محسن نقوی غزل: دن تو یوں بھی لگے عذاب عذاب

دن تو یوں بھی لگے عذاب عذاب
خوفِ شب خوں سے شب کو خواب، عذاب

اور کیا ہے متاعِ تشنہ لبی؟
دھوپ، صحرا، تھکن، سراب، عذاب

کس کو چاہیں، کسے بھلا ڈالیں؟
دوستی میں ہے انتخاب، عذاب

حسرتِ دید کی جزا، ہجرت!
خواہشِ وصل کا ثواب، عذاب

لمحہ بھر کی محبتوں کے لیے
زندگی بھر کا اضطراب، عذاب

شکریہ، اے خیالِ خلدِ بریں!
ہم پہ ٹوٹے ہیں بے حساب، عذاب

وہ نہیں ہے تو دیکھ بستی میں
اے دلِ خانماں خراب، عذاب

چپ رہے ہم تو دیکھنا محسنؔ
اب کے لائے گا انقلاب، عذاب

٭٭٭
محسنؔ نقوی
 

فلسفی

محفلین
کس کو چاہیں، کسے بھلا ڈالیں؟
دوستی میں ہے انتخاب،

حسرتِ دید کی جزا، ہجرت!
خواہشِ وصل کا ثواب، عذاب

لمحہ بھر کی محبتوں کے لیے
زندگی بھر کا اضطراب، عذاب
واہ کیا انتخاب ہے تابش بھائی

ایک شعر، شاعر کو خراج تحسین کے طور پر پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔

کھول کر عشق نے کتابِ زیست
ایک لفظ اس میں لکھ دیا ہے، عذاب
 
آخری تدوین:
محبت کی بہت خوبصورت شجرہ محسن نقوی صاحب نے بیان کی ہے نیٹ کے علاوہ ایک کتاب نظر سے گزری ہے
رخت شب
احباب سے آپ لوگوں سے پوچھنا ہے انکی اس محنت اس لکهنے کی کاوش کے بدلے نمایاں بهر پور مقام نہیں ملا ہے مقام ملا ہے مگر اس کی محنت کے برابر نہیں

کیا میں غلط ہوں
 
Top