مسٹر چپس کو ہمیشہ کے لیے گڈ بائے

زیک

مسافر
کیا اسی قسم کا بیانیہ فریق ثانی کا بہت سی مذہبی کتب کے بارے میں نہیں؟
جس طرح مُلّا پڑھے اور سمجھے بغیر ان پر اعتراض کرتا ہے اسی طرح مسٹر سمجھے بغیر دین پر اعتراض کرتا ہے۔ دونوں کو قریب لانے والا طبقہ ۔۔۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس نوک جھوک سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
آپ مذہبی کتب کو مذہبی علوم میں پڑھانا چاہتے ہیں یا ادب کی کلاس میں؟ میرے خیال میں مذہبی کتب کو ادب کے زمرے میں پڑھایا جا سکتا ہے لیکن پھر ان پر ادب کی حیثیت میں اعتراضات بھی ہوں گے۔ ان کا کیا ہو گا؟
 

زیک

مسافر
کیا اسی قسم کا بیانیہ فریق ثانی کا بہت سی مذہبی کتب کے بارے میں نہیں؟
جس طرح مُلّا پڑھے اور سمجھے بغیر ان پر اعتراض کرتا ہے اسی طرح مسٹر سمجھے بغیر دین پر اعتراض کرتا ہے۔ دونوں کو قریب لانے والا طبقہ ۔۔۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس نوک جھوک سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

اعتدال مرحوم تو عرصہ ہوا، اٹھ چکے اس دھرتی سے۔
آج کل اعتدال کی بات کرنے والا دونوں طرف سے مار کھاتا ہے۔

غلط کو غلط کہنے کی بجائے اعتدال کا نعرہ بلند کر کے چپ رہنا بھی ایک عجب معاملہ ہے۔

یہ انگریزی ادب کی کلاس کو اسلامیات بنایا ہی معتدل لوگوں نے ہے۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
آپ مذہبی کتب کو مذہبی علوم میں پڑھانا چاہتے ہیں یا ادب کی کلاس میں؟ میرے خیال میں مذہبی کتب کو ادب کے زمرے میں پڑھایا جا سکتا ہے لیکن پھر ان پر ادب کی حیثیت میں اعتراضات بھی ہوں گے۔ ان کا کیا ہو گا؟
اس لڑی میں جس تبدیلی کا ذکر ہے میں اس کے حق میں نہیں ممکن ہے کہ سیاسی شبدہ بازی ہو۔ ہر مضمون کے لیے علیحدہ معیاری سلیبس ہونا چاہیے اس میں دو رائے نہیں۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ انگریزی زبان کے مضمون میں انگریزی زبان سے متعلق ہی کتاب ہونی چاہیے۔ ہاں اس بات کا قائل ضرور ہوں کہ زبان سیکھنے کے لیے زبان والوں کے کلچر میں ڈھلنا ضروری نہیں، لیکن یہ علیحدہ بحث ہے۔

میرا مراسلہ عرفان بھائی کی زہر والی بات کے جواب میں تھا کہ اگر مذہبی طبقہ مغربی کتابوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو مغرب اور لبرلز میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو مذہبی کتابوں میں کیڑے نکالتا ہے۔ لہذا شدت دونوں طرف ہے اور میرے خیال میں بدنیتوں کو نکال کر بنیادی وجہ غلط فہمیاں ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
غلط کو غلط کہنے کی بجائے اعتدال کا نعرہ بلند کر لے چپ رہنا بھی ایک عجب معاملہ ہے۔

یہ انگریزی ادب کی کلاس کو اسلامیات بنیا ہی معتدل لوگوں نے ہے۔

انتہائی احترام سے آپ کا واسطہ شاید معتدل مزاج لوگوں سے نہیں پڑا۔ اعتدال کا مطلب ہرگز وہ نہیں جو آپ بیان فرما رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرا مراسلہ عرفان بھائی کی زہر والی بات کے جواب میں تھا کہ اگر مذہبی طبقہ مغربی کتابوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو مغرب اور لبرلز میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو مذہبی کتابوں میں کیڑے نکالتا ہے۔ لہذا شدت دونوں طرف ہے اور میرے خیال میں بدنیتوں کو نکال کر بنیادی وجہ غلط فہمیاں ہیں۔
مغربی لبرلز کے نزدیک مذہبی تعلیمات کی حیثیت ثانوی ہے۔ ان کی آئیڈیولوجی بلا تفریق انسانیت، مساوات اور برابری کے گرد گھومتی ہے۔ظاہر ہے یہاں مذہب سے ٹکراؤ تو پیدا ہوگا۔
حال ہی میں برمنگھم برطانیہ کے ایک پرائمری سکول میں ۶۰۰ مسلم طلبا کو والدین نے احتجاج گھر پر بٹھا دیا۔ کہ وہ سرکاری سکول میں دی جانی والی جنسی برابری کی تعلیم کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور اسے اپنے دین و مذہب سے متصادم تصور کرتے ہیں۔ مجبوراً مغربی لبرلز کو دیسی مذہبی طبقے کے آگے سر جھکانا پڑا
Parkfield School: Protests called off as LGBT lessons ended
 

زیک

مسافر
میرا مراسلہ عرفان بھائی کی زہر والی بات کے جواب میں تھا
اسی لڑی میں پوسٹ کئے مضامین اور مراسلے غور سے پڑھیں۔ واضح ہو جائے گا کہ اکثر انگریزی ادب کو پاکستانی اخلاقی اقدار کے خلاف میں نے یا عرفان نے کہا ہے یا “معتدل” پاکستانیوں نے
 

