کتاب کا اختتام بتانے پر روسی سائنسدان کا ساتھی پر قاتلانہ حملہ

محمداحمد

لائبریرین
کتاب کا اختتام بتانے پر روسی سائنسدان کا ساتھی پر قاتلانہ حملہ

اکثر افراد کتاب یا فلم کے اختتام سے متعلق بہت حساس ہوتے ہیں اور وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتے کہ انہیں کتاب مکمل ہونے سے قبل ہی اختتام معلوم ہو جائے۔

کتاب کا انجام معلوم ہونے پر کئی افراد کو غصہ تو ضرور آتا ہے لیکن ایسا کرنے پر قاتلانہ حملہ کرنا بھی اپنے آپ میں ایک عجیب بات ہے۔

تاہم ایسا حیران کن واقعہ انٹارکٹیکا کے جزیرہ کنگ جارج میں بیلنگزہوسن ریسرچ اسٹیشن میں پیش آیا جہاں روسی سائنسدان نے بار بار کتاب کا اختتام بتانے پر ساتھی پر چاقو سے حملہ کرکے انہیں زخمی کردیا۔

اوڈیٹی سینٹرل کی رپورٹ کے مطابق 55 سالہ سرگئی ساوتسکی اور اولیگ بیلوگوزوف روس کے دور دراز علاقے بیلنگزہوسن نے میں گزشتہ 4 برس سے ایک ساتھ کام کر رہے تھے اور اپنے ساتھیوں میں پیشہ ور کے طور پر جانے جاتے تھے۔

تاہم ایک روز سرگئی ساوتسکی نے مبینہ طور پر اولیگ بیلوگوزوف پر کچن میں استعمال ہونے والے چاقو سے حملہ کیا۔

اس قاتلانہ حملے کو انٹارکٹیکا کی تاریخ میں پہلا قاتلانہ حملہ قرار دیا جارہا ہے۔

اس واقعے کو انٹارکٹیکا کے پہلے حملے کے علاوہ تاریخ میں عجیب ترین بھی قرار دیا جائے گا کیونکہ تحقیق کاروں نے بتایا کہ اس حملے کی ممکنہ وجہ کتابوں کا اختتام قبل ازوقت بتانا ہے۔

روسی میڈیا کے مطابق سرگئی ساوتسکی اور اولیگ بیلوگوزوف دونوں کو کتب بینی سے لگاؤ تھا اور وہ دنیا سے الگ اس ریسرچ اسٹیشن پر وقت گزاری کے لیے کتابیں پڑھتے تھے۔

اولیگ بیلوگوزوف کی عادت تھی سرگئی ساوتسکی کوئی کتاب پڑھ رہے ہوتے اور انہوں نے پڑھی ہوئی ہوتی تو وہ اس کتاب کا اختتام بتاتے تھے۔

سرگئی ساوتسکی کو اولیگ بیلوگوزوف کی یہ عادت سخت ناگوار گزرتی تھی کیونکہ اس سے ان کا کتاب پڑھنے کا مزہ خراب ہوجاتا تھا۔

9 اکتوبر کو جب اولیگ ہیلوگوزوف نے سرگئی ساوتسکی کو ایک مرتبہ پھر ایک کتاب کا اختتام بتایا جسے وہ ابھی پڑھ رہے تھے، تو ان کی برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے طیش میں آکر کچن می استعمال ہونے والے چاقو سے وار کردیا۔

سرگئی ساوتسکی نے اولیگ بیلوگوزوف کے سینے پر چاقو سے وار کیا، خوش قسمتی سے انہیں فوری طور پر چلی میں قائم ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر ان کی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔

تاہم چاقو سے ان کے دل کو نقصان پہنچا ہے، ان کی حالت خطرے سے باہر ہے اور امید ہے کہ وہ جلد مکمل صحت یاب ہوجائیں گے۔

