے، اب زکواۃ کی آیات کے لئے ۔
 

La Alma

لائبریرین
یہ اسلامی معاشرہ کیا ہوتا ہے؟ اس معاشرے میں جہاں چوری ہو، جھوٹ ہو، حق تلفی ہو، عورتوں پر ہر طرح کی پابندی ہو، بے غیرتی سے عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جائے، تجارت جھوٹی ہو، مال نقلی ہو؟ پاکستان کیا اسلامی ملک ہے؟
یا ان سب کا الٹ ، جیسا کہ اسلامی معاشرہ کی درست تعریف، امریکہ جیسی جگہ؟
مذہبی نظریات اور اعتقادات کی بنیاد پر کلاسیفیکیشن کا کوئی اور طریقہ ہے تو بتائیں۔ یہ بالکل الگ موضوع ہے کہ کسی مخصوص معاشرت میں صحیح اسلامی نظام رائج ہیں یا نہیں۔ جن برائیوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، وہ مختلف صورتوں میں قریب قریب ہر خطے، ہر تمدن میں پائی جاتی ہیں۔ البتہ کہیں کہیں مادی ترقی اور معاشی آسودگی نے ان برائیوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
معیشیت کو ترقی دینے کے لیئے اکاؤنٹس پے ایبل رقم ہے زکواۃ ، جو کہ حکومت وقت کو ادا کرنا فرض ہے۔ فرض
صداقات ، حکومت کے ریسیو ایبل رقمات، جو حکومت وصولتی ہے، یعنی حکومت کا ریوینیو
آخر زکوٰة اور ٹیکس کے ملغوبے سے حاصل کیا ہو گا۔
"خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد"
اگر زکوٰة کو زکوٰة اور ٹیکس کو ٹیکس ہی رہنے دیا جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔
یہ تو حکومتوں کی صوابدید پر ہے کہ وہ ٹیکس کے ضمن میں کیا قانون سازی کرتی ہیں۔
یہاں بھی سیونگ اکاؤنٹس پر رمضان کے اوائل میں زکوٰة کی آٹومیٹک ڈیڈکشن ہوتی ہے۔
یہ آپ لوگوں کی انفرادی تعریفوں سے بہت ہی تنگ آیا ہوں۔ ا
آپ زکوٰة کی ادائیگی کےحوالے سے دینی احکامات کو جس نظریے سے دیکھتے ہیں اس کے پسِ پردہ یقینًا کوئی مثبت جذبہ ہی کار فرما ہو گا۔ ہو سکتا ہے ایسے نظام سے وقتی طور پر کچھ معاشی فوائد بھی حاصل ہو جائیں۔ لیکن یقین مانیے، آہستہ آہستہ روحانیت کا عنصر مکمل طور پر غائب ہو کر رہ جائے گا۔ زکوٰة جیسے مقدس دینی فریضے کی اہمیت کسی طور دیگر کاروبارِ حیات سے بڑھ کر نہیں رہے گی۔ اگر سب کچھ حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا جائے تو اپنے بل بوتے پر دوسروں کی مدد کرنے کی تحریک میں نمایاں کمی آئے گی۔ معاشرے میں بے حسی اور بے نیازی بڑھے گی۔ آپ آزما کر دیکھ لیجئے۔ اگر ہر ایک کی خود کار طریقے سے زکوٰة کٹتی رہے چاہے اسے ناگوار ہی کیوں نہ ہو، تو ایسی ادائیگی کا شمار مالی عبادات میں کس طرح ممکن ہے ۔ کیونکہ عبادات کا تعلق نیت، ارادے، اور عمل سے ہے اور سزا و جزا کا تصور اسی پر قائم ہے۔
 

سید عمران

محفلین
میں بے کار کی بحث میں نہیں پڑتا، آپ خود ریسرچ کرلیجئے :)
لگتا ہے کہ آپ کا یقین ہے کہ قرآن میں آپ کی مرضی کی کوئی بات نہیں ہے؟
ہمیں اپنی کم علمی کا اعتراف ہے۔۔۔
برسوں کی تحقیق کے باوجود ہمیں ظہر کی نماز کا تو نام تک نہ مل سکا۔۔۔
رکعات کی تعداد، وقت کا ابتداء و اختتام، ادائیگی کا طریقہ، کس طرح نماز ٹوٹ جاتی ہے، سجدہ سہو کی تفصیلات کچھ بھی قرآن پاک میں نہ مل سکا۔۔۔
اسی لیے تو آپ سے رجوع کیا ہے۔۔۔
مگر آپ اسلام کے اس سب سے بڑے اور سب سے اہم فرض کا علم حاصل کرنے کو بے کار کی بحث کہہ رہے ہیں ۔۔۔
فرض نماز کا علم بے کار کی بحث ہے تو اس کے آگے باقی دینی علوم کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے!!!
 
ہمیں اپنی کم علمی کا اعتراف ہے۔۔۔
برسوں کی تحقیق کے باوجود ہمیں ظہر کی نماز کا تو نام تک نہ مل سکا۔۔۔
رکعات کی تعداد، وقت کا ابتداء و اختتام، ادائیگی کا طریقہ، کس طرح نماز ٹوٹ جاتی ہے، سجدہ سہو کی تفصیلات کچھ بھی قرآن پاک میں نہ مل سکا۔۔۔
اسی لیے تو آپ سے رجوع کیا ہے۔۔۔
مگر آپ اسلام کے اس سب سے بڑے اور سب سے اہم فرض کا علم حاصل کرنے کو بے کار کی بحث کہہ رہے ہیں ۔۔۔
فرض نماز کا علم بے کار کی بحث ہے تو اس کے آگے باقی دینی علوم کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے!!!

