بھارتی فضائیہ کی ایل او سی کی خلاف ورزی، پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی پر بھارتی طیارے بھاگ نکلے

سید عاطف علی

لائبریرین
کافی کمرشل سیٹلائٹ ہیں جو مختلف ریزولوشن پر تصاویر لیتے ہیں۔ یہ کوئی بھی خرید سکتا ہے۔
آرڈر پر بھی لیتے ہیں کیا ؟ :)
جیو سنکرونس یا جیو سٹیشنری سیٹلائٹس کی کوریج اور زمان و مکان کی تطبیق کا امکان کیا ہوتا ہوگا ؟ :)
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت غلط فہمی میں نہ رہے، ہم آخری دم تک لڑیں گے، وزیراعظم
ویب ڈیسک جمعہ۔ء 8 مارچ 2019

1582927-imrankhanchachro-1552068307-309-640x480.jpg

آصف زرداری نے اپنے بیٹے کو بھی پھنسادیا، عمران خان، فوٹو: آئی این پی

تھرپارکر: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کوئی سپر پاور یا بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیں غلام بنا لیں گے، یہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں ہم آخری دم تک لڑیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے تھر پارکر سندھ کے علاقے چھاچھرو کے عوام میں صحت کارڈز تقسیم کیے۔ اس موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نریندر مودی کی سیاست انسانوں کو تقسیم کرنا اور نفرتیں پھیلانا ہے اس لیے پلوامہ کے بعد کشمیریوں کے ساتھ ظلم کیا اور مشتعل ہجوم نے مسلمانوں پر تشدد کیا، الیکشن میں کامیابی کے لیے نریندر مودی نے پاکستان کیخلاف جنگ کا ماحول بنایا، ہم نے بار بار واضح کیا کہ جنگ نہیں چاہتے ہم امن چاہتے ہیں اس لیے بھارتی پائلٹ کو رہا کیا، کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اب چاہے بھارت ہو یا کوئی سپر پاور، میں اور قوم آخری گیند تک اپنی آزادی کےلیے لڑیں گے، فوج اور عوام دونوں تیار ہیں، بھارت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ کچھ کیا تو جوابی کارروائی نہیں ہوگی۔

مسلح تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے

وزیراعظم نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کسی مسلح گروہ یا کالعدم تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جب سے ہماری حکومت آئی تو ہم نے اس پر معاملے پر کام کیا، اس کا صرف مقصد پاکستان کی بہتری ہے، پاکستان کی زمین کو کسی قسم کی دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اقلیتوں کو پورے حقوق دیے جائیں گے

عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے پورے حقوق دیے جائیں گے، اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے برابر کے شہری ہیں ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی یا ظلم نہیں ہونے دیں گے، نفرتوں اور تقسیم کرنے کی سیاست کو ختم کریں گے،اب وہ دور نہیں رہا کہ لوگوں کو تقسیم کرکے ووٹ حاصل کیے جائیں،ایک آدمی نے اقتدار کے لیے لوگوں میں نفرتیں پھیلائیں جس سے کراچی کی تباہی ہوئی اور سرمایہ کار ملک چھوڑ کر چلے گئےاگر ایسی سیاست نہ ہوتی تو کراچی دبئی کا مقابلہ کررہا ہوتا۔

زرداری نے اپنے بیٹے کو بھی پھنسادیا ہے

وزیراعظم نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک لیڈراپنا نام زرداری سےتبدیل کرکے بھٹو بن گیا، بلاول اور ان کے والد یوٹرن کا مطلب سمجھتے تو مشکل وقت سے نہ گزرتے اورآصف زرداری کرپشن سے یوٹرن لے لیتے تو عدالتوں کے چکر اور نیب مقدمات نہ بھگت رہے ہوتے، آصف زرداری نے اپنے بیٹے کو بھی پھنسادیا ہے، بلاول بھٹو نے انگریزی میں جو تقریر کی وہ شاید ایوان میں بیٹھے بہت سے لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آئی ہوگی جب کہ ن لیگ اور جے یو آئی (ف) کے ارکان قومی اسمبلی بلاول کی انگریزی میں تقریر سن کر گھبراگئے اور غلط سمت منہ کرکے نماز پڑھ لی۔

غربت ختم کرنا سب سے بڑا مقصد

وزیراعظم نے کہا کہ تھرپارکر پاکستان کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے جو سب سے پیچھے رہ گیا ہے،75 فیصد تھرپاکرکے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، 3 سے چار سال میں15سو بچے خوراک اور غذائی قلت سے انتقال کرچکے ہیں، میرا اقتدار میں آنے کا سب سے بڑا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنے کی کوشش کرنا ہے کیونکہ تھرپارکر میں سب سے زیادہ غربت ہے اس لیے سب سے پہلے یہاں آیا ہوں۔