دوسری جانب سرگئی ساوتسکی نے سینٹ پیٹرس برگ روانہ ہونے کے بعد 20 اکتوبر کو خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا اور اب وہ اقدام قتل کے جرم میں گھر میں نظر بند ہیں۔

خبر رساں ادارے 'نیوسکی نووستی' نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے روسی تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف جرم کیا تھا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کبھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا نہیں سوچا تھا۔

تفتیش کاروں کا ماننا کا ہے کہ درحقیقت اولیگ بیلوگوزوف کی عادت ہی ان پر قاتلانہ حملے کی وجہ بنی تھی جبکہ شراب نوشی اور ریسرچ بیس میں جگہ کی کمی نے بھی اس جرم میں کردار ادا کیا۔

خیال رہے کہ بیلنگز ہوسن کے عملے کو دو روسی ٹی وی چینلز، ایک جم اور ایک چھوٹی لائبریری تک رسائی حاصل ہے لیکن وہاں شراب کی کمی نہیں جو روس سے منگوائی جاتی ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ احمد صاحب ٹیگ کرنے کے لیے۔

عام طور پر جاسوسی یا سسپنس بھری کہانیوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی انجام بتادے تو مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ لیکن مجھے عرصہ ہوا کوئی ایسی کتاب پڑھے، میں عام طور پر سیاسی، تاریخی وغیرہ کتابیں پڑھتا ہوں اور ایسی کتابوں کو جہاں سے چاہے پڑھنا شروع کر دیں، کچھ نہیں کہتیں! :)
 
آپ کا کیا ردِ عمل ہوتا ہے جب کوئی آپ کو پہلے سے کسی کتاب یا مووی کا انجام بتا دے۔ :)
اگر معلوم ہو جائے کہ اختتام بتا رہا ہے، تو روکنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہوں۔ اور بتا دے تو نقلی غصہ دکھا دیتا ہوں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ کا کیا ردِ عمل ہوتا ہے جب کوئی آپ کو پہلے سے کسی کتاب یا مووی کا انجام بتا دے۔ :)
الحمد للہ اب ایسی کتاب (ناول قسم کی ) یا فلم کے لائق دماغ رہا ہی نہیں جس کا اختتام ،اس کے آغاز یا اوساط سے اتنا مربوط رہے کہ اشتیاق ہو، سو رد عمل کاہے کا ۔ :)
 
بھائی یہ قبل از وقت انجام سے خبردار کرنے والا کام کسی طور بھی مناسب نہیں ۔ کتاب ہو یا فلم اگر اس کا انجام ایسے ہی بتا دیا جائے تو تجسس نہیں رہتا ۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ یہ کام کرے اور بار بار بتائے تو ہم پھر بھی ڈھیٹ بن کر اپنا مشغلہ جاری رکھیں گے یا وقت طور پر وہ سلسلہ روک دیں گے اور اس نجومی نما شخص کے چلے جانے کے بعد اس کام کو پایا تکمیل تک پہنچائیں گے ۔
 
کتاب کا اختتام بتانے پر روسی سائنسدان کا ساتھی پر قاتلانہ حملہ

اکثر افراد کتاب یا فلم کے اختتام سے متعلق بہت حساس ہوتے ہیں اور وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتے کہ انہیں کتاب مکمل ہونے سے قبل ہی اختتام معلوم ہو جائے۔

کتاب کا انجام معلوم ہونے پر کئی افراد کو غصہ تو ضرور آتا ہے لیکن ایسا کرنے پر قاتلانہ حملہ کرنا بھی اپنے آپ میں ایک عجیب بات ہے۔

تاہم ایسا حیران کن واقعہ انٹارکٹیکا کے جزیرہ کنگ جارج میں بیلنگزہوسن ریسرچ اسٹیشن میں پیش آیا جہاں روسی سائنسدان نے بار بار کتاب کا اختتام بتانے پر ساتھی پر چاقو سے حملہ کرکے انہیں زخمی کردیا۔

