بھارتی فضائیہ کی ایل او سی کی خلاف ورزی، پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی پر بھارتی طیارے بھاگ نکلے

جاسم محمد

محفلین
پاک فضائیہ کا جے ایف 17 تھنڈر طیارے سے میزائل کا کامیاب تجربہ
ویب ڈیسک منگل 12 مارچ 2019
1587972-jf-1552397031-824-640x480.jpg

جے ایف 17 تھنڈر طیارے کو جدید میزائل سے لیس کر دیا گیا ہے، ترجمان پاک فضائیہ۔ :فوٹو:فائل

کراچی: پاک فضائیہ نے دن اور رات میں ہدف کو نشانہ بنانے والے ملکی ساختہ میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے

ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق پاکستان نے جے ایف 17 تھنڈر طیارے سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ملکی ساختہ میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے، میزائل دن اور رات میں اہداف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ترجمان کے مطابق ملکی سطح پر تیار کردہ اس جدید میزائل کے کامیاب تجربے سے جے ایف-17 تھنڈر کو دن اور رات میں طویل فاصلے کے اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل ہو گئی ہے، اور اس جدید میزائل سے سے جے ایف 17 تھنڈر طیارے کو لیس کر دیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق کامیاب تجربہ پر ایئرچیف مارشل مجاہد انور خان نے سائنسدانوں اور انجینئرز کی کاوشوں کو سراہا اور اس عظیم کامیابی پر پاک فضائیہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملکی دفاع میں ایک عظیم سنگِ میل کی حیثیت کاحامل یہ تجربہ قابلِ فخر پاکستانی سائنسدانوں اور انجیئنیرز کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ایئرچیف مارشل کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے لیکن اگر دشمن نے ہم پر جارحیت مسلط کی تو اس کا بھر پور جواب دیں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ن لیگ سے سخت نظریاتی اختلاف ہے لیکن سیکورٹی معاملات میں لیگیوں کا موقف بالکل درست ہے۔
یہ مسلم لیگ نون کے اندر محض ایک دھڑے کا بیانیہ ہے اور اس بیانیے کو سپورٹ کرنے والوں کی تعداد پارٹی میں کافی کم ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آئی ایس آئی نے اپنے کالے کرتوت عوام سے چھپانے کیلئے ویب سائٹ بلاک کروائی ہوئی ہے۔ مضمون کا لب لباب یہ رہا:

The March 5 arrests of Masood Azhar's son and brother and the banning of a whole clutch of jihadi tanzeems are merely cosmetic workarounds to nominally meet requirements of the Financial Action Task Force (FATF). The high degree of connectivity and interdependence between the JeM and the deep state would suggest that it is foolish to even expect any substantive and meaningful action. Simply put, Pakistan cannot realistically afford to alienate an armed and well-trained Punjab-based group​
 

جاسم محمد

محفلین
آزمائش گزر گئی یا شروع ہوئی؟
13/03/2019 سلیم صافی

انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہو، ممبئی کی دہشت گردی ہو یا پھر پٹھان کوٹ واقعہ۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ اُن سب واقعات سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں لیکن ان واقعات کی نوعیت ایسی تھی کہ انہیں گھما پھرا کر، بھارت کسی نہ کسی طرح پاکستان سے جوڑ سکتا تھا، تاہم پلوامہ کے واقعے کی نوعیت یکسر مختلف تھی۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا کہ جب ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی کشمیر کی سرزمین سے مداخلت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اندھے بھی دیکھ رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر تحریک آزادی مقبول ترین اور خالص داخلی عوامی تحریک بن چکی ہے۔

یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ فدائی حملہ کرنے والا پہلے دن سے معلوم تھا۔ جو مقبوضہ کشمیر کا رہنے والا ہے اور خود اس کے والد میڈیا پر آکر بتا چکے کہ ان کے بیٹے کیوں اور کس طرح اس راستے پر گامزن ہوئے۔ یوں جب بھارتی حکومت نے راتوں رات پاکستان پر الزام لگایا تو دنیا کا اجتماعی ضمیر اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا اور گواہی دے رہا تھا کہ نریندرمودی کی حکومت سیاسی مقاصد کے لئے ہٹ دھرمی سے کام لے رہی ہے۔ اس لئے نسبتاً پاکستان برتر اخلاقی پوزیشن میں رہا۔

اب کی بار پاکستان نے ماضی کے مقابلے میں روایتی موقف سے ہٹ کر بھارت کی طرف دست تعاون دراز کیا۔ ماضی میں پاکستان بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے بعد بھی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کرتا رہا لیکن اپنی شرائط کے ساتھ۔ تاہم اب کی بار پاکستان نے بغیر کسی شرط کے پلوامہ واقعہ کی تحقیقات کے لئے غیر مشروط طور پر ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کی جس سے بھارت نے ابتدا میں کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔

اسی طرح پاکستان نے مذاکرات کے حوالے سے بھی اپنے روایتی موقف سے پسپائی اختیار کی۔ ماضی میں پاکستان کشمیر پر بات چیت کا مطالبہ کرتا اور ہندوستان صرف دہشت گردی پرگفتگو پر اصرار کرتا رہا۔ پھر جامع مذاکرات کی صورت میں دونوں نے یہ لچک پیدا کر دی کہ پاکستان دہشت گردی پر جبکہ انڈیا کشمیر پر بات کرنے پر رضا مند ہوا۔

اب کی بار وزیراعظم عمران خان نے پیشکش کی کہ آپ دہشت گردی پر بات کرنا چاہتے ہیں تو چلو پہلے اس پر بات کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کے روایتی موقف سے انحراف تھا اور اگر یہ لچک میاں نواز شریف یا آصف علی زرداری دکھاتے تو شاید ان پر غداری کے الزامات تک لگ جاتے۔ تاہم اب کی بار بھارت نے اس پیشکش کا بھی مثبت جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستان برتر اخلاقی پوزیشن میں رہا۔

پاکستان پر تو مداخلت کا الزام تھا جس کا بھارت کوئی ثبوت دنیا کے سامنے نہ رکھ سکا لیکن اس نے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت سے کام لیا۔ اب کی بار کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ خیبر پختونخوا میں واقع بالاکوٹ پر حملہ کیا جو بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی تھی اور اسے اعلان جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس کے جواب میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں کارروائی کی۔ یوں پاکستان برتر اخلاقی پوزیشن میں رہا لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ بھارت مسلسل جھوٹا اور پاکستان سچا ثابت ہوتا رہا۔

بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے فضائی حملے میں تین سو سے زائد دہشت گرد مارے لیکن تین کا بھی ثبوت نہ دے سکا۔ وہ دعویٰ کرتا رہا کہ پاکستان نے اس کا کوئی جہاز نہیں گرایا لیکن جب پائلٹ پاکستانی سرزمین سے برآمد ہوا تو اس کا جھوٹ، جھوٹ اور پاکستان کا سچ، سچ ثابت ہو گیا۔

اس نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے بھی پاکستانی جہاز گرایا ہے لیکن کوئی ثبوت سامنے نہ لا سکا اور اس کا یہ جھوٹ بھی واضح ہو گیا۔ اس حوالے سے بھی پاکستان برتر پوزیشن میں رہا کہ پہل بھارت نے کی تھی اور مسلسل مار اُسی کو پڑی۔

پاکستان پر اللہ کا کرم تھا کہ بھارت میں انتخابات سر پر تھے جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ نریندر مودی نے ساری مہم جوئی چونکہ انتخابات کے تناظر میں کی تھی اس لئے اپوزیشن کے رہنما زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکے اور داخلی محاذ پر بھی ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان میں اگرچہ سیاسی پولرائزیشن عروج پر تھی اور شاید اسے دیکھ کر نریندر مودی کو مہم جوئی کا شوق ہوا تھا لیکن چونکہ پاکستان میں انتخابی ماحول نہیں تھا اس لئے خلاف توقع پاکستان کے تمام سیاسی عناصر اپنی افواج اور اسی وجہ سے حکومت کے ساتھ یک آواز ہو گئے۔