تھرپارکر کیلیے اعلانات

وزیراعظم نے 2موبائل اسپتال اور 4 ایمبولینس دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ موبائل اسپتال میں علاج کے ساتھ آپریشن سمیت دیگر سہولیات مہیا ہوں گے جب کہ 1لاکھ 12 ہزار گھرانوں کو ہیلتھ کارڈ دیا جائے گا، جس میں وہ7 لاکھ 20 ہزار روپےمیں ہر قسم کی بیماری کا علاج کسی بھی اسپتال سےکراسکیں گے، وزیراعظم نے صاف پینے کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر 100 آر او پلانٹ بنانے کا اعلان بھی کیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اونٹ سوئی کے ناکے سے گذر سکتا ہے
08/03/2019 وسعت اللہ خان

چھ اکتوبر دو ہزار سولہ کو موقر پاکستانی انگریزی اخبار ڈان میں سرل المیڈا کی سٹوری شائع ہوئی۔ جس میں دو اکتوبر کے اس اعلیٰ سطحی اجلاس کی روداد بیان کی گئی تھی جس کی صدارت وزیرِ اعظم نواز شریف نے کی تھی۔ اجلاس میں چند وفاقی وزیر و مشیر، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری، پنجاب کے وزیرِ اعلی شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے شرکت کی۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹری خارجہ نے بریفنگ دی کہ پاکستان تیزی سے سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ اہم دارلحکومتوں میں پاکستان کے موقف کو غیر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی مطالبات ہیں کہ مولانا مسعود اظہر، جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ، حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کئے جائیں۔ چین نے اگرچہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے معاملے میں اقوامِ متحدہ میں ٹیکنیکل ہولڈ لگا رکھا ہے مگر چین اس کے پیچھے کی منطق جاننا چاہتا ہے۔

جیسے ہی یہ رپورٹ شائع ہوئی اسلام آباد کے مقتدر ایوانوں میں سراسمیگی پھیل گئی۔ کس نے اندر کی باتیں لیک کی ہیں اس کا پتہ چلایا جائے؟ ایک ہی دن میں وزیرِ اعظم ہاؤس، وزارتِ اطلاعات اور چیف منسٹر ہاؤس لاہور سے بیک وقت پانچ تردیدیں سامنے آئیں۔ ڈان کی رپورٹ من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔ ایک تحقیقی کمیٹی بنا دی گئی جس میں حساس اداروں کی بھی نمائندگی تھی۔ تین سویلینز یعنی پرنسپل انفارمیشن سیکرٹری راؤ تحسین، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید، مشیر خارجہ طارق فاطمی سے استعفے لے لیے گئے۔ نامہ نگار سرل المیڈا کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی۔

105941927_nawazraheelafp.jpg

AFP
عمران خان نے سٹیج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈان لیکس کی تحقیقی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جائے۔ کون سا ملک ہے جو ایسے لوگوں کو غدار نہیں سمجھے گا۔ یہ بین الاقوامی سازش ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ڈان لیکس نے فوج کے دل میں نواز شریف کے بارے میں مستقل کھٹکا پیدا کر دیا اور ڈان کے گرد بھی سرخ دائرہ لگ گیا۔ اور پھر نواز شریف کو محبِ وطن حلقوں کی آہ لگ گئی۔ صرف نو ماہ بعد مکافاتِ عمل کے تحت عہدے سے ہٹنا پڑا۔ مگر نواز شریف پھر بھی باز نہ آئے اور عام انتخابات سے سوا دو ماہ پہلے بارہ مئی دو ہزار اٹھارہ کو سرل المیڈا کو ایک اور انٹرویو دے کر اپنے سر پر ایک اور سیاسی کلہاڑی مار لی۔

فرمایا کہ ’ہم نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ قربانیوں کے باوجود ہمارا موقف تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ شدت پسند تنظیمیں متحرک ہیں۔ کیا ہمیں نان سٹیٹ ایکٹرز کو اجازت دینی چاہئے کہ وہ سرحد پار کریں اور ممبئی میں ڈیڑھ سو افراد ہلاک کر دیں۔ مجھے بتائیے ہم اب تک مقدمے(بمبئی حملہ) کی کارروائی کیوں مکمل نہ کر سکے۔‘

اس انٹرویو کے بعد طے ہو گیا کہ نواز شریف کو چوتھی بار اقتدار میں آنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ یہ مودی کا یار ہے۔

