ام اویس

محفلین
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کے اخلاق کی درستگی اور اس کی اصلاح اور شخصیت کے نکھار کے لیے سخت نگرانی اور ذمہ داری کے فریضہ سے قطعا غافل نہ ہوں ۔
اگر ہم ان اسباب کی وجہ معلوم کرنا چاہیں جو بچے میں اخلاقی بے راہ روی اور کردار میں تنزل و سرکشی پیدا کر دیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اصل سبب والدین کا بچوں کی نگرانی میں غفلت برتنا اور ان کی رہنمائی سے دور رہنا اور اس میں کوتاہی برتنا ہے ۔
بچوں میں اخلاقی طور پر کمی اور کردار میں آزادی و بے راہ روی کی وجوہات کے پیچھے عموما والدین کی تربیت اور نگرانی میں کوتاہی ہے
جو والدین اپنے بچوں کے عقائد درست کرنے اور ان میں اچھے اعمال کرنے کا شوق پیدا نہ کریں بچپن سے ہی ان کی اسلامی بنیاد پختہ نہ کریں تو بڑے ہونے پر کبھی ان کو حق وباطل میں فرق کرنا نہیں سکھا سکتے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو برے ساتھیوں اور بدکردار دوستوں سے ملنے کی کھلی چُھٹی دے دے دیں کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ان سے ملیں ۔ نہ ان سے باز پرس کریں اور نہ کوئی نگرانی تو اس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ بچے ان کی صحبت سے متاثر ہوں گے اور ان کی کجی اور انحراف اور برے اخلاق بچوں میں بھی پیدا ہوں گے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو ایسے غیر اخلاقی کارٹون اور عشقیہ فلمویں دیکھنے کی اجازت دے دیں جو آوارگی و بے حیائی و آزادی کی طرف لے جاتی ہیں اور ان کا ذریعہ بنتی ہیں یا ماردھاڑ پر مشتمل ایسی فلمیں اور کارٹون جو جرم اور انحراف پر ابھارتے ہیں اور بچوں کو تو کیا بڑوں تک کو خراب کر دیتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے والدین چاہے محسوس کریں یا نہ کریں لیکن وہ اپنی اولاد کو ایک گہرے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں ۔ جو لازمی طور سے ان بچوں کو یقینی ہلاکت اور لازمی تباہی تک پہنچا دے گا
جو والدین اپنی اولاد کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر اور موبائل و لیپ ٹاپ پر بھڑکانے والے مناظر اور گندے ڈرامے اور بے ہودہ و عریاں اشتہارات دیکھیں تو بلا شبہ ایسی صورت میں بچے آوارگی اور بے حیائی میں نشو و نما پائیں گے اور آہستہ آہستہ آوارہ و آزاد بنیں گے اور مردانگی اور عظمت اور بہترین اسلامی آداب ان میں ختم ہوتے چلے جائیں گے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو فحش رسالوں کے خریدنے اور عشقیہ کہانیوں کے پڑھنے اور ننگی تصاویر کے جمع کرنے کی اجازت دے دیں تو لازمی طور سے اولاد بے حیائی اور گناہ کے راستے پر چلے گی اور گندی و آزاد زندگی اور فحش و ناجائز جنسی تعلقات کا سبق حاصل کرے گی
اس لیے بچوں کی زندگی کے ہر پہلو کو سنوارنے کے لیے ان کی ہر وقت نگرانی اور تربیت نہایت ضروری ہے ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب والدین خود ان چیزوں کو قابل نفرت اور برا سمجھیں اور ان سے دور رہیں ۔ لیکن اگر ماں باپ خود ایسی چیزوں کے رسیا ہیں اور ان چیزوں کو آزادی و ترقی خیال کرتے ہیں تو پھر بچوں کو کسی صورت ان خرابیوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔
ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اولاد کی اچھی اور اسلامی و اخلاقی خطوط پر تربیت ماں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے ۔ اور قیامت کے روز الله سبحانہ و تعالی کے ہاں اس کی جوابدہی ہو گی ۔ اپنے بچوں کے عقائد و اعمال اور ان کی عادت اسلامی سانچے میں ڈھالنے والے کامیاب اور سرخرو ہوں گے ۔ اور اولاد کی تربیت سے لاپرواہی کرنے والے ، اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کا شعور نہ دینے والے اور ان کو الله کی حرام اور حلال کردہ حدود سے آگاہی نہ دینے والے اس دن پشیمان ہوں گے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بچپن سے لے کر شعور کے پختہ ہونے تک بچوں کی ہمہ وقت نگرانی کی جائے ہر وقت ان کی اسلامی اور مضبوط اخلاقی بنیاد پر تربیت کی جائے اور اس کے لیے ان کے سامنے اپنے عمل و کردار کا اچھا نمونہ پیش کیا جائے ۔ کیونکہ بچے سب کچھ اپنے گھر کے ماحول اور والدین کے طور طریقے اور عادات سے سیکھتے ہیں ۔
ان کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر نظر رکھی جائے ۔ ان کے اعمال و عادات کی نگرانی کی جائے ۔ انہیں ٹیلی ویژن ، موبائل وغیرہ پر چھپ کر کوئی بھی چیز دیکھنے نہ دی جائے ۔ وہ جو بھی دیکھیں ماں باپ ان کے ساتھ بیٹھیں ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے بلکہ تعلیم ، صحت سیر وتفریح میں ان کی پسند کا خیال رکھا جائے اور ان کے ساتھ حاکمانہ سلوک کی بجائے محبت اور دوستی کا رویہ رکھا جائے ۔
کہاوت مشہور ہے
کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے
 

