غزل برائے اصلاح

الف عین ، یاسر شاہ
حضور اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں
قفس میں کیا بے قراری تو کیا قرار کا موسم۔
کسی کے رحم و کرم پر ہے انتظار کا موسم۔
یہ رنجشیں تو رقیبوں کی محض چال تھی شاید۔
کہ لوٹ آؤ پکارے تجھے بہار کا موسم۔
تصوّرات نے سونے ہی کب دیا مجھےشب بھر۔
تھا دلفریب بڑا اُس کفِ نگار کا موسم۔
چراغ گل ہیں سبھی کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا۔
ستائے گا مجھے کب تک یونہی غبار کا موسم۔
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا کوئی ان کا۔
بدل گیا ترے سجاد رازدار کا موسم۔
 

فلسفی

محفلین
واہ سعید صاحب داد قبول کیجیے۔ بہت خوب

قفس میں کیا بے قراری تو کیا قرار کا موسم
کسی کے رحم و کرم پر ہے انتظار کا موسم

یہ رنجشیں تو رقیبوں کی محض چال تھی شاید
کہ لوٹ آؤ پکارے تجھے بہار کا موسم

تصوّرات نے سونے ہی کب دیا مجھےشب بھر
تھا دلفریب بڑا اُس کفِ نگار کا موسم

چراغ گل ہیں سبھی کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا
ستائے گا مجھے کب تک یونہی غبار کا موسم

نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا کوئی ان کا
بدل گیا ترے سجاد رازدار کا موسم​
 
واہ سعید صاحب داد قبول کیجیے۔ بہت خوب

قفس میں کیا بے قراری تو کیا قرار کا موسم
کسی کے رحم و کرم پر ہے انتظار کا موسم

یہ رنجشیں تو رقیبوں کی محض چال تھی شاید
کہ لوٹ آؤ پکارے تجھے بہار کا موسم

تصوّرات نے سونے ہی کب دیا مجھےشب بھر
تھا دلفریب بڑا اُس کفِ نگار کا موسم

چراغ گل ہیں سبھی کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا
ستائے گا مجھے کب تک یونہی غبار کا موسم

نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا کوئی ان کا
بدل گیا ترے سجاد رازدار کا موسم​
بہت شکریہ فلسفی بھائی سدا خوش رہو
 

یاسر شاہ

محفلین
سجاد صاحب السلام علیکم -میرا خیال ہے یہ غزل از سر نو کہنے کی ضرورت ہے -

پہلے شعر کے پہلے مصرعے میں بے قراری درست نہیں باندھا گیا -"بے" کا یوں دبنا جائز نہیں -پھر منطقی لحاظ سے انتظار کا موسم بھی تو ایک بے قراری ہی ہے لہٰذا اس سے مفر نہیں -

دوسرے شعر میں مصرعوں کے درمیان مناسب ربط نہیں-

تیسرے میں "کف نگار کا موسم" ترکیب جچتی نہیں -

چوتھے میں منطقی سقم یہ ہے کہ غبار کے موسم میں چراغ کا کیا کام ،گل ہو چاہے جلتا ہو-

پانچواں مجھے دو لخت لگا -

اب دیکھیے اعجاز صاحب کیا فرماتے ہیں ؟کہ انھیں کی رائے حتمی ہے -
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو میں یہ کہوں گا کہ بحر میں اضافی رکن کی وجہ سے روانی متاثر ہو گئی ہے، دوبارہ کہنے کی کوشش کی جائے تو رواں بحر کی بھی کوشش کی جا سکتی ہے۔ میرا اشارہ اس بحر کی طرف ہے
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم
چوتھا شعر ہی مجھے قابل قبول لگا۔ منطق کے لحاظ سے بھی۔ چراغ گل ہونے کا یہی تو مطلب ہے کہ چراغ غبار میں جل ہی نہیں سکتے! ہاں، گل ہیں کی بجائے اگر چراغ روشن نہیں یا چراغ بھی نہیں کہا جائے تو بہتر ہو۔
باقی یاسر شاہ سے متفق ہوں
 