آئیے کہانی فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ ڈان لیکس کی جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹ کے ڈھائی برس بعد چار مارچ دو ہزار انیس کو وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں جیشِ محمد اور جماعت الدعوۃ سمیت کالعدم تنظیموں کے خلاف نیشنل ایکشن پروگرام کی روشنی میں بلاامتیاز کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان تنظیموں کے دفاتر، فلاحی وسائل اور اثاثے تحویل میں لئے جا رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے تنبیہ کیا ہے کہ ریاست کو انتہا پسندوں کا یرغمال نہیں بننے دیا جا سکتا۔

پانچ مارچ کو وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور سیکرٹری داخلہ اعظم خان نے میڈیا کو جیشِ محمد اور جماعت الدعوۃ سمیت بلاامتیاز کریک ڈاؤن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جن چوالیس لوگوں کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ان میں مولانا مسعود اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر اور بھائی مفتی رؤف بھی شامل ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ان دونوں کے نام اس انڈین ڈوزئیر میں بھی شامل تھے جو پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ مگر یہ کریک ڈاؤن کسی کے دباؤ میں نہیں کیا جا رہا۔

105942800__105896992_gettyimages-1126545919.jpg

Getty Images
وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی
اس موقع پر کچھ سوشل میڈیائی شرپسندوں نے دوبارہ وہ پرانی وڈیو ڈال دی جس میں شہریار آفریدی صاحب جماعت الدعوۃ کے کارکنوں کے ساتھ بیٹھے کہہ رہے ہیں کہ ’جب تک ہم اسمبلی میں ہیں کوئی مائی کا لال حافظ سعید کو تو چھوڑیں جو بھی حق کا ساتھ دے گا ہم اس کا ساتھ دیں گے۔‘

ایک وڈیو شیخ رشید صاحب کی بھی سوشل میڈیا کے جوہڑ میں تیر رہی ہے۔ مگر یہ وزیرِ ریلوے بننے سے بہت پہلے کی ہے۔ شیخ صاحب دفاعِ پاکستان کونسل کے سٹیج سے فرما رہے ہیں ’اللہ کے بعد کشمیری حافظ سعید کی طرف دیکھ رہے ہیں کسی خارجہ پالیسی کی طرف نہیں دیکھ رہے۔‘

لیکن صاحب قسمت ہو تو پرویز مشرف جیسی ورنہ نہ ہو۔ ٹیکنیکلی وہ بھی اب سویلین ہیں مگر ان کا ہر بیان سن کے ایسے اڑا دیا جاتا ہے گویا مجذوب کی بڑ ہو۔

جس دن حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا اسی شام معروف ٹی وی اینکر ندیم ملک سے بات کرتے ہوئے آپ نے جیشِ محمد کے خلاف کریک ڈاؤن کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ میرے اوپر دو خود کش حملے انہی نے کئے تھے۔

105942796_pervaizmushraffafp.jpg

AFP
سابق صدر پرویز مشرف
پرویز مشرف سے سوال ہوا کہ جب آپ اس ملک کے سب سے بااختیار شخص تھے تو آپ نے ان کے خلاف سخت اقدامات کیوں نہیں کئے۔ جس پر پرویز مشرف نے کہا کہ ’اس سوال کا میرے پاس کوئی خاص جواب نہیں۔ وہ زمانے اور تھے جس میں ہمارے انٹیلی جنس والے انوالو تھے۔ ٹٹ فار ٹیٹ ہو رہا تھا۔ وہ پاکستان میں بم دھماکے کروا رہے تھے، ہم ادھر کروا رہے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کوئی خاص کارروائی نہیں کی تو میں نے بھی اصرار نہیں کیا۔‘

اگلے روز پرویز مشرف کے انٹرویو کا یہ حصہ اگر کسی نے نمایاں طور پر شائع کیا تو وہ کوئی پاکستانی اخبار نہیں بلکہ ہندوستان ٹائمز تھا۔

اس سے قبل اٹھائیس نومبر دو ہزار سترہ کو اے آر وائی کے وسیم بادامی کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز مشرف نے فرمایا ’میں لبرل اور اعتدال پسند ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تمام مذہبی لوگوں کے خلاف ہوں۔ لشکرِ طیبہ کا سب سے بڑا سپورٹر تو میں ہوں ۔مجھے معلوم ہے کہ لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ والے بھی مجھے پسند کرتے ہیں۔ میں حافظ سعید سے ملا ہوں۔ میں ہمیشہ کشمیر میں ایکشن کے حق میں رہا ہوں۔ کشمیر میں انڈین آرمی کو ہم نے دبانا ہے۔ انھیں دہشت گرد امریکہ اور انڈیا نے مل کر قرار دلوایا ہے۔‘