اسی طرح پاکستانی میڈیا پلوامہ سے قبل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا لیکن جب مودی صاحب نے جنگ کا طبل بجا دیا تو پاکستانی میڈیا اپنی افواج کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ تاہم انڈین میڈیا کی طرح بیہودہ طریقے سے نہیں بلکہ امن کا داعی بن کر پاکستانی بیانیے کا دفاع کرنے لگا۔ اس حوالے سے بھی اللہ نے پاکستان کو اخلاقی برتری دلوا دی۔

بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف نے ایک طرف امریکہ کو پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں کی اجازت دی اور دوسری طرف حکومت پاکستان یہ جھوٹا تاثر دیتی رہی کہ یہ پاکستان کی مرضی کے بغیر ہو رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ کئی سال تک جاری رہا۔ اس منافقانہ پالیسی کی وجہ سے بھارت جیسی قوتوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھنے لگی کہ پاکستان تو اپنی سرزمین پر باہر کی کارروائیوں کو برداشت کر لیتا ہے۔

ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے لئے امریکہ کی کارروائی ،اور اس حوالے سے پاکستان کے اس موقف کہ یہ کارروائی بھی پاکستان کی اجازت کے بغیر ہوئی، سے اس ذہنیت کو مزید تقویت ملی اور بھارت کے اندر سے اس طرح کی آوازیں اٹھنے لگیں کہ اس کی افواج کو بھی امریکہ کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کے اندر کارروائی کرنا چاہئے۔

یوں پاکستانی افواج کے لئے یہ ایک چیلنج تھا کہ وہ بھارت کو یہ روایت قائم کرنے نہ دے۔ پاکستانی افواج نے جس طرح بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور جس طرح اس کے مقابلے میں اپنی پیشہ ورانہ برتری ثابت کردی اسے دیکھ کر یہ واضح ہو گیا بھارت امریکہ ہے اور نہ پاکستان کبھی اس کو وہ رعایت دے گا جو امریکہ کو دیتا رہا۔ یوں پاکستان اس چیلنج سے نمٹنے میں سردست سرخرو ہو گیا۔

مذکورہ سب کامیابیاں اپنی جگہ لیکن کیا آزمائش ختم ہوگئی؟۔ نہیں ہر گز نہیں ۔ بلکہ شاید اصل آزمائش اب شروع ہوئی ہے۔ پلوامہ واقعے اور اس کے بعد کے واقعات سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان اور بھارت جیسی دو ایٹمی طاقتوں کے تعلقات کا ریموٹ عملاً چند نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھ میں ہے اور وہ کسی بھی وقت ایک آدھ حرکت سے دونوں ممالک کو راتوں رات جنگ پر مجبور کر سکتے ہیں۔

شکر ہے پلوامہ کے واقعہ میں تو پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن پاکستان کو اب ایسے بہت سارے اقدامات کرنا ہیں کہ جن سے دنیا کو بھی یقین ہو جائے کہ اس کی سرزمین کسی بھی صورت بھارت یا کسی اور پڑوسی کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔

یقینا ًیہ پاکستانی سلامتی کے ذمہ داران کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے۔ یہ آزمائش یوں اور گھمبیر ہو گئی ہے کہ بھارت سے اپنی حالیہ سبکی کسی صورت ہضم نہیں ہو سکتی تھی لیکن امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک نے بھارت کو مزید جارحیت سے باز رکھ کر پاکستان سے یہ یقین دہانی لی ہے کہ جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کیا جائے گا۔