اوڈیٹی سینٹرل کی رپورٹ کے مطابق 55 سالہ سرگئی ساوتسکی اور اولیگ بیلوگوزوف روس کے دور دراز علاقے بیلنگزہوسن نے میں گزشتہ 4 برس سے ایک ساتھ کام کر رہے تھے اور اپنے ساتھیوں میں پیشہ ور کے طور پر جانے جاتے تھے۔

تاہم ایک روز سرگئی ساوتسکی نے مبینہ طور پر اولیگ بیلوگوزوف پر کچن میں استعمال ہونے والے چاقو سے حملہ کیا۔

اس قاتلانہ حملے کو انٹارکٹیکا کی تاریخ میں پہلا قاتلانہ حملہ قرار دیا جارہا ہے۔

اس واقعے کو انٹارکٹیکا کے پہلے حملے کے علاوہ تاریخ میں عجیب ترین بھی قرار دیا جائے گا کیونکہ تحقیق کاروں نے بتایا کہ اس حملے کی ممکنہ وجہ کتابوں کا اختتام قبل ازوقت بتانا ہے۔

روسی میڈیا کے مطابق سرگئی ساوتسکی اور اولیگ بیلوگوزوف دونوں کو کتب بینی سے لگاؤ تھا اور وہ دنیا سے الگ اس ریسرچ اسٹیشن پر وقت گزاری کے لیے کتابیں پڑھتے تھے۔

اولیگ بیلوگوزوف کی عادت تھی سرگئی ساوتسکی کوئی کتاب پڑھ رہے ہوتے اور انہوں نے پڑھی ہوئی ہوتی تو وہ اس کتاب کا اختتام بتاتے تھے۔

سرگئی ساوتسکی کو اولیگ بیلوگوزوف کی یہ عادت سخت ناگوار گزرتی تھی کیونکہ اس سے ان کا کتاب پڑھنے کا مزہ خراب ہوجاتا تھا۔

9 اکتوبر کو جب اولیگ ہیلوگوزوف نے سرگئی ساوتسکی کو ایک مرتبہ پھر ایک کتاب کا اختتام بتایا جسے وہ ابھی پڑھ رہے تھے، تو ان کی برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے طیش میں آکر کچن می استعمال ہونے والے چاقو سے وار کردیا۔

سرگئی ساوتسکی نے اولیگ بیلوگوزوف کے سینے پر چاقو سے وار کیا، خوش قسمتی سے انہیں فوری طور پر چلی میں قائم ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر ان کی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔

تاہم چاقو سے ان کے دل کو نقصان پہنچا ہے، ان کی حالت خطرے سے باہر ہے اور امید ہے کہ وہ جلد مکمل صحت یاب ہوجائیں گے۔

دوسری جانب سرگئی ساوتسکی نے سینٹ پیٹرس برگ روانہ ہونے کے بعد 20 اکتوبر کو خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا اور اب وہ اقدام قتل کے جرم میں گھر میں نظر بند ہیں۔

خبر رساں ادارے 'نیوسکی نووستی' نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے روسی تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف جرم کیا تھا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کبھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا نہیں سوچا تھا۔

تفتیش کاروں کا ماننا کا ہے کہ درحقیقت اولیگ بیلوگوزوف کی عادت ہی ان پر قاتلانہ حملے کی وجہ بنی تھی جبکہ شراب نوشی اور ریسرچ بیس میں جگہ کی کمی نے بھی اس جرم میں کردار ادا کیا۔

