برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذراش۔

ملا کے شہدِ ارتباط نفرتوں کے زہر میں
میں قندِ عشق بیچتا ہوں تلخیوں کے شہر میں

نہ دوستوں کے پیار میں، نہ حامیوں کی ہاں میں ہے
نشہ ہے قربتوں کا جو ناصحوں کے قہر میں

محبتوں کے ساحلوں پہ ڈوبنے کی وجہ سے
ہے اضطراب بحر زیست کی ہر ایک لہر میں

کفن کا انتظام ہو شہیدِ رنج کے لیے
وہ ڈوب کر جو مر گیا ہے حسرتوں کی نہر میں

روایتِ قدیم کی اک آخری کتاب تھی
چراغِ نو سے جل گئی جو انقلابِ دہر میں

جہاں کے باسیوں کو بس کہانیوں کا شوق ہو
وہاں کے فلسفیؔ کا ہے کیا وقار شہر میں؟​
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
خالد محمود چوہدری
محترم فقط مصرعے کے اقتباس کا مطلب عاجز نہیں سمجھا۔ اگر غلطی ہے تو نشاندہی فرما دیں۔

زبردست--- واقعی انقلابِ نو نے پرانی روایتوں کو جلا دیا ہے۔۔ ساری غزل زبردست ہے۔
جی ارشد بھائی بالکل درست سمجھے ایسا ہی ہے۔ پسند کے لیے بہت شکریہ۔
 
آخری تدوین:

میمٓ-ب

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذراش۔

روایتِ قدیم کی اک آخری کتاب تھی
چراغِ نو سے جل گئی جو انقلابِ دہر میں​
میں اس قابل نہیں کہ آپ کی شاعری پر تبصرہ کر سکوں۔ مگر مجھے شاعری کا جتنا علم ہے (جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے) میں سمجھتا ہوں اس شعر کو اوجِ کمال حاصل ہے۔ کافی خوبصورت شعر ہے پڑھتے ہی دل میں اتر جانے والا، جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
 

فلسفی

محفلین
غلطی کی نشاندہی کی اوقات نہیں ۔ مصرع پسند آیا
بہت شکریہ محترم۔ میں سمجھا شاید آپ کسی غلطی کی نشاندہی کرنا چاہ رہے ہیں جو عاجز کو اپنی کم عقلی کی وجہ سے نظر نہیں آ رہی۔

میں اس قابل نہیں کہ آپ کی شاعری پر تبصرہ کر سکوں۔ مگر مجھے شاعری کا جتنا علم ہے (جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے) میں سمجھتا ہوں اس شعر کو اوجِ کمال حاصل ہے۔ کافی خوبصورت شعر ہے پڑھتے ہی دل میں اتر جانے والا، جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
بہت شکریہ محترم
 

الف عین

لائبریرین
بظاہر تو کوئی غلطی نظر نہیں آ رہی۔
بحر ہے مفاعلن چار بار، لیکن کہیں کہیں تیسرے مفاعلن کی جگہ فاعلن ہو گیا ہے۔ اسے خود دیکھیں
یہ بحر بھی دو ٹکڑوں میں منقسم ہے اس لیے بہتر ہے کہ بات مکمل ہو جائے ایک ہی ٹکڑے میں۔
ہے حسرتوں میں ہ ح کی تکرار اچھی نہیں
 

فلسفی

محفلین
بحر ہے مفاعلن چار بار، لیکن کہیں کہیں تیسرے مفاعلن کی جگہ فاعلن ہو گیا ہے۔ اسے خود دیکھیں
جی سر دوبارہ دیکھتا ہوں۔
یہ بحر بھی دو ٹکڑوں میں منقسم ہے اس لیے بہتر ہے کہ بات مکمل ہو جائے ایک ہی ٹکڑے میں۔
سر کیا ایک ہی رکن کی چار بار تکرار میں بھی بحر منقسم ہوتی ہے؟ جبکہ یہ اصول ہم بحر متدارک یا متقارب میں تو استعمال نہیں کرتے۔
ہے حسرتوں میں ہ ح کی تکرار اچھی نہیں
ہے کی جگہ تھا لگا دیتا ہوں سر۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سر کیا ایک ہی رکن کی چار بار تکرار میں بھی بحر منقسم ہوتی ہے؟ جبکہ یہ اصول ہم بحر متدارک یا متقارب میں تو استعمال نہیں
یہ بحر عجیب ہے
پہلا مصرع دیکھو
شہدِ ارتبا.... طنفرتوں
میں اگرچہ لفظ ٹوٹ رہا ہے لیکن کیونکہ مفاعلن کو مفاعلان بھی کیا جا سکتا ہے اس لیے ٹوٹتا ہوا نہیں لگتا
اسی طرح مطلع کا ہی دوسرا مصرع
لیکن بحر زیست.. کی ہر ایک لہر
میں بات ٹوٹتی محسوس ہوتی ہے
 

