برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر اساتذہ کی خدمت میں اصلاح کی غرض سے

آنکھ بند کرکے جب ہم انھیں دیکھتے
ضبط کی کشمکش خواب میں دیکھتے

کاش بے فکر گل کی طرح ہم کبھی
باغ میں تتلیاں بلبلیں دیکھتے

عشق کرتے نہ رانجھا و فرہاد پھر
دورِ حاضر کی جب بدعتیں دیکھتے

ہاتھ لگتا جو ان کا زمیں پر اگر
ذرہء خاک کی رفعتیں دیکھتے

شعرعمدہ، تخیل کی معراج ہے / ہیں تخیل کی معراج اشعار تو
ہم بھی کہتے اگر ہم انھیں دیکھتے

پیٹھ پر وار کو روکنا ہو جنھیں
چاہیے ان کو اپنی صفیں دیکھتے

یوں نہ آزاد اڑتے پرندے کبھی
گرزمیں پر کھنچی سرحدیں دیکھتے​
 

الف عین

لائبریرین
واہ واہ اچھی غزل ہے ۔ رانجھا و فرہاد کچھ عجیب لگتا ہے حالانکہ درست ہے اایک متبادل یوں ہو سکتا ہے
فرہاد و وامق کبھی
 

فلسفی

محفلین
واہ واہ اچھی غزل ہے ۔ رانجھا و فرہاد کچھ عجیب لگتا ہے حالانکہ درست ہے اایک متبادل یوں ہو سکتا ہے
فرہاد و وامق کبھی
شکریہ سر نوازش ہے آپ کی۔ وامق تو میرے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم تھا کون ہے۔ انٹرنیٹ پر دیکھا ہے غالبا یونانی عشقیہ کہانی کا کردار ہے؟
سر دو مصرعے پہلے ہی "کبھی" پر ختم ہو رہے ہیں ان میں فاصلہ رکھا ہے اس کو یوں کہہ سکتے ہیں
قیس و فرہاد پھر عشق کرتے نہیں
دورِ حاضر کی جب بدعتیں دیکھتے

دوسرے مصرعے میں "جب" مناسب ہے یا اس کو "گر" کردوں۔ یعنی
دورِ حاضر کی گر بدعتیں دیکھتے
 

فلسفی

محفلین
سر ایک ترکیب یہ ذہن میں آرہی ہے

عشق کرتے نہ پھر قیس و فرہاد بھی
دورِ حاضر کی جب بدعتیں دیکھتے
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں یہ بہتر ہے
قیس و فرہاد پھر عشق کرتے نہیں
دورِ حاضر کی گر بدعتیں دیکھتے
 

حسان خان

لائبریرین
وامق تو میرے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم تھا کون ہے۔ انٹرنیٹ پر دیکھا ہے غالبا یونانی عشقیہ کہانی کا کردار ہے؟
داستانوں کے مطابق «وامِق» عذرا کا عاشق تھا، اور فارسی شعری روایت میں «مجنون» و «فرہاد» کی مانند «وامق» بھی ایک مثالی عاشق مانا گیا ہے، اور وامق و عذرا کی داستانِ عشق پر فارسی و تُرکی میں مثنویاں بھی لکھی گئی ہیں۔
شیخِ اجلّ سعدی شیرازی کی ایک بیت دیکھیے:

کسی ملامتِ وامِق کند به نادانی
حبیبِ من که ندیده‌ست رُویِ عذرا را

(سعدی شیرازی)
اے میرے حبیب! وہ ہی شخص نادانی سے وامِق کی ملامت کرتا ہے جس نے عذرا کا چہرہ نہ دیکھا ہو۔

میرے ایک دوست کا نام بھی وامِق ہے۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
داستانوں کے مطابق «وامِق» عذرا کا عاشق تھا، اور فارسی شعری روایت میں «مجنون» و «فرہاد» کی مانند «وامق» بھی ایک مثالی عاشق مانا گیا ہے، اور وامق و عذرا کی داستانِ عشق پر فارسی و تُرکی میں مثنویاں بھی لکھی گئی ہیں۔
شیخِ اجلّ سعدی شیرازی کی ایک بیت دیکھیے:

کسی ملامتِ وامِق کند به نادانی
حبیبِ من که ندیده‌ست رُویِ عذرا را

(سعدی شیرازی)
اے میرے حبیب! وہ ہی شخص نادانی سے وامِق کی ملامت کرتا ہے جس نے عذرا کا چہرہ نہ دیکھا ہو۔

میرے ایک دوست کا نام بھی وامِق ہے۔
شکریہ سر معلومات کے لیے۔
 

فلسفی

محفلین
شکریہ محترم ذیشان صاحب
سر الف عین اس طرح تو پہلا مصرع بحر سے خارج ہو گیا اس کا یہ متبادل ٹھیک ہو گا

بند آنکھوں سے جب ہم انھیں دیکھتے
ضبط کی کشمکش خواب میں دیکھتے
یا
بند کر کے جو آنکھیں انھیں دیکھتے
ضبط کی کشمکش خواب میں دیکھتے
 
آخری تدوین:
Top