برائے اصلاح - فلسفیؔ تیرے شہر کے عاشق

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذراش۔

وہ سرہانے کتاب رکھتے ہیں
جانے کیا کیا حساب رکھتے ہیں

جاگ کر جو گزارتے ہیں رات
وہ بھی آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں
میری تربت پہ باوفا قاتل
روز تازہ گلاب رکھتے ہیں

دل کش ان کی ہیں بے حجاب آنکھیں
وہ جو رخ پر نقاب رکھتے ہیں

پر شکستہ صحیح، سینے میں
دل تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں

وہ بھی اہلِ وفا ہیں جو اب تک؟
فہمِ عیب و صواب رکھتے ہیں

کیسے تنگ دل ہیں میکدے کے لوگ
برتنوں میں شراب رکھتے ہیں

ضبط کی ریت میں دبے آنسو
بے بسی کا عذاب رکھتے ہیں

قلبِ مردہ پہ خون کے دھبے
جانے کیا اضطراب رکھتے ہیں؟

ہم اکیلے سفر نہیں کرتے
رنج کو ہم رکاب رکھتے ہیں

فلسفیؔ تیرے شہر کے عاشق
خود کو زیرِ عتاب رکھتے ہیں​
 

فلسفی

محفلین
خوب صورت خوب صورت۔ بہت سی داد۔


شاید یہاں "سہی"؛کا محل ہے۔

گو شکستہ سہی پہ سینے میں
دل تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں
شکریہ سر۔ آپ نے درست فرمایا، "سہی" کا ہی محل ہے۔ ویسے "پہ" بمعنی لیکن کے استعمال سے ناواقف تھا۔ آپ نے مصرعے میں بہترین فٹ کیا ہے۔
 
ماشاء اللہ بہت خوب ہے۔۔ آپ نے سہی کی جگہ صحیح لکھ جو ٹھیک کے معانی میں آتا ہے
پر شکستہ سہی مگر پھر بھی
دلتو ہم بھی جناب رکھتے ہیں
 

فلسفی

محفلین
ماشاء اللہ بہت خوب ہے۔۔ آپ نے سہی کی جگہ صحیح لکھ جو ٹھیک کے معانی میں آتا ہے
پر شکستہ سہی مگر پھر بھی
دلتو ہم بھی جناب رکھتے ہیں

پر شکستہ سہی مگر پھر بھی
دل تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں

بہت شکریہ ارشد بھائی، آپ کا عطا کردہ مصرعہ بھی اچھا ہے۔
 
ماشاء اللہ بہت خوب ہے۔۔ آپ نے سہی کی جگہ صحیح لکھ جو ٹھیک کے معانی میں آتا ہے
پر شکستہ سہی مگر پھر بھی
دلتو ہم بھی جناب رکھتے ہیں
ارشد چوہدری بھائی آپ کے عطا کردہ مصرع میں "پر" اور "مگر" دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اسی باعث ہم نے گو استعمال کیا ہے۔
 
ارشد چوہدری بھائی آپ کے عطا کردہ مصرع میں "پر" اور "مگر" دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اسی باعث ہم نے گو استعمال کیا ہے۔
میں نے پر وہاں پر پنکھ کے معنوں میں استمال کیا ہے۔۔محترم آپ سے درخواست ہے میں ہر روز آپ کو بھی ٹیگ کرتا ہوں مگرآپ اپنی رائے نہیں دیتے۔۔کیا ناراض ہیں۔ یا اس قابل نہیں سمجھتے۔
 

فلسفی

محفلین
بھائی میرے ٹوٹے پھوٹے اشعارکو ایک نظر دیکھ لیا کریں تو عنایت ہو گی ۔ابھی ایک غزل پوسٹ کی ہے
جی ارشد بھائی ضرور۔ اصل میں سر الف عین کے تجزیے کے بعد کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ان سے پہلے کچھ کہہ سکوں تو ضرور عرض کروں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
پر شکستہ صحیح، سینے میں
دل تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں
بہت گفتگو ہو چکی۔ پُر تو بہرحال غلط ہے۔ خلیل میاں اور ارشد صاحب دونوں کے مجوزہ مصرعے خوب ہیں مگر دونوں کے الگ الگ مفہوم ہیں۔ جو چاہو قبول کر کو۔ 'پہ' بمعنی لیکن بول چال میں اگرچہ نہیں آتا لیکن کلاسیکی شاعری میں بہت استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا تلفظ پ پر فتحہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ کسرہ کے ساتھ 'پر' کے معنی میں۔بول چال میں 'پر' بھی بمعنی لیکن استعمال ہوتا ہے
دوسرے اشعار میں
کیسے تنگ دل ہیں میکدے کے لوگ
برتنوں میں شراب رکھتے ہیں
.... تنگ کا گ غائب ہو گیا! برتنوں میں نہیں تو کیا بوریوں میں شراب بھری جانی چاہیے!