اب جو لوگ ان تنظیموں اور موجودہ حکومت کی استعداد سے واقف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور دوست ممالک کی توقعات کے مطابق یہ مسئلہ حل کرنا کتنا مشکل کام ہے اور ان سے نمٹتے وقت اگر معمولی سی بھی غلطی ہو گئی تو اُس کے کس قدر بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔

تبھی تو جاننے والے جانتے ہیں کہ آزمائش ختم نہیں ہوئی بلکہ اصل آزمائش تو اب شروع ہوئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ناقابلِ اشاعت کالم: نئے پاکستان میں کن فیکون کا معجزہ
12/03/2019 خورشید ندیم


ایک مختلف منظر میرے سامنے تھا۔ ایک لمحے کو تومیں ٹھٹھک کے رہ گیا۔
”کیا یہ وہی مسجد ہے؟ “ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ کوئی پوسٹر نہ کوئی بینر۔ کہیں جہاد میں شرکت کی ترغیب نہ چندے کی اپیل۔ وہ خاردار تاریں بھی کہیں نہیں تھی جنہوں نے مسجد کو ایک قلعے کی شناخت دے رکھی تھی۔ کوئی مسلح محافظ نہ مخصوص حلیے کے نوجوان۔ اور ہاں یہاں تو ایک کتابوں کی دکان بھی تھی، مسجد کے بڑے دروازے کی بائیں سمت۔ آج تو وہ بھی نہیں تھی۔ کل جب میں یہاں سے گزرا توسب کچھ وہی تھا جو برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ محض ایک دن میں اتنی بڑی تبدیلی؟

مسجد میں داخل ہو اتو ایک اور درِ حیرت کھل گیا۔ دروازے کے ساتھ ایک اشتہارآویزاں تھا۔ اس پر ایک صاحب کا نام لکھا تھا جن کا تعلق محکمہ اوقاف سے بتایا گیا تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ آئندہ وہ یہاں نماز جمعہ کی امامت کریں گے اور وہی خطبہ جمعہ بھی دیں گے۔ جمعہ کی نماز پڑھی تو وہ بھی ایک مختلف ماحول میں۔ نہ جذبات کی وہ گرمی کہ محاذِ جنگ کارخ کرنے کو جی چاہے اور نہ وہ ولولہ انگیز خطاب جو صورِ اسرافیل کی طرح زمین ہلا دے۔ پرسکون لہجے میں خطبہ اور قرات۔ حیرت سے سوچتا رہا:جو تبدیلی مجھ جیسے مہمان کا ذہن قبول نہیں کررہا، وہ یہاں کے مستقل مکینوں نے کیسے قبول کر لی جو اب کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے؟

یہ سوال بے وجہ نہیں تھا۔ میری یاداشت سے نواز شریف دور کے وہ دن محو نہیں ہوئے جب اِن کالعدم تنظیموں پر اسی طرح پابندی لگی تھی۔ پابندی کے بعد، میں نے اسی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ خطیب کا غیظ و غضب مجھے آج تک نہیں بھولا۔ لاؤڈسپیکر اُن کی بلند آہنگی کے سامنے اعترافِ عجز کررہاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں وہ لوگ حکمران ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق ہے نہ ملکی مفاد سے۔ سادہ لفظوں میں مودی کا یار ملک کا وزیراعظم ہے۔ دلیل یہ ہے کہ آج ان تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی جنہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے علمِ جہاد بلند کیا۔

اُن دنوں ایک ’دفاعِ پاکستان کونسل‘ بھی ہوا کر تی تھی۔ کونسل کی قیادت حکومت کے اس خلافِ دین و ملت اقدام پربرہم تھی۔ ایک شمشیر ِ بے نیام جو دین کے دشمنوں کے سر پر تنی رہتی تھی۔ کونسل کا خیال تھا کہ امتِ مسلمہ کے مسائل کا حل جہاد بمعنی قتال ہی ہے۔ عزت مآب شیخ رشید بھی اس کے سٹیج کی زینت بنتے اور بتاتے کہ جہاد ہی سے مسئلہ کشمیر حل کیا جا سکتا ہے۔