وسیم بادامی نے پوچھا تو پھر آپ نے بارہ جنوری دو ہزار دو کو لشکرِ طیبہ پر پابندی کیوں لگائی؟ فرمایا کہ ’اس وقت صورتِ حال اور تھی۔ میرا ویژن یہ تھا کہ کیونکہ وہ (انڈیا) امن کے لئے میرے چار نکاتی ایجنڈے کے کی طرف چل رہے ہیں لہذا مجاہدین کو کم کیا جائے اور سیاست کو بڑھایا جائے۔ اور فرینکلی اس وقت میں انھیں (لشکرِ طیبہ) کو اتنا زیادہ جانتا بھی نہیں تھا۔‘

اس انٹرویو کو بھی انڈین میڈیا نے مزے لے لے کر چھاپا۔ سیانے کہتے ہیں کہ قسمت اچھی ہو تو اونٹ سوئی کے ناکے سے بھی گذر جاتا ہے، خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ باقی آپ سمجھ دار ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت کی فوجی ناکامی کے بعد آبی دہشت گردی؛ 3 دریاؤں کا پانی روک لیا

بھارت نے ستلج، بیاس اورراوی سے 5 لاکھ 30 ہزار ایکڑ فٹ پانی پاکستان جانے سے روک دیا ہے فوٹو: فائل

نئی دہلی: پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی جہاں بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کا محاذ کھول دیا۔

بھارت نے پاکستان کو اضافی پانی کی فراہمی روک کرپاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کا محاذ کھول دیا۔ بھارت کے وزیرمملکت برائے آبی وسائل ارجن میگوال کا کہنا ہے کہ بھارت نے مشرقی دریاؤں دریائے ستلج، بیاس اورراوی سے اب تک پانچ لاکھ تیس ہزار ایکڑ فٹ پانی پاکستان جانے سے روک دیا ہے۔ اس پانی کوذخیرہ کیا جائے گا اورضرورت پڑنے پر راجستھان اورپنجاب میں پینے اور زراعت کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ تینوں دریا سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت کے ہیں، ہم نے ایسا کرکے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی۔

دوسری جانب بھارتی میڈیا کے مطابق مودی سرکارنے پلوامہ حملے کے رد عمل میں سندھ طاس معاہدے پربات چیت کے لئے بھارتی وفد کا مجوزہ دورہ پاکستان بھی ملتوی کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 2018 میں پاک بھارت انڈس واٹر کمیشن کے اجلاس میں دونوں ملکوں نے اس امر پراتفاق کیا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت طے شدہ دوطرفہ دورے جاری رہیں گے۔ پاکستان کے وفد نے شیڈول کے مطابق اکتوبر دوہزار اٹھارہ میں بھارت کا دورہ کرنا تھا لیکن مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا۔
 

سید عمران

محفلین
یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ مودی نے مان لیا کہ پلوامہ حملہ اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں مصنوعی حملہ اس کا اپنا پائیلٹ پراجیکٹ تھا۔ اس پے پے کی گردان کو ہم آسانی سے پاگل پن کہہ سکتے ہیں۔ یہی پاگل پن ، پیچھے ہے کشمیریوں کے قتل عام کے۔ ایسا ہندوستانی آفیشیل خود کہہ رہے ہیں۔
یعنی مودی پر ۴۵ انسانوں کے قتل کا مقدمہ بننا چاہیے!!!
:thinking::thinking::thinking:
 
میرا تبصرہ ، ان اشعار کی شکل میں۔

گندا : یعنی ملیچھ ، جو ہندو مسلمانوں کو کہتے ہیں
ہندو ندی : ہند یعنی سندھ یعنی انڈس ، ہفت کہنے والے اسے ہند پکارتے ہیں ، اور سبت کہنے والے اسے سندھ، ہند ہی بنیاند ہے اندوس یا انڈس کی
فنڈا: یعنی بنیادیات، یعنی فنڈامینٹلز - بمبیا زبان میں بہت ہی عام ہے
سولہ روپ : سولہ ٹرابیتریز یا ندیاں یا نہریں

براہمن ، کھتری ، شودر ہو یا ہو کوئی گندا
سب کی سمجھ میں آجائے گا مساوات کا فنڈا

کراچی سے کلکتے تک سب ایک ہو جائے گا
اس ہندو ندی کے آر پار ، مسلم ہر ایک ہو جائے گا

سولہ روپ نہا کر راوی سے ملنے آئے گی گنگا
اسلام آباد کی چھاتی سے لہرائے گا بھارت پہ مسلم جھنڈا

والسلام
 

جاسم محمد

محفلین
بالاکوٹ حملے سے انڈیا نے کیا حاصل کیا؟
رجنیش کمار بی بی سی نمائندہ، دہلی

گذشتہ ماہ 14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر جیش محمد کے خود کش حملے میں 40 جوانوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے 26 فروری کو پاکستان میں شدت پسند تنظیم کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