ضبط کی ریت میں دبے آنسو
بے بسی کا عذاب رکھتے ہیں
.. سمجھ نہیں سکا
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
پر شکستہ صحیح، سینے میں
دل تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں
بہت گفتگو ہو چکی۔ پُر تو بہرحال غلط ہے۔ خلیل میاں اور ارشد صاحب دونوں کے مجوزہ مصرعے خوب ہیں مگر دونوں کے الگ الگ مفہوم ہیں۔ جو چاہو قبول کر کو۔ 'پہ' بمعنی لیکن بول چال میں اگرچہ نہیں آتا لیکن کلاسیکی شاعری میں بہت استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا تلفظ پ پر فتحہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ کسرہ کے ساتھ 'پر' کے معنی میں۔بول چال میں 'پر' بھی بمعنی لیکن استعمال ہوتا ہے
جی سر ٹھیک ہے۔
کیسے تنگ دل ہیں میکدے کے لوگ
برتنوں میں شراب رکھتے ہیں
.... تنگ کا گ غائب ہو گیا! برتنوں میں نہیں تو کیا بوریوں میں شراب بھری جانی چاہیے!
:D
سر یہ شعر شاید عجز بیاں کا شکار ہو گیا ہے۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ تنگ دل لوگ ناپ تول کر شراب رکھتے ہیں۔ سر ان میں سے کوئی مناسب رہے گا

تنگ دل میکدے کے ساقی ہیں
گھونٹ تک کا حساب رکھتے ہیں
یا
تنگ دل میکدے کے ساقی ہیں
ناپ کر جو شراب رکھتے ہیں

ضبط کی ریت میں دبے آنسو
بے بسی کا عذاب رکھتے ہیں
.. سمجھ نہیں سکا
یعنی ضبط کی وجہ سے جو آنسو رکے ہوئے ہیں ان میں بے بسی کا عذاب ہے۔ "ضبط کی ریت" اگر مناسب نہیں تو، یوں مناسب رہے گا۔

علتِ ضبط میں چھپے آنسو
 

الف عین

لائبریرین
تنگ دل میکدے کے ساقی ہیں
گھونٹ تک کا حساب رکھتے ہیں
بہتر ہے
اور
ضبط جو کر لیے تھے، وہ آنسو
بہتر نہیں ہو گا؟ سیدھا سادہ جملہ ہو تو بہتر ہے
 

فلسفی

محفلین
تنگ دل میکدے کے ساقی ہیں
گھونٹ تک کا حساب رکھتے ہیں
بہتر ہے
ٹھیک ہے سر
ضبط جو کر لیے تھے، وہ آنسو
بہتر نہیں ہو گا؟ سیدھا سادہ جملہ ہو تو بہتر ہے
بہتر نہیں سر بہترین ہے۔

وہ سرہانے کتاب رکھتے ہیں
جانے کیا کیا حساب رکھتے ہیں

جاگ کر جو گزارتے ہیں رات
وہ بھی آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں

میری تربت پہ باوفا قاتل
روز تازہ گلاب رکھتے ہیں

دل کش ان کی ہیں بے حجاب آنکھیں
وہ جو رخ پر نقاب رکھتے ہیں

گو شکستہ سہی پہ سینے میں
دل تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں

وہ بھی اہلِ وفا ہیں جو اب تک؟
فہمِ عیب و صواب رکھتے ہیں

تنگ دل میکدے کے ساقی ہیں
گھونٹ تک کا حساب رکھتے ہیں

ضبط جو کر لیے تھے، وہ آنسو
بے بسی کا عذاب رکھتے ہیں

قلبِ مردہ پہ خون کے دھبے
جانے کیا اضطراب رکھتے ہیں؟

ہم اکیلے سفر نہیں کرتے
رنج کو ہم رکاب رکھتے ہیں

فلسفیؔ تیرے شہر کے عاشق
خود کو زیرِ عتاب رکھتے ہیں​
 
Top