رئیس امروہوی غزل : سرد مہری کی کوئی بات اِدھر ہے نہ اُدھر - رئیس امروہوی

غزل
سرد مہری کی کوئی بات اِدھر ہے نہ اُدھر
پھر بھی وہ گرمیِ جذبات اِدھر ہے نہ اُدھر

دونوں جانب سے ہیں اصرار ملاقاتوں کے
اور ارمانِ ملاقات اِدھر ہے نہ اُدھر

دونوں جابب ہیں شکایت کے بہت سے اسباب
اور اقرار شکایات اِدھر ہے نہ اُدھر

دونوں جانب سر و ساماں ہیں پذیرائی کے
اور اخلاص مدارات اِدھر ہے نہ اُدھر

دونوں جانب وہی آسودگیِ حال کا ذکر!
اور اندازۂ حالات اِدھر ہے نہ اُدھر

نہ تلطف نہ تغافل نہ توجہ نہ گریز
کوئی تحفہ کوئی سوغات اِدھر ہے نہ اُدھر

دونوں جانب ہے رہ و رسم کا انداز وہی
ذوقِ تجدیدِ روایات اِدھر ہے نہ اُدھر

حسن اور عشق ہیں دونوں غمِ جاں سے محروم
خلشِ تجربۂ ذات اِدھر ہے نہ اُدھر

کتنی باتیں ہیں کہ ہیں قابلِ اظہار رئیس
اور ظاہر میں کوئی بات اِدھر ہے نہ اُدھر
رئیس امروہوی
1966ء
 
آخری تدوین:
Top