انڈیا نے یہ کارروائی پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر بالاكوٹ میں جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کی تھی۔

اس کے 24 گھنٹے کے اندر ہی پاکستان نے 27 فروری کو یا تو مبینہ طور پر ایف-16 یا جے اے ایف-17 سے ایک ہندوستانی مگ-21 جنگی طیارہ مار گرایا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا جسے بعد میں رہا کر دیا گيا۔

دہشت گردی سے لڑنے کے لیے فضائیہ کے استعمال کے انڈین فیصلے کو اہم تصور کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے 24 گھنٹوں کے اندر ہی دیے جانے والے جواب کے بعد یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ انڈیا کا فضائیہ کے استعمال کا فیصلہ کتنا مناسب رہا؟

دفاعی امور کے معروف تجزیہ نگار راہل بیدی کہتے ہیں ’اگر انتخابات کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ فیصلہ مودی حکومت کے حق میں جاتا نظر آ رہا ہے، لیکن اگر سکیورٹی حکمت عملی کے نظریہ سے دیکھیں تو یہ بحث طلب ہے۔‘

راہل بیدی کہتے ہیں: ’پاکستان نے انڈیا کو 24 گھنٹے کے اندر ہی جواب ضرور دیا لیکن ہندوستان میں لوگوں کی رائے مودی کے حق میں رہی۔ اگر سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ حکمت عملی بہت خطرناک نظر آتی ہے۔ جوہری طاقت کے حامل دو ممالک ایک دوسرے کی حدود میں فائٹر طیاروں کے ساتھ داخل ہوئے۔ گذشتہ سات دہائیوں میں مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں آتا جب ایسا ہوا ہو۔ مودی نے جو قدم اٹھایا ہے، اگر وہ اس پر آگے بڑھتے رہے تو یہ سوچ کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔‘

راہل بیدی نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے دہشت گردی کے خلاف فضائی حملہ کر کے بھی دیکھ لیا لیکن اس سے کیا حاصل ہوا ابھی تک واضح نہیں۔

بیدی کہتے ہیں کہ '36 گھنٹوں کے اندر ہی ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ کا ہندوستان آنا مودی کے حق میں گیا۔ لیکن اگر پھر سے دہشت گرد حملہ ہوا تو پھر مودی کے پاس کیا آپشنز رہ جائیں گے؟ مجھے کوئی آپشن نظر نہیں آتا۔ انڈیا کی ایئر سٹرائک کا جواب پاکستان نے بھی اسی طرح دیا۔ ایسے میں انڈیا پھر ایئر سٹراک کرے گا، ایسا نہیں لگتا۔ فی الحال انڈیا کی فضائیہ خواہ پاکستان سے قدرے مضبوط ہے لیکن آنے والے تین چار سالوں میں ایسا نہیں رہے گا۔ اب انڈیا کے لیے یہ اہم سوال ہے کہ اگر پھر سے دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو انڈیا کیا کرے گا؟'

انڈیا میں فضائیہ کے شعبے میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ انڈیا جن جنگی طیاروں کا استعمال کر رہا ہے اس کی ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ پرانی ہو گئی ہے۔ دفاعی ماہرین مگ طیارے کو انڈیا کے آسمان کا تابوت کہتے ہیں۔

ایسے میں انڈین فضائیہ پاکستان کو کس حد تک چیلنج دے گا؟ یہاں تک کہ انڈیا کے فوجی سربراہ ڈھائی مورچوں سے جنگ کی بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ جنگی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو انڈیا کو چین کے تعلق سے بھی خدشات رہیں گے۔

ہندوستانی فضائیہ کے پاس محض 32 سكواڈرن ہیں جبکہ دفاعی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ کم از کم 42 سكواڈرن ہونے چاہییں۔ 32 میں سے بھی بہت سے سكواڈرن لڑاکا طیاروں کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک سكواڈرن پر کم از کم 16 سے 18 جنگی طیارے ہونے چاہییں۔

مگ-21 جنگی طیارے میں 1960 کی دہائی کی سوویت یونین والی ٹیکنالوجی ہے اور انڈیا آج بھی اس کا استعمال کرتا ہے۔ اس کے چھ سكواڈرن آج بھی مگ-21 کے سہارے ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ نے ملکی سطح پر تیار کیے جانے والے ہلکے جنگی طیارے (ایل سی اے) کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔

فرانس کے ساتھ رفال جنگی طیارے کا سودا بھی ہندوستانی فضائیہ کے لیے اہم ہے۔ ایل سی اے کی تیاری میں انڈیا نے کم از کم تین دہائیوں کا وقت لیا ہے۔ مارچ سنہ 2019 سے صرف 16 ایل سی اے فضائيہ میں شامل ہوں گے۔ آج بھی ہندوستانی فضائیہ ایڈوانس فائٹر طیاروں کے لیے کوشاں ہے۔