پہلی بات تو میں یہ کہوں گا کہ بحر میں اضافی رکن کی وجہ سے روانی متاثر ہو گئی ہے، دوبارہ کہنے کی کوشش کی جائے تو رواں بحر کی بھی کوشش کی جا سکتی ہے۔ میرا اشارہ اس بحر کی طرف ہے
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم
چوتھا شعر ہی مجھے قابل قبول لگا۔ منطق کے لحاظ سے بھی۔ چراغ گل ہونے کا یہی تو مطلب ہے کہ چراغ غبار میں جل ہی نہیں سکتے! ہاں، گل ہیں کی بجائے اگر چراغ روشن نہیں یا چراغ بھی نہیں کہا جائے تو بہتر ہو۔
باقی یاسر شاہ سے متفق ہوں
شکریہ سر بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
پہلی بات تو میں یہ کہوں گا کہ بحر میں اضافی رکن کی وجہ سے روانی متاثر ہو گئی ہے، دوبارہ کہنے کی کوشش کی جائے تو رواں بحر کی بھی کوشش کی جا سکتی ہے۔ میرا اشارہ اس بحر کی طرف ہے
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم
چوتھا شعر ہی مجھے قابل قبول لگا۔ منطق کے لحاظ سے بھی۔ چراغ گل ہونے کا یہی تو مطلب ہے کہ چراغ غبار میں جل ہی نہیں سکتے! ہاں، گل ہیں کی بجائے اگر چراغ روشن نہیں یا چراغ بھی نہیں کہا جائے تو بہتر ہو۔
باقی یاسر شاہ سے متفق ہوں
سر اب نظرِ کرم فرمائیے گا
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔
ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔
ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔
چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔
 
سجاد صاحب السلام علیکم -میرا خیال ہے یہ غزل از سر نو کہنے کی ضرورت ہے -

پہلے شعر کے پہلے مصرعے میں بے قراری درست نہیں باندھا گیا -"بے" کا یوں دبنا جائز نہیں -پھر منطقی لحاظ سے انتظار کا موسم بھی تو ایک بے قراری ہی ہے لہٰذا اس سے مفر نہیں -

دوسرے شعر میں مصرعوں کے درمیان مناسب ربط نہیں-

تیسرے میں "کف نگار کا موسم" ترکیب جچتی نہیں -

چوتھے میں منطقی سقم یہ ہے کہ غبار کے موسم میں چراغ کا کیا کام ،گل ہو چاہے جلتا ہو-

پانچواں مجھے دو لخت لگا -

اب دیکھیے اعجاز صاحب کیا فرماتے ہیں ؟کہ انھیں کی رائے حتمی ہے -
سر اب نظرِ کرم فرمائیے گا
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔
ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔
ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔
چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔
 
سر اب نظرِ کرم فرمائیے گا
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔
ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔
بس ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔
چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔
 
سر اب نظرِ کرم فرمائیے گا
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔
ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔
بس ایک تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔
چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔
 

یاسر شاہ

محفلین
سر اب نظرِ کرم فرمائیے گا
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔
ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔
ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔
چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔

قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔

مجھے تو "کسی کے رحم پہ "بھلا نہیں لگا -محاورہ اور روز مرّہ کے لحاظ سے "کسی کے رحم و کرم پہ ہونا" ہی ٹھیک ہے -"کسی کے رحم پہ" نہیں -اعجاز صاحب نے غالباً مثال دی تھی نئی مختصر بحر سے متعلق کہ سابقہ بحر سے اس بحر میں کیسے تبدیل کیا جائے -پہلے مصرع میں "بند" اضافی سا محسوس ہوا -ردیف کو بھی میری رائے ہے "موسم "کے بجائے "عالم "کر دیں کہ یہ کافی جامع لفظ ہے -یوں ایک شکل ہے :

قفس میں یوں ہے دلِ بیقرار کا عالم
امید ہے ،میں ہوں اور
انتظار کا عالم

"میں ہوں" کا یوں گرنا اعجاز صاحب کے نزدیک جائز نہیں -میرے نزدیک گنجائش ہے -مثالیں بھی ہیں شعرا کے ہاں -باقی وہ جو تجویز کریں -


ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔

اب آپ نے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کر دیا -خوب -البتہ پہلے مصرع کی ترکیب رنگ و بو میں پہلا مذکّر ہے دوسرا مونث -اس ترکیب کو جمع کے طور پر برتیے تو مناسب ہے -اور دوسرے مصرع میں ابتدائی "کہ "بھرتی کا ہے -یوں ایک صورت ہے :

ہیں دلربا یہاں کلیوں کے رنگ و بو کتنے
چلے بھی
آؤ پکارے بہار کا عالم

"یہاں " کا یوں گرنا بھی گو مستحسن نہیں مگر چلتا ہے -

ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔

پہلا مصرع بے وزن ہو گیا -یوں کر کے دیکھیں :

ترے خیالوں سے خالی نہیں ہے دل کوئی پل
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا عالم


چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔

بقول اعجاز صاحب ٹھیک ہے -


نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔

یہ شعر دوبارہ کہیں - نہیں سمجھ آیا -
 
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔

مجھے تو "کسی کے رحم پہ "بھلا نہیں لگا -محاورہ اور روز مرّہ کے لحاظ سے "کسی کے رحم و کرم پہ ہونا" ہی ٹھیک ہے -"کسی کے رحم پہ" نہیں -اعجاز صاحب نے غالباً مثال دی تھی نئی مختصر بحر سے متعلق کہ سابقہ بحر سے اس بحر میں کیسے تبدیل کیا جائے -پہلے مصرع میں "بند" اضافی سا محسوس ہوا -ردیف کو بھی میری رائے ہے "موسم "کے بجائے "عالم "کر دیں کہ یہ کافی جامع لفظ ہے -یوں ایک شکل ہے :