ام اویس

محفلین
یہ بات یاد رہے کہ اسلام ایک ایسی حقیقت اور ایسا قائدہ ہے جو تجزی اور جزر جزر ہونے کو قطعا قبول نہیں کرتا ۔ لہٰذا کسی بھی مرشد و عالم اور کسی بھی فرد کے لیے جسے لوگوں نے اپنا مقتدا اور راہبر بنایا ہو جائز نہیں کہ وہ اللّٰه کے کسی حکم کو چھپائے یا کسی امرِ منکر اور حرام کو ہوتے ہوئے دیکھے اور اس سے چشم پوشی کرے ۔
اس لیے کہ الله تبارک وتعالی کا صاف اور کھلا ہوا ارشاد ہے ۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ

اردو:

جو لوگ ہمارے حکموں کو اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں کسی غرض فاسد سے چھپاتے ہیں باوجودیہ کہ ہم نے ان کو لوگوں کے سمجھانے کے لئے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے ایسوں پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

الله تعالٰی نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ الله کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔
ایک حدیث کا مفہوم۔ ہے جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔

آج ۔۔۔۔!!!

سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ جو حضرات بچوں کی تعلیم و تربیت کے منصب پر فائز ہیں وہ اپنے طلبہ اور متعلقین کے سامنے اسلام کو بگاڑ کر اس کی الٹی تصویر پیش کرتے ہیں ۔
سوائے ان گنے چنے لوگوں کے جن کے حال پر الله تعالی رحم فرمائے اور ایسے لوگ بہت ہی کم پائے جاتے ہیں ۔
بعض استاتذہ و مرشد تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پوری توجہ نفس کی اصلاح اور اس کے تزکیہ پر ہی لگا دیتے ہیں ۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور حکام کو نصیحت و خیر خواہی اور ظلم و ظالموں کے مقابلہ کے فریضہ کو بالکل بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔
اور بعض وہ ہوتے ہیں جو سارا زور ان ظاہری چیزوں اور آداب پر خرچ کر دیتے ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے مثلا داڑھی رکھنا ، پردہ کرنا ، اسلامی لباس پہننا ، ٹوپی پہننا وغیرہ۔
اور روئے زمین پر الله کا حکم نافذ کرنے کے سلسلہ میں عملی قدم اٹھانے اور اس سلسلہ میں مل جل کر کام کرنے سے دور رہتے ہیں
اور بعض حضرات وہ ہوتے ہیں کہ جو علوم شرعیہ کی طرف اپنی تمام تر توجہ مبذول کردیتے ہیں اور دعوت و ارشاد اور تحریکِ جہاد کے پہلو سے توجہ ہٹا لیتے ہیں ۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی مدد کر رہے ہیں ۔
یہ تو اسلام کی تعلیمات کی ترویج کرنے والے اساتذہ کرام و رہنماؤں کا طریقہ ہے ۔۔۔۔
اور دنیا کی تعلیم دینے والے اپنے منصب سے اور زیادہ لاپرواہ اور بے خبر ہیں ۔۔۔ حالانکہ ان سے بھی الله کے حضور ان کے کیے اعمال کی پوچھ ہوگی ۔
اکثریت کو اپنے مرتبے اور مقام سے آگاہی نہیں ۔ نسلوں کی تربیت اور معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری ان ہی لوگوں پر ہے ۔
اور ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ۔۔۔ اور ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
زبان اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ یہ جسم کا وہ حصہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتا ہے ۔ انسان اسی کی وجہ سے عزت پاتا ہے اور اسی کی وجہ سے ذلت ورسوائی کا مستحق بھی ہو تا ہے۔
الله سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

أَلَمْ نَجْعَلْ لَہُ عَیْنَیْنِ ،وَلِسَانًا وَشَفَتَیْنِ

کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے ۔

البلد:۸تا۹

سب سے زیادہ غلطیاں انسان زبان سے کرتا ہے ۔
اسی لئے الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے زبان کی حفاظت کی خصوصی تاکید کی ہے

أ کثر خطایا ابن آدم فی لسانہا

صحیح الجامع الصغیر

اکثر خطائیں انسان کی زبان سے سرزدہوتی ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

احفظ لسانک

اپنی زبان کی حفاظت کرو۔

المعجم الکبیر:

حقیقت یہ ہے کہ زیادہ بولنا انسان کے دینی ودنیاوی نقصانات کا باعث بن جاتا ہے ۔اگر انسان منہ بند رکھنے کی کوشش کرے تو اس کے لئے زیادہ فائدہ ہے ۔اسی لئے خاموشی کو زیادہ بہتر کہا گیا ہے ۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے

مَنْ کانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیصْمُتْ،

جو الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔

صحیح مسلم:۔کتاب الایمان:

اور ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا :

مَنْ یَضْمَنْ لِی مَا بَیْنَ لحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَضْمَنْ لَہُ الجَنَّۃَ۔

جو دونوں جبڑوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی ضمانت لے لے میں اس کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں ۔

صحیح البخاری

انسان زبان سے بات کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر ایسی بات کہہ دیتا کہ اس کے انجام کی اسے پرواہ نہیں ہوتی اور وہ خیال نہیں رکھتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے

إِنَّ العَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَانِ الله ، لاَ یُلْقِی لَہَا بَالًا، یَرْفَعُہُ الله بِہَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالکَلِمَۃِ مِنْ سخطِ الله ، لاَ یُلْقِی لَہَا بَالًا، یَہْوِی بِہَا فِی جَہَنَّمَ۔

بندہ اللہ کو راضی کردینے والا کلمہ بولتا ہے اور اس کی وہ پرواہ نہیں کرتا ہے اس کی وجہ سے الله تعالی اس کے درجات بڑھا دیتا ہے۔اسی طرح بندہ الله تعالی کو ناراض کردینے والا کلمہ بولتا ہے لیکن وہ پرواہ نہیں کرتا ہے اس کی وجہ سے اس کو جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے۔

صحیح البخاری

بہترین زبان وہ ہے جو ہر وقت الله کے ذکر سے تر رہے ۔۔۔ اور اس سے جو بات نکلے وہ مخلوق کی بھلائی کے لیے ہو ۔۔۔ زبان سے نکلی ہر بات نیکی کی طرف رہنمائی کرے اور برائی سے روکنے کی ترغیب دے ۔ یعنی ہر وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں لگی رہے ۔ زبان سے ہمیشہ نرم بات کہنی چاہئے ایسی کوئی بات زبان سے ادا نہ کریں جس سے لوگوں کے اندر نفرت پیدا ہو یا دوری کا سبب بنے بلکہ انداز تکلم نرم لہجے میں ہواس کے اندر حلاوت اور لوگوں کو قریب کرنے کا مادّہ ہو ۔
الله تعالی نے قرآن کریم میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے انداز گفتگوکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِنَ الله لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ

یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لئے نرم مزاج واقع ہوئے اگر آپ تند مزاج اور سنگ دل ہوتے تو لوگ آپ سے دور ہو جاتے۔

اٰل عمران:۱۵۹

بولنے کے لیے آسان الفاظ استعمال کرنے چاہیے ۔ کسی کو نہ تو طعن کا نشانہ بنانا چاہیے نہ تلخی سے گفتگو کرنی چاہیے ۔ بلکہ ہر ایک سے نرمی اور تحمل کا معاملہ رکھنا چاہیے ۔ زبان سے ہمیشہ سچ بات کہنی چاہیے اور جھوٹ سے بچنا چاہیے ۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں صفتوں کو اس طرح بیان کیا ہے:

عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِی إِلَی الْجَنَّۃِ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللہِ صِدِّیقًا، وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ، فَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ یَہْدِی إِلَی النَّارِ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللہِ کَذَّابًا۔

سچائی کو لازم پکڑو اس لئے کہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جانے والی ہے اور آ دمی برابرسچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ الله کے پاس سچا لکھ دیا جاتا ہے ۔اور جھوٹ سے پرہیز کرو اس لئے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اوربرائی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کے تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ الله کے پاس جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔
صحیح مسلم:۔کتاب الایمان

اسی طرح زبان سے متعلق ایک عام خرابی غیبت کرنا ہے ۔ بہت سے لوگ اس کو معمولی سمجھتے ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کی غیبت کرتے رہتے ہیں حالانکہ غیبت کرنا ایک بھاری گناہ کا کام ہے کسی کی غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا ہے

الله جل جلالہ نے قرآن مجید فرمایا:

وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ

تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے۔

الحجرات:۱۲

ایک دوسرے کی برائی کرنا ، ایک دوسرے کے نام رکھنا ، دوسری برادری یا قبیلے کو کمتر کہنا ، رنگ و نسل کو حقیر سمجھنا زبان کی عام خرابیاں ہیں ۔ الله تعالی نے قرآن مجید میں ان سب باتوں سے منع فرمایا ہے ۔

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَی أَنْ یَکُونُوا خَیْرًا مِنْہُمْ وَلَا نِسَاء ٌ مِنْ نِسَاء ٍ عَسَی أَنْ یَکُنَّ خَیْرًا مِنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِیمَانِ وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ

اے ایمان والو!(تمہارا)کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں ۔ نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی نہ کرو ۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے برے نام رکھو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنابہت بری بات ہے اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔

الحجرات:۱۱

کچھ لوگوں کی زبان کا یہ عالم ہے کہ لعن وطعن ان کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے وہ جب بھی گفتگو کریں گے جب بھی منہ کھولنے کا موقع ملے گا زبان سے لعنت ملامت کریں گے ۔ عام لوگوں کے علاوہ اچھے بھلے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس کو برائی نہیں سمجھتے ۔ اور ہنسی مذاق میں لعنت بھیجنا اپنی عادت بنا لیتے ہیں

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :

وَإِنَّہُ مَنْ لَعَنَ شَیْئًا لَیْسَ لَہُ بِأَہْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَۃُ عَلَیْہِ۔

جو کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے اور وہ اس کا مستحق نہیں ہوتا ہے تو وہ لعنت اس کی طرف لوٹ کر چلی آتی ہے۔

سنن ابی داؤد:۔کتاب الادب:

اس لیے ہمیں چاہیے کہ زبان سے اچھی بات کہیں یا پھر خاموش رہیں ۔ دوسرے مسلمانوں کے عیب بیان کرنے اور ان پر لعن طعن کرنے سے اپنی زبان کو روک کر رکھیں ۔ آپس میں محبت ، رواداری اور برداشت کو فروغ دیں ۔
 