انڈیا کے 11 سكواڈرن پر روسی سوکھوئی-30 ایم کے آئی فائٹر طیارے ہیں جو دنیا کے جدید ترین جنگی طیاروں میں سے ایک ہیں۔

انڈیا کے تین سكواڈرن پر میراج-2000 ای/ ای ڈی/ آئی/ آئی ٹی، چار سكواڈرن پر جیگوار آئی بی/ آئی ایس اور تین سكواڈرن پر مگ-27 ایم ایل/ مگ-23 یو بی ہیں۔

سكواڈرن اور جنگی طیاروں کے لحاظ سے دیکھیں تو انڈین فضائیہ پاکستان سے بہتر ہے۔ ہندوستان کے پاس مگ-29، سو-30 ایم کے آئی اور میراج-200 ہیں جبکہ پاکستان کے پاس جدید ترین جنگی طیارے ایف-16 اور جے ایف-17 ہے۔ ایف-16 امریکی ساخت کا ہے اور جے ایف-17 کو چین اور پاکستان نے مل کر بنایا ہے۔

پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر اس کے لیے فضائیہ کو مضبوط بنانا آسان نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے ساتھ چین آ گیا تو انڈیا کے لیے مشکل حالات پیدا ہو جائيں گے۔

چین اپنی فوج کی تیزی سے تجدید کاری کر رہا ہے۔ دی ملٹری بیلنس 2019 کے مطابق چین کے پاس مجموعی طور 2413 حملہ آور جنگی طیارے ہیں جبکہ انڈیا کے پاس 814 اور پاکستان کے پاس صرف 425 ہیں۔

بہر حال بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ چین اپنی فوج کی تجدید انڈیا کے بجائے امریکہ اور جاپان کے پیش نظر کر رہا ہے۔

دفاعی امور کے ماہرین کا یہ بھی خيال ہے کہ چین اپنے لیے ہندوستان کو خطرہ نہیں سمجھتا۔ دی ڈپلومیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگر چین انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں پاکستان کی حمایت بھی کرتا ہے تو وہ اس کو محدود مدد فراہم کرے گا لیکن پاکستان اپنی پوری طاقت لگا دے گا۔

اگر چین پاکستان کے ساتھ آتا ہے تو دوسرے ممالک کے درمیان گروہ بندی شروع ہو جائے گی۔ ایسے میں انڈیا کو امریکہ اور جاپان سے مدد کی امید ہو گی۔ جاپان اور چین کے درمیان تاریخی دشمنی رہی ہے اور ہر بار چین کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔

انڈیا کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اتوار کو انڈیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا کہ انڈیا نے سنہ 1971 کی جنگ کے بعد پہلی بار بین الاقوامی سرحد پار کی ہے۔ جیٹلی نے کہا: 'ہمارے وزیر اعظم نے پالیسی تبدیل کی ہے۔ پہلے حکومتیں انٹیلیجنس اور سکیورٹی فورسز کو چاق و چوبند رکھتی تھیں تاکہ حملہ روکا جا سکے۔ ہم اب دو قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔'

جیٹلی نے کہا: 'ہماری پالیسی یہ ہے کہ جہاں بھی دہشت گرد تیار کیے جا رہے ہیں وہیں حملہ کیا جائے۔ انڈیا کی فوج میں اہلیت ہے اور دہشت گردی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔'

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی ایجنسیوں نے جو سیٹیلائٹ کی تصاویر جاری کی ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایئر سٹرائک نشانے پر نہیں جا سکیں۔

بیدی کا خیال ہے کہ انڈیا کے ایئر سٹرائک پر ملکی اور بین الاقوامی تصورات مختلف ہیں۔ قوم کا خیال مودی کے حق میں ہے اور بین الاقوامی تصور یہ ہے کہ بھارت کی ایئر سٹرائک ناکام رہی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بالاکوٹ حملے سے انڈیا نے کیا حاصل کیا؟
رجنیش کمار بی بی سی نمائندہ، دہلی

گذشتہ ماہ 14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر جیش محمد کے خود کش حملے میں 40 جوانوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے 26 فروری کو پاکستان میں شدت پسند تنظیم کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

انڈیا نے یہ کارروائی پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر بالاكوٹ میں جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کی تھی۔

اس کے 24 گھنٹے کے اندر ہی پاکستان نے 27 فروری کو یا تو مبینہ طور پر ایف-16 یا جے اے ایف-17 سے ایک ہندوستانی مگ-21 جنگی طیارہ مار گرایا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا جسے بعد میں رہا کر دیا گيا۔

