کچھ باتیں۔۔ میرے سکول کے حوالے سے:)

ہادیہ

محفلین
مسکراہٹ بہترین ٹانک ہے۔
نہیں معلوم کہ یہ چیز مزاج میں کیسے شامل ہوگئی۔ لیکن اللہ نے کرم کیا کہ جب بھی کمرۂ جماعت میں داخل ہونا ہوتا ہے۔۔۔۔۔اگر پہلے سے کوئی پریشانی ہے، مزاج برہم ہے۔۔۔۔تو ساری پریشانی اور برہمی باہر چھوڑ کے جانی ہے۔ بلکہ اپنے شاگردوں کو دیکھتے ہی مزاج کے سب موسم خود بخود خوشگوار ہوجاتے ہیں۔
بعض بچے اس مسکراہٹ کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں تو مسکراتے ہوئے ہی اس کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے۔
ماشاء اللہ۔۔ جی بالکل آپی۔۔میں بھی ایسا ہی کروں گی۔۔ اور ویسے بھی ۔۔۔ غصہ تو مجھے آتا ہی نہیں۔۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
اور پریشانی کو دور سے ہی بھگا دیتی ہوں۔۔:laugh:
کل سے سکول جانا ہے ان شاء اللہ۔۔ آج سارے کام مکمل کیے ہیں۔۔ کل سے باقاعدگی سے یہاں تجربات کا اشتراک کیا کروں گی۔۔ ان شاء اللہ
 

ہادیہ

محفلین
پہلے دن تمام سکول کے بچوں کو اسمبلی میں اور جس جس جماعت میں آپ جاتی ہیں، میں بچوں کو منفرد طریقے سے خوش آمدید کہیں۔ اسمبلی میں پہلے دن کی اسمبلی اساتذہ کو کروانی چاہیے۔ بچے اپنے اساتذہ کو وہ تمام کام کرتے ہوئے، جو بچے اسمبلی میں کرتے ہیں، دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ان میں اساتذہ اور سکول سے وابستگی مزید بڑھ جاتی ہے اور تحرک(motivation) کا درجہ بھی بلند ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ کلاس ٹیچر ہیں تو بورڈ پر بچوں کے آنے سے پہلے خوش آمدیدانہ جملے یا تصویر وغیرہ بنا دیں۔ جماعت کے درجے کے حوالے سے مواد کا انتخاب کریں۔ چھوٹے بچے کارٹون اور رنگوں کو پسند کرتے ہیں اور بڑے اچھے اقوال/اشعار وغیرہ۔ سو اسی لحاظ سے خوش آمدید کریں۔ جہاں آپ سبجیکٹ ٹیچر ہیں وہاں بھی اسی جوش سے بچوں کا چھٹیوں کے بعد استقبال کریں۔
پہلا دن بچوں سے چھٹیاں کیسے گزری پر بات چیت کرتے گزاریں اور پھر غیر محسوس طریقے سے انھیں کام کی طرف لائیں۔ اگر کسی بچے نے چھٹیوں کا کام مکمل نہیں کیا تو اس کو سخت سزا دینے کے بجائے کوئی ایسا کام دیں جو اس کو کچھ نیا سیکھنے میں مدد کرے۔ اگر سکول میں لائبریری ہے تو بچے کی عمر اور جماعت کے درجے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کوئی کتاب پڑھنے کو دیں اور پھر اسے کہیں کہ زبانی یا لکھ کر باقی جماعت/اسمبلی میں بچوں کے ساتھ شیئر کرے۔ بہت چھوٹا بچہ ہے تو رنگ بھرنے یا کچھ ڈرائنگ وغیرہ کی ایکٹیویٹی دے دیں لیکن ہو ایسا کام جس سے کوئی فائدہ ہو جیسے پنسل کی گرپ ٹھیک ہونا، لائنیں کھینچ سکنا وغیرہ
فرحت آپی یو آر گریٹ۔۔۔ آپ اور جاسمن آپی تو ماشاء اللہ کافی تجربہ کار ہیں۔۔
جی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔۔:)
 