ام اویس

محفلین
چاند رات کے ساتھ ہی دنیا بھر میں عید کی تیاریاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں ۔ گھروں ، گلی محلوں اور بازاروں میں ہر طرف ایک ہنگامہ ، جشن ، میوزک اور گانوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں ۔ چھوٹے بڑے شہروں کے بازاروں میں خواتین ، لڑکیاں ، لڑکے اور بچے نکل پڑتے ہیں ۔ مرد و عورت کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ۔ آپس میں مصافحہ ، مبارکبادیوں کے میسجز شروع ہوجاتے ہیں ۔ نامحرم مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنائی جاتی ہیں ۔۔۔ مہندی لگوائی جاتی ہے ۔ اسی طرح عید کی خوشی میں ناچ گانا وغیرہ کرنا ۔۔ یہ سب دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ واقعی نئے مہینے کا چاند نکلتے ہی شیطان آزاد ہو جاتا ہے ۔ اور لوگوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنی آزادی کا جشن مناتا ہے ۔
حالانکہ رمضان کی آخری رات مہینہ بھر کی محنت کا صلہ پانے کی رات ہے ۔ الله کی رحمت اور بخشش وصول کرنے کی رات ہے ۔
یہ تو ایسا ہی ہے کہ ایک مزدور دن رات محنت کرتا رہے ۔ اور جب مزدوری لینے کا وقت ہو تو میلہ دیکھنے چلا جائے ۔
سوچیے ۔۔۔۔!!!
مہینہ بھر کی گئی ٹریننگ اور تربیت کو ایک چاند رات میں کون بدنصیب ضائع کرتا ہے ۔۔۔؟؟؟
کون بدنصیب ہے جو اپنے ہاتھوں سے باغ کی دیکھ بھال کرے اسے پھل دار بنائے ۔۔ پھر بغیر اس سے فائدہ اٹھائے اور اس کے پھل کو کھائے اسے اپنے ہاتھ سے خود جلا کر راکھ کر دے ۔۔۔؟؟؟
رمضان المبارک میں اعمال کے قبول ہونے کی ایک نشانی اور پہچان یہ بھی ہے کہ بندے کو الله سبحانہ و تعالی کی طرف سے رمضان کے بعد بھی نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق رہتی ہے ۔
کیا آپ بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جن کے ایمان کو چاند رات جیسی ایک تو کیا کئی راتیں بھی برباد نہیں کر سکتیں ۔۔۔؟؟؟
 

ام اویس

محفلین
بے شک عورت گھر کی بنیاد ہے ۔ اور مضبوط بنیاد پر عمدہ گھر تعمیر ہوتے ہیں ۔ اس لیے اپنے گھروں کی بنیادیں پختہ ، مضبوط اور بہترین رکھنی چاہیں ۔ اور یہ مرد کے اختیار میں ہے کہ وہ نکاح کرتے وقت اپنے گھر کی بنیاد کا تصور ذہن میں رکھے ۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے

" تنكح المرأة لأربع:

لمالها ، ولحسبها ، ولجمالها ، ولدينها ، فاظفر بذات الدين تربت يداک
متفق عليه

آدمی چار وجوھات سے کسی عورت سے نکاح کرتا ہے ۔ اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب نسب یعنی خاندان کی وجہ سے اور اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے ۔ پس تم دین کی وجہ کو اختیار کرو ۔ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔
(مفہوم)

اسی لیے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی شریعت نے نکاح کا حکم دیا ، اس پر ابھارا اس کی ترغیب دی تو اسمیں ذرا بھی تعجب نہیں ہوتا اور واقعی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بالکل سچ اور درست فرمایا ارشاد فرماتے ہیں ؛

"ما استفاد المؤمن بعد تقوٰى اللّٰه عزّ وجل خيرا له زوجة صالحة إن أمرها إليها سرّته وان أقسم عليها أبرّته وان غاب عنها نصحته فى نفسها وماله

ابن ماجه

مؤمن نے اللّٰه کے خوف ڈر اور تقوی کے بعد کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھایا جو اس کے لیے زیادہ بہتر ہو اس نیک بیوی سے زیادہ جو اس کے حکم کی ایسی پابند ہو کہ وہ حکم دے تو اس کی فرمانبرداری کرے اور وہ اگر اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے اور اگر وہ اس کے سلسلہ میں کسی بات پر قسم کھا لے تو وہ اس کے مطابق کام کر کے اس کی قسم کو سچا کر دے ، اور اگر وہ اس کے پاس موجود نہ ہو تو وہ عورت اپنی نفس اور اس کے مال کے بارے میں اس مرد کی خیر خواہی کرے ۔

نیز ارشاد فرمایا ؛

" الدنيا متاع وخير متاعها المرأة الصالحه "

صحیح مسلم

دنیا سب کی سب (عیش و عشرت کا ) سامان ہے ۔ اور اس کے سازو سامان میں سے بہترین سامان نیک اور پارسا عورت ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
نکاح ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے میاں بیوی خاندان کی تعمیر اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے کام کو مکمل کرتا ہے ۔ بیوی وہ ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے جو اس سے متعلق ہیں اور اس کی طبیعت و مزاج اور جنس سے مطابقت رکھتی ہیں ۔
مثلا گھر کا نظم و نسق سنبھالنا ، کام کاج کرنا ، بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کرنا ۔
کسی نے بالکل درست کہا ہے ؛