اس بار لیکن سب توپیں خاموش ہیں۔ جن پر پابندی لگی وہ بھی اور جو ان کے ہم نوا تھے وہ بھی۔ یہی نہیں، وہ اب ہمیں بتا رہے ہیں کہ عمران خان اگر ’کشمیریوں کے قاتل‘ مودی کو پیغامِ محبت بھیج رہے ہیں تو انہوں نے یہ ریاست مدینہ ہی سے اخذ کیا ہے۔ اور یہ بھی کہ بھارت کے ساتھ مسائل کا حل جہاد نہیں، امن ہے جس کے لیے حکومت پُرجوش ہے۔ یہ سب دین کی تعلیمات کے عین مطابق ہے اور ریاست مدینہ سے ماخوذ ہے۔ کوئی تفصیلی دلائل جاننا چاہے تو برادرِ محترم امیر حمزہ کا کالم پڑھ لے جو 8 مارچ کو ”دنیا“ میں شائع ہوا۔

برادرم نے لکھا: ”میرے وزیراعظم نے ابھینندن کو عزت افزائی کے ساتھ واپس بھیجا ہے تو مدینے کی ریاست سے اخذ کرکے ایک جنگی باب نمایاں کیا ہے جو جنگ کے دوران نمودار ہوا ہے۔ “ آپ نے مزید لکھا ہے : ”ہندوستان میں پاکستان سے بڑھ کر تعداد میں مسلمان ہیں۔ امن پسند ہندو بڑی تعداد میں ہیں۔ تین کروڑ مسیحی ہیں۔ سکھ اور دیگر موجود ہیں۔ لہذا ہماری پہلی اور آخری چوائس امن ہے، سلامتی ہے اور صرف امن ہے۔ پُرامن برصغیر زندہ باد“۔ جناب امیر حمزہ نے بتایا ہے کہ ہم امن کے لیے پابرکاب ہیں مگر جارحیت پرشہادت کی موت کے لیے تیار۔ ”

تو کیا خیالات، طرزِ عمل یوں پلک جھپکنے میں بدل سکتے ہیں؟ کیا ایک ہی فعل کی دو تاویلات ہو سکتی ہیں؟ کیاہم کسی انسان کے دل کا حال جان سکتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ یک ہی سمت میں اٹھا ہوا ایک قدم محمود ہو اور دوسرا مذموم؟ کیا اس دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے جو یوں لمحہ بھر میں سب کچھ بدل دینے کی طاقت رکھتا ہو؟ جو ایک ساعت میں قلبِ ماہیت کر دے؟

سوالات نے یلغار کی تو خیال آیا کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا۔ ایک خادم حسین رضوی بھی تھے۔ وہ قومی افق پر نمودار ہوئے تو ایک بھونچال آگیا۔ فضا مذہبی نغمات سے معمور ہو گئی۔ دین سے محبت کا ساگر بہنے لگا۔ ایک دن وہ دارالخلافہ کے صدردروازے پے قابض ہوگئے۔ پھرمظاہرین اس شان سے رخصت ہوئے کہ فتح کا پھریرا ان کے ہاتھ میں تھا جو 2018 ء کے انتخابات پر بھی سایہ فگن رہا۔ ماشا اللہ بائیس لاکھ ووٹ لیے اور اپنا مشن مکمل کیا۔ ختم ِنبوت میں نقب لگانے والوں کو ان کے گھر کیا، جیل پہنچا دیا۔