ہادیہ

محفلین
دوسرے لوگوں کے تجربات و مشاہدات سے سیکھنے کی اہمیت اپنی جگہ۔
انسان کے اپنے تجربات و مشاہدات کا نعم البدل کوئی نہیں۔ اپنے سکول کے زمانہ میں جائیے۔
آپ کے اساتذہ نے کیا طریقۂ کار استعمال کیے؟
ان میں سے کون سا قابلِ تقلید ہے اور کون سا نقصان دہ ہے؟
آپ بطورِ طالب علم اس وقت کن باتوں سے متاثر ہوتے تھے؟
استاد کے کس رویہ کو پسند اور کس رویہ کو ناپسند کرتے تھے؟
ان سوالوں کے جواب میں آپ کو بہت سی قابلِ عمل باتیں ملیں گی۔
جی بالکل۔۔ آپ نے بالکل صحیح بات کی۔۔ ہر انسان کے تجربات اور مشاہدات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ ویل اویئر ہوتا ہے ۔۔اس وقت کی صورتحال سے بھی اور حالات سے بھی۔۔۔اور جب دوبارہ ایسی کسی سچوایشن کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بہتر انداز میں فیصلہ کرسکتا کہ ایسے وقت میں اس کے اپنے اساتذہ کا کیا رویہ تھا۔۔ میں ایک بات ضرور کہوں گی۔۔ امتیازی سلوک کبھی بھی بچوں کے ساتھ روا نا رکھا جائے۔۔ اس چیز کو میں نے پرسنلی دیکھا بھی ہے اور اب بھی یہی کوشش ہوتی ہے چاہے بچہ پڑھنے میں اچھا ہے یا برا۔۔ لیکن اسے کبھی بھی لیبل نا کریں۔۔ واقعی یہ ہے ہی نکما۔۔کبھی کچھ کر ہی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔۔نا ہی ذہین بچوں کو فوقیت دیں۔۔ دراصل ہمارا اپنا رویہ ہی بچوں کو مزید ضدی بھی بناسکتا ہے۔۔اور انہیں موٹیویٹ بھی کرسکتا ہے۔۔اختیار ہمارا ہے۔۔
تابش بھائی بہت بہت شکریہ ۔۔قابل غور تجاویز دی ہیں۔۔
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
کنگھا، تولیہ، بےبی شیمپو اور صابن کا خرچہ برداشت کریں اور روزانہ ایک بچے اور ایک بچی کا سر اور منہ دھلوائیں...
انہیں تصاویر کے ذریعے جراثیم اور گندگی کے بارے میں بتائیں اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی ترغیب دیں...
یاد رکھیں تربیت ایک دفعہ کہنے کا نام نہیں، تکرار مسلسل کا عمل ہے...
اسے عربی میں کہتے ہیں اذا تکرر تقرر...
یعنی جس بات کی تکرار کی جاتی رہے وہ دل میں قرار پکڑ لیتی ہے!!!
ایسی سب چیزیں سکول میں موجود ہیں۔۔ صابن، تولیہ، کنگھا اور نیل کٹر بھی۔۔ جس ٹیچر کی اسمبلی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اس نے چیکنگ کرنی۔۔اور جس بچی کے ناخن بڑے ہوئے ہیں۔۔اس کے خود کٹنگ کرنے۔۔۔ منہ دھلوانا کلاس انچارج کا کام ہے۔اور کنگھی کروانا۔۔۔ یعنی اگر میری کلاس کی بچیاں اس حلیے میں آئی ہیں تو فرسٹ پریئرپریڈ میں ٹیچر اپنی ذمہ داری سے یہ کام کرواتی ہے۔۔پھر بعد میں پندرہ منٹ ناظرہ کے ہوتے ہیں۔۔ آپ کی بات سے سوفیصد متفق ہوں کہ تربیت مسلسل تکرار کا نام ہے۔۔بار بار یاد دہانی کروائی جائے۔۔ بچوں کو اچھی باتوں کے بارے میں بتایا جائے۔۔ پھر ہی ان کا ذہن اس طرف مائل ہوگا اور ایک وقت آئے گا ۔۔ کہ وہ اپنی رضامندی سے بنا کہے بھی کرنے لگیں گے۔۔ ان شاء اللہ۔۔
 