خیال رہے کہ بیلنگز ہوسن کے عملے کو دو روسی ٹی وی چینلز، ایک جم اور ایک چھوٹی لائبریری تک رسائی حاصل ہے لیکن وہاں شراب کی کمی نہیں جو روس سے منگوائی جاتی ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز
آپ کا کیا ردِ عمل ہوتا ہے جب کوئی آپ کو پہلے سے کسی کتاب یا مووی کا انجام بتا دے۔ :)
رباب واسطی بہنا آپ کے اس حوالے سےکیا خیالات ہیں بیان کریں ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
جبکہ شراب نوشی اور ریسرچ بیس میں جگہ کی کمی نے بھی اس جرم میں کردار ادا کیا۔
مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ساری کاروائی ام الخبائث ہی نے ڈالی ہے وگرنہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی قاری یا ناظر ایک ہی کتاب یا ایک ہی فلم کئی کئی بار پڑھتا یا دیکھتا ہے (میں خود ایسے افراد میں شامل ہوں) ایسی صورت میں اختتام تو کیا ایک ایک سطر یا منظر تک یاد ہوتے ہیں۔
 

رباب واسطی

محفلین
رباب واسطی بہنا آپ کے اس حوالے سےکیا خیالات ہیں بیان کریں ؟
اس نے یہ اقدام کس کیفیت کا شکار ہو کر اٹھایا یہ تو حملہ آور ہی جانے لیکن میرے خیال میں زخمی ہونے والے کا فعل بھی دوستانہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوست کی کمزوری کو جانتے بوجھتے اس کی دکھتی رگ پر بار بار ہاتھ رکھنا دوستی تو نہ ہوئی ناں۔
میری بھی اک عجیب عادت ہے، موویز تو میں دیکھتی نہیں لیکن اگر کوئی دلچسپ کتاب پڑھنے کو ملے تو میں کلائمیکس پہلے ہی پڑھ لیتی ہوں
میرے خیال میں اس طرح کتاب کو تسلی سے پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے نا کہ کلائمیکس کے انتظار میں جلدی جلدی "کچھ سمجھ آئی اور کچھ نہ سمجھ آئی" کے مصداق سکون سے دو چار دن میں پڑھی جانے والی کتاب کو گھنٹوں منٹوں میں پڑھ ڈالا جائے
 

محمداحمد

لائبریرین
شکریہ احمد صاحب ٹیگ کرنے کے لیے۔

عام طور پر جاسوسی یا سسپنس بھری کہانیوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی انجام بتادے تو مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ لیکن مجھے عرصہ ہوا کوئی ایسی کتاب پڑھے، میں عام طور پر سیاسی، تاریخی وغیرہ کتابیں پڑھتا ہوں اور ایسی کتابوں کو جہاں سے چاہے پڑھنا شروع کر دیں، کچھ نہیں کہتیں! :)

ہاہاہاہا!

یہ بھی ٹھیک ہے ۔

سیاسی اور تاریخی کتابیں تو "آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی" قسم کی ہوتی ہیں اب ایسے میں انجام کا تجسس کیا باقی رہتا ہوگا۔ :) :)

اور ایسی کتابوں کو جہاں سے چاہے پڑھنا شروع کر دیں، کچھ نہیں کہتیں! :)

ویسے سدا بہار کتابیں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ جب دل چاہا جس صفحے سے چاہا پڑھنا شروع کر دیا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر معلوم ہو جائے کہ اختتام بتا رہا ہے، تو روکنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہوں۔ اور بتا دے تو نقلی غصہ دکھا دیتا ہوں۔ :)

ویسے اب میں پڑھی ہوئی کہانی بھی اُسی دلچسپی سے پڑھ لیتا ہوں اور یاد داشت صرف تصدیق کا کام کرتی ہیں پیشین گوئی ممکن نہیں ہوتی ۔ سو انجام تک دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ :):p
 

محمداحمد

لائبریرین
بھائی یہ قبل از وقت انجام سے خبردار کرنے والا کام کسی طور بھی مناسب نہیں ۔ کتاب ہو یا فلم اگر اس کا انجام ایسے ہی بتا دیا جائے تو تجسس نہیں رہتا ۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ یہ کام کرے اور بار بار بتائے تو ہم پھر بھی ڈھیٹ بن کر اپنا مشغلہ جاری رکھیں گے یا وقت طور پر وہ سلسلہ روک دیں گے اور اس نجومی نما شخص کے چلے جانے کے بعد اس کام کو پایا تکمیل تک پہنچائیں گے ۔