فلسفی

محفلین
سر میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ ایک ہی رکن کی چار بار تکرار والی بحر دو حصوں میں منقسم نہیں ہوتی۔ آپ کی "عجیب" والی بات سے یہ اخذ کروں کہ دو حصوں والا اصول اس خاص بحر پر لاگو ہوتا ہے۔ کج فہمی کی معافی چاہتا ہوں۔
پہلا مصرع دیکھو
شہدِ ارتبا.... طنفرتوں
میں اگرچہ لفظ ٹوٹ رہا ہے لیکن کیونکہ مفاعلن کو مفاعلان بھی کیا جا سکتا ہے اس لیے ٹوٹتا ہوا نہیں لگتا
اسی طرح مطلع کا ہی دوسرا مصرع
لیکن بحر زیست.. کی ہر ایک لہر
میں بات ٹوٹتی محسوس ہوتی ہے
جی سر دوبارہ دیکھتا ہوں غزل کو۔
 

فلسفی

محفلین
سر الف عین ، اب دیکھیے

ملا کے شہدِ ارتباط، نفرتوں کے زہر میں
میں قندِ عشق بیچتا ہوں، تلخیوں کے شہر میں

نہ دوستوں کے پیار میں، نہ حامیوں کی ہاں میں ہے
نشہ محبتوں کا ہے، جو ناصحوں کے قہر میں

محبتوں کے ساحلوں پہ، ڈوبنے کی وجہ سے
تڑپ ہے بحرِ زیست کی، عجب ہر ایک لہر میں

کفن کا انتظام ہو، شہیدِ رنج کے لیے
وہ ڈوب کر ہے مر گیا، جو حسرتوں کی نہر میں

روایتِ قدیم کی، اک آخری کتاب تھی
چراغِ نو سے جل گئی، جو انقلابِ دہر میں

جہاں کے باسیوں کو بس، کہانیوں کا شوق ہو
وہاں کے فلسفیؔ کو کون، پوچھتا ہے شہر میں؟
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
خوب غزل ہے فلسفی صاحب ،
زمرے کی مناسبت سے البتہ :
وہ ڈوب کر ہے مر گیا،
یہاں نشست کچھ بہتر ہوسکے گی ۔جیسے
وہ مر گیاہے ڈوب کر ،
وہ آخری کتاب تھی ۔ یہاں معرفہ کا انداز زیادہ موافق ہو گا نفس مضمون سے ۔
 

فلسفی

محفلین
خوب غزل ہے فلسفی صاحب ،
زمرے کی مناسبت سے البتہ :

یہاں نشست کچھ بہتر ہوسکے گی ۔جیسے
وہ مر گیاہے ڈوب کر ،

وہ آخری کتاب تھی ۔ یہاں معرفہ کا انداز زیادہ موافق ہو گا نفس مضمون سے ۔
بہت شکریہ عاطف بھائی۔ اپنی نظر میں تو سب ہی اچھا لگتا ہے۔ لیکن اساتذہ اور بڑوں کی راہنمائی کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اغلاط بھی نظر آنے لگتی ہے جو پہلے خوبی لگ رہی تھیں۔ تبدیلیوں کے بعد حاضر ہے۔

ملا کے شہدِ ارتباط، نفرتوں کے زہر میں
میں قندِ عشق بیچتا ہوں، تلخیوں کے شہر میں

نہ دوستوں کے پیار میں، نہ حامیوں کی ہاں میں ہے​
نشہ محبتوں کا ہے، جو ناصحوں کے قہر میں

محبتوں کے ساحلوں پہ، ڈوبنے کی وجہ سے​
تڑپ ہے بحرِ زیست کی، عجب ہر ایک لہر میں

کفن کا انتظام ہو، شہیدِ رنج کے لیے​
وہ مر گیا ہے ڈوب کر، جو حسرتوں کی نہر میں

روایتِ قدیم کی، وہ آخری کتاب تھی
چراغِ نو سے جل گئی، جو انقلابِ دہر میں

جہاں کے باسیوں کو بس، کہانیوں کا شوق ہو​
وہاں کے فلسفیؔ کو کون، پوچھتا ہے شہر میں؟
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب ہو گئی ہے غزل
نشہ محبتوں کا ہے، جو ناصحوں کے قہر میں
کو بھی بدل دیں
جو نشہ ہے محبتوں کا، ناصحوں کے قہر میں
نشّہ درست تلفظ ہے
 
Top