ہادیہ

محفلین
Asalamulaikum
Hadiya Ive been working with children for quite some time now. There is one thing I always feel that children are unaware about certain difficulties they can face. Its worryig that most of the Asian (pak, ind, bang) parents will not talk about such topics to their children. Despite everything, not all children here are safe. Like children everywhere, they are vulnerable to the atrocities of child abuse.

Most of us would agree child abuse is a devastating issue, yet many of us still believe it’s not something that could happen to anyone we know or love. Child abuse happens everywhere—in all types of homes, families, neighborhoods, schools and communities. It is likely present somewhere in your very own network.

People who abuse children are not just creepy strangers who lurk behind bushes or abduct children in vans. Mostly it includes people we meet every day, people we know, love, and trust. People who abuse can be grandparents, uncles, aunts, cousins, moms, dads, teachers, coaches, mentors, neighbors, and family friends.
But now we must develop an awareness of this problem which will increase the ability to prevent or at least identify when child abuse happens.

Teach children about staying safe, maintain a relationship where children feel confident to approach any member of staff if they have a worry or problem. Teach them to speak up if touched inappropriately and then take action when they disclose. Trust your gut and teach kids to trust theirs.

I can be on and on about it because I witness this almost everyday. I would like all of you and especially if you are a teacher or working with children to educate yourself and the kids you care for on what grooming behaviors are and look like.