جو آپ جاننا چاہتے ہیں ، اس کی ریسرچ کہیں اور کیجئے، میرے پاس ان میں سے کسی بات کا جواب نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
معیشیت کو ترقی دینے کے لیئے اکاؤنٹس پے ایبل رقم ہے زکواۃ ، جو کہ حکومت وقت کو ادا کرنا فرض ہے۔ فرض
ہر قسم کے اکاؤنٹ پر فرض نہیں ہونی چاہئے۔ بینک بیلنس کے مطابق کٹنی چاہئے کیونکہ زکوٰۃ صرف مخیر لوگوں پر فرض ہے۔
 

آصف اثر

معطل
جو آپ جاننا چاہتے ہیں ، اس کی ریسرچ کہیں اور کیجئے، میرے پاس ان میں سے کسی بات کا جواب نہیں ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کسی کے اختلاف رائے پر اپنے مؤقف کو بھی واضح نہیں کرپا رہے۔ آپ اور دیگر رفقا عموما مذہبی طبقے پر اعتراض کرتے آتے ہیں کہ یہ سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، لیکن دیکھا جاسکتاہے کہ آپ ہی لوگ سوال کو یہ کہہ کر برداشت نہیں کر پاتے کہ یہ آپ کا مسئلہ ہے، خود تحقیق کریں۔
اگر یہی رویہ ہی اختیار کرنا ہے تو الگ لڑی میں اپنا مؤقف بیان کیا کریں، بحث کی ضرورت ہی کیا رہ گئی۔ اگر آپ کوئی جواب پہلے ہی دے چکے ہیں تو اس کا حوالہ ہی دے دیا کریں۔ بحث میں چاہے آپ پر کتنا ہی بھاری کیوں نہ گزرے، وضاحت لازم ہو جاتی ہے۔
بقول ہاکنگ: ایک جواب مزید کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
 
آخری تدوین:
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کسی کے اختلاف رائے پر اپنے مؤقف کو بھی واضح نہیں کرپا رہے۔ آپ اور دیگر رفقا عموما مذہبی طبقے پر اعتراض کرتے آتے ہیں کہ یہ سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، لیکن دیکھا جاسکتاہے کہ آپ ہی لوگ سوال کو یہ کہہ کر برداشت نہیں کر پاتے کہ یہ آپ کا مسئلہ ہے، خود تحقیق کریں۔
اگر یہی رویہ ہی اختیار کرنا ہے تو الگ لڑی میں اپنا مؤقف بیان کیا کریں، بحث کی ضرورت ہی کیا رہ گئی۔ اگر آپ کوئی جواب پہلے ہی دے چکے ہیں تو اس کا حوالہ ہی دے دیا کریں۔ بحث میں چاہے آپ پر کتنا ہی بھاری کیوں نہ گزرے، وضاحت لازم ہو جاتی ہے۔
بقول ہاکنگ: ایک جواب مزید کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
یہان بات کچھ ہو رہی ہے اور آپ اس سیارے کے بارے میں سوال کررہے ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوا۔ ٹاپک پر فوکس رہیں۔ اور ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجئے، آج تک موجود کسی بھی روایت کی کتاب میں نماز کا طریقہ موجود نہیں۔ بلکہ کتب روایات کا کوئی وجود 700 ہجری تک نہں ملتا، سنی سنائی پر آپ یقین کیجئے لیکن سنی سنائی پر کوئی بھی عدالت یقین نہیں کرتی ہے۔ لہذا ، اس مذہنب کو اس رسول ، اس اللہ اور اس کتاب تک محدود رکھئے جس پر سب کا ایمان ہے۔ آپ کے سوال کا میں ککیا جواب دوں، جب کہ آپ خود جانتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ۔ اب جن نکات کا واضح تذکرہ ہے ، ان نکات کو آپ کیا اس لئے جھٹلائیں گے کہ ظہر کی نماز کی رکعتوں کی تعداد قرآن حکیم میں نہیں۔

اب آپ کی بات کا جواب۔ جو معاملہ اجتماعی حیثیت رکھتا ہے یعنی زکواۃ ، جس میں ایک سے زائید افراد متاثر ہوتے ہیں ، کیا اس معاملہ کا تعلق ایسے معاملے سے ہو سکت ہے جو صرف اور صرف حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نماز ، روزے اور حج کو رب کریم معاف کردے گا لیکن جو حقوق العباد ہم کھا جائیں گے ان کا حساب معاف نہیں ہوگا بلکہ اس کے جواب میں آپ کو اپنی نیکیاں ادا کرنی ہوں گی۔


تو آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ کیوں زکواۃ جیسے حق العباد سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ اور کیوں آپ حوصلہ شکنی کررہے ہیں کہ ہم اس موضوع پر بات نا کریں۔

سوال کیجئے پر ٹاپک پر رہ کر کیجئے، مدیران حضرات سے درخواست ہے کہ وہ عمران صاحب اور میرے وہ مراسلے جن کا تعلق اس دھاگے سے نہیں ہے، پلیز حذف کردیجئے۔ بہت شکریہ۔
 
ہر قسم کے اکاؤنٹ پر فرض نہیں ہونی چاہئے۔ بینک بیلنس کے مطابق کٹنی چاہئے کیونکہ زکوٰۃ صرف مخیر لوگوں پر فرض ہے۔

Accounts Payables
Accounts Receivables

زکواۃ سب پر، جو کماتے ہیں ، فرض ہے ، تمام اسلامی حکومتوں نے زکواۃ وصولی، ہے، یہ ہی اسلامی ٹیکس ہے ، جس کی مقدار آمدنی کا پانچواں حصہ قرآن کے مطابق ہے۔ یعنی 20 فی صد، حکومت وقت کو واجب الادا۔ ڈھائی فی صد کا سراغ کہیں سے نہیں ملتا۔
 
Top