اسی نعرے اور جذبے کے ساتھ، وہ ایک بار پھر نکلے۔ انہیں یاد نہیں رہا کہ اب ’نیا پاکستان‘ وجود میں آ چکا ہے۔ اس بار کہیں استقبال نہیں ہوا۔ اگر استقبال کیا تو پولیس نے۔ آج وہ جہاں بھی ہیں، آرام سے ہیں اور ملک بھی آرام سے ہے۔ حکومت کے جوابی اقدام سے دین کو کوئی نقصان پہنچا نہ ملت کو۔ حکمران دین دشمن قرار پائے نہ یہ مذہبی ہیرو۔ یہ واقعات ذہن میں تازہ ہوئے تو ایک نئے سوال میں ڈھل گئے :اگر پہلے یہ قلبِ مائیت ہو سکتی ہے تو اب کیوں نہیں؟

قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت بتائی ہے کہ وہ جب کسی بات کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسباب کا محتاج نہیں ہو تا۔ وہ کہتا ہے ’ہو جا‘ اور ہو جا تا ہے۔ کن، فیکون۔ کائنات کی وسعتیں اس کے سامنے سمٹ جاتی ہیں کہ وہی تو اس کائنات کا خالق ہے۔ اسی کے اشارے سے ہوائیں چلتی اور ٹھہرتی ہیں۔ موسم آتے اور موسم جاتے ہیں۔ وہ سورج کو حکم دیتا ہے تو زمین پر دھوپ کی چادر تن جاتی ہے۔ وہ فیصلہ کرتا ہے تو آسمان سے آبشاریں رواں ہو جاتی ہیں۔ اس کے ارادے اور نفاذ میں کوئی قوت حائل نہیں ہوتی۔ کن، فیکون۔

کیا انسانی معاشروں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا یہاں بھی کسی قوت کے پاس یہ اختیار ہے کہ جب چاہے انسانوں کے خیالات بدل جائیں؟ وہ چاہے تو طبلِ جنگ بجاتے ہاتھ، اچانک بربط کی تاروں پر امن کا نغمہ چھیڑ دیں؟ وہ چاہیں تو زبانیں شعلے اگلنے لگیں اور وہ چاہے تو انہی زبانوں سے پھول جھڑنے لگیں؟ گویا کن فیکون کا علامتی اظہار بن جائیں؟

اہلِ تصوف کہتے ہیں کہ ایسے لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں وہ ’رجال الغیب‘ کہتے ہیں۔ وہ مامور ہیں کہ جب چاہیں، زلزلہ برپا کر دیں۔ کسی جہاز کو حادثے سے دوچار کر دیں۔ پلک جھپکنے میں سب کچھ بدل ڈالیں۔ آج نئے پاکستان میں ہم اپنی آنکھوں سے دنیا کو بدلتا دیکھ رہے ہیں۔ جو ناخوب تھا، بتدریج نہیں، یک دم خوب میں بدل رہا ہے۔ دل بدل رہے ہیں۔ خیالات بدل رہے ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں۔

تو کیا نئے پاکستان میں زمام ِکاررجال الغیب کے ہاتھ میں ہے؟ عمران خان روحانیت کے بہت قائل ہیں۔ کیا یہ اسی کی جلوہ آرائی ہے کہ دل پھر رہے ہیں اور پرانے لوگ نئی شخصیات میں ڈھل رہے ہیں؟ ہم عقل کے غلاموں کے پاس اِن سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ ہم یہ گواہی ضرور دے سکتے ہیں کہ ہم نے دن رات میں لوگ اور نظریات بدلتے دیکھے ہیں۔ اب کوئی صاحبِ نظر ہی یہ معمہ سلجھا سکتا ہے۔ عقل مندوں کے بارے میں اقبال بھی کہہ گئے ہیں :ترا علاج نظر کے سواکچھ اور نہیں۔
 
آئی ایس آئی نے اپنے کالے کرتوت عوام سے چھپانے کیلئے ویب سائٹ بلاک کروائی ہوئی ہے۔ مضمون کا لب لباب یہ رہا:

The March 5 arrests of Masood Azhar's son and brother and the banning of a whole clutch of jihadi tanzeems are merely cosmetic workarounds to nominally meet requirements of the Financial Action Task Force (FATF). The high degree of connectivity and interdependence between the JeM and the deep state would suggest that it is foolish to even expect any substantive and meaningful action. Simply put, Pakistan cannot realistically afford to alienate an armed and well-trained Punjab-based group​