And sorry for an English post in your topic, my urdu sucks when it comes to all this.
زبردست۔۔ بہت اچھے پوائنٹ کی طرف توجہ دلائی ہے مقدس بہنا آپ نے۔۔ ایسا واقعی ہوتا ہے کہ یہاں کے پیرنٹس عموما بچوں سے ڈسکس نہیں کرتے ان کے پرابلمز۔۔نا ہی بچوں میں آگاہی ہوتی ہے ۔۔اور ان سب کے پیچھے مین ریزن ہےوالدین اور اساتذہ کا اپنا رویہ۔۔چائلڈ ابیوزنگ کی وجہ سے بچے بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بچے گھروں سے بھاگتے ہیں۔۔ جب گھروں سے باہر بھاگتے ہیں تو اغوا جیسے کیسز عام ہوجاتے ہیں۔۔ اور صرف اغوا تک ہی نہیں بلکہ بچے غلط راستوں پہ بھی چل پڑتے ہیں ۔۔ اور چائلڈ ابیوزنگ صرف گھر والوں تک محدود نہیں ہے۔۔ سکولز میں بھی اساتذہ کا ایسا رویہ بچے کو باغی کردیتا ہے۔ وہ سکول سے بھی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ بلکہ یہاں ایک اپنے ہی گاؤں کا واقعہ بتاتی ہوں۔۔
بچہ سکول سے تھوڑا لیٹ گھر پہنچا تو باپ کافی سخت مزاج قسم کا تھا اس نے برا بھلا کہا بچے کو۔۔ بچے کی عمر تقریبا 14 ،15 سال ہوگی ۔۔بچے نے بھی غصے میں گندم میں رکھنے والی گولیاں کھا لی۔۔بچے کی ڈیتھ موقع پہ ہی ہوگئی۔۔ کیا ملا۔۔سوائے دکھ اور افسوس کے۔۔۔ اور یہی نہیں۔۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔۔ اغوا کے کیسز تو بہت عام ہیں چائلڈ ابیوزنگ میں۔۔
ہمارا اپنا رویہ بچوں کو بہت سے غلط راستوں پہ لگا دیتا ہے۔۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ بچہ نا تو پڑھائی میں دلچسپی لیتا ہے نا ہی مثبت سوچ اختیار کرتا ہے۔۔ سب سے دور ہوجانا، اپنوں سے زیادہ باہر غیروں پہ اعتبار کرنے لگتا ہے۔۔اور یہیں سے اس کی زندگی کا سفر تباہی کی طرف شروع ہوجاتا ہے۔۔
ٹریننگ کے دوران ایک ٹاپک بہت ڈیٹیل میں ڈسکس کیا گیا۔۔ چائلڈ فرینڈلی سکول۔۔اس کے مطابق ہمیں بچوں کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ رکھنا چاہیے۔۔ جب بچہ نیا نیا سکول آتا ہے تو اسے اجنبیت کا احساس مت دلوائیں۔۔ برے القاب سے مت بلائیں۔۔ پیار سے ٹریٹ کریں۔۔ اسے بالکل ایسے ٹریٹ کریں جیسے ایک ماں بچے کو کرتی ہے۔۔ کہ بچہ بلاجھجھک ماں سے اپنی بات کہہ دیتا ہے۔۔اپنا مسئلہ بتا دیتا ہے۔۔ اگر کوئی بچہ اچھا پڑھ کر نہیں آتا۔ انہیں بچوں کے سامنے ایسے سزا مت دیں جو انہیں مزید پڑھائی سے دور کردے۔۔ بچوں کی بھی سیلف ریسپیکٹ ہوتی ہے۔۔ آپ انہیں اگر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں تو سب کے سامنے کہنے کے بجائے الگ سے بلائیں ۔۔ پیار سے پوچھیں۔۔ ان کی پرابلم کو حل کرنے کی کوشش کریں۔۔ اس سے بچوں میں خود اعتمادی ضرور بڑھتی ہے۔۔ لیکن یہاں ایک بات کا بھی لازمی خیال رکھیں۔۔ کہ بچوں کو آپ نے فرینڈلی ٹریٹ ضرور کرنا ہے "فری" نہیں کرنا۔۔ استاد اور بچے کے درمیان جو احترام کا تعلق ہے وہ لازمی برقرار رہنا چاہیئے۔۔
تھینکس مقدس۔۔ :)
 
