فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے
لب فراقِ یار کی تکلیف کو سہنے لگے
جب خدا حافظ کسی اپنے کو ہم کہنے لگے
پاس رہنے کی وجہ سے دوریاں بڑھنے لگیں
اس لیے کچھ دیر ہم ان سے الگ رہنے لگے
آبرو افکار کی الفاظ میں رہتی نہیں
جب کسی کی گفتگو کو خامشی سہنے لگے
خوبصورت مدعی کو دیکھ کر میرے گواہ
منصفوں کے سامنے مجرم مجھے کہنے لگے
چھوڑ کر آبادیاں جنگل چلے جانا سبھی
خون جب پانی کی خاطر شہر میں بہنے لگے
کہکشاں سے کم نہیں آنکھیں کہ جن میں رات بھر
ٹمٹماتے اشک تاروں کی طرح رہنے لگے
جب خدا حافظ کسی اپنے کو ہم کہنے لگے
پاس رہنے کی وجہ سے دوریاں بڑھنے لگیں
اس لیے کچھ دیر ہم ان سے الگ رہنے لگے
آبرو افکار کی الفاظ میں رہتی نہیں
جب کسی کی گفتگو کو خامشی سہنے لگے
خوبصورت مدعی کو دیکھ کر میرے گواہ
منصفوں کے سامنے مجرم مجھے کہنے لگے
چھوڑ کر آبادیاں جنگل چلے جانا سبھی
خون جب پانی کی خاطر شہر میں بہنے لگے
کہکشاں سے کم نہیں آنکھیں کہ جن میں رات بھر
ٹمٹماتے اشک تاروں کی طرح رہنے لگے