*والام مدرسة إذاأعدتها*
*أعددت شعبا طيب الأعراق*

ماں ایک ایسا مدرسہ ہے کہ اگر تم نے اسے تیار کرلیا
تو ایسی جماعت کو تیار کرلیا جو بہترین جڑوں اور بنیاد والی ہے ۔

اسی طرح مرد اپنے دائرہ کار میں ان کاموں کو سنبھال لیتا ہے جو اس کے مزاج اور جنس سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ بیوی بچوں کے لیے محنت مشقت کرتا ہے کماتا ہے اور اپنے خاندان کو زمانے کے مصائب اور ایام کے ابتلاء سے بچاتا ہے ۔ اس طرح میاں بیوی میں امدادِ باہمی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور تعاون کی روح کمال کو پہنچتی ہے ۔ جس کا نتیجہ انتہائی خوش کن نکلتا ہے ۔ ایک ایسی اولاد وجود میں آتی ہے جو مہذب اور نیک ہوتی ہے اور ایک ایسا مؤمن معاشرہ وجود میں آتا ہے جو دلوں میں ایمان کی قوت و عزیمیت اور اپنے نفس میں اسلام کی روح کا حامل ہوتا ہے ۔ ہر گھر خوش و خرم زندگی گزارتا ہے ۔ الفت و محبت ، سکون و اطمینان سے دنیا کی گاڑی چلتی رہتی ہے ۔ شادی کے ذریعہ ماں باپ میں محبت کے جذبات ابھرتے ہیں اور ان کے دلوں میں سے اچھے احساسات اور خیالات کے چشمے بہتے ہیں ان جذبات و احساسات کے خوش کن اور مفید اثرات رونما ہوتے ہیں ۔
شوہر جب کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے گھر لوٹتا ہے اور بیوی بچوں سے مل بیٹھتا ہے تو وہ ان تمام فکروں اور پریشانیوں کو بھول جاتا ہے جو دن بھر اس کو پیش آتی ہیں ۔ اور دن بھر کی مشقت سے جو تھکان اور بیزاری اس پر سوار تھی وہ کافور ہوجاتی ہے ۔
بالکل یہی حالت عورت کی بھی ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے شوہر سے ملاقات کرتی ہے اور شام کو اپنے رفیقِ حیات کا استقبال کرتی ہے تو دن بھر کی محنت اور کام کاج کی ہر تکلیف بھول جاتی ہے ۔ اس طرح میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے زیرِ سایہ نفسیاتی سکون اور باہمی الفت و تعلق محسوس کرتے ہیں ۔
الله تعالی نے نہایت ہی بلیغ اور عمدہ انداز میں قرآن مجید میں اس کا ذکر کیا ہے ۔
ارشاد ہے ۔۔۔

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

( الروم ۲۱)

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ بنائے تمہارے واسطے تمہاری قسم سے جوڑے کہ ان کے پاس چین ہے اور تمہارے درمیان میں پیار اور مہربانی پیدا کی بیشک اس میں بہت پتہ کی باتیں ہیں ان کے لیے جو دھیان کرتے ہیں

بچوں کی دیکھ بھال کے سلسلہ میں بھی شاندار نتائج نکلتے ہیں ۔ بچوں کی ضروریات و حاجات کے لئے تگ و دو شروع ہوجاتی ہے ۔ان کے لیے پرسکون اور پرکیف زندگی کی تلاش اور روشن مستقبل کی جد وجہد وغیرہ ہوتی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ماں باپ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے کتنی محنت اور مشقت کرتے ہیں یہ وہ اہم معاشرتی فائدے ہیں جو شادی کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں ۔ ان تمام چیزوں کا بچوں کی تربیت ، خاندان کی اصلاح ، معاشرے کے بنانے میں بڑا قریبی تعلق اور رابطہ ہے ۔
 
جی بالکل نیت اور عمل سوچ سے مطلب دور حاضر کی بے جا خوبصورت باتیں
جیسے آپ کو انگریزی لازمی سیکھنا ہے آپ نے بہترین یونیورسٹی بہترین کیریئر کا انتخاب کرنا ہے آپ نے ایک مولوی بن کر نہیں جینا ہے نہ آپ نے یہ بہتر جاننا ہے عمل اور نیت سے جو شعار اور شعور آپکی زندگی بہتر بنا دے یہ سوچ نہیں رکهنا آپکو دینی علوم کی رغبت ہو بس دوڑنا
 

یاسر شاہ

محفلین
بہن جی السلام علیکم !
آپ کے لکھے میں تاثیر ہے -یہاں ایک صاحب ہیں بالکل بے فیض- قرآن پر بہت کچھ لکھتے ہیں مگر ان کی شروع کی تحاریر پڑھ کر، ان کو پڑھنے کا دل ہی نہیں چاہتا -بڑے بڑوں کا نام لے کر اپنا چورن بیچتے ہیں-

آپ کی ایک مختصر تحریر قرآن سے دوستی سے میں بہت متاثر ہوا -اس وقت مصروف تھا تبصرہ نہ کر پایا -اب نہ جانے کدھر ہے ؟بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے لکھے کو ایک لڑی میں مقیّد نہ کریں -مختلف عنوانات کے تحت الگ الگ لڑیوں میں مضامین اور اختصاریے لکھیں -میں ان شاء اللہ اپنی بساط کے مطابق ،سیکھنے کی خاطر ،تبصرے کرونگا -