میں ہائی سکول ٹیچنگ کا ایک نہایت افسوس ناک واقعہ شئیر کرنا چاہوں گا جو میرے لیے تو ندامت ہی ندامت ہے۔۔۔۔شاید یہاں معلمین و دیگر احباب کے لیے نصیحت ہو۔
میں نے ایک روز اردو کا ایک سبق پڑھایا اور یہ سبق تین دن جاری رہا۔ تمام مشکل الفاظ کے معانی، بین السطور، کردار وغیرہ وغیرہ سب اچھی طرح بتائے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ تین دن کے بعد اس کی مشق کو دو دن میں ختم کیا اور اس کے بعد اس کا ٹیسٹ رکھا۔ ٹیسٹ کیا تھا سادہ سے مشقی سوالات کے جوابات تھے۔ اس کے لیے میرا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ مختلف بچوں سے یعنی جو مختلف ڈیسکوں پر ہوں اچانک سے کوئی مشقی سوال پوچھ لوں۔ یہ پریکٹس جاری تھی کہ ایک بچے کو اٹھایا جو پانچوں دن کلاس میں بڑ ے انہماک سے سبق اور مشق کو سنتا اور لکھتا رہا تھا۔ اس سے میں نے ایک سادہ سا سوال پوچھا اور جواب کا کہا۔وہ بچہ خاموش رہا۔۔۔۔بالکل خاموش۔ بچہ چونکہ دسویں کلاس کا تھا اس لیے مجھے بہت غصہ آیا کہ یہ اتنے آسان سوال کا جواب نہیں دے سکتا جب کہ اس سبق کو جو عام طور پر مشق سمیت دو دن میں ختم ہوتا ہے میں نے پر اصرار طریقے سے پانچ دن میں ختم کیا ہے۔۔۔۔میں غصے پر قابو نہ رکھ پایا اور اس کو اچھا خاصا ڈانٹ دیا۔میں اس سے بار بار یہی پوچھ رہا تھا کہ اگر نہیں آتا تو ان پانچ دنوں میں پوچھا کیوں نہیں ؟ میری اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے ایک بچہ کھڑا ہوا اور میری اشارے یعنی اجازت دینے پر یوں گویا ہوا:
"سر یہ بول نہیں سکتا"
یقین کیجیے مجھے اس بچے کی بات چہرے پر زناٹے دار طمانچے کی طرح لگی اور میں اس صورتِ حال سے اتنا زیادہ شرمندہ ہوا کہ نہ صرف وہاں اس بچے سے خوب معذرت کی بلکہ سٹاف روم میں جا کر احباب کے سامنے اس بچے کا مسئلہ رکھا اور کہاکہ انچارجز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بچوں کے بارے میں اساتذہ کو کچھ نہ کچھ بتائیں ۔۔۔۔ یا پھر یہ سب اساتذہ ہی کی ذمہ داری ہے کہ کلاس پڑھانے سے پہلے بچوں سے کچھ کچھ واقف ہوجائیں تاکہ پڑھانے میں آسانی رہے۔ وہ بچہ لکنت زدہ تھا گونگا نہیں تھا لیکن شاید زیادہ حساس تھا اس لیے جواب نہ دے سکا۔ بہرحال سال بھر اس کے ساتھ اچھی گپ شپ بلکہ دوستی رہی اور اسے سب سے زیادہ شفقت دینے کی کوشش کی۔
ایک بات اور ۔۔۔ اور وہ یہ کہ ہماری کلاسز میں ایسے بچے ضرور موجود ہوتے ہیں جن کے والدین میں سے کوئی ایک یا بعض اوقات دونوں کا انتقال ہوچکا ہوتا ہے ، انھیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم اپنے والدین، یا والدین کے والدین وغیرہ کے ایصالِ ثواب کے لیے جہاں اور بہت کچھ کرتے ہیں وہاں اگر ایسے بچوں کو سکول ٹائمنگ یا اپنے پیرئیڈز کے علاوہ بھی کچھ وقت دے دیں تو ہماری اور ان کی دنیا و آخرت سنور سکتی ہے۔ایک اور تجربہ یہ بھی ہوا کہ پہلے پیرئیڈ میں پیٹ درد کا بہانہ کرنے والے طلبا کی اکثریت سے جب ذرا پوچھ گچھ کی جائے تو اکثر معلوم ہوتا کہ وہ ناشتہ نہیں کر کے آئے یا ان کے گھریلو مسائل میں اہم ترین مسئلہ والدین کا جھگڑا وغیرہ نکلتا تھا جس کی وجہ سے وہ چھٹی چاہتے ہیں اور ڈپریشن کو کم کرنے کے لیے سکول سے بھاگنا چاہتے ہیں۔۔۔ایسے تمام طلبا خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔
فرحت کیانی ہادیہ
 
