اصغرخان کیس؛ پاک فوج کو ملوث افسران کیخلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم

جاسم محمد

محفلین
اصغرخان کیس؛ پاک فوج کو ملوث افسران کیخلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم
ویب ڈیسک پير 11 فروری 2019
1545998-AsgharKhan-1549865720-433-640x480.JPG

ایف آئی اے رپورٹ کا جائزہ وزارت دفاع کے جواب کیساتھ لیا جائے گا، عدالت۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: اصغرخان عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ نے پاک فوج کو ملوث افسران کے خلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیدیا۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں اصغرخان عملدرآمد کیس کی سماعت کی، اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ فوجی افسران کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کیوں شروع نہیں ہوئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری میں شواہد سامنے آنے پر کورٹ مارشل ہوگا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : اصغر خان کیس؛ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگ لی

عدالت نے پاک فوج کو ملوث افسران کے خلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کی جائے جب کہ ایف آئی اے رپورٹ کا جائزہ وزارت دفاع کے جواب کیساتھ لیا جائے گا۔

پس منظر؛

اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی درخواست پر 1990ء کے الیکشن میں دھاندلی سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کےلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی جسے اصغر خان عملدرآمد کیس کا نام دیا گیا اور گزشتہ سال مئی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان دونوں سابق اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
عدالت نے پاک فوج کو ملوث افسران کے خلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کی جائے جب کہ ایف آئی اے رپورٹ کا جائزہ وزارت دفاع کے جواب کیساتھ لیا جائے گا۔
افواج پاکستان کب تک اس کیس کو لٹکائیں گی۔ کس کس جج کو خریدیں گی۔ یہ کیس بند کرنے کیلئے کتنی حکومتیں بدلیں گی؟
 

فرقان احمد

محفلین
اس کیس میں سے شاید اب کچھ برآمد نہ ہو گا۔ جناب مشرف پر چلنے والے مقدمات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حکومتیں فوج کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتی ہیں۔ موجودہ حکومت سے بھی زیادہ توقعات وابستہ کرنا کافی حد تک نادانی کی ذیل میں آئے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ حکومتیں فوج کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتی ہیں۔
اسی لئے اس بار عدالت عمل درآمد بینچ میں از خود فوج سے جواب طلبی کر رہی ہے کہ اپنے کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کر رہے۔
س موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ فوجی افسران کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کیوں شروع نہیں ہوئی
 

فرقان احمد

محفلین
اسی لئے اس بار عدالت عمل درآمد بینچ میں از خود فوج سے جواب طلبی کر رہی ہے کہ اپنے کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کر رہے۔
کافی برسوں سے ایک سڑک کھلوانے کے حوالے سے جس طرح کی مزاحمت سامنے آئی ہے اور جس طرح سے ججز تک کو منصب سے ہٹا دیا گیا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ رسمی کاروائی ہے۔ کچھ ہی عرصہ میں یہ کیس دب سا جائے گا؛ زیادہ تر یہی امکان ہے۔ فوج خود وہی کرے گی، جو کہ وہ کرنا چاہے گی۔ عدالت نے معاملہ فوج کی کورٹ میں ڈال کر گیم ایک طرح سے ختم کر دی ہے۔ سمپل!
 

جاسم محمد

محفلین
عدالت نے معاملہ فوج کی کورٹ میں ڈال کر گیم ایک طرح سے ختم کر دی ہے۔ سمپل!
بے شک ڈال دیں لیکن متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی تو کریں۔ اس ملک میں سیاستدانوں کو تو سزا ہو جاتی ہے۔ مگر مقدس گائے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب تک اس کا احتساب نہیں ہوتا فوج میں موجود کالی بھیڑوں کی صفائی نہیں ہو سکتی۔
 

فرقان احمد

محفلین
بے شک ڈال دیں لیکن متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی تو کریں۔ اس ملک میں سیاستدانوں کو تو سزا ہو جاتی ہے۔ مگر مقدس گائے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب تک اس کا احتساب نہیں ہوتا فوج میں موجود کالی بھیڑوں کی صفائی نہیں ہو سکتی۔
مقدس گائے کی مدد سے جو حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں، اُن کی کیا مجال کہ وہ کچھ کر پائیں۔ عدلیہ میں ایک آدھ جج غیر جانب داری سے فیصلہ کر بھی دے، تو تین چار 'محب وطن' ججز خاکی فرشتوں کے حق میں پورا دفتر لکھنے کے لیے بے تاب ہوئے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر، یہ سب معاملات اب سیاسی نوعیت کے بن چکے ہیں؛ حاصل وصول کچھ نہ ہو گا، امکان غالب ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
مقدس گائے کی مدد سے جو حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں، اُن کی کیا مجال کہ وہ کچھ کر پائیں۔
میرے خیال میں عدالت عظمیٰ کو اس کیس میں سے سول حکومت کو الگ کر دینا چاہئے۔ انہوں نے جتنی تفتیش کرنی تھی کر لی اور رپورٹ بھی جمع کر ادی کہ کچھ نہیں ملا۔ اب عدالت کا کام ہے کہ فوجی اداروں سے تفتیش کروائے اور متعلہ افسران کو سزائیں دلوائے۔ اور اگر آرمی چیف یا کوئی اور بڑی مقدس گائے اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے تو اسے ہتک عدالت کے جرم میں عہدہ سے ہٹا دے۔ عدالت عظمیٰ پارلیمان کے بعد ملک کا سب سے سپریم ادارہ ہے۔ یہ اگر چاہیں تو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ کرپٹ جرنیلوں کو الٹا لٹکا دیں۔ بس تھوڑی سی قوت حوصلہ اور بہادری پیدا کرنی ہوگی۔
 
میرے خیال میں عدالت عظمیٰ کو اس کیس میں سے سول حکومت کو الگ کر دینا چاہئے۔ انہوں نے جتنی تفتیش کرنی تھی کر لی اور رپورٹ بھی جمع کر ادی کہ کچھ نہیں ملا۔ اب عدالت کا کام ہے کہ فوجی اداروں سے تفتیش کروائے اور متعلہ افسران کو سزائیں دلوائے۔ اور اگر آرمی چیف یا کوئی اور بڑی مقدس گائے اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے تو اسے ہتک عدالت کے جرم میں عہدہ سے ہٹا دے۔ عدالت عظمیٰ پارلیمان کے بعد ملک کا سب سے سپریم ادارہ ہے۔ یہ اگر چاہیں تو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ کرپٹ جرنیلوں کو الٹا لٹکا دیں۔ بس تھوڑی سی قوت حوصلہ اور بہادری پیدا کرنی ہوگی۔
چڑھ جا بیٹا سولی مولا بھلی کرے گا
 

جاسم محمد

محفلین
چڑھ جا بیٹا سولی مولا بھلی کرے گا
ججوں کی خالی سیاسی بیان بازی سے کام نہیں چلے گا۔ ان کو سخت فیصلے کر کے ان پر عمل درآمد بھی کروانا ہوگا۔
ابھی کچھ عرصہ قبل ہی جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایک محفل میں فوج اور ایجنسیوں کے خلاف زبان درازی کرنے پر عہدہ سے فارغ کئے جا چکے ہیں۔ یہی کام وہ اپنے عدالتی فیصلوں میں کرتے تو شاید کوئی تبدیلی آجاتی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش، صدر پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹا دیا
 
Top