جزاک اللہ
 

ام اویس

محفلین
بہن جی السلام علیکم !
آپ کے لکھے میں تاثیر ہے -یہاں ایک صاحب ہیں بالکل بے فیض- قرآن پر بہت کچھ لکھتے ہیں مگر ان کی شروع کی تحاریر پڑھ کر، ان کو پڑھنے کا دل ہی نہیں چاہتا -بڑے بڑوں کا نام لے کر اپنا چورن بیچتے ہیں-

آپ کی ایک مختصر تحریر قرآن سے دوستی سے میں بہت متاثر ہوا -اس وقت مصروف تھا تبصرہ نہ کر پایا -اب نہ جانے کدھر ہے ؟بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے لکھے کو ایک لڑی میں مقیّد نہ کریں -مختلف عنوانات کے تحت الگ الگ لڑیوں میں مضامین اور اختصاریے لکھیں -میں ان شاء اللہ اپنی بساط کے مطابق ،سیکھنے کی خاطر ،تبصرے کرونگا -

جزاک اللہ
بھائی جی وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ !
قرآن مجید کے متعلق بڑے بڑے جو لکھ گئے یہ اسی کا فیض ہے ورنہ میں کہاں اور میرے قلم کی تاثیر کیا

دراصل جب ہم کچھ پڑھتے ہیں تو لکھنے والے کے نام کی ایک تصویر سی ہمارے ذہن میں بن جاتی ہے شاید کسی وقت ان صاحب نے کوئی ایسی بات لکھی ہو جو آپ کو پسند نہ آئی ہو اس لیے اب جب کبھی آپ کی نظر سے ان کی تحریر گزرتی ہو گی تو آپ کا ذہن اس سے متاثر نہ ہوتا ہو گا ۔
ورنہ بات کلام مجید کی ہو اور بڑے لوگوں کی بھی ہو تو چُورن کی کیا مجال کہ نہ بکے ۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہی چھوٹی الجھنوں کے جواب میں لکھی تھیں اب ایک جگہ اکٹھا کر رہی ہوں اور آپ لوگوں کے تبصرے کی امید رکھتی ہوں تاکہ اگر کہیں کوئی غلطی ہو تو اصلاح ہوسکے
 

یاسر شاہ

محفلین
دراصل جب ہم کچھ پڑھتے ہیں تو لکھنے والے کے نام کی ایک تصویر سی ہمارے ذہن میں بن جاتی ہے شاید کسی وقت ان صاحب نے کوئی ایسی بات لکھی ہو جو آپ کو پسند نہ آئی ہو اس لیے اب جب کبھی آپ کی نظر سے ان کی تحریر گزرتی ہو گی تو آپ کا ذہن اس سے متاثر نہ ہوتا ہو گا ۔
ورنہ بات کلام مجید کی ہو اور بڑے لوگوں کی بھی ہو تو چُورن کی کیا مجال کہ نہ بکے ۔

بہن جی ! اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر ایسا لگتا نہیں ہے -بڑوں سے بات منسوب کرنے کا بھی قرینہ ہونا چاہیے -میری مراد اس قبیل کی لڑیاں ہیں -

سوال و جواب

آپ کا کیا خیال ہے؟ یہاں فتاویٰ ٹھیک طور سے پیش ہو رہے ہیں -احتیاط تو یہ ہے کہ فتویٰ کا عکس پیش ہوتا یا ربط (لنک )پیش ہوتا کیونکہ فتاویٰ عموماً متعلقہ مدرسے کی ویب سائٹ پر موجود ہوتے ہیں ،یا کم از کم حوالہ نمبر دے دیا جاتا جو ہر فتویٰ کے اوپر درج ہوتا ہے -اس لڑی میں تو بعض جوابات کے آخر میں یہ تک نہیں لکھا کہ جواب کس کا ہے اور کہیں کہیں عالم کا نام بھی مبہم لکھا ہے کہ اگر آپ تحقیق کر کے معلوم کربھی لیں کہ یہ فتویٰ مفتی رفیع عثمانی صاحب کا نہیں ،تو جواب ملے کہ صاحب میں نے کب کہا کہ ہے ،میں نے تو رفیع مفتی لکھا ہے یہ تو میرے بھتیجے کا نام ہے - جیسا کہ ایک صاحب نے یہیں محفل پہ ایک نظم پوسٹ کی اور آخر میں لکھ دیا "بقلم خود" -میں نے تحقیق کی تو پتا چلا وہ کسی اور شاعر کی ہے -ان کے سامنے اصل نظم بمع ربط پیش کی تو لگے فرمانے میں نے کب کہا میری ہے ،"بقلم خود" کا مطلب لکھی میں نے ہے ،ہو کسی کی، بلا سے -

اب بالائی ربط کی لڑی کا نمبر ١٧ مراسلہ دیکھیں- مجھے نہیں لگتا یہ مفتی رفیع عثمانی صاحب کا ہے لیکن تاثر یہ مل رہا ہے انھیں کا ہے -موصوف نے کارنامہ یہ کیا ہے کہ بہت ساری اچھی اور سچی باتوں کے درمیان گڑبڑ گھسیڑی ہے - اور یہ گڑ بڑ ہر کند ذہن نہیں پکڑ سکتا بلکہ قبول کر بیٹھتا ہے -

