ایک تاریخی واقع کی تصدیق

اسلام و علیکم ! محترم آپ سب سے مدد درکار ہے

دراصل میں نے ایک فورم پر علامہ اقبال اور حکیم نور الدین قادیانی کے بارے میں ایک واقع پڑھا تھا اس کا ریفرنس نہی مل رہا ۔ واقع کچھ یوں ہے ! اس میں کتنی صداقت ہے ؟

ناموسِ رسالت ﷺاور غیرتِ اقبال

ایک دفعہ سیدآغا صدر چیف جسٹس نے لاہور کے عمائدین اور مشاہیر کو کھانے پر مدعوکیا، جس میں مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمداقبال بھی رونق افروز تھے۔ اتفاق سے اس محفل میں مرزاقادیانی کا خلیفہ حکیم نور الدین بھی بن بلائے اور بلادعوت آٹپکا تھا۔ جب عاشق رسول علامہ اقبال کی نظر اس کذاب پر پڑی توغیرتِ ایمانی سے علامہ اقبال کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور ماتھے پر شکنیں پڑگئیں۔ فوراً اٹھے اور میزبان کو مخاطب کرکے کہا آغا صاحب! آپ نے یہ کیا غضب کیا کہ باغی ختم نبوت اور دشمن رسول کو بھی مدعو کیا اور مجھے بھی …… اور فرمایا کہ میں جارہاہوں،میں ایسی محفل میں ایک لمحہ بھی نہیں بیٹھ سکتا۔ حکیم نورا لدین چور کی طرح حالات بھانپ گیا اورفوراً نودو گیارہ ہو گیا۔اس کے بعد میزبان نے علامہ اقبال سے معذرت کی اور کہا میں نے اُسے کب بلایا تھا ،وہ تو خود ہی گھس آیا تھا‘‘۔(بحوالہ: تحریک ختم نبوت اورجے یوپی کا کردار)


اسی فورم کے ایک ممبر سعید الرحمن سعید نے بھی اس واقع کا زکر کیا ہے ایک پوسٹ میں ، "اقبال اور احمد یت " میں براے مہربانی اس واقع کا ریفرنس فراہم کردیں
 

اکمل زیدی

محفلین
اسلام و علیکم ! محترم آپ سب سے مدد درکار ہے

دراصل میں نے ایک فورم پر علامہ اقبال اور حکیم نور الدین قادیانی کے بارے میں ایک واقع پڑھا تھا اس کا ریفرنس نہی مل رہا ۔ واقع کچھ یوں ہے ! اس میں کتنی صداقت ہے ؟

ناموسِ رسالت ﷺاور غیرتِ اقبال

ایک دفعہ سیدآغا صدر چیف جسٹس نے لاہور کے عمائدین اور مشاہیر کو کھانے پر مدعوکیا، جس میں مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمداقبال بھی رونق افروز تھے۔ اتفاق سے اس محفل میں مرزاقادیانی کا خلیفہ حکیم نور الدین بھی بن بلائے اور بلادعوت آٹپکا تھا۔ جب عاشق رسول علامہ اقبال کی نظر اس کذاب پر پڑی توغیرتِ ایمانی سے علامہ اقبال کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور ماتھے پر شکنیں پڑگئیں۔ فوراً اٹھے اور میزبان کو مخاطب کرکے کہا آغا صاحب! آپ نے یہ کیا غضب کیا کہ باغی ختم نبوت اور دشمن رسول کو بھی مدعو کیا اور مجھے بھی …… اور فرمایا کہ میں جارہاہوں،میں ایسی محفل میں ایک لمحہ بھی نہیں بیٹھ سکتا۔ حکیم نورا لدین چور کی طرح حالات بھانپ گیا اورفوراً نودو گیارہ ہو گیا۔اس کے بعد میزبان نے علامہ اقبال سے معذرت کی اور کہا میں نے اُسے کب بلایا تھا ،وہ تو خود ہی گھس آیا تھا‘‘۔(بحوالہ: تحریک ختم نبوت اورجے یوپی کا کردار)


اسی فورم کے ایک ممبر سعید الرحمن سعید نے بھی اس واقع کا زکر کیا ہے ایک پوسٹ میں ، "اقبال اور احمد یت " میں براے مہربانی اس واقع کا ریفرنس فراہم کردیں
واقعے کی صحت کا تو نہیں پتہ مگر اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اقبال جیسے بیدار مغز اور مفکر اور عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے بندے سے اس طرح کا ری ایکشن کچھ بعید بھی نہیں۔۔۔
 
واقعے کی صحت کا تو نہیں پتہ مگر اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اقبال جیسے بیدار مغز اور مفکر اور عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے بندے سے اس طرح کا ری ایکشن کچھ بعید بھی نہیں۔۔۔