فلسفی

محفلین
اسی لڑی میں پوسٹ کئے مضامین اور مراسلے غور سے پڑھیں۔ واضح ہو جائے گا کہ اکثر انگریزی ادب کو پاکستانی اخلاقی اقدار کے خلاف میں نے یا عرفان نے کہا ہے یا “معتدل” پاکستانیوں نے
اختلاف رائے ہونا اعتدال سے ہٹنے کی نشانی ہے؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس لڑی میں جس تبدیلی کا ذکر ہے میں اس کے حق میں نہیں ممکن ہے کہ سیاسی شبدہ بازی ہو۔ ہر مضمون کے لیے علیحدہ معیاری سلیبس ہونا چاہیے اس میں دو رائے نہیں۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ انگریزی زبان کے مضمون میں انگریزی زبان سے متعلق ہی کتاب ہونی چاہیے۔ ہاں اس بات کا قائل ضرور ہوں کہ زبان سیکھنے کے لیے زبان والوں کے کلچر میں ڈھلنا ضروری نہیں، لیکن یہ علیحدہ بحث ہے۔

میرا مراسلہ عرفان بھائی کی زہر والی بات کے جواب میں تھا کہ اگر مذہبی طبقہ مغربی کتابوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو مغرب اور لبرلز میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو مذہبی کتابوں میں کیڑے نکالتا ہے۔ لہذا شدت دونوں طرف ہے اور میرے خیال میں بدنیتوں کو نکال کر بنیادی وجہ غلط فہمیاں ہیں۔
مسٹر چپس پڑھنے اور پڑھانے میں پاکستانی معاشرہ انگریز کلچر میں کیسے ڈھل سکتا ہے؟
 

فلسفی

محفلین
مسٹر چپس پڑھنے اور پڑھانے میں پاکستانی معاشرہ انگریز کلچر میں کیسے ڈھل سکتا ہے؟
آپ یہی الفاظ "مسٹر چپس" کے حوالے سے میرے مراسلے میں دکھا دیجیے۔

مسئلہ یہی ہے کہ ہم الفاظ کی وضاحت کہنے والے سے طلب کرنے کے بجائے اسی کو بتانے لگ جاتے ہیں کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ وہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر ممکن ہے بہت سے عوامل کی بنیاد پر سب کی رائے مختلف ہو۔ اسی لیے اس پر مزید بات نہیں کی۔
 

فلسفی

محفلین
آپ نے مکمل لڑی نہیں پڑھی
پڑھی ہے تو لیکن ممکن ہے جو آپ دیکھ پائے وہ مجھے نظر نہیں آیا۔ آپ کا تجربہ مجھ سے زیادہ ہے، لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر ابھی بھی اسی بات پر قائم ہوں کہ کہیں اختلاف رائے ہے اور کہیں غلط فہمیاں۔ غلط فہمیوں کا دور ہونا ضروری ہے۔ اختلاف رائے کوئی بُری بات نہیں بس، بات مخالفت کی حد تک نہیں جانی چاہیے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پڑھی ہے تو لیکن ممکن ہے جو آپ دیکھ پائے وہ مجھے نظر نہیں آیا۔ آپ کا تجربہ مجھ سے زیادہ ہے، لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر ابھی بھی اسی بات پر قائم ہوں کہ کہیں اختلاف رائے ہے اور کہیں غلط فہمیاں۔ غلط فہمیوں کا دور ہونا ضروری ہے۔ اختلاف رائے کوئی بُری بات نہیں بس، بات مخالفت کی حد تک نہیں جانی چاہیے۔
آپ بھی مجھے دکھا دیجئے کہ میں نے آپ کو یہ بتایا ہو کہ آپ نے یہ کہا ہے۔ میں نے ایک سوال کیا تھا وہ بھی اس لڑی کے موضوع کے تناظر میں۔ بات وہی ہے کہ جس کی رائے ہمیں پسند نہ آ رہی ہے ہم اس کی سادہ سی بات سے بھی کوئی مشکل سے معانی اخذ کر لیتے ہیں۔
بہرحال میں اس سوال کو یوں پوچھ لیتی ہوں۔ آپ نے کہا کہ زبان سیکھنے کے لیے زبان کے کلچر میں ڈھلنا ضروری نہیں۔ درست بات ہے لیکن کیوں کہ بات رسمی تعلیم کی ہو رہی ہے تو کیا کسی بھی لیول پر ہمارے نصاب میں انگریزی ادب کی کوئی ایسی مثال شامل ہے جس میں ان کے کلچر میں ڈھلنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہو؟ اگر ہاں تو میرا خیال ہے کہ اسے سامنے لانا چاہیے اور اگر نہیں تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس لڑی میں اس پہلو کو شامل نہ کریں؟

ضرورت اس بات کی ہے ہمیں بطور ایک اسلامی و مشرقی معاشرے کے اپنی بنیادوں کو اتنا بہتر کرنا چاہیے کہ چاہے دنیا بھر کے کلچر کی گہرائیوں میں اتر جائیں تو بھی کسی بگاڑ کا خطرہ نہ ہو۔
یہ کوئی حل و علاج نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایسے کمرے میں بند کر دیں جہاں اسے دنیا کے بارے میں کچھ علم نہ ہو اور پھر یہ بھی توقع کریں کہ ہم علم و عمل میں دوسروں سے آگے بھی نکل جائیں۔
 
Top