برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش

عشق تیرا مجھے عطا ہوتا
میں بھی رشکِ ملائکہ ہوتا

یاد سے تیری دل بھرا ہوتا
آنکھ روتی جگر کٹا ہوتا

تیری شفقت کا فیصلہ ہوتا
تو عدالت سے ماورا ہوتا

تھام رکھا ہے تیری رحمت نے
ورنہ انسان گر گیا ہوتا

کاش اعمال بھی گنے جاتے
کچھ تو بخشش کا آسرا ہوتا

بھول جاتا میں خود کو روزِ حشر
میرا خود سے جو سامنا ہوتا

کوئی ایسی جگہ جہاں پر صرف
ایک تو اور میں دوسرا ہوتا

کاش محبوب تیرا جلوہ اب
سر بسر ہوتا جا بجا ہوتا​
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !

ان چار اشعار میں ردیف "ہوتا " کی رعایت سے "اگر" ' "کاش" "جو" (اگر کے معنی میں )جیسے الفاظ ہونے چاہییں یا ایسی کوئی عبارت جو ردیف کا جواز فراہم کرے ورنہ بیانیہ ادھور١ ہے -ہر شعر میں ایسا اس لئے ضروری ہے کہ یہ غزل ہے نظم نہیں اور غزل کا ہر شعر بجائے خود ایک اکائی ہے -

عشق تیرا مجھے عطا ہوتا
میں بھی رشکِ ملائکہ ہوتا

یاد سے تیری دل بھرا ہوتا
آنکھ روتی جگر کٹا ہوتا

تیری شفقت کا فیصلہ ہوتا
تو عدالت سے ماورا ہوتا

کوئی ایسی جگہ جہاں پر صرف
ایک تو اور میں دوسرا ہوتا


بطور ثبوت غالب کی غزل دیکھ لیں :

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر
اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا
تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو
یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے
مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی توکہیں دوچار ہوتا
یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترا بیان، غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
السلام علیکم !

ان چار اشعار میں ردیف "ہوتا " کی رعایت سے "اگر" ' "کاش" "جو" (اگر کے معنی میں )جیسے الفاظ ہونے چاہییں یا ایسی کوئی عبارت جو ردیف کا جواز فراہم کرے ورنہ بیانیہ ادھور١ ہے -ہر شعر میں ایسا اس لئے ضروری ہے کہ یہ نظم ہے غزل نہیں اور غزل کا ہر شعر بجائے خود ایک اکائی ہے -

عشق تیرا مجھے عطا ہوتا
میں بھی رشکِ ملائکہ ہوتا

یاد سے تیری دل بھرا ہوتا
آنکھ روتی جگر کٹا ہوتا

تیری شفقت کا فیصلہ ہوتا
تو عدالت سے ماورا ہوتا

کوئی ایسی جگہ جہاں پر صرف
ایک تو اور میں دوسرا ہوتا


بطور ثبوت غالب کی غزل دیکھ لیں :

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر
اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا
تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو
یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے
مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی توکہیں دوچار ہوتا
یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترا بیان، غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
محترم بلاشبہ آپ کا مشورہ مفید ہے۔ آپ کو ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی :)۔ لیکن وہ بھی مجھ جیسے مبتدی کے لیے مفید ہی ثابت ہوا ہے۔ آئندہ بھی خیال رکھوں کا۔ محترم الف عین سے سند مل گئی تھی اس لیے مطمئن ہو گیا تھا۔ خیر اگر درج ذیل تبدیلیاں ہوں تو مناسب رہیں گے یہ اشعار

عشق تیرا اگر عطا ہوتا
میں بھی رشکِ ملائکہ ہوتا

دل محبت سے جو بھرا ہوتا
آنکھ روتی جگر کٹا ہوتا

تیری شفقت کا فیصلہ ہوتا
تو عدالت سے ماورا ہوتا

ہوتی ایسی جگہ جہاں اے کاش
ایک تو اور میں دوسرا ہوتا​
 

یاسر شاہ

محفلین
"جگر کٹا ہوتا "ذوق و وجدان پہ گراں گزرتا ہے -قصائی یاد آتا ہے:? -نیز یہ شعر بھی واضح نہیں :

تیری شفقت کا فیصلہ ہوتا
تو عدالت سے ماورا ہوتا


ایک عدل ہوتا ہے اور ایک فضل(بجائے شفقت کے ) - پھر "توعدالت سے....." میں " تو " کیا ہے ؟-اور حشر تو ابھی بپا ہونا ہے پھر "ہوتا " چہ معنی دارد ؟؟
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
"جگر کٹا ہوتا "ذوق و وجدان پہ گراں گزرتا ہے -قصائی یاد آتا ہے:? -نیز یہ شعر بھی واضح نہیں :

تیری شفقت کا فیصلہ ہوتا
تو عدالت سے ماورا ہوتا


ایک عدل ہوتا ہے اور ایک فضل(بجائے شفقت کے ) - پھر "توعدالت سے....." میں " تو " کیا ہے ؟-اور حشر تو ابھی بپا ہونا ہے پھر "ہوتا " چہ معنی دارد ؟؟
شکریہ محترم یہ تبدیلیاں مناسب ہوں گی؟