خرم بھائی کے مراسلہ سے ایک اور اہم بات ذہن میں آئی۔
آج کل ہمارے معاشرے میں مذاق، لطیفہ، جگت کا کلچر اتنا عام ہو گیا ہے کہ ہم اس بات کا خیال بھی نہیں رکھ پاتے کہ ہمارا مذاق یا لطیفہ کسی کی دل شکنی کا سبب تو نہیں بن رہا۔ کسی ذات، قوم، یا شہر سے متعلق لطیفے، جسمانی معذوری پر لطیفے، سیاسی سوچ پر لطیفے، مذہبی افکار و شعار پر لطیفے۔
ایک استاد کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ نہ صرف وہ ایسی باتوں نے گریز کرے، جو کسی کی دل شکنی کا سبب بنیں۔ بلکہ یہ بات سمجھانے کو بھی تربیت کا اہم حصہ سمجھے۔ ورنہ آج کل میڈیا کے اہم ذرائع سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تو ایسے لطائف، مذاق اور ٹھٹھے ہی سب سے زیادہ پھیلتے ہیں۔ اور ہماری عادت بنتے جا رہے ہیں۔
 

مقدس

لائبریرین
زبردست۔۔ بہت اچھے پوائنٹ کی طرف توجہ دلائی ہے مقدس بہنا آپ نے۔۔ ایسا واقعی ہوتا ہے کہ یہاں کے پیرنٹس عموما بچوں سے ڈسکس نہیں کرتے ان کے پرابلمز۔۔نا ہی بچوں میں آگاہی ہوتی ہے ۔۔اور ان سب کے پیچھے مین ریزن ہےوالدین اور اساتذہ کا اپنا رویہ۔۔چائلڈ ابیوزنگ کی وجہ سے بچے بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بچے گھروں سے بھاگتے ہیں۔۔ جب گھروں سے باہر بھاگتے ہیں تو اغوا جیسے کیسز عام ہوجاتے ہیں۔۔ اور صرف اغوا تک ہی نہیں بلکہ بچے غلط راستوں پہ بھی چل پڑتے ہیں ۔۔ اور چائلڈ ابیوزنگ صرف گھر والوں تک محدود نہیں ہے۔۔ سکولز میں بھی اساتذہ کا ایسا رویہ بچے کو باغی کردیتا ہے۔ وہ سکول سے بھی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ بلکہ یہاں ایک اپنے ہی گاؤں کا واقعہ بتاتی ہوں۔۔
بچہ سکول سے تھوڑا لیٹ گھر پہنچا تو باپ کافی سخت مزاج قسم کا تھا اس نے برا بھلا کہا بچے کو۔۔ بچے کی عمر تقریبا 14 ،15 سال ہوگی ۔۔بچے نے بھی غصے میں گندم میں رکھنے والی گولیاں کھا لی۔۔بچے کی ڈیتھ موقع پہ ہی ہوگئی۔۔ کیا ملا۔۔سوائے دکھ اور افسوس کے۔۔۔ اور یہی نہیں۔۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔۔ اغوا کے کیسز تو بہت عام ہیں چائلڈ ابیوزنگ میں۔۔
ہمارا اپنا رویہ بچوں کو بہت سے غلط راستوں پہ لگا دیتا ہے۔۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ بچہ نا تو پڑھائی میں دلچسپی لیتا ہے نا ہی مثبت سوچ اختیار کرتا ہے۔۔ سب سے دور ہوجانا، اپنوں سے زیادہ باہر غیروں پہ اعتبار کرنے لگتا ہے۔۔اور یہیں سے اس کی زندگی کا سفر تباہی کی طرف شروع ہوجاتا ہے۔۔
ٹریننگ کے دوران ایک ٹاپک بہت ڈیٹیل میں ڈسکس کیا گیا۔۔ چائلڈ فرینڈلی سکول۔۔اس کے مطابق ہمیں بچوں کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ رکھنا چاہیے۔۔ جب بچہ نیا نیا سکول آتا ہے تو اسے اجنبیت کا احساس مت دلوائیں۔۔ برے القاب سے مت بلائیں۔۔ پیار سے ٹریٹ کریں۔۔ اسے بالکل ایسے ٹریٹ کریں جیسے ایک ماں بچے کو کرتی ہے۔۔ کہ بچہ بلاجھجھک ماں سے اپنی بات کہہ دیتا ہے۔۔اپنا مسئلہ بتا دیتا ہے۔۔ اگر کوئی بچہ اچھا پڑھ کر نہیں آتا۔ انہیں بچوں کے سامنے ایسے سزا مت دیں جو انہیں مزید پڑھائی سے دور کردے۔۔ بچوں کی بھی سیلف ریسپیکٹ ہوتی ہے۔۔ آپ انہیں اگر کچھ سمجھانا چاہتے ہیں تو سب کے سامنے کہنے کے بجائے الگ سے بلائیں ۔۔ پیار سے پوچھیں۔۔ ان کی پرابلم کو حل کرنے کی کوشش کریں۔۔ اس سے بچوں میں خود اعتمادی ضرور بڑھتی ہے۔۔ لیکن یہاں ایک بات کا بھی لازمی خیال رکھیں۔۔ کہ بچوں کو آپ نے فرینڈلی ٹریٹ ضرور کرنا ہے "فری" نہیں کرنا۔۔ استاد اور بچے کے درمیان جو احترام کا تعلق ہے وہ لازمی برقرار رہنا چاہیئے۔۔
تھینکس مقدس۔۔ :)