یعنی: تجھ کو پرائی کیا پڑی ، اپنی نبیڑ تو

ویسے ایسے شرارتی لوگ تو آپ کو محفل میں ہی میسر ہیں ورنہ تو شاید ہی کوئی آپ کو ایسا تنگ کرنے والا ہو۔ :)

ہم نے عمران بھائی کا نام نہیں لیا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ساری کاروائی ام الخبائث ہی نے ڈالی ہے وگرنہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی قاری یا ناظر ایک ہی کتاب یا ایک ہی فلم کئی کئی بار پڑھتا یا دیکھتا ہے (میں خود ایسے افراد میں شامل ہوں) ایسی صورت میں اختتام تو کیا ایک ایک سطر یا منظر تک یاد ہوتے ہیں۔

اُم الخبائث کا تو پھر نام ہی کافی ہے۔ :)

باقی اونگھتے کو ٹہلتے کا بہانہ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس نے یہ اقدام کس کیفیت کا شکار ہو کر اٹھایا یہ تو حملہ آور ہی جانے لیکن میرے خیال میں زخمی ہونے والے کا فعل بھی دوستانہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوست کی کمزوری کو جانتے بوجھتے اس کی دکھتی رگ پر بار بار ہاتھ رکھنا دوستی تو نہ ہوئی ناں۔

انٹارکٹیکا میں کسی خشک سے ریسرچ ادارے میں تھوڑی بہت رگِ ظرافت پھڑک جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ :) پھر جب کہ راوی کے مطابق بہکنے کا سامان بھی وافر میسر تھا۔

میری بھی اک عجیب عادت ہے، موویز تو میں دیکھتی نہیں لیکن اگر کوئی دلچسپ کتاب پڑھنے کو ملے تو میں کلائمیکس پہلے ہی پڑھ لیتی ہوں

ہاہاہاہا۔۔۔!

اگر وہ قتل تھا تو یہ خود کُشی ہے۔ :)

میرے خیال میں اس طرح کتاب کو تسلی سے پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے نا کہ کلائمیکس کے انتظار میں جلدی جلدی "کچھ سمجھ آئی اور کچھ نہ سمجھ آئی" کے مصداق سکون سے دو چار دن میں پڑھی جانے والی کتاب کو گھنٹوں منٹوں میں پڑھ ڈالا جائے

ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ بیچ کے ابواب بھی اتنی کشش تو رکھتے ہیں ہوں گے کہ اپنے ساتھ لگائے رکھیں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
ہاہاہاہا!

یہ بھی ٹھیک ہے ۔

سیاسی اور تاریخی کتابیں تو "آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی" قسم کی ہوتی ہیں اب ایسے میں انجام کا تجسس کیا باقی رہتا ہوگا۔ :) :)



ویسے سدا بہار کتابیں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ جب دل چاہا جس صفحے سے چاہا پڑھنا شروع کر دیا۔ :)
صاحب شہاب نامہ اسی طرح پڑھتے پائے جاتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے تجسس و جاسوسی والی کہانیاں بہت پسند ہیں اور میں ہرگز نہیں چاہوں گی کہ مجھے اختتام سے آغاز ہی میں آگاہ کر دیا جائے۔ :)
شاید تھوڑا غصہ بھی آجائے۔ کوئی ایسا کرتا تو نہیں ہے۔
لیکن جب ہم بی اے میں تھے۔ کوئی کتاب پڑھتے تو ایک ہم جماعت بڑی بے عزتی کرنے کے انداز میں کہتی کہ تم لوگ اب یہ کتاب پڑھ رہے ہو۔ میں نے تو کب کی پڑھ لی۔ ہم بڑے مرعوب ہوتے اور چڑتے بھی تھے۔
پھر حقیقت کھل ہی گئی۔
 
Top