آنسوؤں کا کوئی سبب بنتا
دل محبت سے گر بھرا ہوتا

فضل ہوتا ترا جو روزِ حشر
تو عدالت سے ماورا ہوتا​
 

یاسر شاہ

محفلین
آنسوؤں کا کوئی سبب بنتا
دل محبت سے گر بھرا ہوتا

دل بھرا ہونا -ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم غمگین ہونا اور اشکبار ہونا وغیرہ نکلتا ہے لہذا شعر محض تکلّف ہے -

فضل ہوتا ترا جو روزِ حشر
تو عدالت سے ماورا ہوتا

شعر ماضی کی طرف اشارہ کر رہا ہے -یا حسرت پہ دال ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا اور دراصل ہوا نہیں -مجھے بھی کوئی متبادل نہیں سوجھ رہا -آپ بہت اچھا لکھ سکتے ہیں لہذا یہ شعر بھی رہنے دیں -
 

فلسفی

محفلین
آنسوؤں کا کوئی سبب بنتا
دل محبت سے گر بھرا ہوتا

دل بھرا ہونا -ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم غمگین ہونا اور اشکبار ہونا وغیرہ نکلتا ہے لہذا شعر محض تکلّف ہے -

فضل ہوتا ترا جو روزِ حشر
تو عدالت سے ماورا ہوتا

شعر ماضی کی طرف اشارہ کر رہا ہے -یا حسرت پہ دال ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا اور دراصل ہوا نہیں -مجھے بھی کوئی متبادل نہیں سوجھ رہا -آپ بہت اچھا لکھ سکتے ہیں لہذا یہ شعر بھی رہنے دیں -
شکریہ محترم، ویسے بھی اتنی چھوٹی بحر میں مناسب الفاظ کو پرونا مجھ جیسے مبتدیوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ مزید سوچتا ہوں اگر کوئی مناسب متبادل ملا تو اصلاح و تنقید کے لیے پیش کروں گا۔ آپ کے وقت اور راہنمائی کا بہت شکریہ امید ہے آپ شفقت فرماتے رہیں گے۔
 

فلسفی

محفلین
محترم یاسر شاہ صاحب اس قطعہ کے بارے میں آپ کی رائے درکار ہے اگر مناسب ہے تو باقی اشعار کے ساتھ شامل کردیتا ہوں

ق
رات کے آخری پہر اٹھ کر
جب ترے سامنے کھڑا ہوتا
اشک آنکھوں سے بہہ رہے ہوتے
اور میں گڑگڑا رہا ہوتا
 

یاسر شاہ

محفلین
مجھے تو قطعہ ادھورا لگ رہا ہے -وجہ وہی ردیف کو نبھا نہ سکنا -یہ صورتیں دیکھیں:

ہے یہ حسرت کہ آخر شب 'میں
آپ کے سامنے کھڑا ہوتا ...........

یا

آرزو ہے کہ نیم شب اٹھ کر
میں ترے سامنے کھڑا ہوتا ............


یا اپنے ہی قطعہ میں کاش وغیرہ کا اضافہ کر دیں -

یہ محض متبادل تجاویز ہیں جو مثال کے طور پہ دی گی ہیں -آپ انھیں اپنا سکتے ہیں یا کوئی اور اسی طرح کا متبادل آپ خود اپنے لئے سوچ سکتے ہیں -یہ اصلاح نہیں-

میرا تو مشوره ہے ایسی تجاویز آپ اوروں کے کلام پہ بھی دیا کریں -اس سے آپ کی اپنی مشق سخن میں نکھار آئے گا -باقی عجم کی تواضع اکثر فارغ رہنے کا ایک بہانہ ہی ہوتی ہے -:)

یاسر
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
مجھے تو قطعہ ادھورا لگ رہا ہے -وجہ وہی ردیف کو نبھا نہ سکنا -یہ صورتیں دیکھیں:

ہے یہ حسرت کہ آخر شب 'میں
آپ کے سامنے کھڑا ہوتا ...........

یا

آرزو ہے کہ نیم شب اٹھ کر
میں ترے سامنے کھڑا ہوتا ............


یا اپنے ہی قطعہ میں کاش وغیرہ کا اضافہ کر دیں -

یہ محض متبادل تجاویز ہیں جو مثال کے طور پہ دی گی ہیں -آپ انھیں اپنا سکتے ہیں یا کوئی اور اسی طرح کا متبادل آپ خود اپنے لئے سوچ سکتے ہیں -یہ اصلاح نہیں-

میرا تو مشوره ہے ایسی تجاویز آپ اوروں کے کلام پہ بھی دیا کریں -اس سے آپ کی اپنی مشق سخن میں نکھار آئے گا -باقی عجم کی تواضع اکثر فارغ رہنے کا ایک بہانہ ہی ہوتی ہے -:)

یاسر
ارے حضرت یہاں اپنی اصلاح کے لالے پڑے ہیں، آپ دوسروں کو مشورہ دینے کا کہہ رہے ہیں۔ خیر مزید سوچوں گا اس پر۔ آپ کے وقت اور راہنمائی کا بہت شکریہ۔
 
Top