Yes, I do agree with your points but your are mainly talking about physical or emotional abuse but what I am talking about is sexual abuse in childhood which is very common now a days because children are not educated in this.

Its something that every school should work on and they should hold workshops about grooming and educate their staff and parents to avoid this happening.
 

جاسمن

لائبریرین
خرم کی بات سے مجھے یاد آیا کہ میرا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ پہلا دن اپنا اور بچوں کا تعارف۔
دوسرا دن اپنے مضمون کا تعارف
تیسرا دن لائبریری کا دورہ اور کتابوں سے تعارف
پہلے دن ہی بچوں کا تعارف تفصیل کے ساتھ۔ والدین۔ ابو کیا کرتے ہیں۔ بہن بھائیوں کی تعداد۔ مستقبل کے منصوبے۔ یہ مضمون کیوں لیا۔پچھلی کلاسز میں نمبرز اور مضامین وغیرہ۔ فون نمبر۔ پتہ۔یہ سب میں اپنے رجسٹر پہ لکھتی ہوں۔
اس سے مجھے اپنے شاگرد کو جاننے میں بہت مدد ملتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
خرم کی بات سے مجھے یہ بھی یاد آیا کہ مجھے اپنے بچوں کی کمزوریوں اور طاقتوں کے بارے میں بھی کافی پتہ ہوتا ہے۔ میری ایک شاگرد جب پہلی بار میری کلاس میں آئی تو میں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پہلے سے بھی جانتی تھی۔ وہ چھوٹے قد کی ایک ٹانگ سے کچھ معذور تھی تو تھوڑی مشکل ہوتی تھی اسے چلنے میں۔
میں نے اپنی کلاس سے کہا کہ آپ کی پوری کلاس میں ایک لڑکی ایسی ہے کہ وہ مجھے اپنے ادارہ میں پہلے دن سے بہت اچھی لگتی ہے۔
بہرحال سب کو پتہ چلا۔ وہ بھی بہت خوش ہوئی۔ رفتہ رفتہ اس میں خود اعتمادی آنے لگی اور اس نے بہت سے مقابلہ جات میں حصہ لینا اور جیتنا شروع کیا۔
اسی طرح کئی واقعات میں سے ایک واقعہ میرے ایک ایسے شاگرد کا ہے جس کی ایک آنکھ میں کچھ مسئلہ تھا۔ وہ بیک بینچر تھا۔ بالکل نہیں بولتا تھا۔ میں نے لیکچر کے دوران اس کا نام لے دینا مثال کے طور پہ آپ اس کا نام عظیم تصور کریں تو میں نے کہنا کہ بھئی اب ہم عظیم سے ان کی عظیم رائے سنیں گے۔
رفتہ رفتہ وہ بولنے لگا اور ایک دن وہ آیا کہ وہ سب سے آگے بیٹھنے لگا۔ پڑھائی میں اور بحث و مباحثہ میں بھی آگے آنے لگا۔
 