آپ سے اس لئے اختصار سے اس کا ذکر کیا تھا کہ اہل علم کو چاہئے صحیح بات پیش کریں اور غلط بات پہ تنقید کریں - اگر وہ یہ کام نہیں کریں گے تو کوئی نا اہل کرے گا جس سے اور گڑ بڑ کا امکان ہے -بہر حال یہ جو کچھ لکھا ہے بادل نخواستہ لکھا ہے -مجھے گلہ کچھ علماء سے یہ ہے کہ یا تو واقعی بھولے بادشاہ ہیں یا جان کر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں -
 

ام اویس

محفلین
یاسر شاہ
بھائی بہتر یہ ہے کہ آپ ان کی اس لڑی میں یہ سوال پوچھیں ۔ اور ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ آپ کو اطمینان بخش جواب دیں ۔ آپ کو جن علماء سے کچھ گلہ ہے ان ہی سے بات کریں ہوسکتا ہے ان کے پاس اس کا مدلل جواب ہو ۔
ہمارا عمومی رویہ بن چکا ہے کہ جس سے شکایت ہو اس سے بات نہیں کرتے اور دوسرے لوگوں سے اس کی شکایت کرتے ہیں اس بے چارے کو علم بھی نہیں ہوتا کہ مجھ سے غلطی کیا ہوئی ہے ۔ یہ مناسب طریقہ نہیں
انسان خطا کا پتلا ہے اور علماء کرام بھی انسان ہی ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں
 

حماد فرخ

محفلین
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
جی آپی آپ نے ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا ہے میں نے شروع کے دو تین ہی پڑھے اور مجھے وہ جان دار لگے ہیں
اللہ آپ کے قلم میں برکت اور تاثیر پیدا فرمائے آمین
 

ام اویس

محفلین
اسلام ہی وہ دین برحق ہے جس میں صلہ رحمی کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ بہن بھائی ایک دوسرے کا احساس کرتے ہیں ۔ اگر کسی کا گزران تنگی میں ہو تو اس کی مدد کر دیتے ہیں ۔ ماں باپ اپنی اولاد کا خیال رکھتے ہیں یہانتک کہ وہ شادی شدہ اور بال بچوں والی بھی ہوجائے تو جو بچہ تنگی میں ہو اس کی مدد کر دیتے ہیں ۔ ایک بھائی کم کماتا ہو اور اس کے بچے زیادہ ہوں اور دوسرا بھائی اگر اچھی کمائی کرتا ہو تو اپنے بھائی کی ضرور کسی نہ کسی طریقے سے مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر تایا یا چچا ، خالہ ، ماموں وغیرہ کی اولاد یعنی کزن اگر معاشی لحاظ سے کمزور ہوں تو خوشی غمی میں ان کا خیال کرتے رہنا ایک مسلمان کی خصوصیت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اس خصوصیت کی حفاظت کریں ۔ اپنے رشتے داروں کے حالات سے باخبر رہیں اور تنگی ترشی میں ان کی مدد کرتے رہیں ۔ اسی کو صلہ رحمی کہتے ہیں اور اس کا بہت زیادہ اجر ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
سوشل میڈیا کی دنیا بھی کمال کی دنیا ہے ۔ حقیقی دنیا میں جب انسان مصائب سے گھبرا جاتا ہے اور اسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے تو اس رنگا رنگ مصنوعی دنیا کا سہارا اسے ہر غم سے نکال باہر کرتا ہے ۔

وقتی طور پر ہی سہی لیکن سب دکھ درد ہوا ہوجاتے ہیں ۔ گویا یہ بھی ایک نشہ ہی ہوا جو دنیا و مافیھا سے بے خبر کردیتا ہے ۔

جیسے نشے کی بے شمار اقسام ہیں اسی طرح یہاں بھی بھانت بھانت کے ذائقے ہیں ۔ اب یہ انسان کی پسند یا نیچر ہے کہ وہ کس قسم سے استفادہ کرتا ہے اور کس ذائقے سے مزہ لیتا ہے ۔

جس طرح اصلی نشہ جسم ، ذہن ، گھر اور معاشرے کو برباد کر دیتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہونے والے بھی اگر خود پر سے کنٹرول کھو دیں اور الله کی قائم کردہ حدود کو نظر انداز کر دیں منہ اٹھا کر جدھر مرضی نکل جائیں تو ہلاکت ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔

بندے کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے خود کو کس کی غلامی میں دے رکھا ہے اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے اس کا مالک ناراض ہو ۔

آخر شیطان کے پیروکار بھی تو دن رات اپنے مالک کی خوشنودی میں جتے رہتے ہیں ۔ ان سے ہی سبق لےلینا چاہیے ۔
 

ام اویس

محفلین
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
میں الله کی پناہ میں آتی ہوں شیطان مردود سے ۔
شیطان کی رسائی انسان کے خیالات تک ہے بلکہ ایک جگہ تو کہا گیا کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کا کام صرف ذہن میں ایک خیال ڈالنا ہے پھر انسانی سوچ خود ہی اس خیال کو پختہ کرتی رہتی ہے اور عمل بد کی طرف چل پڑتی ہے ۔ شیطان کسی کو برائی پر مجبور نہیں کر سکتا نہ ہی زبردستی اسے گناہ کے راستے پر ڈال سکتا ہے البتہ اس کا کام وسوسہ ڈالنا ہے وسوسہ کہتے ہی اسے ہیں بار بار ڈالنا ، لوٹ لوٹ کر اور واپس پھر پھر کر ڈالنا ، شیطان اپنے اس کام میں بڑی مستقل مزاجی اور دل جمعی سے لگا رہتا ہے ۔ ہر بار خیال پر ایک نیا ، خوبصورت اور رنگین لبادا پہنا دیتا ہے اسے دلکش ، خوبصورت اور نافع بنا کر پیش کرتا ہے
انسان کا خالق و مالک انسان کی خوبیوں اور خامیوں سے خوب آگاہ ہے وہ جانتا ہے کہ انسان کو بھٹکانے کے لیے ایک خیال ہی کافی ہے اس لیے اس نے اپنے بندوں سے کہہ دیا تم شیطان سے بچ نہیں سکتے لیکن اگر میری پناہ میں آجاؤ گے تو میں تمہیں اس کے شر سے محفوظ کر دوں گا ۔ اسی لیے مسلمان کو تعلیم دی تعوذ پڑھ کر الله کی پناہ میں آجاؤ وہ تمہاری شیطان مردو سے حفاظت کرے گا ۔

اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
 

ام اویس

محفلین
ہم جسے پسند کرتے ہیں اسے اپنے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر وہ ہمارے ساتھ ہو تو کبھی کبھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری پسندیدگی اور محبت سے آگاہ ہے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ ہے لیکن ۔۔۔ درحقیقت ایسا نہیں ہوتا

اسے بتانا پڑتا ہے کہ کہ ہم اسے پسند کرتے ہیں ، اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہونے کو محسوس کر کے شکر گزار ہوتے ہیں ۔

ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ تم جس سے الله کی رضا کے لیے محبت کرتے ہو اسے آگاہ کردو ۔
۔۔۔۔۔۔۔
وقت اور حالات ایک جیسے نہیں رہتے ۔ لیکن زندگی میں جو کام شروع کیا جائے اور بغیر کسی دنیاوی فائدے کے خالص الله کی رضا کے لیے شروع کیا جائے اس سے جُڑے رہنا بہت بڑی بات ہے ۔
کچھ لوگ زندگی کی مصروفیات اور مشکلات میں الجھ کر اپنے اس کام کا مقصد بھول جاتے ہیں یا لوگوں کی تنقید اور بے جا مداخلت سے گھبرا جاتے ہیں اور اس سے تنگ پڑ کر اسے چھوڑ ہی جاتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اس کام میں طبیعت اور مزاج کا دخل بڑھ جاتا ہے اور تعریف اور صلے کی خواہش ہونے لگتی ہے ۔
حالانکہ جب نیت اور مقصد الله کی رضا ہو تو نہ تو اس میں لوگوں کے کسی بھی قسم کے رویے کی پرواہ ہونی چاہیے نہ کسی بھی قسم کے صلہ و ستائش کی خواہش ہونی چاہیے ۔ مقصد کی کامیابی وناکامی بھی الله پر چھوڑ دینی چاہیے ۔
اے ہمارے الله جی ! جو کام ہم نے خالص نیت کے ساتھ تیری رضا کے لیے شروع کیا اس کو اپنے لیے ہی خالص رکھنا ۔ ہمارے دلوں میں لوگوں کی تنقید اور رویوں سے تنگی پیدا نہ کرنا ۔ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھنا منتشر نہ کردینا ۔
 

ام اویس

محفلین
زندگی کی گہما گہما میں ہم اس چیز کو بھولتے جا رہے ہیں کہ ایک دن یک لخت ہماری حیات کا اختتام ہوجائے گا سب کچھ یہیں کا یہیں دھرا رہ جائے گا ۔مال واولاد اور دنیا کا سب سامان ساتھ چھوڑ جائے گا
ہم زمانے کی دوڑ میں اسقدر آگے نکل گئے ہیں کہ اچھے اور برے کی تمیز بھول گئے ہیں ۔ ہمیں نہ تو اپنی حدود کا اندازہ رہا ہے نہ ہی صحیح اور غلط کا ۔ جو صحیح ہے اسے ہم غلط سمجھتے ہیں اور جو غلط ہے اسے اپنی سہولت کے مطابق صحیح بنا لیتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ تقویٰ کیا ہے اور اس کا حصول ہمارے لیئے کتنا ضروری ہے ۔ تقویٰ الله تعالیٰ پر کامل یقین کا نام ہے ۔ دنیا کی غلاظتوں سے اپنے دامن کو بچا کر زندگی بسر کرنا ، صحیح اور غلط کو نہ صرف سمجھنا بلکہ اس پر عمل کرنا ۔ اپنی زندگیوں کو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق گزارنا ۔ اپنے دل میں الله سبحانہ وتعالی کی ناراضگی کا ڈر محسوس کرنا ۔
اگر دل میں الله کا ڈر ہو گا تو ہم خود بخود غلط کاموں سے اجتناب کریں گے ۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں الله سبحانہ وتعالی نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے ؟
کیا اسلیئے کہ ہم دنیاوی معمولات کے مطابق زندگی گزارتے رہیں اور پھر ایک دن یہاں سے خالی ہاتھ واپس چلے جائیں ۔
یا اس لیے کہ ہم اپنی زندگی کو الله کے نازل کردہ احکام و اصول کے مطابق گزاریں
انسان کو دنیا میں بے مقصد نہیں بھیجا گیا اسے بھیجنے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے جسے سمجھنا اور پورا کرنا ہمارا فرض ہے ۔ اپنا فرض ادا کرنے میں مزید کوتاہی نہ کریں کیا پتا کب زندگی تمام ہو جائے ۔
جئیں تو ایسے کہ

جان دے دی اسی کو اسی کی ہی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ہی ادا نہ ہوا
 
Top