دہشت گردی سے لڑنے کے لیے فضائیہ کے استعمال کے انڈین فیصلے کو اہم تصور کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے 24 گھنٹوں کے اندر ہی دیے جانے والے جواب کے بعد یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ انڈیا کا فضائیہ کے استعمال کا فیصلہ کتنا مناسب رہا؟

دفاعی امور کے معروف تجزیہ نگار راہل بیدی کہتے ہیں ’اگر انتخابات کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ فیصلہ مودی حکومت کے حق میں جاتا نظر آ رہا ہے، لیکن اگر سکیورٹی حکمت عملی کے نظریہ سے دیکھیں تو یہ بحث طلب ہے۔‘

راہل بیدی کہتے ہیں: ’پاکستان نے انڈیا کو 24 گھنٹے کے اندر ہی جواب ضرور دیا لیکن ہندوستان میں لوگوں کی رائے مودی کے حق میں رہی۔ اگر سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ حکمت عملی بہت خطرناک نظر آتی ہے۔ جوہری طاقت کے حامل دو ممالک ایک دوسرے کی حدود میں فائٹر طیاروں کے ساتھ داخل ہوئے۔ گذشتہ سات دہائیوں میں مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں آتا جب ایسا ہوا ہو۔ مودی نے جو قدم اٹھایا ہے، اگر وہ اس پر آگے بڑھتے رہے تو یہ سوچ کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔‘

راہل بیدی نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے دہشت گردی کے خلاف فضائی حملہ کر کے بھی دیکھ لیا لیکن اس سے کیا حاصل ہوا ابھی تک واضح نہیں۔

بیدی کہتے ہیں کہ '36 گھنٹوں کے اندر ہی ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ کا ہندوستان آنا مودی کے حق میں گیا۔ لیکن اگر پھر سے دہشت گرد حملہ ہوا تو پھر مودی کے پاس کیا آپشنز رہ جائیں گے؟ مجھے کوئی آپشن نظر نہیں آتا۔ انڈیا کی ایئر سٹرائک کا جواب پاکستان نے بھی اسی طرح دیا۔ ایسے میں انڈیا پھر ایئر سٹراک کرے گا، ایسا نہیں لگتا۔ فی الحال انڈیا کی فضائیہ خواہ پاکستان سے قدرے مضبوط ہے لیکن آنے والے تین چار سالوں میں ایسا نہیں رہے گا۔ اب انڈیا کے لیے یہ اہم سوال ہے کہ اگر پھر سے دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو انڈیا کیا کرے گا؟'

انڈیا میں فضائیہ کے شعبے میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ انڈیا جن جنگی طیاروں کا استعمال کر رہا ہے اس کی ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ پرانی ہو گئی ہے۔ دفاعی ماہرین مگ طیارے کو انڈیا کے آسمان کا تابوت کہتے ہیں۔

ایسے میں انڈین فضائیہ پاکستان کو کس حد تک چیلنج دے گا؟ یہاں تک کہ انڈیا کے فوجی سربراہ ڈھائی مورچوں سے جنگ کی بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ جنگی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو انڈیا کو چین کے تعلق سے بھی خدشات رہیں گے۔

ہندوستانی فضائیہ کے پاس محض 32 سكواڈرن ہیں جبکہ دفاعی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ کم از کم 42 سكواڈرن ہونے چاہییں۔ 32 میں سے بھی بہت سے سكواڈرن لڑاکا طیاروں کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک سكواڈرن پر کم از کم 16 سے 18 جنگی طیارے ہونے چاہییں۔

مگ-21 جنگی طیارے میں 1960 کی دہائی کی سوویت یونین والی ٹیکنالوجی ہے اور انڈیا آج بھی اس کا استعمال کرتا ہے۔ اس کے چھ سكواڈرن آج بھی مگ-21 کے سہارے ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ نے ملکی سطح پر تیار کیے جانے والے ہلکے جنگی طیارے (ایل سی اے) کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔

فرانس کے ساتھ رفال جنگی طیارے کا سودا بھی ہندوستانی فضائیہ کے لیے اہم ہے۔ ایل سی اے کی تیاری میں انڈیا نے کم از کم تین دہائیوں کا وقت لیا ہے۔ مارچ سنہ 2019 سے صرف 16 ایل سی اے فضائيہ میں شامل ہوں گے۔ آج بھی ہندوستانی فضائیہ ایڈوانس فائٹر طیاروں کے لیے کوشاں ہے۔

انڈیا کے 11 سكواڈرن پر روسی سوکھوئی-30 ایم کے آئی فائٹر طیارے ہیں جو دنیا کے جدید ترین جنگی طیاروں میں سے ایک ہیں۔