یہ گروپ ، ملٹری کے ہی ادارے ہیں۔
 
ہندوستان، در حقیقت ایسے مطالبات کر کے پاکستان پر اپنی مرضی ٹھونکنا اور تھوپنا چاہتا ہے۔ یہ بالک ایسا ہی ہے جیسے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف یا یو این او میں یکطرفہ مطالبہ کرے کہ مودی کو ای دہشت گرد قرار دیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہندوستان، در حقیقت ایسے مطالبات کر کے پاکستان پر اپنی مرضی ٹھونکنا اور تھوپنا چاہتا ہے۔ یہ بالک ایسا ہی ہے جیسے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف یا یو این او میں یکطرفہ مطالبہ کرے کہ مودی کو ای دہشت گرد قرار دیا جائے۔
عالمی برادری کی ایک منافق سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کشمیر میں سیکورٹی فورسز پر حملہ ہو تو پاکستان ذمہ دار، پابندیاں، شور شرابہ۔ بھارتی فورسز اس سے زیادہ نہتے کشمیری قتل کر دیں تو مکمل خاموشی۔ سیکورٹی کونسل میں پتا بھی نہیں ہلتا۔ مضحکہ خیز صورت حال ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارتی حملے سے پاکستان نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟

پاکستان کی سول حکومت اور عسکری منصوبہ سازوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی سے چند نہایت اہم نتائج اخذ کئے ہیں جو ملکی سلامتی کے حوالے سے چند نئے سنگین خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں، جنہیں جوہری قوت کے استعمال کے تناظر میں نظرانداز کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

کشیدگی اتنی تیزی سے آخری حدوں تک کیسے پہنچی
جوہری قوت رکھنے والوں ہمسایوں میں حالیہ جنگی ماحول میں پاکستان نے پہلا اور اہم ترین سبق اس حقیقت کی صورت میں سیکھا ہے کہ دونوں ممالک کی عسکری قوت کا ٹکراؤ بحران کے شروع ہوتے ہی آخری حدوں تک پہنچ گیا، جسے ایک خطرناک رجحان اور علامت تصور کیا جا رہا ہے۔

اس خطرناک کیفیت کو پاکستان کے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے بیان کے مطابق 27 فروری کی رات بھارت کا میزائل سے حملہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی اس انتہا کو نچلے درجے پر لانا ہوگا تاکہ خطرناک نتائج کا امکان کم کیا جا سکے۔‘

حالیہ جنگی ماحول ماضی کی نسبت بہت مختلف ثابت ہوا ہے۔ 2002 میں جب دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئیں تو بھارت کو اپنی فوج کو حرکت میں لانے میں کم ازکم 27دن لگے تھے۔ اس دوران وہ جنگی کارروائی کرنے والے اپنے دستے پاکستانی سرحد پر لایا تھا۔ دوسری جانب پاکستان کو اپنی فوج کی نقل وحرکت میں اس سے بھی زائد وقت لگا تھا۔

پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ26 فروری کی رات بھارتی فضائیہ کے 14 لڑاکا طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور کرکے ان علاقوں میں 'پے لوڈ' پھینکا جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں۔

بھارتی حملہ آور لڑاکا طیاوں میں مگ 21 اور روسی ساختہ کے ایس یو30 جنگی جہاز شامل تھے۔ پاکستانی فضائیہ نے جوابی کارروائی میں ایل او سی پر چند ہی گھنٹوں میں بھارتی طیارہ مار گرایا۔ اگرچہ پاکستانی فضائیہ نے اس بارے میں الگ سے تو کوئی وضاحت نہیں کی البتہ پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس فضائی معرکے میں پاکستان کے مقامی ساختہ جے ایف 17تھنڈر لڑاکا طیارے استعمال ہوئے۔