جاسمن

لائبریرین
نام سے مخاطب کرنا۔
اپنے شاگردوں کے نام ضرور ضرور یاد رکھنے چاہییں۔ نام سے مخاطب کرنا بچے میں بہت اعتماد پیدا کرتا ہے اور شگرد اور استاد کے درمیان مضبوط تعلق کا باعث بنتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
تحمل
میرے پاس ریاضی کے تین پیریڈز تھے آٹھویں، نویں اور دسویں کے۔ اچھرہ لاہور میں جماعتِ اسلامی کا ایک پرائیویٹ سکول تھا۔ مجھے اپنی ریسرچ کے سلسلہ میں پیسوں کی ضرورت تھی سو صبح کے پہلے تین پیریڈز میرے تھے۔
الجبرا پڑھاتے ہوئے میں بہت مگن تھی۔ اچھی طرح سمجھا کے میں نے ایک شاگردہ سے جو پیچھے بیٹھی تھی بلیک بورڈ پہ ایک سوال کرنے کو کہا۔
اس نے جب کرنا شروع کیا تو فورا پتہ چل گیا کہ اسے الجبرا کے بنیادی اصول ہی پتہ نہیں۔
مجھے شدید غصہ آیا۔ میری اتنی محنت۔ اور ہم اس قدر آگے پہنچ گئے ہیں اور یہ لڑکی تو الجبرا کی الف ب بھی نہیں جانتی۔ اور الف ب تو بہت ابتدائی کلاسز میں پڑھائی جاتی ہیں۔
میرے پاس جو ریاضی کی کتاب تھی وہ میں نے زور سے۔۔۔۔
دل تو چاہ رہا تھا اس کے سر میں ماروں لیکن میں نے عام سے ذرا زیادہ آواز سے میز پہ رکھی۔ ایک لمبا سا سانس لیا اور کہا۔
بیٹا! آپ اس پیریڈ کے بعد میرے ساتھ کچھ وقت گذارا کریں ۔ہم مل کے الجبرا کے ابتدائی اصول پڑھیں گے۔
پھر ہم نے مل جل کے کچھ محنت کی اور وہ اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ شامل ہوئی۔
 

ہادیہ

محفلین
کافی دن ہوگئے تھے۔۔کوئی تبصرہ نہیں کرسکی۔۔۔۔ ایک تو فائنل ٹرم کے ایگزام ہیں۔۔ دوسرا بس دو تھریڈ ہی بنائے۔وجہ آسائنمنٹس اور دوسرے کام ساتھ ساتھ۔۔
کل سکول میں موسم خراب ہوگیا۔۔اور بارش کی وجہ سے کافی موسم خراب ہوگیا۔۔بچے بہت ایکسائیٹڈ تھے ۔۔اور ان کی بھرپور فرمائش پہ کچھ تصویریں بھی بنائی ۔۔ تصویریں شیئر کرتی ہوں سکول اور گاؤں کی کچھ۔۔
Whats_App_Image_2018-08-18_at_2.48.52_PM.jpg

یہ سکول کا گراؤنڈ۔۔
IMG_20180818_132310.jpg

یہ وہ جگہ جہاں بیٹھ کر ہم بس کا انتظارکرتے ہیں۔۔ ان درختوں کے نیچے۔۔ یہ بس سٹاپ سمجھیں۔۔ کل بارش کی وجہ سے یہاں کوئی بھی نہیں تھا ۔۔اور ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی تو ہم نے یہاں بیٹھنے کے بجائے اس چارپائی پہ بیٹھنے کو ترجیح دی اور تصویر بنائی یہاں کی۔۔:)
 
Top