انڈیا کے تین سكواڈرن پر میراج-2000 ای/ ای ڈی/ آئی/ آئی ٹی، چار سكواڈرن پر جیگوار آئی بی/ آئی ایس اور تین سكواڈرن پر مگ-27 ایم ایل/ مگ-23 یو بی ہیں۔

سكواڈرن اور جنگی طیاروں کے لحاظ سے دیکھیں تو انڈین فضائیہ پاکستان سے بہتر ہے۔ ہندوستان کے پاس مگ-29، سو-30 ایم کے آئی اور میراج-200 ہیں جبکہ پاکستان کے پاس جدید ترین جنگی طیارے ایف-16 اور جے ایف-17 ہے۔ ایف-16 امریکی ساخت کا ہے اور جے ایف-17 کو چین اور پاکستان نے مل کر بنایا ہے۔

پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر اس کے لیے فضائیہ کو مضبوط بنانا آسان نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے ساتھ چین آ گیا تو انڈیا کے لیے مشکل حالات پیدا ہو جائيں گے۔

چین اپنی فوج کی تیزی سے تجدید کاری کر رہا ہے۔ دی ملٹری بیلنس 2019 کے مطابق چین کے پاس مجموعی طور 2413 حملہ آور جنگی طیارے ہیں جبکہ انڈیا کے پاس 814 اور پاکستان کے پاس صرف 425 ہیں۔

بہر حال بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ چین اپنی فوج کی تجدید انڈیا کے بجائے امریکہ اور جاپان کے پیش نظر کر رہا ہے۔

دفاعی امور کے ماہرین کا یہ بھی خيال ہے کہ چین اپنے لیے ہندوستان کو خطرہ نہیں سمجھتا۔ دی ڈپلومیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگر چین انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں پاکستان کی حمایت بھی کرتا ہے تو وہ اس کو محدود مدد فراہم کرے گا لیکن پاکستان اپنی پوری طاقت لگا دے گا۔

اگر چین پاکستان کے ساتھ آتا ہے تو دوسرے ممالک کے درمیان گروہ بندی شروع ہو جائے گی۔ ایسے میں انڈیا کو امریکہ اور جاپان سے مدد کی امید ہو گی۔ جاپان اور چین کے درمیان تاریخی دشمنی رہی ہے اور ہر بار چین کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔

انڈیا کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اتوار کو انڈیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا کہ انڈیا نے سنہ 1971 کی جنگ کے بعد پہلی بار بین الاقوامی سرحد پار کی ہے۔ جیٹلی نے کہا: 'ہمارے وزیر اعظم نے پالیسی تبدیل کی ہے۔ پہلے حکومتیں انٹیلیجنس اور سکیورٹی فورسز کو چاق و چوبند رکھتی تھیں تاکہ حملہ روکا جا سکے۔ ہم اب دو قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔'

جیٹلی نے کہا: 'ہماری پالیسی یہ ہے کہ جہاں بھی دہشت گرد تیار کیے جا رہے ہیں وہیں حملہ کیا جائے۔ انڈیا کی فوج میں اہلیت ہے اور دہشت گردی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔'

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی ایجنسیوں نے جو سیٹیلائٹ کی تصاویر جاری کی ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایئر سٹرائک نشانے پر نہیں جا سکیں۔

بیدی کا خیال ہے کہ انڈیا کے ایئر سٹرائک پر ملکی اور بین الاقوامی تصورات مختلف ہیں۔ قوم کا خیال مودی کے حق میں ہے اور بین الاقوامی تصور یہ ہے کہ بھارت کی ایئر سٹرائک ناکام رہی۔
مبنی بر حقائق تجزیہ ہے، مودی سرکار اور بھاج پا نے انڈیا میں اس فعل سے واضح فائدہ حاصل کیا ہے۔ یہ ان کی مجبوری ہے، تاریخ میں پہلی بار چھ سال حکومت کرنے کے بعد واجپائی جی اور آڈوانی جی کی بھاج پا سرکار نے 2004ء کے الیکشنز ایسے نعروں کی بجائے "شائننگ انڈیا" کے نعرے پر لڑے تھے اور اس بری طرح ہارے تھے کہ کانگریس نے خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اُس وقت ان کی حکومت بن جائے گی۔ مودی جانتا ہے کہ اس نے کن نعروں پر الیکشن لڑنا ہے وہ کبھی ایسی غلطی نہیں کرے گا!
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
ویسے اردو محفل کی انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنے قارئین کی دلچسپی کی مدنظر رکھتے ہوئے یہاں ایک جنگ کا زمرہ بھی شامل کر دیا جائے. لطف رہے گا :)
 
Top