خطرناک اور اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے زیراستعمال ایس یو 30 اور پاکستان فضائی کے جے ایف 17تھنڈر دونوں طیارے ہی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دونوں ممالک کی فضائیہ میں سے کسی ایک کے لیے بھی فوری طورپر یہ پتہ چلانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں کہ حملہ آور طیارے جوہری مواد سے لیس ہیں یا نہیں؟ جب راڈار آنے والے طیارے کا سراغ پائے گا تو یہی تصور کیا جائے گا کہ آنے والا جہاز جوہری ہتھیار بھی اپنے ہمراہ لا رہا ہے اور دونوں ممالک کی فضائیہ حملہ آور طیارے کے بارے میں یہی شک کریں گی۔

بالکل اسی طرح پاکستانی فوج کے لیے بھی یہ جان لینا ممکن نہیں کہ ان کے خلاف داغا جانے والا میزائل روایتی بارود لے کر آرہا ہے یا پھر اس کے ساتھ جوہری تباہی کا سامان بھی منسلک ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ ان کے پاس انٹیلی جنس رپورٹ تھی کہ بین الاقوامی سرحد پر بہاولپور سیکٹر میں جیش محمد پر ضرب لگانے کے لیے میزائل سے حملہ ہونا تھا۔ اسی نوعیت کی اطلاعات بعض دیگر افراد کے ذریعے بھی سامنے آئی تھیں۔

پاکستان اور بھارت کی افواج کسی داغے جانے والے میزائل کا پتہ صرف اس وقت ہی لگاسکتی ہیں جب یہ ان کی سرحد کے اندر داخل ہو جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے مقابلے اورمیزائل کے خاتمے کے لیے اس ملک کے پاس صرف چار منٹ کا وقت میسر ہوتا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق ماضی میں جب بھی فوجی کشیدگی یا جنگی کیفیت پیدا ہوئی تو اس کی شدت یک دم آخری حدوں تک نہیں پہنچی تھی بلکہ اس میں درجہ بہ درجہ شدت آتی تھی۔ اس مرتبہ یکسر مختلف صورتحال کا سامنا ہوا جس میں دونوں فوجیں ابتدا میں ہی انتہائی اقدام کی حد تک پہنچ گئیں۔

دنیا بھارت کے بیانیہ پر یقین کرتی ہے
پاکستان نے اپنے لیے دوسرا سبق اس صورتحال سے یہ اخذ کیا ہے کہ بحران میں 'دنیا بھارت کے اس اصرار میں شریک نظرآئی کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا ڈھانچہ ختم کرے'۔

بھارت کالعدم تنظیموں کی فہرست میں موجود جیش محمد اور جماعت الدعوۃ کے خلاف پاکستانی حکومت کی جانب سے کئے گئے حالیہ اقدامات کو محض بین الاقوامی دباؤ کا نتیجہ تصور کرتا ہے۔

ایک اعلیٰ فوجی افسر کے مطابق ’پاکستانی فیصلہ سازوں کو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کے ڈھانچے سے باہر کام کرنے والی تنظیمیں (نان سٹیٹ ایکٹرز) کی وجہ سے پاکستان کی کاوشوں کا وہ ثمر بھی ضائع ہوسکتا ہے جو اس نے بڑی محنت سے دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد میں حاصل کیا ہے۔

بھارتی طیاروں کے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر پاکستان کے قریب ترین اتحادی بھی اس مرتبہ کھل کر سامنے نہیں آئے۔ اس صورتحال نے پاکستانی حکومت اور فوج کو تیزی سے کارروائی پر آمادہ کیا کہ ’ایسے عناصر ان کی اس محنت پر بھی پانی پھیر رہے ہیں جو ہماری سکیورٹی فورسز نے پاکستان کے مخصوص آؤٹ فٹس کے خلاف کی تھی۔‘
انڈین حملے سے پاکستان نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟
 
Top