یہی تو جاننا ہے کے اس واقع میں کتنی صداقت ہے۔ جیسا کے میں نے اوپر حوالہ دیا کے اسی فورم کے ایک ممبرسعید الرحمن سعید نے ایک لڑی جو اقبال اور احمدیت کے نام سے ارسال کی گئی تھی اس میں نے اس واقع کا حوالہ دیا ۔اب کہاں سے تصدیق ہو ۔
 

فلسفی

محفلین
ایک حوالہ یہ ملا ہے اس میں کسی کتاب کا حوالہ نہیں البتہ شخصیات کے نام لکھے ہیں۔

مظاہر العلوم سہارنپور کے استاد حضرت مولانا محمد اسعد شاہ فرماتے ہیں کہ سہارنپور محلہ میر کوٹ میں مشہور شیعہ خاندان اور سادات امروہہ کے ایک ممتاز و نمایاں فرد جناب سیّد جعفر عباس تھے، انہوں نے یہ واقعہ میرے والد ماجد حضرت مولانا الشاہ محمد اسعد اللہؒ ناظمِ اعلیٰ مظاہر العلوم کو حضرتِ موصوف کے حجرے میں سنایا کہ: ہمارے چچا سیّد آغا حیدر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے لاہور کے عمائد اور مشاہیر کو کھانے پر بلایا، حضرت علامہ محمد اقبالؒ بھی مدعو تھے، اتفاق سے بلا دعوت حکیم نور الدین قادیانی بھی آ گیا، کچھ دیر کے بعد حضرت علامہؒ پہنچے تو حکیم نور الدین قادیانی کو دیکھ کر حضرت علامہ مرحوم اتنے سخت برہم ہوئے اور یہ بھول گئے کہ یہ کسی دُوسرے کا مکان ہے، اور داعی کو حق ہے کہ جس کو چاہے، اپنے ہاں مدعو کرے، چنانچہ حضرت علامہؒ نے فرمایا: ’’آغا صاحب! یہ کیا غضب ہے کہ آپ نے ختم نبوت کا انکار کرنے والے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نئے نبی کو ماننے والے کافر کو بھی مدعو کیا ہے؟‘‘ اور فرمایا کہ: ’’میں جاتا ہوں، میں ایسی مجلس میں ایک لمحہ بھی نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘ اس پر حکیم نور الدین خود ہی فوراً سخت نادم ہو کر چلا گیا، پھر آغا صاحب نے معذرت کے ساتھ فرمایا: میں نے حکیم نورالدین کو مدعو نہیں کیا تھا، بلکہ وہ بن بلائے آ گیا تھا، اس کے بعد ہی حضرت علامہ مرحوم وہاں بیٹھے۔
 
ایک حوالہ یہ ملا ہے اس میں کسی کتاب کا حوالہ نہیں البتہ شخصیات کے نام لکھے ہیں۔

بہت خوب ۔آپ کی کاوش قابلِ ستائش ہے مدد گار بھی !
لیکن اس واقع پر جو اعتراض کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کے 1920 تک کسی بھی دیسی شخص کو لا ہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نہی لگایا گیا تھا اور نور الدین قادیانی 1914 میں فوت ہوگئے تھے ؟ کا بات کو صحیح مانا جائے ؟
 

فلسفی

محفلین
بہت خوب ۔آپ کی کاوش قابلِ ستائش ہے مدد گار بھی !
لیکن اس واقع پر جو اعتراض کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کے 1920 تک کسی بھی دیسی شخص کو لا ہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نہی لگایا گیا تھا اور نور الدین قادیانی 1914 میں فوت ہوگئے تھے ؟ کا بات کو صحیح مانا جائے ؟
میری ذاتی رائے میں ایسے کسی واقعہ کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے جس کی کوئی مستند روایت نہ ملے۔ جیسا زیدی صاحب نے فرمایا کہ اقبال مرحوم کے مزاج سے یہ بعید نہیں کہ ایسا ہوا ہو لیکن اس واقعے کو نقل تب ہی کیا جائے جب اس کی سند موجود ہو۔ کچھ حضرات کے لیے زبانی بیان کردہ الفاظ بھی سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ جیسے کسی معتبر شخص نے کوئی واقعہ روایت کیا ہو وغیرہ۔ احتیاط بہرحال بہتر ہے۔
 
میری ذاتی رائے میں ایسے کسی واقعہ کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے جس کی کوئی مستند روایت نہ ملے۔ جیسا زیدی صاحب نے فرمایا کہ اقبال مرحوم کے مزاج سے یہ بعید نہیں کہ ایسا ہوا ہو لیکن اس واقعے کو نقل تب ہی کیا جائے جب اس کی سند موجود ہو۔ کچھ حضرات کے لیے زبانی بیان کردہ الفاظ بھی سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ جیسے کسی معتبر شخص نے کوئی واقعہ روایت کیا ہو وغیرہ۔ احتیاط بہرحال بہتر ہے۔



بجا فرمایا ۔ شُکریہ
 
Top