قفس میں یوں ہے دلِ بیقرار کا عالم
امید ہے ،میں ہوں اور
انتظار کا عالم

"میں ہوں" کا یوں گرنا اعجاز صاحب کے نزدیک جائز نہیں -میرے نزدیک گنجائش ہے -مثالیں بھی ہیں شعرا کے ہاں -باقی وہ جو تجویز کریں -


ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔

اب آپ نے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کر دیا -خوب -البتہ پہلے مصرع کی ترکیب رنگ و بو میں پہلا مذکّر ہے دوسرا مونث -اس ترکیب کو جمع کے طور پر برتیے تو مناسب ہے -اور دوسرے مصرع میں ابتدائی "کہ "بھرتی کا ہے -یوں ایک صورت ہے :

ہیں دلربا یہاں کلیوں کے رنگ و بو کتنے
چلے بھی
آؤ پکارے بہار کا عالم

"یہاں " کا یوں گرنا بھی گو مستحسن نہیں مگر چلتا ہے -

ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔

پہلا مصرع بے وزن ہو گیا -یوں کر کے دیکھیں :

ترے خیالوں سے خالی نہیں ہے دل کوئی پل
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا عالم


چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔

بقول اعجاز صاحب ٹھیک ہے -


نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔

یہ شعر دوبارہ کہیں - نہیں سمجھ آیا -
شکریہ سر
 

الف عین

لائبریرین
'عالم' سے واقعی بہتر ہو گئی ہے غزل
میں اس کو اس طرح ترجیح دوں گا
قفس میں یوں ہے دلِ بیقرار کا عالم

اگلا شعر یاسر کی اصلاح کے بعد درست ہو گیا ہے

ترے خیالوں سے خالی نہیں ہے دل کوئی پل
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا عالم
شعر وزن میں ہونے کے باوجود دو لخت لگتا ہے
آخری شعر کے بارے میں بھی یاسر شاہ سے متفق ہوں
 
'عالم' سے واقعی بہتر ہو گئی ہے غزل
میں اس کو اس طرح ترجیح دوں گا
قفس میں یوں ہے دلِ بیقرار کا عالم

اگلا شعر یاسر کی اصلاح کے بعد درست ہو گیا ہے
شکریہ سر میں آپ کی اصلاح کے مطابق کوشش کرتا ہوں

ترے خیالوں سے خالی نہیں ہے دل کوئی پل
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا عالم
شعر وزن میں ہونے کے باوجود دو لخت لگتا ہے
آخری شعر کے بارے میں بھی یاسر شاہ سے متفق ہوں
 
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔

مجھے تو "کسی کے رحم پہ "بھلا نہیں لگا -محاورہ اور روز مرّہ کے لحاظ سے "کسی کے رحم و کرم پہ ہونا" ہی ٹھیک ہے -"کسی کے رحم پہ" نہیں -اعجاز صاحب نے غالباً مثال دی تھی نئی مختصر بحر سے متعلق کہ سابقہ بحر سے اس بحر میں کیسے تبدیل کیا جائے -پہلے مصرع میں "بند" اضافی سا محسوس ہوا -ردیف کو بھی میری رائے ہے "موسم "کے بجائے "عالم "کر دیں کہ یہ کافی جامع لفظ ہے -یوں ایک شکل ہے :

قفس میں یوں ہے دلِ بیقرار کا عالم
امید ہے ،میں ہوں اور
انتظار کا عالم

"میں ہوں" کا یوں گرنا اعجاز صاحب کے نزدیک جائز نہیں -میرے نزدیک گنجائش ہے -مثالیں بھی ہیں شعرا کے ہاں -باقی وہ جو تجویز کریں -


ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔

اب آپ نے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کر دیا -خوب -البتہ پہلے مصرع کی ترکیب رنگ و بو میں پہلا مذکّر ہے دوسرا مونث -اس ترکیب کو جمع کے طور پر برتیے تو مناسب ہے -اور دوسرے مصرع میں ابتدائی "کہ "بھرتی کا ہے -یوں ایک صورت ہے :

ہیں دلربا یہاں کلیوں کے رنگ و بو کتنے
چلے بھی
آؤ پکارے بہار کا عالم

"یہاں " کا یوں گرنا بھی گو مستحسن نہیں مگر چلتا ہے -

ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔

پہلا مصرع بے وزن ہو گیا -یوں کر کے دیکھیں :

ترے خیالوں سے خالی نہیں ہے دل کوئی پل
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا عالم


چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔

بقول اعجاز صاحب ٹھیک ہے -


نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔

یہ شعر دوبارہ کہیں - نہیں سمجھ آیا -
سر اس مصرعے کو یوں کر لیا جائے
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
اسی خلش سے ہے دوچار میرے پیار کا عالم
 
Top